خطبہ جمعہ
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍مارچ 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے
یہ بھی خلافت کی برکات میں سے ہے کہ شریعت کو قائم کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور خلیفۂ وقت پوری کوشش کرتا ہے
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد صدیقِ اکبر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ
دنیا کے فکرانگیز حالات میں دعائیں کرنے کی تحریک ’’خاص طور پر یہ دعا کریں کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے لگ جائے‘‘
سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ کینیڈا و سابق مبلغ انچارج کینیڈا مکرم و محترم مولانا مبارک نذیر صاحب کا ذکر ِخیر اور نمازِ جنازہ غائب
أَشْھَدُ أَنْ لَّٓا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالاتِ زندگی کے ذکر میں
مانعینِ زکوٰۃ کے متعلق آپؓ کے خیالات اور ان کے ساتھ سلوک کا ذکر
ہو رہا تھا۔ اس بارے میں مزید تاریخ طبری میں یوں بیان ہوا ہے۔ اسد اور غَطفان اور طَیء قبائل طُلَیحہ بن خُوَیلد جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا اس کے ہاتھ پر اکٹھے ہو گئے سوائے چند خاص لوگوں کے۔ قبیلہ اسد کے لوگ سَمِیْرَاء کے مقام پر جمع ہوئے۔ سَمِیْرَاء جو ہے یہ قومِ عاد کے ایک شخص کے نام پر اس مقام کا نام رکھا گیا ہے اور یہ مکہ کے راستے پر ایک قوم ہے۔ اس علاقے کے ارد گرد سیاہ رنگ کے پہاڑ ہیں جن کی وجہ سے اس کا یہ نام رکھا گیا ہے۔ فَزَارَہ اور غَطْفَان کے لوگ اپنے حلیفوں کے ساتھ طِیْبَہ کے جنوب میں جمع ہوئے۔ طَئی اپنے علاقے کی سرحد پر جمع ہوئے۔ ثَعْلَبَہ بن سعد اور مُرَّة اور عَبْس میں سے ان کے حمایتی رَبَذَہ کے مقام اَبْرَق میں جمع ہوئے۔ رَبَذَہ بھی تین دن کی مسافت پر مدینہ کی وادیوں میں سے ایک وادی ہے۔ اَبْرَقُ الرَّبَذَۃ قبیلہ بنوذُ بیان کی جگہوں میں سے تھی۔ بنوکِنَانہ کے کچھ لوگ بھی ان سے آ ملے مگر وہ علاقے ان کے متحمل نہ ہو سکے اس لیے ان لوگوں کی دو جماعتیں ہوگئیں۔ ایک جماعت اَبْرَق میں مقیم رہی اور دوسری ذُوالقَصَّہ چلی گئی۔ ذُوالقَصَّہ بھی مدینہ سے چالیس میل کے فاصلے پر ایک جگہ ہے۔ طُلَیحَہ نے حِبَال کو ان کی مدد کے لیے بھیجا۔ حَبَال طُلَیحہ کے بھائی کا بیٹا تھا۔ بہرحال اس طرح حِبَال ذُوالقَصَّہ والوں کا سردار بن گیا جہاں اَسَد اور لَیْث، دِیْل اور مُدْلِجْقبائل میں سے ان کے حمایتی بھی تھے۔ عَوف بن فُلان بن سِنَان، اَبْرَق مقام میں موجود مُرَّہ قبیلہ کا سردار مقرر ہوا اور ثَعْلَبَہ اور عَبْس قبائل پر حَارِث بن فُلان سردار مقرر ہوا جو بَنُوسُبَیْع میں سے تھا۔ ان قبائل نے اپنے وفد بھیجے جو مدینہ آئے۔ یہ سب جمع ہوئے اس کے بعد ہر ایک قبیلے نے اپنا اپنا ایک وفد بنا کے بھیجا۔ وہ لوگ جو آئے تھے وہ عمائدین مدینہ کے ہاں فروکش ہوئے، وہاں ٹھہرے۔ حضرت عباسؓ کے علاوہ سب نے ان کو اپنے ہاں مہمان بنایا اور ان کو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں اس شرط پر لے کر آئے کہ وہ نماز پڑھتے رہیں گے مگر زکوٰۃ نہ دیں گے۔ اللہ نے ابوبکرؓ کو حق پر راسخ کر دیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: اگر یہ اونٹ باندھنے کی رسی بھی نہ دیں گے تو میں ان سے جہاد کروں گا۔
(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 254-255 سنۃ 11 ہجری، مکتبۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ434 حاشیہ، دار الکتب العلمیۃ 2001ء) (معجم البلدان جلد3صفحہ290،67 جلد اول صفحہ 89 دار الکتب العلمیۃ بیروت) (فرہنگ سیرت صفحہ 236زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)
حضرت ابوبکرؓ کا موقف دیکھ کر جب مانعینِ زکوٰۃ کے وفود مدینہ سے واپس جانے لگے تو اس وقت ان لوگوں کی کیا کیفیت تھی، اس کا ذکر کرتے ہوئے ایک سیرت نگار لکھتے ہیں کہ ان وفود نے جب آپؓ کا عزم دیکھا تو مدینہ سے واپس ہو گئے لیکن مدینہ سے جاتے وقت دو باتیں ان کے ذہن میں تھیں۔ نمبر ایک یہ کہ منع زکوٰۃ کے سلسلہ میں کوئی گفتگو کارگر نہیں۔ اس سلسلہ میں اسلام کا حکم واضح ہے اور خلیفہ کی اپنی رائے اور عزم سے پیچھے ہٹنے کی کوئی امید نہیں۔ خاص کر جب کہ مسلمان دلیل کے واضح ہونے کے بعد آپؓ کی رائے سے متفق ہو چکے ہیں اور حضرت ابوبکرؓ کی تائید کے لیے کمربستہ ہیں۔ نمبر دو بزعمِ خویش مسلمانوں کی کمزوری اور قلتِ تعداد کو غنیمت جانتے ہوئے مدینہ پر ایسا زور دار حملہ کیا جائے جس سے اسلامی حکومت گر جائے اور اس دین کا خاتمہ ہو جائے۔
(ماخوذ از سیدناابوبکر شخصیت اور کارنامے از ڈاکٹر علی محمد صلابی صفحہ278 مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)
یہ ان کا اپنا زعم تھا کہ اس طرح ہم قبضہ کر لیں گے۔ بہرحال ان لوگوں نے واپس جا کر اپنے قبائل سے کہا کہ اس وقت مدینہ میں بہت کم آدمی ہیں اور انہیں حملہ کرنے کی ترغیب دلائی جبکہ دوسری طرف حضرت ابوبکرؓ بھی غافل نہ تھے۔ انہوں نے اس وفد کے جانے کے بعد مدینہ کے تمام ناکوں پر باقاعدہ پہرے متعین کر دیے۔ حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اس کام پر مقرر کیے گئے۔ ایک روایت میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓکا نام بھی آتا ہے کہ یہ بھی ناکے پر پہرے کے لیے متعین کیے گئے۔ اس کے علاوہ حضرت ابوبکرؓ نے تمام اہل مدینہ کو حکم دیا کہ وہ مسجد میں جمع ہوں اور پھر ان سے فرمایا کہ تمام سر زمین کافر ہو گئی ہے اور ان لوگوں کے وفود تمہاری قلتِ تعداد کو دیکھ گئے ہیں اور تم لوگ نہیں جانتے کہ وہ دن کے وقت یا رات میں تم پر حملہ آور ہوں گے۔ ان لوگوں کی سب سے قریب جماعت یہاں سے صرف ایک برید کے فاصلے پر ہے۔ برید بارہ میل کے برابر ہوتا ہے کہ بارہ میل کے فاصلے پر ہے اور کچھ لوگ خواہش رکھتے تھے کہ ہم ان کی شرائط قبول کر لیں اور ان سے مصالحت کر لیں مگر ہم نے ان کی بات نہ مانی اور ان کی شرائط مسترد کر دیں۔ لہٰذا اب مقابلے کے لیے بالکل تیار ہو جاؤ۔ حضرت ابوبکرؓ کا اندازہ بالکل درست نکلا اور
