جماعت احمدیہ اور خدمت قرآن ۔ صادقانہ محبت کے عاشقانہ نظارے
قرآن پڑھنے، پڑھانے اور سیکھنے سکھانے کی سچی لگن کے دلکش واقعات
قسط2۔ آخر
(نوٹ: تسلسل کیلئے قسط اوّل مؤرخہ9۔اپریل کے شمارے میں ملاحظہ کیجئے)
مکرم ہدایت اللہ ہیوبش
مکرم ہدایت اللہ ہیوبش کے متعلق مکرم محمد الیاس منیرمربی سلسلہ لکھتے ہیں۔
مرحوم کو قرآن کریم سے غیرمعمولی محبت اور عشق تھا۔ یوں تو اس کا اظہار مختلف انداز سے ہوتا رہتا، کبھی آپ قرآن کریم کے نسخے کے اوپر دھری کوئی کتاب حتیٰ کہ کاغذ پنسل بھی دیکھتے تو فوراً اسے ہٹا دیتے کہ قرآن کریم کو ظاہری طور پر بھی سب سے اوپر ہونا چاہئے اور اس کے اوپر کوئی اور چیز نہیں ہونی چاہئے۔ ایک مرتبہ قرآن کریم طبع ہو کر آیا اور جب آپ کی نظر بڑے پیکٹ پر پڑی تو بھاگ کر اس میں سے ایک نسخہ نکالا اور اسے بے اختیار ہو کر چومنے لگے۔ اس ضمن میں سب سے بڑھ کر آپ کا علم قرآن آپ کے عشق قرآن کا مظہر تھا۔ آپ نے قرآن کریم کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا تھا اور ہمیشہ اسے مطالعہ میں رکھتے تھے جس کی وجہ سے آپ کو قرآنی مضامین پر ایسا مضبوط عبور حاصل تھا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ معروف حوالے تو مرحوم کی نوک زبان پر ہوتے ہی تھے مگر دیگر مضامین بھی بڑی وضاحت کے ساتھ آپ کو مستحضر رہتے۔ اپنی کتب کی تصنیف کے دوران کتاب کے متن میں قرآنی مضامین کو نگینوں کی طرح جڑتے چلے جاتے تھے۔ عربی نہ جاننے کی وجہ سے آیات کی تلاش کے لئے بعض اوقات خاکسار سے مدد لیتے، اس طرح سے مجھے گھنٹوں ان کے پاس بیٹھ کر اس سلسلہ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ آپ مطلوبہ مضمون مجھے بتاتے اور اس کا حوالہ پوچھتے۔ بہت مرتبہ ملتے جلتے مضامین والی آیات سامنے آتیں تو اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک عین وہ آیت نہ مل جاتی جس کا مضمون ان کے ذہن میں ہوتا۔ اس سے ان کی اس باریک نگاہ کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو قرآنی مضامین پر تھی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق مختلف علاقوں میں ہال لے کر قرآن کریم کی نمائشوں کا اہتمام کیا گیا تو خوشی سے پھولے نہ سماتے۔ اس کے لئے آپ نے اپنی ذاتی لائبریری سے قرآن کریم کے بہت سے نادر نسخے مہیا کئے اور بعض بہت قدیم نسخے خریدنے کے لئے تلاش کرکے دیئے۔ان میں سے ایک نسخہ جب نمائش میں پہلی مرتبہ دیکھا تو اسے ہاتھ میں لے کر دیکھتے ہوئے آپ کی ایسی کیفیت تھی جیسے کسی بیقرار کو ایک دم قرار آجائے ادرک کا استعمال بھی آپ کو اسی لئے بہت اچھا لگتا تھا کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر آیا ہے۔ آپ کی جیب میں ہر وقت ادرک کی مصنوعات میں سے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا۔ کھانے کے ساتھ بھی ادرک کا مشروب آپ کو بہت مرغوب تھا۔
