• 28 اپریل, 2024

مجھے جو کچھ بھی ملا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیشہ کی آسمانی زندگی کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں ناں کہ عیسیٰ آسمان پر زندہ ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ہمیشہ کی آسمانی زندگی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ فرمایا کہ: ’’باتفاق جمیع کتب الٰہیہ ثابت ہے کہ انبیاء و اولیاء مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جایا کرتے ہیں۔ یعنی ایک قسم کی زندگی اُنہیں عطا کی جاتی ہے جو دوسروں کونہیں عطا کی جاتی۔ اسی طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ مجھے قبر میں میّت رہنے نہیں دے گا اور زندہ کر کے اپنی طرف اُٹھا لے گا‘‘۔

(ازالۂ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ225)

یہ ازالہ اوہام کا حوالہ تھا جو مَیں نے پڑھا تھا۔ اسی کی تشریح آگے فرما رہے ہیں۔ اس بات کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’یعنی مَیں اس مدت کے اندر اندر زندہ ہو کر آسمان کی طرف اُٹھایا جاؤں گا‘‘۔ (اب یہ آپؐ فرما رہے ہیں لیکن کوئی مسلمان نہیں کہتا کہ آپؐ جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر موجود ہیں)۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اب دیکھنا چاہئے کہ ہمارے سیّد ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر میں زندہ ہوجانے اور پھر آسمان کی طرف اٹھائے جانے کی نسبت مسیح کے اُٹھائے جانے میں کونسی زیادتی ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ عیسیٰ بن مریم کی حیات حضرت موسیٰ کی حیات سے بھی درجہ میں کمتر ہے۔ اور اعتقاد صحیح جس پر اتفاق سلف صالح کا ہے اور نیز معراج کی حدیث بھی اس کی شاہد ناطق ہے، یہی ہے کہ انبیاء بحیات جسمی مشابہ بحیات جسمی دنیاوی زندہ ہیں‘‘۔ (یعنی اس کی اس طرح، اس لحاظ سے مشابہت ہے لیکن عملاً اس طرح نہیں ہوتا)۔ پھر فرمایا ’’اور شہداء کی نسبت اُن کی زندگی اکمل واَقویٰ ہے‘‘۔ (اب شہداء کے بارے میں فرماتے ہیں اُن کو مردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں۔ لیکن انبیاء اُن سے بہت بڑھ کر ہیں) ’’اور سب سے زیادہ اَکمل واَقویٰ واَشرف زندگی ہمارے سیّد ومولیٰ فدائً لَہٗ نفسی واَبی واُمّی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ حضرت مسیح تو صرف دوسرے آسمان میں اپنے خالہ زاد بھائی اور نیز اپنے مرشد حضرت یحییٰ کے ساتھ مقیم ہیں لیکن ہمارے سیّد ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اعلیٰ مرتبہ ٔ آسمان میں جس سے بڑھ کر اور کوئی مرتبہ نہیں تشریف فرما ہیں۔ عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی بِالرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی۔ اور اُمّت کے سلام وصلوات برابر آنحضرتؐ کے حضور میں پہنچائے جاتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ اَکْثَرَ مِمَّا صَلَّیْتَ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْ اَنْبِیَآئِکَ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ۔’’

(ازالۂ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ226 حاشیہ)

یہ بھی ازالہ اوہام کا حوالہ تھا جو مَیں نے ابھی پڑھا ہے۔

پھر اس بات کا ذکر فرماتے ہوئے کہ ہم نے خدا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’اُس قادر اور سچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرّہ ذرّہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرّہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قویٰ کے ظہور پذیر ہوا اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے۔ اور کوئی چیز نہ اُس کے علم سے باہر ہے اور نہ اُس کے تصرف سے، نہ اُس کے خَلق سے۔ اور ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اُس پاک نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا جو آپ کلام کر کے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوتوں کا ہم کو چمکنے والا چہرہ دکھاتا ہے۔ سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھلایا اور ایسے خدا کو پایا جس نے اپنی کامل طاقت سے ہر ایک چیز کو بنایا۔ اُس کی قدرت کیا ہی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے جس کے بغیر کسی چیز نے نقشِ وجودنہیں پکڑا اور جس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی۔ وہ ہمارا سچا خدا بے شمار برکتوں والا ہے اور بے شمار قدرتوں والا اور بیشمار حسن والا احسان والا۔ اُس کے سوا کوئی اور خدا نہیں‘‘۔

