• 4 مئی, 2024

جو امن کے وقت خدا تعالیٰ کو نہیں بھلاتا خدا اُسے مصیبت کے وقت میں نہیں بھلاتا

جو امن کے وقت خدا تعالیٰ کو نہیں بھلاتا خدا اُسے مصیبت کے وقت میں نہیں بھلاتا
(حضرت مسیح موعود ؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباس کے حوالے سے جو خطبہ کے ابتدا میں ہی مَیں نے پڑھا تھا، یہ بتایا تھا کہ دعا کیا ہے؟ دعا سے کس طرح تسلی اور سکینت ملتی ہے؟ دعا کی فلاسفی کیا ہے اور کس طرح مانگنی چاہئے؟ یعنی دعا مانگنے کا معیار کیا ہے جو ایک مومن کو اختیار کرنا چاہئے۔

اصل میں تو دعا کی یہ روح اور فلاسفی قرآنِ کریم کی ہی بیان فرمودہ ہے، اُس میں بیان ہوئی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر کھول کر ہمارے سامنے بیان فرمائی۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض اور ارشادات بھی ہیں جو بڑے مختصر ارشادات ہیں لیکن دعا کرنے اور دعا کی حقیقت جاننے کے ایسے طریقے اور اسلوب ہیں جن پر عمل کر کے ایک انسان خدا تعالیٰ کا قرب پانے والا اور دعا کی حقیقت جاننے والا بن جاتا ہے۔

آپ علیہ السلام اپنی ایک مجلس میں فرماتے ہیں کہ:
’’دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے۔ اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے تو دعاؤں میں کوئی اثر نہیں رہتا۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ21 ایڈیشن 2003ء)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک اور موقع پر فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لئے ایک محویت کی ضرورت ہے۔ ہم بار بار اپنی جماعت کو اس پر قائم ہونے کے لیے کہتے ہیں۔ کیونکہ جب تک دنیا کی طرف سے انقطاع اور اس کی محبت دلوں سے ٹھنڈی ہو کر اﷲ تعالیٰ کے لیے فطرتوں میں طبعی جوش اور محویت پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک ثبات میسر نہیں آسکتا۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ33 ایڈیشن 2003ء)

یعنی فطری جوش ہے جو بندے اور خدا کے تعلق کو قائم کرتا ہے اور اُس کو مضبوط کرتا ہے۔ پس اس فطری جوش اور مکمل طور پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ رکھنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ یہ فطری جوش بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے، اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے پیدا ہو گا۔

پھر آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں:۔ ’’دعاؤں میں جو رُو بخدا ہو کر توجہ کی جاوے تو پھر ان میں خارق عادت اثر ہوتا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دعاؤں میں قبولیت خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے اور دعاؤں کے لیے بھی ایک وقت‘‘ (ہوتا ہے) ’’جیسے صبح کا ایک خاص وقت ہے۔ اس وقت میں خصوصیت ہے وہ دوسرے اوقات میں نہیں۔ اسی طرح پر دعا کے لیے بھی بعض اوقات ہوتے ہیں جبکہ ان میں قبولیت اور اثر پیدا ہوتا ہے‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ309 ایڈیشن 2003ء)

ہر کام میں صبح کے وقت تازہ دم ہو کر جو کام انسان کرتا ہے اُس کے نتائج بہترین ہوتے ہیں۔ آجکل کے ان لوگوں کی طرح نہیں جو ساری رات یا رات دیر تک یا تو انٹرنیٹ پر بیٹھے رہتے ہیں یا ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں یا اور دنیاوی کاموں میں ملوث رہتے ہیں۔ اُن کی رات کو نیند پوری نہیں ہوتی۔ صبح اُٹھتے ہیں تو ادھ پچدّی نیند کے ساتھ، اُس میں نماز کیا ادا ہو گی؟ اور ان کے دوسرے کاموں میں کیا برکت پڑے گی۔ ہر شخص چاہے دنیا دار بھی ہو اپنے بہترین کام کے لئے تازہ دم ہو کر کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ پوری توجہ سے کام ہو۔ اُس کام کے بہترین نتائج ظاہر ہوں۔ پس آپ نے فرمایاکہ اس طرح تمہیں یہ بھی تلاش کرنا چاہئے کہ تمہارے دعاؤں کے بہترین اوقات کیا ہیں؟ وہ کیفیت کب پیدا ہوتی ہے جب دعا قبول ہوتی ہے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ کا رحم ہے اُس شخص پر جو امن کی حالت میں اسی طرح ڈرتا ہے جس طرح کسی پر مصیبت وارد ہوتی ہو تو وہ ڈرے۔ جو امن کے وقت خدا تعالیٰ کو نہیں بھلاتا خدا اُسے مصیبت کے وقت میں نہیں بھلاتا۔ اور جو امن کے زمانہ کو عیش میں بسر کرتا ہے اور مصیبت کے وقت دعائیں کرنے لگتا ہے تو اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔ جب عذاب الٰہی کا نزول ہوتا ہے تو توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ پس کیا ہی سعید وہ ہے جو عذاب الٰہی کے نزول سے پیشتر دعاؤں میں مصروف رہتا ہے، صدقات دیتا ہے اور امر الٰہی کی تعظیم‘‘ (یعنی جو حکم خدا تعالیٰ نے دئیے ہیں اُنہیں پورے عزت و احترام کے ساتھ بجا لانے کی کوشش کرتا ہے) ’’اور خلق اﷲ پر شفقت کرتا ہے۔ اپنے اعمال کو سنوار کر بجالاتا ہے۔ یہی ہیں جو سعادت کے نشان ہیں۔ درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے۔ اسی طرح سعید اور شقی کی شناخت بھی آسان ہوتی ہے‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 539 ایڈیشن 2003ء)

یعنی سعید فطرت کے نیک عمل اُس پھل کی طرح ہیں جو میٹھا ہے اور پُر لذت ہے۔ جس کے پھل کو دیکھ کے سب کہیں، جس کو چکھ کر سب کہیں کہ یہ میٹھا پھل دینے والا درخت ہے۔ شقی وہ بدبخت انسان ہے جس کے عمل نہ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے والے ہیں اور نہ ہی اُس کے بندوں کا حق ادا کرنے و الے ہیں۔ گویا کڑوا اور بدبودار پھل دینے والا درخت ہے۔

(خطبہ جمعہ 15؍مارچ 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

جلسہ یوم مصلح موعودؓ، جماعت احمدیہ یونان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 اپریل 2022