(الفضل 19 فروری 2011ء)
حضرت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین
حضرت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین احمدی ہونے سے قبل آغاخانی خیالات کے زیر اثر آپ سمجھتے تھے کہ قرآن عربوں کے لئے تھا ہمیں اس کی ضرورت نہیں اس لئے قرآن مجید پڑھنا بھی چھوڑ چکے تھے مگر اسلامی اصول کی فلاسفی کے پڑھنے سے آپ کے اندر زبردست تبدیلی رونما ہو گئی اور نہایت ولولہ اور شوق سے مطالعہ قرآن میں منہمک ہو گئے اور بالآخر احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل کرلی۔
آپ کے پوتے ڈاکٹر حافظ صالح محمد الٰہ دین فرماتے ہیں کہ
’’بعد نماز فجر آپ ہم سے ترجمہ قرآن سنتے تھے۔ میں نے جب حفظ قرآن مجید مکمل کرلیا تو جس محبت و شفقت سے آپ نے اس عاجز سے معانقہ کیا اور پیار کیا وہ بیان سے باہر ہے اور اس خوشی میں آپ نے مجھے سو روپیہ بطور تحفہ عطا کیا۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد 21 ص388)
محترم صالح محمد الہٰ دین قادیان
مکرم سلطان محمد الٰہ دین اپنے والد محترم کے متعلق لکھتے ہیں۔
ابو کو قرآن مجید سے بے پناہ عشق و لگاؤ تھا۔ بچپن میں ان کے والدمحترم سیٹھ علی محمد الٰہ دین ابو کو ایک باغ میں لے گئے اور اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ابو قرآن مجید حفظ کریں۔ نیز ابو کے نانا مرحوم جی۔ ایم۔ ابراہیم نے ابو کی پیدائش سے قبل دعا کی تھی کہ بیٹا حافظ قرآن بنے۔ اپنے والد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ابو ہر روز اپنے گھر کے Basement میں جا کر قرآن کریم حفظ کرتے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دس بارہ سال کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں حافظ قرآن بنا دیا۔ ابو کی تربیت میں گھر والوں کے علاوہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانؓی کا اہم کردار تھا۔ حضرت عرفانی درس قرآن دیا کرتے تھے اور ابو ان کے خاص شاگرد تھے۔ نیز حضرت عرفانی اکثر فرمایا کرتے تھے کے میں درس صالح محمد کے لئے دیتا ہوں۔
حضرت عرفانی درس کے دوران کوئی مشکل سوال کرتے اور ابوجب جواب دیتے تو حضرت عرفانی فرماتے کہ یہ اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کے دل میں ڈالا ہے اپنی زندگی میں ہی حضرت عرفانی نے ابو کو درس دینے کی تربیت کی اور فرمایا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی اپنا جانشین تیار کرکے دیکھ لیں۔
حضرت عرفانی کی وفات کے بعد ابو نے سکندر آباد میں التزام کے ساتھ درس قرآن کا اہتمام کیا۔ جہاں تک ممکن ہوا خاکسار نے ابو کے سکندر آباد سے ہجرت کے بعد اس کا التزام رکھا۔