منکرینِ زکوٰۃ کے وفد کے مدینہ سے واپس جانے کے بعد صرف تین راتیں گزری تھیں کہ ان لوگوں نے رات ہوتے ہی مدینہ پر حملہ کردیا۔
اپنے ساتھیوں میں سے ایک جماعت کو وہ ذُوحِسٰی چھوڑ آئے تا کہ وہ بوقتِ ضرورت کمک کا کام دیں۔ ذُوحِسٰی بنو فَزَارَہ کے پانیوں میں سے ایک ہے اور یہ رَبَذَہ اور نَخْل کے درمیان ہے۔ بہرحال یہ حملہ کرنے والے رات کے وقت مدینہ کے ناکوں پر پہنچے۔ وہاں پہلے سے جنگجو متعین تھے۔ ان کے عقب میں کچھ اَور لوگ تھے جو بلندی پر چڑھ رہے تھے۔ پہرے داروں نے ان لوگوں کو دشمن کی یورش سے آگاہ کیا اور حضرت ابوبکرؓ کو دشمن کی پیش قدمی کی اطلاع دینے کے لیے آدمی دوڑائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ پیغام بھجوایا کہ سب اپنی اپنی جگہ پر جمے رہیں جس پر تمام فوج نے ایسا کیا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ مسجد میں موجود مسلمانوں کو لے کر اونٹوں پر سوار ہو کر ان کی طرف روانہ ہوئے اور دشمن پسپا ہو گیا۔ مسلمانوں نے اپنے اونٹوں پر ان کا تعاقب کیا یہاں تک کہ وہ ذُوحِسٰی جا پہنچے۔ حملہ آوروں کی کمک والا گروہ چمڑے کے مشکیزوں میں ہوا بھر کر اور ان میں رسیاں باندھ کر مسلمانوں کے مقابلے کے لیے نکلا اور انہوں نے ان مشکیزوں کو اپنے پیروں سے ضرب لگا کر اونٹوں کے سامنے لڑھکا دیا اور چونکہ اونٹ اس سے سب سے زیادہ بِدَکتا ہے کہ مشکیزے، لڑھکتی ہوئی چیز آ رہی ہے اس لیے مسلمانوں کے تمام اونٹ ان سے اس طرح بدک کر بھاگے کہ وہ مسلمانوں سے جو اُن پر سوار تھے کسی طرح بھی سنبھل نہ سکے یہاں تک کہ وہ مدینہ پہنچ گئے۔ البتہ اس سے مسلمانوں کا کوئی نقصان نہ ہوا اور نہ ان کے ہاتھ کوئی چیز آئی۔
مسلمانوں کی اس بظاہر پسپائی سے دشمنوں کو یہ گمان ہوا کہ مسلمان کمزور ہیں ان میں مقابلے کی طاقت نہیں ہے۔ اس خام خیالی میں انہوں نے اپنے ان ساتھیوں کو جو ذُوالقَصَّہ میں فروکش تھے اس واقعہ کی اطلاع دی وہ اس خبر پر بھروسہ کر کے اس جماعت کے پاس آ گئے مگر ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ نے ان کے متعلق کچھ اَور ہی فیصلہ کیا ہے جس کو وہ بہرحال نافذ کر کے چھوڑے گا۔ رات بھر حضرت ابوبکرؓ اپنی فوج کی تیاری میں مصروف رہے اور سب کو تیار کر کے رات کے پچھلے پہر پوری فوج کو ترتیب دے کر پیدل روانہ ہوئے۔ نعمان بن مُقَرِّن میمنہ پر، عبداللہ بن مُقَرِّن میسرہ پر اور سُوَید بن مُقَرِّن فوج کے پچھلے حصہ پر نگران تھے۔ ان کے ساتھ کچھ سوار بھی تھے۔ ابھی فجر طلوع نہیں ہوئی تھی کہ مسلمان اور منکرینِ زکوٰۃ ایک ہی میدان میں تھے۔ مسلمانوں کی کوئی آہٹ اور بھنک بھی نہ ان کو مل سکی کہ مسلمانوں نے ان کو تلوار کے گھاٹ اتارنا شروع کر دیا۔ پھر رات کے پچھلے پہر میں لڑائی ہوئی۔
آفتاب کی کرن نے ابھی مطلعِ افق کو اپنے جلوے سے منور نہیں کیا تھا کہ
منکرین نے شکست کھا کر راہِ فرار اختیار کی۔
پھر لکھا ہے کہ مسلمانوں نے ان کے تمام جانوروں پر قبضہ کر لیا۔ اس واقعہ میں حِبَال مارا گیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان لوگوں کا تعاقب کیا یہاں تک کہ ذُوالقَصَّہ پہنچ کر ٹھہرے۔ یہ پہلی فتح تھی جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دی۔ حضرت ابوبکرؓ نے نُعمان بن مُقَرِّن کو کچھ لوگوں کے ساتھ وہیں متعین کر دیا اور خود مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ یہ تاریخ طبری کا حوالہ ہے۔
(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ255-256 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان 2012ء)
(البدایہ و النھایہ جلد3 جزء6 صفحہ308 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ 2001ء)
(المنجد زیر مادہ ’’برد‘‘) (معجم البلدان جلد2 صفحہ297 ’’الحساء‘‘)
اس جنگ کو غزوۂ بدر سے مشابہت دیتے ہوئے ایک مصنف لکھتے ہیں کہ اس موقع پر ابوبکرؓ نے ایمان و یقین، عزم و ثبات اور حزم و احتیاط کا جو مظاہرہ کیا اس سے مسلمانوں کے دل میں عہدِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کی یاد تازہ ہو گئی۔
ابوبکرؓ کے عہد کی یہ پہلی لڑائی بڑی حد تک جنگ بدر سے مشابہ ہے۔
جنگِ بدر کے روز مسلمان صرف تین سو تیرہ کی قلیل تعداد میں تھے جبکہ مشرکین مکہ کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی۔ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ مخالفین سے جنگ کا جو یہ واقعہ پیش آیا اس موقع پر بھی مسلمانوں کی تعداد بہت قلیل تھی اس کے بالمقابل عَبْس، ذُبیان اور غَطفان کے قبائل بھاری جمعیت کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تھے۔ بدر کے موقع پر انہیں اللہ نے مشرکین پر فتح عطا فرمائی۔ اس موقع پر ابوبکرؓ اور آپؓ کے ساتھیوں نے ایمان کامل کا ثبوت دیا اور دشمن پر فتح حاصل کی۔ جس طرح جنگِ بدر دُوررَس نتائج کی حامل تھی اسی طرح اس جنگ میں بھی مسلمانوں کی فتح نے اسلام کے مستقبل پر گہرا اثر ڈالا۔