(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد19صفحہ363)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے جو کچھ بھی ملا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملا ہے۔ تم لوگ کہتے ہو کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو گراتا ہوں۔ مجھے تو آپؐ کے دَر سے ہی ملا ہے جوکچھ ملا ہے۔ یہ منن الرحمن کی عربی عبارت ہے، ترجمہ پڑھتا ہوں۔ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ میری کامیابی میرے ربّ کی طرف سے ہے۔ پس میں اس کی تعریف کرتا ہوں اور نبی عربی پر درود بھیجتا ہوں۔ اسی سے تمام برکتیں نازل ہوئیں اور اسی سے سب تانا بانا ہے۔ اسی نے میرے لئے اصل اور فرع کو میسر کیااور اس نے میرے بیج اور کھیت کو اُگایا۔ اور وہ بہتر ہے سب اگانے والوں سے۔‘‘

(منن الرحمن، روحانی خزائن جلد 9صفحہ 186-187)

مجھے جو کچھ ملا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملا، اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے پھر فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں اُسی کی (یعنی اللہ تعالیٰ کی) قَسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اُس نے ابراہیم سے مکالمہ مخاطبہ کیا اور پھر اسحاق سے اور اسماعیل سے اور یعقوب سے اور یوسف سے اور موسیٰ سے اور مسیح ابن مریم سے اور سب کے بعدہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہمکلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی، ایسا ہی اُس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا۔ مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا۔ اگر مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی مَیں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگز نہ پاتا‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے کلام کرنا اور اللہ تعالیٰ کاآپ سے بولنا، یہ مقام کبھی نہ ملتا، ’’کیونکہ اب بجز محمدی نبوّت کے سب نبوّتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آ سکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو‘‘۔

(تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ411-412)

پھر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درُود کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ:
’’الٰہی تیرا ہزار ہزار شکر کہ تُو نے ہم کو اپنی پہچان کا آپ راہ بتایا۔ اور اپنی پاک کتابوں کو نازل کرکے فکر اور عقل کی غلطیوں اور خطاؤں سے بچایا اور درود اور سلام حضرت سید الرسل محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کی آل و اصحاب پر کہ جس سے خدا نے ایک عالم گم گشتہ کو سیدھی راہ پر چلایا۔ وہ مربّی اور نفع رسان کہ جو بھولی ہوئی خَلقت کو پھر راہ راست پر لایا۔ وہ محسن اور صاحب احسان کہ جس نے لوگوں کو شرک اور بتوں کی بلا سے چھوڑایا۔ وہ نور اور نور افشان کہ جس نے توحید کی روشنی کو دنیا میں پھیلایا۔ وہ حکیم اور معالج زمان کہ جس نے بگڑے ہوئے دلوں کا راستی پر قدم جمایا۔ وہ کریم اور کرامت نشان کہ جس نے مُردوں کو زندگی کا پانی پلایا۔ وہ رحیم اور مہربان کہ جس نے اُمّت کے لئے غم کھایا اور درد اٹھایا۔ وہ شجاع اور پہلوان جو ہم کو موت کے منہ سے نکال کر لایا۔ وہ حلیم اور بے نفس انسان کہ جس نے بندگی میں سر جھکایا اور اپنی ہستی کو خاک میں ملایا۔ وہ کامل موحّد اور بحر عرفان کہ جس کو صرف خدا کا جلال بھایا اور غیر کو اپنی نظر سے گرایا۔ وہ معجزہ ٔ قدرت رحمٰن کہ جو اُمّی ہوکر سب پر علوم حقّانی میں غالب آیا اور ہریک قوم کو غلطیوں اور خطاؤں کا ملزم ٹھہرایا‘‘۔

(براہین احمدیہ ہرچہار حصص، روحانی خزائن جلد1 صفحہ17)

اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا ایک مومن مسلمان کے لئے لازمی امر ہے جس کے بغیر وہ محبت کے معیار پورے نہیں ہوتے اور نہ ہو سکتے ہیں جو ایک مومن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونی چاہئے۔ نہ ہی کوئی دعا قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے یا کر سکتی ہے جس میں درود شامل نہ ہو۔ لیکن یہ بھی ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے درود کی بھی اصل غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری محبت ہونی چاہئے اور اس کو ہر چیز پر حاوی ہونا چاہئے۔

(خطبہ جمعہ یکم فروری 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اندھیری رات میں نور

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مارچ 2022