ابو قرآن مجید کو کثرت سے پڑھتے بہت غوروفکر کرتے عمل کرتے اور ہمیں بھی توجہ دلاتے۔ وہ اکثر کہتے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور سائنس اللہ تعالیٰ کا فعل۔ ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہوسکتا جب بھی کسی قرآنی آیت کے معارف انہیں سمجھ میں آتے وہ خلیفہ وقت کو لکھتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے بہت سے ایسے خوشنودی کے خط ہیں۔ ابوقرآن مجید پر غور کرکے Scientific Research کرتے۔ نیز قرآن مجید کے تمام احکامات کے اوپر غوروفکر کرتے اور توجہ دلاتے۔
(الفضل 4 جون 2011ء)
محترم حافظ عبدالکریم
راقم الحروف کے دادا محترم حافظ عبدالکریم خان اپنے علاقے میں قرآن کریم پڑھانے میں خاص امتیاز رکھتے تھے اپنے خاندان کے تمام افراد کو بیسیوں احمدی بچوں اور بچیوں کے علاوہ سینکڑوں غیرازجماعت افراد کو بھی قرآن سکھایا۔ جس کی وجہ سے مخالفت کے باوجود نہایت احترام سے دیکھے جاتے تھے۔
آپ نے یتیمی کی حالت میں قرآن کریم حفظ کیا اور پھر 50 سال تک خوشاب اور ربوہ میں قرآن کریم تراویح میں سنایا۔
حضرت سیدہ مریم صدیقہ
محترمہ امۃ الکافی لکھتی ہیں۔
علی الصبح اکثر ناشتہ شروع ہی کیا ہوتا کہ لڑکیوں اور خواتین کا ترجمۃ القرآن سیکھنے کے لئے جمع ہونے کا آغاز ہو جاتا۔ دو اڑھائی گھنٹے یہ سلسلہ جاری رہتا اور یہ نہیں کہ آپ جب چاہیں آئیں یا جو دل کرے پڑھ لیں۔
بلکہ باقاعدہ ریکارڈ بک بناتی تھیں۔ سکول کالجز کی لڑکیاں پہلے آکر پڑھتیں اور گھریلو خواتین کو ذرا بعد کا ٹائم ملا کرتا۔ حاضری لگتی۔ سپارے کے ساتھ رکوع لکھا جاتا اور یہ سب کچھ اس قدر خاموشی سے اور جلدی سے ہو جاتا کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلتا اور وقت بھی ضائع نہ ہوتا۔ میری بیٹی ازحد خاموش طبع تھی۔ شروع میں پیاری خالہ سے پڑھنے جاتی تو آہستہ آہستہ اور رک رک کر پڑھتی۔ ایک دو دفعہ دبے لفظوں میں مجھے یہ سب بتایا لیکن بعد میں وہ خوب رواں ہو گئی تو بہت خوش ہوئیں اور جب اس نے ترجمہ ختم کرلیا تو اکثر خوش ہو کر بتاتیں کہ خاندان میں سب سے کم وقت میں بکی نے ہی ترجمہ پڑھا ہے۔
حضور ایدہ اللہ کی ہجرت کے بعد سے MTA پر براہ راست ماہ رمضان میں قرآن مجید کا درس آنے کے درمیانی سالوں میں تقریباً باقاعدگی سے اپنے گھر میں خاندان کی خواتین کو درس قرآن دیا کرتی تھیں۔ پہلے سے اس کی باقاعدہ ہر صبح تیاری کرتیں اور بعد نماز عصر یہ درس ہم لوگ سنتے۔
(مصباح ستمبر 2000ء ص32)
حضرت چھوٹی آپا
محترمہ چھوٹی آپا صاحبہ کے متعلق محترم سید میر محمود احمد فرماتے ہیں۔
حضرت مصلح موعود ؓ کو قرآن مجید سے عشق تھا یہ عشق حضرت چھوٹی آپا کو بھی ملا۔ خود تو قرآن پڑھتی تھیں نوٹس لیتی تھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ترجمہ کلاس اور درس القرآن MTA پر باقاعدہ اور بڑے اہتمام سے سنتیں اور قرآن شریف ہاتھ میں ہوتا۔ قرآن مجید جس کو استعمال کرتی تھیں۔