(حضرت ابوبکرؓ صدیق ازمحمد حسین ہیکل مترجم اردو شیخ محمد احمد پانی پتی صاحب صفحہ 150-151مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)
بَنوذُبیان اور بنو عَبْس نے اس شکست کی وجہ سے غیض و غضب میں آ کر اپنے ہاں موجود مسلمانوں پر اچانک حملہ کر کے ان کو نہایت بے دردی سے طرح طرح کے عذاب دے کر شہید کر ڈالا۔ انہوں نے یہ بدلہ لیا کہ جو نہتے مسلمان ان کے علاقوں میں رہتے تھے ان کو مار دیا، شہید کر دیا اور ان کی تقلید میں دوسرے قبائل نے بھی ایسا ہی کیا۔ ان مظالم کی اطلاع پر حضرت ابوبکرؓ نے قَسم کھائی کہ وہ مشرکین کو خوب اچھی طرح قتل کریں گے اور ہر قبیلے میں سے جنہوں نے مسلمانوں کو قتل کیا تھا انہیں اس کے بدلہ میں قتل کریں گے۔
(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 256 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان 2012ء)
حضرت ابوبکرؓ کی قیادت و راہنمائی میں منکرینِ زکوٰۃ کے حملوں کا سدباب ہوتے ہی دیگر کمزور اور متذبذب قبائل یکے بعد دیگرے اپنی زکوٰۃ لے کر مدینہ کی طرف آنے لگے۔ جب کمزور قبائل نے دیکھا کہ جو طاقتور قبائل ہیں ان کا یہ حال ہو گیا ہے تو جنہوں نے زکوٰۃ روکی ہوئی تھی وہ زکوٰۃ لے کر مدینہ آنے لگے۔ کوئی قبیلہ رات کے پہلے حصہ میں زکوٰۃ لے کر آنے لگا اور کوئی رات کے درمیانی حصہ میں اور کوئی رات کے آخری حصہ میں۔ جب یہ لوگ مدینہ میں نمودار ہوتے تو ہر جمعیت کے نمودار ہونے کے موقع پر لوگ کہتے کہ یہ ڈرانے والے معلوم ہوتے ہیں یعنی کوئی بری خبر لانے والے،مگر حضرت ابوبکرؓ نے ہر موقع پر یہ کہا کہ یہ خوشخبری دینے والے ہیں۔ حمایت کے لیے آئے ہیں نقصان کے لیے نہیں۔ چنانچہ جب باقاعدہ طور پر یہ معلوم ہوا کہ یہ جماعتیں حمایتِ اسلام کے لیے آئی ہیں اور زکوٰۃ کے اموال لے کر آنے والی جماعتیں ہیں تو مسلمانوں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا آپؓ بڑے مبارک آدمی ہیں آپ ہمیشہ سے بشارت دیتےچلے آئے ہیں۔
(ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 256 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان 2012ء)
اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے یہ بھی فرمایا کہ
بُری خبر اور بُرے ارادے سے آنے والے تیز تیز چلتے ہیں جبکہ خوشخبری لانے والے قافلے آرام اور اطمینان سے چلتے ہیں۔
میں ان کی رفتار سے اندازہ کر لیتا تھا۔
(المسیرۃ الاسلامیہ از منیر محمد غضبان صفحہ 50 مطبوعہ دارالاسلام2015ء)
منکرینِ زکوٰۃ کے خلاف کامیابی کے بعد
زکوٰۃ کی وصولیوں کے متعلق
تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ اس زمانے میں اس قدر صدقات مدینہ میں موصول ہوئے جو مسلمانوں کی ضرورت سے بچ گئے۔
(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 257 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)
انہی فتوحات اور بشارتوں کے دوران حضرت اسامہ ؓکا لشکر بھی کامیابی و کامرانی کے ساتھ مدینہ واپس لوٹ آیا۔ حضرت اسامہؓ کے واپس آنے کے بعد ابوبکرؓ نے ان کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے سِنَان ضَمْرِی کو اپنا نائب مقرر کیا اور ان سے اور ان کی فوج سے کہا کہ سردست تم بھی آرام کر لو اور اپنی سواری کے جانوروں کو بھی دم لینے دو اور خود ابوبکرؓ لوگوں کے ساتھ سوار ہو کر ذُوالقَصَّہ روانہ ہوئے مگر مسلمانوں نے حضرت ابوبکرؓ سے عرض کی کہ اے خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپؓ سے خدا کا واسطہ دے کر درخواست کرتے ہیں کہ آپؓ خود اس مہم پر نہ جائیں کیونکہ خدانخواستہ اگر آپؓ کو کوئی ضرر پہنچ گیا تو سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ آپؓ کسی اَور کو اس کام کے لیے بھیج دیں تا کہ اگر اس کو کوئی معاملہ پیش آجائے تو آپؓ کسی دوسرے کو اس کی جگہ مقرر کر سکیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا اللہ کی قسم! میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا اور میں آپ لوگوں کی غمخواری اپنی جان سے کروں گا۔
(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ253، 256 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان 2012ء)
(سیدنا ابوبکر صدیقؓ شخصیت وکارنامے از صلابی مترجم صفحہ282 مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)
پھر
اہلِ رَبَذَہ پر حملے کے بارے میں
لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ سب انتظام کر کے ذُوحِسٰی اور ذُوالقَصَّہ چلے گئے۔ ذُوالقَصَّہ مدینہ سے چالیس میل کے فاصلے پر ایک جگہ ہے۔ نعمانؓ، عبداللہؓ اور سُوَیدؓ اپنی اپنی جگہ تھے یہاں تک کہ حضرت ابوبکرؓ نے اَبْرَق کے مقام پر اہلِ رَبَذَہ کو جالیا۔ شدید جنگ ہوئی۔ بالآخر اللہ نے حارث اور عوف کو شکست دی جو مُرَّة، ثَعلبہ اور عَبْس قبائل کے سردار تھے اور حُطَیْئَہ زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے چند روز اَبْرَق میں قیام کیا اور آپؓ نے اَبْرَق کی سرزمین کو مسلمانوں کے گھوڑوں کی چراگاہ بنا دیا۔ اس جنگ میں شکست کھا کر بَنُو عَبْس اور بنوذُبیان طُلَیحہ سے جا ملے جو سَمِیرَاء سے چل کر اس وقت بُزَاخَہ پرپہنچ کر ٹھہرا ہوا تھا۔ بُزَاخَہ بھی بنو اسد کے چشمہ کا نام ہے یہاں طُلَیحہ اَسَدِی کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں عظیم معرکہ ہوا تھا۔
(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 256 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ236 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)
