• 16 جولائی, 2025

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط7)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
(قسط 7)

خدا تعالیٰ کی صفات اور اسماء
کے لحاظ کے بنا دعا کچھ اثر نہیں رکھتی

اور قرآن شریف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سنتا ہے اور وہ بہت ہی قریب ہے۔ لیکن اگر خداتعالیٰ کی صفات اور اسماء کا لحاظ نہ کیا جائے۔ اور دعا کی جائے تو وہ کچھ بھی اثر نہیں رکھتی۔ صرف اس ایک راز کے معلوم نہ ہونے کی وجہ سے نہیں۔ بلکہ معلوم نہ کرنے کی وجہ سے دنیا ہلاک ہورہی ہے۔ میں نے بہت لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ ہم نے بہت دعائیں کیں اور ان کا نتیجہ کچھ نہیں ہوا۔ اور اس نتیجہ نے ان کو دہریہ بنادیا۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ہر امر کے لئے کچھ قواعد اور قوانین ہوتے ہیں.. .. .. .. .. .. .. .. .. .. ایسا ہی دعا کے واسطے قواعد و قوانین مقرر ہیں یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوئی اس کا باعث یہی ہے کہ وہ ان قواعد اور مراتب کا لحاظ نہیں رکھتے جو قبولیت دعا کیواسطے ضروری ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے جب ایک لانظیر اور بیش بہا خزانہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور ہم میں سے ہر ایک اس کو پاسکتا ہے اور لے سکتا ہے۔ کیونکہ یہ کبھی بھی جائز نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو قادر خدا مان کر یہ تجویز کریں کہ جو کچھ اس نے ہمارے سامنے رکھا ہے اور جو ہمیں دکھایا ہے یہ محض سراب اور دھوکا ہے۔ ایسا وہم بھی انسان کو ہلاک کرسکتا ہے۔ نہیں۔ بلکہ ہر ایک اس خزانہ کو لے سکتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی کمی نہیں۔ وہ ہر ایک کو یہ خزانے دے سکتا ہے پھر بھی اس میں کمی نہیں آسکتی۔

غرض وہ تو ہم کو نبوت کے کمالات تک دینے کو تیار ہے۔ لیکن ہم اس کے لینے کی بھی سعی کریں۔ پس یاد رکھو کہ یہ شیطانی وسوسہ اور دھوکا ہے جو اس پیرایہ میں دیا جاتا ہے کہ دعا قبول نہیں ہوتی۔ اصل یہی ہے کہ وہ دعا قبولیت کے آداب اور اسباب سے خالی محض ہے۔ پھر آسمان کے دروازے اس کے لئے نہیں کھلتے۔ سنو! قرآن شریف نے کیا کہا ہے اِنَّمَايَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِيْنَ (المائدہ: 28)۔ اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ جو لوگ متقی نہیں ہیں۔ ان کی دعائیں قبولیت کے لباس سے ننگی ہیں۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور رحمانیت ان لوگوں کی پرورش میں اپنا کام کررہی ہے۔