چند دن قبل میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ 100-100 صفحات دودو سو صفحات کے فاصلہ سے آیات پر Cross ریفرنس ہے۔ بتاتی تھیں کہ حضرت مصلح موعودؓ نے ان کو پڑھانے کے لئے قرآن شریف کے ایک درس کا سلسلہ شروع فرمایا۔ بعض واقفین نے بھی اس درس میں شامل ہونے کی خواہش کی۔ چنانچہ حضور نے اوپر کمرہ میں یہ درس جاری کر دیا اور واقفین مسجد مبارک کی چھت پر بیٹھتے اور درس میں شامل ہوتے۔ یہاں ربوہ میں چھوٹی آپا صبح بہت سویرے لڑکیوں کو قرآن مجید کا ترجمہ پڑھانا شروع کر دیتی تھیں۔ بیچ میں اٹھ کر ایک پیالی چائے پیتی تھیں یہ لڑکیاں مختلف محلوں سے آتی تھیں اوریہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ جو لڑکی ترجمہ آپ سے پڑھ لیتی اس کی شادی (غیر متوقع طور پر) ہو جاتی۔ آج ہی ایک دوست جو شاید بہاولنگر سے جنازہ میں شرکت کے لئے آئے تھے بتا رہے تھے کہ میری بیٹی نے ابھی 22 سیپارے چھوٹی آپا سے ترجمہ مکمل نہیں کئے تھے کہ اس کی شادی ہوگئی۔ (ان کی شاگردوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے)
حضور کے رمضان میں MTA کے درس شروع کرنے سے پہلے رمضان میں گھر پر ہر سال خاندان میں قرآن مجید کا درس دیتی رہیں۔ جب حضور کا درس MTA پر آنے لگا تو خود درس دینا بند کر دیا۔
(الفضل 22 نومبر 1999ء)
محترمہ سرور جہاں
حضرت مولانا عبدالمالک خان کی اہلیہ محلہ میں بچوں کو قرآن کریم پڑھنے پڑھانے پر بہت زور دیتیں اور ہر سال ایک تقریب آمین کرواتیں۔ اس میں ان بچوں کی حوصلہ افزائی کرتیں جنہوں نے قرآن کریم ختم کیا ہوتا۔ بچوں کی مائیں اور دوسری عورتیں بھی شامل ہوتیں۔ سب میں مٹھائی تقسیم کرتیں۔
(الفضل 9 مارچ 2011ء)
محترمہ غلام سکینہ
مکرم ناصر احمدظفر بلوچ لکھتے ہیں۔
ہمارے دادا جان حضرت حافظ فتح محمد صحابی حضرت مسیح موعودؓ کی قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو اپنی معصوم پوتی بی بی غلام سکینہ کو اپنی گود میں لے لیتے۔ دوران تلاوت وہ اپنے دادا جان کی گود میں آپ کی غیرمعمولی حسن قراء ت کو ہمہ تن گوش ہو کر سنتی رہتیں۔ داداجان فرمایا کرتے تھے کہ میری اس پوتی (غلام سکینہ) کو قرآن پاک سے بے انتہا عشق ہوگا۔ آپ کا یہ فرمان بعد میں من و عن پورا ہوا۔
گاؤں بزدار کی آبادی تقریباً 25 ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور جملہ غیرازجماعت خواتین کو غلام سکینہ نے قرآن پڑھانے کی سعادت پائی جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
بستی بزدار بزدار قبیلہ کا مسکن ہے۔ حضرت اللہ بخش خان بزدار صحابی حضرت مسیح موعودؓ کا بھی یہ مسکن تھا۔ آپ اپنی برادری میں زہدو تقویٰ کے باعث ممتاز مقام رکھتے تھے۔
(الفضل 7 جون 2010ء)
محترمہ خاتم النساء
محترمہ خاتم النساء اہلیہ محترم مولانا محمد شفیع اشرف کے متعلق ان کے بیٹے مکرم ڈاکٹر محمد احمد اشرف لکھتے ہیں۔