(معجم البلدان جلد1صفحہ484-485 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
پھر ایک مصنف شکست خوردہ قبائل کی روش کے متعلق لکھتا ہے کہ عَبْس، ذُبیان، غَطفان، بَنِی بَکر اور مدینہ کے قریب بسنے والے دوسرے باغی قبائل کے لیے مناسب تھا کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی اور بغاوت سے باز آ جاتے۔ حضرت ابوبکرؓ کی کامل اطاعت اور ارکانِ اسلام کی بجا آوری کا اقرار کرتے اور مسلمانوں سے مل کر مرتدین کے خلاف نبرد آزما ہو جاتے۔ عقل کا تقاضا بھی یہی تھا اور واقعات بھی اسی کی تائید کرتے تھے۔ ابوبکرؓ کے ذریعہ سے ان کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ روم کی سرحدوں پر حصولِ کامیابی کے باعث اہلِ مدینہ کا رعب قائم ہو چکا تھا۔ مسلمانوں کی قوت و طاقت بڑھ چکی تھی اور اب وہ اس کمزوری کے عالم میں نہ تھے جو جنگِ بدر اور ابتدائی غزوات کے ایام میں ان پر طاری تھی۔ اب مکہ بھی ان کے ساتھ تھا اور طائف بھی اور ان دونوں شہروں کی سیادت سارے عرب پر مُسَلَّم تھی۔ پھر خود ان قبائل کے درمیان ایسے مسلمان کثرت سے موجود تھے جنہیں باغی کسی صورت ساتھ نہ ملا سکے تھے اور اس طرح ان کی پوزیشن بے حد کمزور ہو گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی دشمنی نے ان کی آنکھیں اندھی کر دی تھیں اور سود و زیاں کا احساس دلوں سے جاتا رہا تھا۔ انہوں نے اپنے وطنوں کو چھوڑ دیا اور قبیلہ بنی اسد کے نبوت کے جھوٹے دعویدار طُلَیحہ بن خُویلد سے جا ملے۔ جو مسلمان اُن کے درمیان موجود تھے وہ انہیں ان کے ارادوں سے باز نہ رکھ سکے۔ ان لوگوں کے پہنچ جانے سے طُلَیحہ اور مُسَیلمہ کی قوت و طاقت میں اضافہ ہو گیا اور یمن میں بغاوت کے شعلے زور و شور سے بھڑکنے لگے۔
(حضرت ابوبکرصدیقؓ کے فیصلے از عبداللہ مدنی صفحہ173-174مشتاق بک کارنر لاہور)
بہرحال یہ ہمیشہ یاد رہنا چاہیے کہ ان لوگوں نے بغاوت کی تھی اور جنگ کی تھی۔ صرف کسی دعوے پر یا کسی کے دعوے پر یہ جنگ نہیں ہوئی تھی۔ بغاوت کا بدلہ لیا جا رہا تھا اور جو جنگ تھی اس کا جواب جنگ سے دیا جا رہا تھا۔
منکرین زکوٰۃ پر فتح پانے اور حضرت ابوبکرؓ کی شجاعت اور عزم کا ذکر
کرتے ہوئے عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں۔ ان کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ہم اس مقام پر کھڑے تھے کہ اگر اللہ ابوبکر صدیقؓ کے ذریعہ سے ہماری مدد نہ فرماتا تو ہلاکت یقینی تھی۔ ہم سب مسلمانوں کا اتفاق کامل سے یہ خیال تھا کہ ہم زکوٰۃ کے اونٹوں کی خاطر دوسروں سے جنگ نہیں کریں گے اور اللہ کی عبادت میں مصروف ہو جائیں گے یہاں تک کہ ہمیں مکمل غلبہ حاصل ہو جائے لیکن ابوبکر صدیقؓ نے منکرینِ زکوٰۃ سے لڑنے کا عزم کر لیا۔ انہوں نے منکرین کے سامنے صرف دو باتیں پیش کیں، تیسری نہیں۔ پہلی یہ کہ وہ اپنے لیے ذلت و خواری قبول کر لیں اور اگر یہ منظور نہیں تو جلا وطنی یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔ اپنے لیے ذلّت و خواری قبول کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اقرار کریں کہ ان کے مقتول دوزخی اور ہمارے جنتی ہیں وہ ہمیں ہمارے مقتولوں کا خون بہا ادا کریں۔ ہم نے جو مالِ غنیمت ان سے وصول کیا اس کی واپسی کا مطالبہ نہ کریں لیکن جو مال انہوں نے ہم سے لیا ہے وہ ہمیں واپس کر دیں۔ اور جلا وطنی کی سزا بھگتنے کا مطلب یہ ہے کہ شکست کھانے کے بعد اپنے علاقوں سے نکل جائیں اور دور دراز مقامات میں جا کر زندگی بسر کریں۔
(ماخوذ از حضرت ابوبکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 118 شرکت پرنٹنگ پریس لاہور)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائلِ عرب نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے خلاف جنگ کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔ اس وقت حالت ایسی نازک تھی کہ حضرت عمرؓ جیسے انسان نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے نرمی کرنی چاہئے مگر حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا۔‘‘ اس کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ ’’ابوقُحافہ کے بیٹے کی کیا طاقت ہے کہ وہ اس حکم کو منسوخ کر دے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے دیا ہے۔ خدا کی قَسم! اگر یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اونٹ کا گھٹنا باندھنے کی ایک رسی بھی زکوٰۃ میں دیا کرتے تھے تو مَیں رسی بھی ان سے لے کر رہوں گا اور اس وقت تک دم نہیں لوں گا جب تک وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے۔‘‘ آپؓ نے ساتھیوں کو کہا ’’اگر تم اس معاملہ میں میرا ساتھ نہیں دے سکتے تو بےشک نہ دو۔ میں اکیلا ہی ان سے مقابلہ کروں گا۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ
’’کس قدر اتباع رسول ہے کہ نہایت خطرناک حالات میں باوجود اس کے کہ اکابر صحابہ لڑائی کے خلاف مشورہ دیتے ہیں پھر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حکم کو پورا کرنے کے لئے وہ ہر قسم کا خطرہ برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد8 صفحہ108-109)
