• 8 مئی, 2024

قرآن اور اسلامی علوم و فنون

قرآن اور اسلامی علوم و فنون
نارویجن تحقیقی مضمون کا اردو ترجمہ۔ مصنف۔ Lars Due Arnov

ناروے کے ایک ماہانہ, نارویجین علمی جریدہ Illustrert vitenskap) (جو ایک باتصویر علمی مضامین پر مشتمل رسالہ ہےکے مصنف Lars Due Arnov کے لکھے ہوئے ایک تحقیقی مقالے کا ترجمہ حاضر ہے۔ مقالے کی تصاویر، مراکو اورترکی کے مسلمان سلاطین کے نوادرات میں سے ہیں۔ جن سے اس وقت کے مختلف علوم وفنون، آلات ِ جراحی، علم ریاضی،علم نجوم، علم طب، اور علم ارضیات کی ترقی کا پتہ چلتا ہے۔ اس مقالے میں دی جانے والی تصاویر کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف لکھتا ہے کہ
’’قرآن علم حاصل کرنے اور سائنس کے استعمال پر بہت زور دیتا ہے۔‘‘ مقالہ شرو ع کرنے سے پہلے سرورق پر تعارف کے ضمن میں مصنف لکھتا ہے:
’’آج مغرب میں عرب دنیا کو مذہبی شدت پسندی کے حوالے سے جانا جاتا ہے، لیکن ازمنۂ وسطیٰ میں جب یورپ پر اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ تب عرب (وہ علاقے جہاں عربوں اور مسلمانوں کی حکومت تھی) علم و شعور کی چوٹی پر کھڑاتھا۔ نئے مذہب اسلام کو اس کے ماننے والوں نے اللہ کا کام جان کر سیکھا اور پڑھا۔ جس کا نتیجہ علمی ترقی کی صورت میں ظاہر ہوا۔‘‘

مقالہ کا آغاز ایک کہانی سے شروع ہوتا ہے جو کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ ایک عرب طبیب کو ایک عیسائی ڈیرے پر ایک گھڑسوار کے پاؤں کی چوٹ کے علاج کے لئے بلایا گیا۔ طبیب نے اپنے علم کے مطابق مریض کا علاج شروع کر دیا، مگر بالکل اس وقت جب مریض صحت کی طرف لوٹنے کے قریب تھا، اچانک وہاں ایک فرانسیسی ڈاکٹر آگیا، اس نے عربی طبیب کو نظر اندازکر تے ہوئے گھڑسوار سے پوچھا، کہ تم کیا چاہتے ہو، ایک پاؤں کے ساتھ جینا یا دوکے ساتھ مرنا؟ اس کے ساتھ ہی اس نے ایک ہتھوڑا گھما کر مریض کے پاؤں پر مارا مگر پہلی ضرب میں وہ کامیاب نہ ہو سکا، اب کے پوری قوت سے اس نے ہتھوڑا اس کے پاؤں کے جوڑ پر دے مارا، پاؤں کی ہڈی ریزہ ریزہ ہوگئی، مریض موقعہ پر ہی ہلاک ہو گیا، اور عرب طبیب عیسائی طریقہ علاج اور طبابت پر افسوس کرتا ہوا باہر نکل گیا۔ یہ کہانی اصل میں ایک علامتی کہانی ہے جو ازمنئہ وسطیٰ کے عرب طبیبوں اور مغربی ڈاکٹروں کے درمیان پیشہ ورانہ فرق بیان کرتی ہے ان دونوں تہذیبوں کا ہمیشہ ہی آپس میں ٹکراؤ رہا ہے۔ یورپ میں عر بوں کے متعلق ہمیشہ ہی سفاک اور خونخوار کہانیا ں بیان کی جاتی رہیں۔ جبکہ عرب لوگ یورپین لوگوں کو Primitiv villmenn کے نام سے یاد کیا کرتے تھے۔ اگرچہ دونوں فریق ایک دوسرے کے متعلق مبالغہ آرائی سے کام لیتے رہے۔ مگرعربو ں نے جو یورپین کی تصویر کشی کی تھی وہ حقیقت سے زیادہ قریب تھی۔