قرآن کریم سے امی جان کو بڑی محبت تھی۔ خداتعالیٰ کے فضل سے بڑی حد تک ترجمہ جانتی تھیں اور کثرت تلاوت کی وجہ سے بغیر دیکھے صرف قراءت سن کر اس میں کوئی غلطی ہو تو عموماً اصلاح کر دیتی تھیں۔ ہم سب بہن بھائیوں کو خود قرآن پڑھایا۔ بہت باقاعدگی سے تلاوت کرتی تھیں۔ درس ہوتا تو بڑے ذوق و شوق سے اس میں شامل ہوتیں۔ بلکہ ہمیشہ یہ خواہش رکھتی تھیں کہ درس ان کے گھر میں ہو۔ قرآن کریم سے اس محبت کے بعض ظاہری آثار بھی تھے۔ قرآن کے خوبصورت جزدان یعنی کپڑے کے غلاف تیار کرنا گویا ان کا مشغلہ تھا۔ پرانے سے پرانے قرآن کریم کو سنبھال کر رکھتی تھیں۔
(رَبِّ ارْحَمْهُمَا ص90)
محترمہ امۃ السلام
آپ کا قرآن کریم روزانہ تلاوت کرنے کا معمول تھا۔ کہا کرتی تھیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے۔
پس بار بار قرآن شریف کو پڑھو تمہیں چاہئے کہ برے کاموں کی تفصیل لکھتے جاؤ اور پھر خداتعالیٰ کے فضل اور تائید سے کوشش کرو ان بدیوں سے بچتے رہو۔
(ملفوظات جلد 4 ص656)
محترمہ سلمیٰ مطہرہ
محترمہ شبانہ حفیظ اپنی خوش دامن مکرمہ سلمیٰ مطہرہ کے متعلق لکھتی ہیں۔
امی جان فجر کی نماز کے بعد ہر روز تلاوت کرتی تھیں۔ وفات سے کچھ سال پہلے امی جان کی نظر بہت کم ہو گئی تھی لیکن امی جان نے قرآن مجید کی بڑی چھوٹی بہت سورتیں زبانی یاد کی ہوئی تھیں۔ مثلاً بڑی سورتوں میں سورۃ یٰسین، سورۃ رحمن، سورۃ فجر، سورۃ الکہف، سورۃ البقرہ کا بڑا حصہ اس کے علاوہ بھی بہت سی سورتیں یاد کی ہوئی تھیں اور زبانی سورتیں پڑھتی تھیں۔ بعض دفعہ تو مجھے فرماتیں کہ تم قرآن مجید کھول کر مجھ سے سنو۔ امی جان نماز اور قرآن کی بہت پابند تھیں۔
(الفضل 21۔اپریل2011ء)
محترمہ رشیدہ تسنیم
پروفیسر محمد شریف خان اپنی اہلیہ کے متعلق لکھتے ہیں۔
لجنہ کے زیرانتظام منعقدہ کلاس برائے درستگی تلفظ قرآن میں شامل ہو کر محترم قاری محمد عا شق سے صحیح تلاوت سیکھی۔اس کے علاوہ لجنہ نے رشیدہ کی محلہ جات کی لجنات میں جا کر حضرت مسیح موعودؑ کی متعدد کتب کا خلاصہ سنانے اور نفس مضمون سمجھانے کی ڈیوٹی لگائی تھی جسے بڑی خوبی اور خوشدلی سے نبھایا اور اس طرح ربوہ کی لجنات سے تعارف حاصل کرنے کا مو قعہ ملا۔ اب رشیدہ کا زیادہ وقت قرآن کریم کی تلاوت اور حضرت مسیح موعودؑ کی فرمودہ تفسیر قرآن کے مطالعہ میں صرف ہوتا۔ایم ٹی اے پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے قرآن شریف کے درس بڑے انہماک سے سنتیں اور ساتھ ساتھ نوٹس لیتی جا تیں اور ان کی رو شنی میں گھر میں مختلف دینی مسائل پر بچوں کے ساتھ ڈسکشن کرتیں۔