پھر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک اَور جگہ لکھا ہے، بیان فرمایا ہے کہ ’’حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں جب فتنۂ ارتداد پھیل گیا اور صرف گاؤں میں نماز باجماعت رہ گئی اور لشکر بھی شام کو بھیج دیا گیا تو بھی آپؓ نے زکوٰۃ دینے والوں کے نام ارشاد بھیجا کہ رسول اللہؐ کے زمانے میں اگر کوئی رسہ دیتا تھا اور اب نہیں دیتا تو میں تلوار کے زور سے لوں گا۔ حضرت عمرؓ ایسے جری و بہادر نے بھی رائے دی کہ اس وقت مصلحتِ وقت نہیں کہ زکوٰۃ پر زور دیا جائے مگر آپؓ نے ان کی ایک نہ مانی۔ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ زکوٰۃ کس قدر ضروری ہے۔‘‘
(مدارجِ تقویٰ، انوارالعلوم جلد1 صفحہ382-383)
یہ بات جو حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمائی ہے یہ اپنی ایک تقریر کے دوران بیان فرمائی تھی جس میں تقویٰ کے مدارج بیان کیے تھے۔ اس میں بیان فرما رہے تھے کہ تقویٰ کے کون سے مدارج ہیں، زکوٰۃ کی کتنی اہمیت ہے اور تقویٰ پر چلنے والوں کے لیے یہ ضروری ہے اور آپؓ نے وہاں یہ بھی فرمایا تھا کہ
احمدیوں کو بھی اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ زکوٰۃ کتنی ضروری ہے
اور اس کا باقاعدہ اہتمام کرنا چاہیے۔
(ماخوذ از مدارجِ تقویٰ، انوارالعلوم جلد1 صفحہ383)
پھر ایک جگہ زکوٰۃ کے مسئلے کو بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’ایک بہت اہم مسئلہ زکوٰۃ کا ہے لیکن لوگوں نے اس کو سمجھا نہیں۔ خدا تعالیٰ نے نماز کے بعد اس کا حکم دیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میں زکوٰۃ نہ دینے والوں سے وہی سلوک کروں گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کفار سے کرتے تھے۔ ایسے لوگوں کے مرد غلام بنا لوں گا اور ان کی عورتیں لونڈیاں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسا ابتلا آیا تھا کہ عرب کے تین شہروں مکہ، مدینہ اور ایک اَور شہر کے علاوہ سب علاقہ عرب کا مرتد ہو گیا …… حضرت عمرؓنے عرض کیا کہ اچھا جو لوگ زکوٰۃ کے منکر ہیں ان سے صلح کر لیں۔ پہلے دوسرے مرتدین سے جنگ ہو جائے تو رفتہ رفتہ ان کی بھی اصلاح ہو جائے گی۔ اول ضرورت یہی ہے کہ جھوٹے مدعیانِ نبوت کا قلع قمع کیا جائے کیونکہ ان کا فتنہ سخت ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا اگر لوگ بکری کا بچہ یا اونٹ کے گھٹنہ باندھنے کی رسی کے برابر بھی زکوٰۃ کے مال میں سے ادا نہ کریں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کرتے تھے تو میں ان سے جنگ کروں گا اور اگر تم لوگ مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ اور جنگل کے درندے بھی مرتدین کے ساتھ مل کر حملہ کریں گے تو میں ان سے اکیلا لڑوں گا۔‘‘
(برکات خلافت، انوار العلوم جلد2 صفحہ222-223)
یہ بھی خلافت کی برکات میں سے ہے کہ شریعت کو قائم کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور خلیفۂ وقت پوری کوشش کرتا ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ ایک اَور جگہ بیان فرماتے ہیں۔ ایک اَور اعتراض لوگ کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے اس کا جواب بھی تیرہ سو سال سے پہلے ہی دے دیا ہے۔ اعتراض کرنے والے لوگ کہتے ہیں کہ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے خلافت کہاں سے نکل آئی؟ خلافت کے لیے تو یہ حکم نہیں ہے۔ لیکن یہ لوگ یاد رکھیں کہ حضرت ابوبکرؓ پر جب زکوٰۃ کے متعلق اعتراض ہوا تو وہ بھی اسی رنگ کا تھا کہ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے۔ ہاں یہ توحکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا ہے۔ اب وہ رہے نہیں اور کسی کو حق نہیں کہ وہ صدقات وصول کرے۔ جسے لینے کا حکم تھا وہ فوت ہو گیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہی جواب دیا کہ اب میں مخاطب ہوں۔ یعنی حضرت ابوبکرؓ اب مخاطب ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے، شریعت تو قائم ہے اس لیے اب خلیفۂ وقت مخاطب ہے اور حضرت مصلح موعودؓ جب یہ تقریر فرما رہے تھے تو آپؓ نے فرمایا کہ اسی کا ہم آہنگ ہو کر اپنے معترض کو میں کہتا ہوں کہ اب مَیں مخاطب ہوں۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اگر اُس وقت یہ جواب سچا تھا اور ضرور سچا تھا جو حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا تو یہ بھی درست ہے جو میں کہتا ہوں کہ آج میں مخاطب ہوں اور یہی اصول ہمیشہ خلافت کے ساتھ رہے گا۔ یہ یاد رکھنے والی بات ہے۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں اگر تمہارا اعتراض درست ہو تو اس پر قرآن مجید سے بہت سے احکام تم کو نکال دینے پڑیں گے اور یہ کھلی کھلی ضلالت ہے۔
(ماخوذ از منصبِ خلافت، انوارالعلوم جلد2 صفحہ59 – 60)
یہ باتیں آپ اس وقت بیان فرما رہے تھے جب ایک تقریر آپ نے منصب خلافت کے ضمن میں کی۔