دعاؤں کی قبولیت کا فیض ان لوگوں کو ملتا ہے جو متقی ہوتے ہیں۔ اب میں بتاؤں گا کہ متقی کون ہوتے ہیں مگر ابھی میں ایک اور شبہ کا ازالہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بعض لوگ جو متقی ہوتے ہیں۔ بظاہر ان کی بعض دعائیں ان کے حسب منشاء پوری نہیں ہوتی ہیں یہ کیوں ہوتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ان لوگوں کی کوئی بھی دعا در حقیقت ضائع نہیں جاتی۔ لیکن چونکہ انسان عالم الغیب نہیں ہے اور وہ نہیں جانتا کہ اس دعا کے نتائج اس کے حق میں کیا اثر پیدا کرنے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کمال شفقت اور مہربانی سے اس دعا کو اپنے بندہ کے لئے اس صورت میں منتقل کردیتا ہے۔ جو اس کے واسطے مفید اور نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ جیسے ایک نادان بچہ سانپ کو ایک خوبصورت اور نرم شے سمجھ کر پکڑنے کی جرأت کرے یا آگ کو روشن دیکھ کر اپنی ماں سے مانگ بیٹھے۔ تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ ماں خواہ وہ کیسی ہی نادان سے نادان بھی کیوں نہ ہو۔ کبھی پسند کریگی کہ اس کا بچہ سانپ کو پکڑے یا اپنی خواہش کے موافق آگ کا ایک روشن کوئلہ اس کے ہاتھ پر رکھ دے؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ وہ جانتی ہے کہ یہ اس کی زندگی کو گزند پہنچائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب اور عالم الکل ہے اور مہربان ماں سے بھی زیادہ رحیم کریم ہے اور ماں کے دل میں بھی یہ رافت اور محبت اسی نے ڈالی ہے وہ کیونکر گوارا کرسکتا ہے کہ اگر اس کا عزیز بندہ اپنی کمزوری اور غلطی اور ناواقفی کی وجہ سے کسی ایسی چیز کے لئے دعا کر بیٹھے جو اس کے حق میں مضرت بخش ہے تو وہ اس کو فی الفور منظور کرلے۔ نہیں بلکہ وہ اس کو رد کردیتا ہے اور اس کے بجائے اس سے بھی بہتر اس کو عطا کرتا ہے اور وہ یقیناً سمجھ لیتا ہے کہ یہ میری فلاں دعا کا اثر اور نتیجہ ہے۔اپنی غلطی پر بھی اس کو اطلاع ملتی ہے۔ غرض یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ متقیوں کی بھی بعض دعا قبول نہیں ہوتی۔ نہیں ان کی تو ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ ہاں اگر وہ اپنی کمزوری اور نادانی کی وجہ سے کوئی ایسی دعا کر بیٹھیں جو ان کے لئے عمدہ نتائج پیدا کرنے والی نہ ہو۔ تو اللہ تعالیٰ اس دعا کے بدلہ میں ان کو وہ چیز عطاء کرتا ہے۔ جو ان کی شے مطلوبہ کا نعم البدل ہو۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ417-419 ایڈیشن 1984ء)

خدا تعالیٰ کبھی قضاء و قدر منوانا چاہتا ہے
اور کبھی دعا قبول کرتا ہے

جب اللہ تعالیٰ کا فضل قریب آتا ہے تو وہ دعا کی قبولیت کےاسباب بہم پہنچا دیتا ہے۔ دل میں ایک رقت اور سوزوگداز پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن جب دعا کی قبولیت کا وقت نہیں ہوتا تو دل میں اطمینان اور رجوع پیدا نہیں ہوتا۔ طبیعت پر کتنا ہی زور ڈالو۔ مگر طبیعت متوجہ نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی خداتعالیٰ اپنی قضاء و قدر منوانا چاہتا ہے اور کبھی دعا قبول کرتا ہے۔ اس لئے میں تو جبتک اذن الہٰی کے آثار نہ پالوں۔ قبولیت کی کم امید کرتا ہوں۔ اور اس کی قضاء و قدر پر اس سے زیادہ خوشی کے ساتھ جو قبولیت دعا میں ہوتی ہے راضی ہوجاتا ہوں۔ کیونکہ اس رضا بالقضاء کے ثمرات اور برکات اس سے بہت زیادہ ہیں۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ460 ایڈیشن 1984ء)

چند دعائیں

فرمایا… میں التزاماً چند دعائیں ہر روز مانگا کرتا ہوں

اول۔ اپنے نفس کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ خداوند کریم مجھ سے وہ کام لے جس سے اس کی عزت و جلال ظاہر ہو اور اپنی رضا کی پوری توفیق عطاکرے۔

دوم۔ پھر اپنے گھرکے لوگوں کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ ان سے قرۃعین عطا ہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پر چلیں۔

سوم۔ پھر اپنے بچوں کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ یہ سب دین کے خدام بنیں۔

چہارم۔ پھر اپنے مخلص دوستوں کے لئے نام بنام۔

پنجم۔ اور پھر ان سب کے لئے جو اس سلسلہ سے وابستہ ہیں۔ خواہ ہم انہیں جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ4-5)

خادم دین ہماری دعاوٴں کے مستحق ہیں

’’اگر کوئی تائیدِ دین کیلئے ایک لفظ نکال کر ہمیں دیدے تو ہمیں موتیوں اور اشرفیوں کی جھولی سے بھی زیادہ بیش قیمت معلوم ہوتا ہے۔ جو شخص چاہے کہ ہم اس سے پیار کریں۔ اور ہماری دعائیں نیاز مندی اور سوز سے اس کے حق میں آسمان پر جائیں وہ ہمیں اس بات کا یقین دلادے کہ وہ خادمِ دین ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہم ہر ایک شے سے محض اللہ تعالیٰ کے لئے پیار کرتے ہیں۔ بیوی ہو بچے ہوں۔ دوست ہوں۔ سب سے ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ7-8 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

جلسہ یوم مصلح موعودؓ، جماعت احمدیہ یونان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 اپریل 2022