ستمبر1999ء میں ہم امریکہ شفٹ ہوئے تو نئے ماحول میں بھی رشیدہ کا گھرداری کے علاوہ دینی شوق جاری رہا اور دعاؤں کا مو قعہ ملا۔ یہاں رشتہ داروں کے بچوں میں گھل مل گئیں، انہیں قاعدہ یسرنا القرآن اور قرآن کریم پڑھاتیں۔ ارد گرد رہنے والی مستورات کو ان کی خواہش پر قرآن کریم گھر جا کر پڑھاتیں۔ ایم ٹی اے پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی قرآن کلاس میں باقاعدہ شامل ہوئیں، قرآن کریم ہاتھ میں رکھتیں اور مشکل آیات پر اپنے پہلے سے لئے ہو ئے نوٹس میں اضافہ کرتی جاتیں۔ لجنہ کے اجلاسات میں جاتیں اور دین کے متعلق لجنات کے سوالات کا جواب دیتیں۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا قرآن کریم کا ترجمہ چھپا تو بہت خو ش ہو ئیں، خرید کر عزیزوں کو تحفہ دیا فون پر عزیزوں کو اس سے استفادہ کرنے کی تلقین کرتی رہتیں۔ ہر سورت کے آغاز میں دیئے گئے خلاصے کو غور سے پڑھتیں اور مجھے بھی ماحصل بتا تیں۔
جب آنکھوں میں cataract کی تکلیف شروع ہوئی تو پڑھنے اور دیکھنے میں رکاوٹ محسوس کرتیں اور قر آن کریم پڑھ نہیں سکتی تھیں جس کا بہت احساس تھا۔ بڑی تقطیع میں لکھا قرآن کریم کچھ عرصہ پڑھا، تکلیف زیادہ ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپریشن کے بعد نظر بحال ہو گئی، بہت خوش تھیں۔ پھر تلاوت اور کتب کے مطالعہ میں زیادہ وقت گزارتیں۔
امریکہ میں ہماری سیر جاری رہی۔ رشیدہ کو درّثمین، درّعدن اور بخارِ دل سے دعا ئیہ شعر یاد تھے جو سیر کے دوران اونچی آواز میں گنگناتیں۔ مجھے تیسویں سپارے کی آخری بیس سورتوں کے ناموں کی فہرست دی ہوئی تھی، میں نام پڑھتا جاتا، رشیدہ سورۃ کی تلاوت چلتے چلتے، یا پارک میں بینچ پر بیٹھی کرتی جاتیں۔ بعد میں دعائیہ اشعار پڑھتے دعائیں اور حمد کرتے ہم گھر لوٹ آتے۔
(الفضل 7 مارچ 2012ء)
محترمہ حمیدہ بیگم
ان کی بیٹی صدیقہ وسیم لکھتی ہیں۔
امی کا کہنا تھا کہ پہلے بچہ قرآن پاک ختم کرے پھر اس کو سکول میں داخل کرو۔ ہم سب بہن بھائیوں کے ساتھ امی نے ایسا ہی کیا تھا سب کو 6سال تک قرآن ختم کرایا پھر دوسری میں داخل کیا۔
آپ کا تلفظ قرآن پاک بہت اچھا تھا مگر جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے عربی تلفظ سیکھنے کی تحریک کی تو عمر زیادہ ہونے کے باوجود بہت شوق سے کلاسز میں شامل ہو کر کے عربی تلفظ خود بھی سیکھا اور دوسروں کو بھی تحریک کی کہ خلیفہ وقت کا ارشاد ہے اس لئے سب کو سیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے برکت خدا تعالیٰ نے ڈالنی ہے چنانچہ امی کو دیکھتے ہوئے بہت سی بزرگ خواتین نے بھی سیکھا۔
آپ نے اپنی 75 سالہ زندگی میں جہاں دوسری جماعتی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہاں 1977ء میں وصیت کی بابرکت تحریک میں بھی شامل ہوئیں وصیت کرنے کے بعد ایک جہاد کی شکل میں بچوں اور بڑوں کو سادہ اور ترجمہ سے قرآن پاک پڑھایا۔ ان گنت بچوں اور بچیوں کو قرآن پاک سادہ اور ترجمہ سے پڑھایا۔ چند عمررسیدہ خواتین کو بھی قرآن کریم سادہ پڑھایا۔ کہا کرتی تھیں کہ ہر وصیت کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ دوسری نیکیوں کے ساتھ ساتھ قرآن بھی پڑھائے۔ وصیت کرتے ہوئے جو عہد اپنے خدا سے کیا تھا زندگی کے آخری سانسوں تک نبھایا۔ بوقت وفات بھی وینکوور میں وقف نو کے بچوں کو قرآن پڑھانے کا کام آپ کے سپرد تھا۔