اس کہانی کے بیان کا زمانہ عربوں) مسلمانوں) کی ترقی کے عروج کا زمانہ تھا۔ بالکل ایک نیا مذہب (اسلام) جو مشرقِ وسطیٰ سے لے کر جنوبی افریقہ اور یورپ کے دور اندر تک پھیل چکا تھا۔ اس نئے مذہب کو اپنانے والوں نے اس سے محبت کی تھی۔ عربوں (مسلمانوں) کا یہ سنہری دور جس میں عربوں کی تہذیب وتمدن یورپ کے مقابلہ میں بہت زیادہ ترقی یافتہ تھی اس کا عرصہ900ء سے لے کر 1300ء تک رہا۔ یہ وہ قوم تھی جنھوں نے علم کے ہر میدان میں ترقی کی۔ جب کہ اُس زمانہ میں یورپ کی ترقی گرجے کے آہنی شکنجے میں جکڑی ہوئی تھی۔ جنہوں نے کبھی بھی کسی علمی اور تحقیقی میدان میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔ دوسری طرف اسلامی دنیا کا یہ حال تھا کہ انفرادی طور پر بھی امراء اور وزراء کے پاس عالم جمع رہتے اور سلطنت کے زیر ِ انتظام بھی ایک کثیر تعداد میں علوم و فنون کے ماہر تمام اسلامی ریاستوں میں پھیلے ہوتے۔ یہ اور بات ہے کہ اب شاذ کے طور پران میں سے کسی کی پہچان باقی رہی ہے۔ اور ان کی جگہ نام نہاد مغربی ماہر اور مفکرین کی شہرت ہو چکی ہے اور ان کے علوم کا نام شہرت کی بلندی پر پہنچا ہوا ہے۔ حالانکہ بہت سے علوم کی ترقی، علوم کی بنیاد اور طریقہ کار، عر ب زمانہ (اسلامی ریاستوں) کی ترقی اور تعلیم کا نتیجہ ہے۔

اسلامی تہذیب جو ہتھیاروں سے زیادہ طاقتور تھی

900ء عیسوی میں جب کہ عرب (اسلامی ریاستوں) کا علوم و فنون اپنے پورے عروج پر تھا، اس وقت تک عرب دنیا اور اسلام ایک مضبوط سلطنت بن چکے تھے۔ محمد ﷺ 632ء میں فوت ہوئے۔ اور اس سال کے آغاز میں ہی عرب جزیرہ نما کے اطراف میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اور صرف ایک سوسال کے اندر اندرعرب دنیا ایک طرف مشرق میں بحر ہند تک اور دوسری طرف،مغرب میں جنوبی اسپین تک پھیل چکی تھی۔عربوں کی یہ عظیم الشان فتح کسی طرح بھی، جنگی مہمات کا نتیجہ نہیں کہلائی جا سکتی۔ عربو ں کا سب سے مضبوط اور طاقت ور ہتھیار مذہب اور ثقافت تھا۔ بحیرہ روم کے گرد بسنے والے دوسرے ممالک کے مذاہب کے مقابلہ میں مسلمان فاتحین کے ہاں اپنے عوام کے ساتھ زیادہ بہتر سلوک کیا جاتا تھا یہ لوگ کبھی بھی اپنے مفتوحین کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کرتے تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کی تحمل اور برداشت کی عادت تھی۔

711ء میں ایک عرب جرنیل طارق بن زیاد اسپین کے علاقے میں پہنچا تو وہاں کے خونی جنگجو ان کے کر دار اور انداز دیکھ حیران رہ گئے۔اسلامی فوج نے معمولی کاروائی کے نتیجے میں بھی بہت سے علاقے آزاد کروا لیے۔یہاں تک کہ وہ تمام اسپین پر قابض ہوگئے عربوں (مسلمانوں) کی یہ سلطنت سات سو سال تک ایک کثیر علاقے پر حکومت کرتی رہی۔ انہوں نے تجارت کو بہت جلد اور بہت بڑے پیمانے پر فروغ دیا۔ جس سے سلطنت میں خوش حالی آئی۔ ساتھ ساتھ عرب اور اسلامی تہذیب و تمدن ہر طرف سے ترقی کرتا رہا۔ اور ان کی ترقی سے عظیم تر عمارات بنتی رہیں۔ ان کی عظمت کی ایک یاد گار قرطبہ کا شہر تھا۔جو 950ء میں بنایا گیا۔ 5,000,000 آبادی کے شہر میں 600 مساجد تھیں۔ بے شمار سرکاری حمام اور کتب خانے تھے۔ اس کے علاوہ خلفاء کے ذاتی کتب خانے بھی موجود تھے۔ ان کے ذاتی کتب خانوں میں بھی تقریباً 40,000 کتابیں موجود تھیں۔ تمام گلیاں کوچے اور بازار پلوں سے جڑے ہوئے تھے۔ جو رات کو روشنیوں سے جگمگاتے تھے اس کے مقابلہ میں یورپ کے بڑے بڑے، شہروں، میں اندھیرا ہوتا تھا اور 800ء صدی میں جا کر یہاں گیس کے لیمپ استعمال ہونا شروع ہوئے تھے۔