پھر ایک اَور موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا کہ ’’جب آپؐ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ’’فوت ہوئے تو بہت سے نادان مسلمان مرتد ہو گئے۔ تاریخوں میں آتا ہے کہ صرف تین جگہیں ایسی رہ گئی تھیں جہاں مسجدوں میں باجماعت نماز ہوتی تھی۔ اسی طرح ملک کے اکثر لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا کیا حق ہے کہ وہ ہم سے زکوٰۃ مانگے۔ جب یہ رَو سارے عرب میں پھیل گئی اور حضرت ابوبکرؓ نے ایسے لوگوں پر سختی کرنی چاہی تو حضرت عمرؓ اور بعض اَور صحابہؓ حضرت ابوبکرؓ کے پاس پہنچے اور‘‘ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے ’’انہوں نے عرض کیا کہ یہ وقت سخت نازک ہے۔ اس وقت کی ذرا سی غفلت بہت بڑے نقصان کا موجب ہو سکتی ہے۔ اس لئے ہماری تجویز یہ ہے کہ اتنے بڑے دشمن کا مقابلہ نہ کیا جائے اور جو زکوٰۃ نہیں دینا چاہتے ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا جائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ تم میں سے جو شخص ڈرتا ہو وہ جہاں چاہے جائے۔ خدا کی قسم! اگر تم میں سے ایک شخص بھی میرا ساتھ نہ دے گا تو بھی مَیں اکیلا دشمن کا مقابلہ کروں گا اور اگر دشمن مدینہ کے اندر گھس آئے اور میرے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو قتل کر دے اور عورتوں کی لاشیں مدینہ کی گلیوں میں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں ان سے جنگ کروں گا اور اس وقت تک نہیں رکوں گا جب تک یہ لوگ اونٹ کا گھٹنہ باندھنے کی وہ رسی بھی جو پہلے زکوٰۃ میں دیا کرتے تھے نہ دینے لگ جائیں۔ چنانچہ انہوں نے‘‘ یعنی حضرت ابوبکرؓ نے ’’دشمن کی شرارت کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا اور آخر کامیاب ہوئے صرف اس لئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ کام مَیں نے ہی کرنا ہے۔ اسی لئے انہوں نے مشورہ دینے والے صحابہؓ کو کہہ دیا کہ تم میں سے کوئی شخص میرا ساتھ دے یا نہ دے میں اکیلا دشمن کا مقابلہ کروں گا یہاں تک کہ میری جان خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو جائے۔ پس جس قوم کے اندر یہ عزم پیدا ہو جائے۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ
’’جس قوم کے اندر یہ عزم پیدا ہو جائے وہ ہر میدان میں جیت جاتی ہے
اور دشمن کبھی اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔‘‘
(قومی ترقی کے دو اہم اصول انوار العلوم جلد19صفحہ 75، 76)
اور یہی قومی ترقی کا راز ہے جسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔
پھر ایک اَور موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب زکوٰۃ کے مسئلہ کے اختلاف کی وجہ سے عرب کے ہزاروں لوگ مرتد ہو گئے اور مُسَیلمہ مدینہ پر حملہ آور ہوا تو حضرت ابو بکرؓ کو جو اس وقت خلیفہ تھے اطلاع پہنچی کہ مُسَیلمہ ایک لاکھ کی فوج لیکر حملہ آور ہو رہا ہے۔ اس وقت کچھ لوگوں نے حضرت ابو بکرؓ کو یہ مشورہ دیا کہ چونکہ اس وقت ہم ایک نازک دور میں سے گزر رہے ہیں اور زکوٰۃ کے مسئلہ پر اختلاف کی وجہ سے لوگ ارتداد اختیار کرتے جارہے ہیں اور اِدھر مُسَیلمہ ایک بہت بھاری فوج کے ساتھ حملہ آور ہوا ہے اس لئے ان حالات کے پیش نظر قرینِ مصلحت یہی ہے کہ آپؓ زکوٰۃ کا مطالبہ سرِ دست نہ کریں اور ان لوگوں سے صلح کر لیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان خدشات کی ذرا بھی‘‘ پرواہ نہیں کی اور ’’پرواہ نہ کرتے ہوئے ان مشورہ دینے والوں سے کہا کیا تم مجھے وہ بات منوانا چاہتے ہو جو خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے صریح خلاف ہے؟ زکوٰۃ کا حکم خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے۔ اس لئے میرا فرض ہے کہ میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے تحفظ کے لئے ہر ممکن کوشش کروں۔ صحابہؓ نے پھر کہا کہ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ صلح کر لی جائے۔ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا اگر آپ نہیں لڑنا چاہتے اور دشمن کے مقابلہ کی تاب نہیں لاسکتے تو آپ لوگ جائیں اور اپنے گھروں میں جا کر بیٹھیں۔ خدا کی قسم! مَیں دشمن سے اس وقت تک اکیلا لڑوں گا جب تک وہ اونٹ کے گھٹنے باندھنے کی رسی بھی اگر زکوٰۃ میں دینی تھی اسے ادا نہیں کر دیتے اور جب تک میں ان لوگوں کو زکوٰۃ دینے کا قائل نہ کر لوں گا ان سے کبھی صلح نہ کروں گا۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ’’پس حقیقی ایمان کی یہی علامت ہوا کرتی ہے۔‘‘
(ہمارے ذمہ تمام دنیا کو فتح کرنے کا کام ہے، انوار العلوم جلد18 صفحہ458)
اور پس یہی ایمان ہے۔
اگر ہم میں ہو گا تو ہم دنیا میں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچا سکیں گے اور
کامیاب ان شاء اللہ ہوں گے۔
پھر ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ ’’آپؐ کی وفات کے بعد عرب کے قبائل نے بغاوت کر دی اور انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا۔ وہ بھی یہی دلیل دیتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سِوا کسی اَور کو زکوٰۃ لینے کا اختیار ہی نہیں دیا۔ چنانچہ وہ فرماتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ ’’…… اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کے اموال کا کچھ حصہ بطور زکوٰۃ لے۔ یہ کہیں ذکر نہیں کہ کسی اور کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زکوٰۃ لینے کا اختیار ہے مگر مسلمانوں نے ان کی اس دلیل کو تسلیم نہ کیا حالانکہ وہاں خصوصیت کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی مخاطب کیا گیا ہے۔ بہرحال جو لوگ اس وقت مرتد ہوئے ان کی بڑی دلیل یہی تھی کہ زکوٰۃ لینے کا صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار حاصل تھا کسی اَور کو نہیں۔ اور اس کی وجہ یہی دھوکا تھا کہ نظام سے تعلق رکھنے والے احکام ہمیشہ کے لئے قابلِ عمل نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ احکام مخصوص تھے۔ مگر‘‘ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’…… یہ خیال بالکل غلط ہے اور اصل حقیقت یہی ہے کہ جس طرح نماز روزہ کے احکام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک ختم نہیں ہو گئے اسی طرح قومی یا ملکی نظام سے تعلق رکھنے والے احکام بھی آپ کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہو گئے اور نماز باجماعت کی طرح جو ایک اجتماعی عبادت ہے اِن احکام کے متعلق بھی ضروری ہے کہ ہمیشہ مسلمانوں میں آپ کے نائبین کے ذریعہ ان پر عمل ہوتا رہے۔‘‘