وفات سے ایک روز قبل جب طبیعت کچھ زیادہ خراب ہوئی تو سب بچوں اور پوتیوں پوتوں کو اپنے پاس بلایا اور سب سے باری باری سلا م اور پیار کیا جیسے معلوم ہو کہ اب ان سب سے میری آخری ملاقات ہے۔
جب پیار کرتے ہوئے منجھلے بھائی کے بیٹے اور بیٹی کو پیار کیا تو رونے لگیں امی سے پوچھا کہ امی کیا ہوا تو روتے ہوا کہا کہ ابھی تو میں نے ان کو قرآن پاک ختم کروانا تھا۔
پنجوقتہ نماز اور قرآن کی تلاوت کا خود بھی التزام کرتیں اور اپنی اولاد کو بھی نصیحت کرتیں کہ ان دونوں چیزوں کو کبھی نہ چھوڑنا۔ اسی میں نجات ہے۔ رمضان المباک میں ہمیشہ دو مرتبہ قرآن پاک کا دور مکمل کرتیں ایک دفعہ سادہ اور ایک دفعہ ترجمہ سے۔
(الفضل 23۔اپریل 2012ء)
محترم چوہدری محمد عبداللہ
آپ کے بارے صاحب مضمون لکھتے ہیں۔
تایا جان کی نمایاں صفات میں سے ایک صفت اُن کا قرآن کریم سے عشق تھا۔ تایا جان نے اپنی زندگی میں شاید ہی کبھی تلاوت قرآن کریم کا ناغہ کیا ہو۔ ہم بچپن سے دیکھتے آئے ہیں ہمیشہ سردیوں میں اپنے گھر کے بڑے کمرے میں اور گرمیوں میں باہر صحن میں صبح صبح قرآن کریم کی بلند آواز سے لمبی تلاوت کرتے تھے۔ جس میں روٹین کی تلاوت کے علاوہ سورۃ یٰسین کی تلاوت بھی شامل ہوتی تھی ۔جس دن کسی کام کی مجبوری کی وجہ سے تلاوت نہ کرسکتے تو صرف سورۃ یٰسین پڑھ لیا کرتے تھے۔
محترمہ امۃ القیوم شمس
ان کی بیٹی مبارکہ افتخار لکھتی ہیں۔
ہم سب بہن بھائیوں کو بھی پنجوقتہ نماز کی عادت امی جان کی نمازوں سے محبت کو دیکھ کر خودبخود ہی پیدا ہوئی تھی سردی ہو یا گرمی ہو بھائیوں کو صبح فجر کی نماز پر بیدار کر کے بھیجتی تھیں پھر اس کے بعد سب اکٹھے ہو کر قرآن کریم کی خوش الحانی سے تلاوت کرتے یہ سب نظارے اب بھی آنکھوں کے سامنے ہیں۔ روزانہ تلاوت ان کا معمول تھا اور کافی لمبی تلاوت کرتی تھیں۔ رمضان المبارک میں قرآن کریم کا دور ضرور مکمل کرتی تھیں۔
(الفضل 27۔اپریل 2011ء)
خالدہ بیگم
مکرم زبیر احمد اپنی تائی محترمہ خالدہ بیگم کے متعلق لکھتے ہیں۔
تلاوت قرآن کریم سے ان کو خاص شغف تھا۔ عام دنوں میں ہی آپ کافی تلاوت کیا کرتی تھیں۔ رمضان میں تو ایک سے زیادہ مرتبہ تلاوت قرآن کریم کا دور مکمل کرتی تھیں۔ رمضان میں خاص طور پر ظہر و عصر کے درمیان اس طرح فجر کے بعد کافی دیر تک تلاوت کیا کرتی تھیں۔
مکرمہ امۃ العزیز ادریس
مکرمہ امۃ العزیز ادریس آف امریکہ حضرت خان فرزندعلی خان (سابق امام بیت الفضل لندن) کی پوتی تھیں۔ لجنہ ربوہ کے مرکزی دفتر میں آفس سیکرٹری کی حیثیت سے لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی۔ وفات سے قبل امریکہ میں مستورات کو انٹرنیٹ پر قرآن کریم با ترجمہ پڑھاتی تھیں اور 26 پارے مکمل کر چکی تھیں۔
(الفضل 14 نومبر 2011ء)
قسط نمبر 1
(عبدالسمیع خان۔غانا)