علوم و فنون نے اُس دور کےخلفاء کو عظمت عطا کی

اس دور میں ساری سلطنت کے شہر وں کی خوش حالی، عربوں کے علوم و فنون کی منہ بولتی تصویر تھی، دولت مند تاجر،شہزادےوزراء اور خلفاء اپنے پاس بڑے بڑے عالم،شاعر، فلاسفر،اورماہرعلوم و فنون کا مجمع رکھتے، جو ان کی عظمت اور شان کی علامت ہوتے، اس طرح ملک میں علم پھیلانے کا مقابلہ سا رہتا، اسی لئے تو بغداد، قاہرہ، اورقرطبہ میں علم کا دریا بہتا رہتا۔ان شہروں کو علوم کا metropole کہنا غلط نہ ہوگا۔ جہاں کتب خانوں اور بڑی بڑی درس گاہوں میں علوم پر بحث مباحثے ہو رہے ہوتے۔ بغداد میں 800ء میں خلیفہ مامون الرشید نے ایک ادارہ علم اورتحقیق کے لئے کھول رکھا تھا، جسے اس نے دانش گاہ کا نام دیا تھا جہاں قرآن کے علاوہ قدیم یو نانی علمی دستاویزات کے تراجم کئے جاتے تھے۔ تراجم کے علاوہ قرآن کی تفاسیر کے کام بھی ہورہے ہوتے۔ معتزلہ (یہ ایک ایسا فرقہ تھا جو دانشوری پر زور دیتا تھا) کے دور میں عوام کی خوشحالی اور ذہنی خود اعتمادی پہلے سے زیادہ بحال ہوئی، انسانی سوچ اور صلاحیتوں کو خوب ترقی ملی۔

مصنف مزید لکھتا ہے کہ
’’در اصل قرآن اپنے اندر اہل ِ ایمان کے لئے ایک کشش رکھتا ہے جو اپنے پڑھنے والے کو سائنس اور تحقیق کی طرف راغب کرتا ہے۔ اگرچہ عرب خودسمجھتے ہیں کہ مذہبِ اسلام یہودیت اور عیسائیت کی تکمیل کررہا ہے۔ پھربھی یہ لوگ ہمیشہ دوسرے مسلک کے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ ضبط اورحوصلے سے کام لیتے رہے۔ مثلا انہوں نے ہمیشہ عیسائیوں اور یہودیوں کو، اپنے پلیٹ فارم پرکام کرنے کی اجازت دی۔ اگرچہ عالم اور دوسرے ماہر ِ فنون مختلف ممالک اور علاقوں سے آتے تھے۔ پھر بھی آپس میں علمی نظریات پر بحث و تمحیص کرتے اور آخر میں بحث کا نتیجہ ایک مشترکہ زبان میں ہی ظاہر ہوتا۔ اس زمانے میں عربی زبان وہ حیثیت رکھتی تھی جو آج انگلش زبان کی ہے۔ ایک طرح سے یہ کہنا چایئے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کا تمام علم او ر بڑے بڑے مفکروں کی تمام تر توجہ عرب(یعنی اسلام) دنیا کی طرف لگی ہوئی تھی۔‘‘