(خلافت راشدہ، انوار العلوم جلد15 صفحہ30، 31)
پھر ایک موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے یہ بھی فرمایا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو اس وقت سارا عرب مرتد ہو گیا۔ سوائے مکہ اور مدینہ کے اور ایک چھوٹے سے قصبہ کے تمام لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تھا کہ خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً ان کے مالوں سے صدقہ لے۔ کسی اَور کو یہ اختیار نہیں کہ ہم سے زکوٰۃ وصول کرے۔ غرض سارا عرب مرتد ہو گیا اور وہ لڑائی کے لیے چل پڑا۔ صرف مرتد نہیں ہو گیا بلکہ لڑائی کے لیے چل پڑا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں گو اسلام کمزور تھا مگر قبائلِ عرب متفرق طور پر حملہ کرتے تھے۔ کبھی ایک گروہ نے حملہ کر دیا اور کبھی دوسرے نے۔ جب غزوۂ احزاب کے موقع پر کفار کے لشکر نے اجتماعی رنگ میں مسلمانوں پر حملہ کیا تو اس وقت تک اسلام بہت کچھ طاقت پکڑ چکا تھا گو ابھی اِتنی زیادہ طاقت حاصل نہیں ہوئی تھی کہ انہیں آئندہ کے لیے کسی حملے کا ڈر ہی نہ رہتا۔ اس کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ فتح کرنے کے لیے گئے تو اس وقت عرب کے بعض قبائل بھی آپؐ کی مدد کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اِس طرح خدا نے تدریجی طور پر دشمنوں میں جوش پیدا کیا تا کہ وہ اتنا زور نہ پکڑ لیں کہ سب ملک پر چھا جائیں لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں یکدم تمام عرب مرتد ہو گیا۔ صرف مکہ اور مدینہ اور ایک چھوٹا سا قصبہ رہ گئے۔ باقی تمام مقامات کے لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور وہ لشکر لے کر مقابلہ کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ صرف زکوٰۃ کا انکار نہیں کیا بلکہ لشکر لے کر مقابلے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ بعض جگہ تو ان کے پاس ایک ایک لاکھ کا بھی لشکر تھا۔ مگر اِدھر صرف دس ہزار کا ایک لشکر تھا اور وہ بھی شام کو جا رہا تھا اور یہ وہ لشکر تھا جسے اپنی وفات کے قریب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لیے تیار کیا تھا اور اسامہ کو اس کا افسر مقرر کیا تھا۔ باقی لوگ جو رہ گئے تھے وہ یا تو کمزور اور بڈھے تھے اور یا پھر گنتی کے چند نوجوان تھے۔ یہ حالات دیکھ کر صحابہ نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اسامہ کا لشکر بھی روانہ ہو گیا تو مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں ہو سکے گا۔ چنانچہ اکابر صحابہ کا یہ وفد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے اور عرض کیا کہ کچھ عرصہ کے لیے اس لشکر کو روک لیا جائے۔ جب بغاوت فرو ہو جائے تو پھر بےشک اسے بھیج دیا جائے مگر اس وقت اس کا بھیجنا خطرہ سے خالی نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت غصہ کی حالت میں فرمایا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوقُحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اسے روک لے۔ بہرحال آپؓ نے کہا یہ تو روانہ ہو گا اور میں اِس لشکر کو ضرور روانہ کروں گا جس کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔ اگر تم دشمن کی فوجوں سے ڈرتے ہو تو بے شک میرا ساتھ چھوڑ دو۔ میں اکیلا تمام دشمن کا مقابلہ کروں گا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْئًا کی صداقت کا بڑا ثبوت ہے۔یعنی خلافت پہ قائم ہونے والے یا خلافت کے ساتھ رہنے والے یہ مومن میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور یہ وہ حالت ہے جو خلافت کے نظام کے ساتھ جاری ہے اور جاری رہے گی۔
پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ
دوسرا سوال زکوٰۃ کا تھا۔
صحابہ نے عرض کیا کہ اگر آپ لشکر نہیں روک سکتے تو صرف اتنا کر لیجیے کہ اِن لوگوں سے عارضی صلح کر لیں اور انہیں کہہ دیں کہ ہم اس سال تم سے زکوٰۃ نہیں لیں گے اور اس دوران میں ان کا جوش ٹھنڈا ہو جائے گا اور تفرقہ کے مٹنے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے گی۔ لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایساہرگز نہیں ہوگا۔ یہ بات بھی نہیں مانی۔ اس پر صحابہ نے کہا کہ اگر جیشِ اسامہ بھی چلا گیا اور ان لوگوں سے عارضی صلح بھی نہ کی گئی تو پھر دشمن کا کون مقابلہ کرے گا؟ مدینہ میں تو یہ بڈھے اور کمزور لوگ ہیں اور یہ صرف چند نوجوان ہیں وہ بھلا لاکھوں کا کیا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا۔ اے دوستو! اگر تم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو ابوبکر اکیلا ان کا مقابلہ کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوگا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ دعویٰ اس شخص کا ہے جسے فنونِ جنگ سے کچھ زیادہ واقفیت نہیں تھی اور جس کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ دل کا کمزور ہے۔ پھر یہ جرأت، یہ دلیری، یہ یقین اور یہ وثوق اس میں کہاں سے پیدا ہوا۔ اسی بات سے یہ یقین پیدا ہوا کہ
حضرت ابوبکرؓ نے سمجھ لیا تھا کہ میں خلافت کے مقام پر خدا تعالیٰ کی طرف سے