علم نجوم

عرب (مسلم) دنیا میں 800ء کے آغاز میں علم ریاضیات میں بہت زیادہ ترقی ہوچکی تھی۔ علم ریاضی کا سہرا ایک مسلمان ر یاضی دان کے سر پر جاتا ہے۔ اس نےعلمِ ہندسہ پرایک کتاب لکھی جو ریاضیات کی دنیا میں ایک انقلاب ثابت ہوئی۔ اس کتاب کے ذریعے پہلی بار صفر استعمال کرنے کا اصول اور صفر کی قیمت کا احساس ہوا کہ کس طرح ایک ایسا ہندسہ جس کی کوئی قیمت نہ تھی، وہ ہندسوں کے آگے لگا لینے سے ان ہندسوں کی قیمت میں کتنا اضافہ کر دیتا ہے۔ دراصل ہندسوں کے نظام کی دریافت خوارزمی کی نہیں تھی۔ اس سے بہت عرصہ قبل ہندستان میں اس کی دریافت ہوچکی تھی۔ مگر تکمیل تک پہنچ کر قابل عمل نہیں ہوئی تھی۔ خوارزمی نے اس پر مزید کام کرکے اسے ترقی دی اور قابل عمل بنایا۔ علمِ ہندسہ جو آج ہم استعمال کررہے ہیں یہ وہی عربی نظام ہندسہ ہے جو الخوارزمی نے پیش کیا تھا۔ صفر کا اس طریق پر استعمال اس لحاظ سے بھی انقلاب بنتا ہے کہ اس کی پہنچ آئندہ مفروضہ ہندسوں تک بھی جاتی ہے۔ اور مزید یہ کہ اس کا استعمال بہت آسان ہے۔ مگر یورپین تاجر اور تجارتی دفاتر میں ابھی تک یہ لوگ غیرمستعمل رومن ہندسے اور گنتی استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ انہی کے عرب ساتھی نفیس طرز کی گنتی استعمال کررہے ہوتے ہیں۔ ریاضی کی ترقی اپنی ذات میں علم نجوم کے لئے بہت اہمیت کی حامل تھی۔ مسلمانوں نے اس علم میں بھی بہت ترقی کی، اس علم کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ مسلمانوں نے روزانہ پانچ نمازیں ادا کرنا ہوتی ہیں، کیونکہ نمازی کا رُخ مکہ کی سمت رکھنا ہوتا ہے۔ اس عبادت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان ستاروں کے ذریعہ دنیا کے ہر کونے سے مکہ کی سمت معلوم کرسکیں۔ عبادت کے اس طریق کی وجہ سے اس زمانہ میں بڑے بڑے ماہر نجوم پیدا ہوئے، اور انہوں نے بڑی بڑی دریافتیں کیں۔ مثلاً، زمین کا رقبہ اور طول وعرض وغیرہ عرب ماہر نجوم نے ہی دریافت کیا۔بہر حال عربوں نے سب سے پہلے علم نجوم کو باقاعدہ مربوط کیا۔ وہ لوگ محض سطحی طور پر آسمان پر غور نہیں کرتے تھے۔ بلکہ انہوں نے باقاعدہ نظم اور ضبط کیساتھ آسمان کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے اس مطالعہ کے دوران کچھ ایسے مشاہدات کیےجو بعد میں آنے والے ماہرارضیات اور ماہر نجوم کے لئے مشعل راہ بنے۔ یہ عرب ہی تھے جنھوں نے قدیم مصری ماہر نجوم Ptolemaios کی دنیا کے جغرافیہ کی تصویرجس میں ستارے اور سورج زمین کے گرد گھومتے تھے کہ متعلق سوال اُٹھایا۔ عربوں نے تصویرکی اس ساخت کو قبول نہیں کیا۔ اور مزید تحقیق کی طرف توجہ کی۔ اگرچہ ایک پولش ماہرارضیات Kopernikus نے 1530ء میں نظام شمسی پر غور کر کے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ اس نظام میں سورج ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ Kopernikus کی اس تحقیق میں عربوں کی ستاروں کے متعلق تحقیق کا بہت دخل تھا۔ کچھ مؤ رخوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کو عربوں کو اس تحقیق کے متعلق پورا علم تھا۔

فن طبابت، طبیب جو بِلی کی آنت سے زخم سیتے تھے

عربوں (مسلمانوں) کا سب سے بڑا علمی کارنامہ طبابت میں مہارت رکھنا تھا۔اس میدان میں عرب یورپین لوگوں سے ازمنۂ وسطی ٰکے تمام دور میں بہت آگے رہے۔ 1000ء میں آپریشن کرسکتے تھے، وہ زخموں کو بلی کی آنت کے دھاگے کے ساتھ سیتے، ناک کی ٹوٹی ہوئی ہڈی کو اس کی جگہ پر واپس ٹکا دیتے۔ 1000ء میں ایک عرب ماہر چشم الماوسیلی نے کالے موتیے کا علاج ڈھونڈااور آنکھ کی سرجری کا طریق بھی اسی ماہر چشم نے دریافت کیا تھا۔ان طبیبوں نے علاج،اور جسم کی اندرونی ساخت کے مطالعے اور معائنے کے دوران بہت سے بیماریوں اور ان کے علاج کے درمیان فرق کا علم حاصل کیا اور ان کے علاج کے طریق کار نکالے۔ 1000ء میں سب سے پہلے ایک عرب طبیب الراضی نے خسرہ کی بیماری کو شناخت کیا اور اس کا علاج بھی نکالا۔ 1200ء میں ایک مصری مسلمان طبیب ابن النفیس نے پھیپھڑوں کے کینسر کی دریافت، کی جب کہ ایک شاگرد نے طبابت میں kapilar system کو متعارف کروایا۔ مختصر یہ کہ ماڈرن ڈاکٹری کے علم کی بنیاد عرب طبیبوں (مسلمانوں )کے ہاتھوں سے ہی رکھی گئی تھی۔ اسلامی دنیا کا سب سے معروف ڈاکٹر فارس کا ابن سینا تھا۔ جس نے 1000ء میں یونان سے تمام ڈاکٹری علم اکٹھا کیا۔ پھر ہندی اور عربی طبیبوں نے بھی اس کے اندر اپنے تجربات اور مشاہدات ملائے، ابن سینا کا یہ حیران کن کام ڈاکٹری دنیا میں اور ڈاکٹری کی تاریخ میں اہم ترین کارنامہ تھا، جو مسلسل ڈاکٹری حلقے میں اہم کردار ادا کرتا رہا، یہاں تک کہ 1700ء میں یورپ کی تمام بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں مستقل ڈاکٹری کی تعلیم میں نصاب کے طور پر جاری کردیا گیا۔ کچھ عربی ممالک بشمول پاکستان میں اس کو ابھی بھی تعلیم میں استعمال کیا جا تا ہے، اور اب جدید طبی طریقہ کار میں بھی عربی علاج اور طریقہ کار کی جڑیں پائی جاتی ہیں۔ 1100ء میں بغداد کا الدودی ہسپتال بہت شہرت حاصل کر چکا تھا۔ اس میں ایک جدید teaching hospital تھا جس میں چوبیس ڈاکٹر اور پروفیسر تعینات تھے۔ اس میں بڑے بڑے ہال اور لائبریریاں تھیں۔دور دور سے نوجوان صحراؤں کے سفرکی صعوبتیں اُٹھا کر وہاں پڑھنے کے لیے آتے۔الدودی ہسپتال کو بہت شہرت حاصل تھی اس ہسپتال کا ساری عرب اور مسلم دنیا میں بہت اثر تھا،اس کی طرز پر بہت سے اور ہسپتال کھولے گئے۔ ان میں سب سے بڑا ہسپتال قاہرہ میں بنایا گیا تھا۔ جہاں تقریباً ہر قسم کی بیماری کا علاج ہوتا تھا، اور اس ہسپتال میں 1000 بستروں کی جگہ تھی، گویا اوسلو کے Rikshospital سے تقریباً دوگنا زیادہ بستروں کی جگہ تھی۔

اگرچہ مسلمانوں کی علمی وفنی تحقیقات اور ایجادات حد سے زیادہ تھیں،مگر اصل میں ان کے علم و فہم کے طریقِ کار بعد میں آنے والے زمانوں کے لئے ایک سرمایہ بنا۔عر بوں(مسلمانوں) نے ایک مربوط نظام کے تحت علمی اور سائنسی تحقیقات شرو ع کیں۔ یہ لوگ جب ایک میدان اور مضمون میں کام شروع کرتے تو، درجہ وار بحث وتمحیص اور منطقی دلائل کے بعد حاصل ہونے والے نتائج کو لکھا جا تا۔ بالکل اسی طرح جیسے آج ہم ایک بات کو منطقی نتیجہ پر پہنچانے کے لئے بحث اور منطقی دلائل کے بعد اسے پرچے پر لکھ لیتے ہیں۔ یہ کام (یعنی بحث کے بعد نتیجہ لکھنا) عربوں کے ہاں 700ء میں ہی شروع ہو چکا تھا۔

یورپ میں عرب کے علمی خیالات و نظریات 1200ء میں اہلِ یورپ کے اسپین پر قبضہ کے بعد پہنچنا شروع ہوئے۔ جبکہ CASTILLA میں1100ء کے وسط میں ایک پادری Don Raimundo نے اپنے شاگردوں کے ساتھ ملکر عربی کتابوں کا ترجمہ شروع کیا۔ اس کے بعد 1248-1225ء میں بادشاہ Alfons کے زمانہ میں عربی دستاویزات کے تراجم کا کام بہت تیزی سے شروع ہوگیا۔

مذہب نے علم کا گلا گھونٹ دیا

مضمون نگار مزید لکھتا ہے کہ ’’جب عیسائی لوگ عربی دستاویزات کا اور کتابوں کا لاطینی زبان میں ترجمہ کررہے تھے، اسلامی دُنیا کے سنہری دورکا زوال شروع ہو چکا تھا۔ 1200ء کے آخر تک عربوں کی تمام تہذیب اپنے ترقی کی صدیوں سمیت پیچھے کو مڑگئی۔ محقق صحیح طور پر نہیں جان سکے کہ اصل میں غلطی کہاں ہوئی تھی۔ بہت سے تاریخ دان مذہبی اجارہ داروں کا نام لگاتے ہیں۔ قرآن کی تعلیم جو ایک وقت میں کبھی علم سائنس اور اور تحقیق کے جام بھررہی تھی،اب سختی اور پابندیوں کے چکر میں اُلجھ گئی۔ اور علمی ترقی مذہب کے اجارہ داروں کی اجازت میں پھنس کر رہ گئی۔ مثلاً 1100ء میں امام الغزالی پہلے ہی ریاضی کے خلاف ہو چکے تھے، وہ اسے اسلام کے خلاف طاقت سمجھتے تھے۔ اور اسے ایک نشہ سمجھتے تھے جو اپنے عقیدے سے ہٹاتا ہے کچھ ایسے مؤرخ بھی ہیں جو اسلامی سلطنت کے زوال کو اقتصادی بد حالی کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ جو کہ خونی منگولوں کے بغداد پر حملہ آور ہونے اور اسے برباد کرنے کے نتیجے میں پیش آئی۔منگولوں نے بغد اد جیسا عظیم اور اعلیٰ پائے کا تعمیر شدہ شہر تباہ برباد کردیا، خزانے لوٹ لئے، عمارتیں تباہ کردیں۔ ایک ہی وقت میں جب اسلامی سلطنت زوال پذیر ہو کر بالکل ختم ہونے کو تھی۔ اس وقت یورپ میں ایک نئی دنیا بن رہی تھی۔ عربی کتابوں اور دستاویزات کے تراجم یورپ میں رنگ لا رہے تھے، ان کی ترقی کے راستے کھل رہے تھے۔ یورپ قدامت پرستی سے نکل کر روشنی کی طرف آرہا تھا۔ لیکن ایک اہم بات اس میں یہ ہے کہ عرب کا علم وشعور اور آگاہی دنیا بھر کے عیسائی چرچوں کے لئے چیلنج ضرور بنی رہی۔ اور ان عیسائیوں کے نئے خیالات اور نظریات نے علم کو مذہبی پابندیوں سے نکال باہر کیا، جس کے نتیجے میں 1700 ویں صدی جدید زمانے کے عروج کی صدی بنی جو آج تک ترقی کی ہی طرف گامزن ہے۔ اگرچہ عربوں کے زوال کو 700 سو سال گزر چکے ہیں، لیکن آج بھی عربوں (مسلمانوں) کی ترقی کے نشانات قائم و دائم ہیں۔

(ترجمہ :نبیلہ رفیق۔ناروے)

پچھلا پڑھیں

اندھیری رات میں نور

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مارچ 2022