کھڑا ہوا ہوں اور مجھ پر ہی تمام کام کی ذمہ داری ہے۔
پس میرا فرض ہے کہ میں مقابلہ کے لیے نکل کھڑا ہوں۔ کامیابی دینا یا نہ دینا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اگر وہ کامیابی دینا چاہے گا تو آپ دے دے گا اور اگر نہیں دینا چاہے گا تو سارے لشکر مل کر بھی کامیاب نہیں کر سکتے۔
(ماخوذ از خلافت راشدہ، انوار العلوم جلد15 صفحہ543تا 545۔ مطبوعہ قادیان 2008ء)
حضرت ابوبکرؓ کے فیصلہ کے کیسے زبردست نتائج پیدا ہوئے
اس بارے میں بھی حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے صحابہ کی خلافِ مرضی حضرت اسامہ بن زید ؓکو لشکر سمیت مؤتہ کی طرف روانہ کر دیا۔ چنانچہ چالیس دن بعد یہ مہم اپنا کام پورا کر کے فاتحانہ شان سے مدینہ واپس آئی اور خدا کی نصرت اور فتح کو نازل ہوتے سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ پھر اس مہم کے بعد حضرت ابوبکرؓ جھوٹے مدعیان کے فتنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اس فتنہ کی ایسی ایسی سرکوبی کی کہ اسے کچل کر رکھ دیا اور یہ فتنہ بالکل ملیا میٹ ہو گیا۔ بعد ازاں یہی حال مرتدین کا ہوا۔اور صحابہ کبار بھی حضرت ابوبکرؓ سے اختلاف کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ جو لوگ توحید اور رسالت کا اقرار کرتے ہیں اور صرف زکوٰۃ دینے کے منکر ہیں ان پر کس طرح سے تلوار اٹھائی جا سکتی ہے لیکن حضرت ابوبکرؓ نے نہایت جرأت اور دلیری سے کام لیتے ہوئے فرمایا کہ اگر آج زکوٰۃ نہ دینے کی اجازت دے دی تو آہستہ آہستہ لوگ نماز روزے کو بھی چھوڑ بیٹھیں گے اور اسلام محض نام کا رہ جائے گا۔ الغرض ایسے حالات میں حضرت ابوبکرؓ نے منکرینِ زکوٰۃ کا مقابلہ کیا اور انجام یہی تھا کہ اس میدان میں بھی آپ کو فتح اور نصرت حاصل ہوئی اور تمام بگڑے ہوئے لوگ راہ حق کی طرف لوٹ آئے۔
(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد10 صفحہ478)
ابھی یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ اس کا ذکر کروں گا۔
جیسا کہ میں ہمیشہ تحریک کر رہا ہوں آجکل دنیا کے حالات کے لیے دعائیں کرتے رہیں، ان میں کمی نہ کریں۔
خاص طور پر یہ دعا کریں کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے لگ جائے،
یہی ایک حل ہے دنیا کو تباہی سے بچانے کا۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ہماری دعائیں بھی قبول فرمائے۔
میں
ایک مرحوم کا ذکر
بھی کرنا چاہتا ہوں۔ جمعہ کے بعد جنازہ پڑھاؤں گا۔ یہ
مکرم و محترم مولانا مبارک نذیر صاحب
ہیں جو جامعہ کینیڈا کے پرنسپل بھی رہے ہوئے ہیں اور مبلغ انچارج کینیڈا بھی رہے ہیں۔ 8؍مارچ کو ان کی وفات ستاسی سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ بڑے بے نفس، متوکل علی اللہ، دعا گو، قناعت پسند انسان تھے۔ بڑے درویش صفت تھے۔
ان کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ حقیقی بزرگ دیکھنے کا احساس پیدا ہوتا تھا۔
ان کے خاندانی تعارف کے بارے میں بھی بیان کر دوں کہ آپ سلسلہ کے کامیاب مبلغ مولانا نذیر احمد علی صاحب اور مکرمہ آمنہ بیگم صاحبہ کے دوسرے صاحبزادے تھے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا حضرت بابو فقیر علی صاحبؓ کے ذریعہ ہوا تھا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور بعد میں وہ قادیان میں پہلے اسٹیشن ماسٹر مقرر ہوئے تھے۔ قادیان میں ان کے دادا کا مکان بھی تھا جو فقیر منزل کے نام سے معروف تھا۔ مولانا مبارک نذیر صاحب کے والد حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کے مطابق 1929ء میں پہلے گھانا خدمت کی توفیق ملی اور بعدازاں ان کا تقرر سیرالیون میں ہوا۔ 1943ء میں ان کے والد حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب سیرالیون واپس جا رہے تھے تو مبارک نذیر صاحب بھی اپنے والد اور والدہ کے ساتھ سیرالیون کے سفر پر روانہ ہوئے۔ اس سفر کے دوران ایک ایمان افروز واقعہ بھی ہوا اور مولانا مبارک نذیر صاحب اس کا ذکر کرتے ہیں۔ بحری جہاز کے ذریعہ سے یہ سفر تین ماہ کا تھا۔ اس وقت مبارک نذیر صاحب کی عمر گیارہ سال کی تھی۔ دوران سفر ان کی طبیعت خراب ہوئی اور بیماری کے آثار ایسے ظاہر ہوئے کہ لگتا تھا کہ اب جان نہیں بچے گی۔ بحری جہاز کا سفر تھا جیساکہ میں نے کہا۔ تو جہاز پر چڑھنے لگے یا جہاز بدلا یا اس وقت چڑھنے لگےتھے یاسفر سے پہلے کی بات ہے بہرحال جہاز پر چڑھنے سے پہلے یہ بیمار ہو چکے تھے اور جہاز کی انتظامیہ نے ان کی حالت دیکھ کر ان کے والد صاحب سے کہا کہ آپ کا بیٹا ادھ مرا ہے۔ یہ تو تقریباً ختم ہوا ہوا ہے۔ اگر دوران سفر یہ فوت ہو گیا تو ہمارے پاس تو جہاز میں لاش کو رکھنے کے لیے کوئی سرد خانہ نہیں ہے، کوئی سہولت نہیں ہے۔ اس لیے ہم آپ کے بچے کی وجہ سے آپ کو نہیں لے جا سکتے۔ مولانا صاحب نے اصرار کیا کہ مجھے خلیفة المسیح الثانی ؓکا حکم ہے اور میں نے ہر حال میں اس جہاز پر سوار ہونا ہے۔ پھر جہاز کی انتظامیہ نے اس شرط پر انہیں جہاز پر چڑھنے کی اجازت دی کہ وہ یہ لکھ کر دیں کہ اگر ان کا بیٹا دوران سفر مر گیا تو اس کی لاش کو سمندر میں پھینکنے کی اجازت ہو گی۔ جب یہ شرط جہاز کے کیپٹن نے کہی تو مبارک نذیر صاحب کی والدہ رونے لگیں۔ سکتے میں آ گئیں اور مولانا نذیر علی صاحب سے کہنے لگیں کہ یہ بیٹا ہے، ہمارا ہے۔ کسی اَور جہاز پر چلے جائیں گے۔ مولانا نذیر علی صاحب نے اپنی بیوی کو تسلی دی کہ میں ایک مبلغ ہوں جسے حضرت صاحب نے ایک ذمہ داری دے کر بھیجا ہے۔ مجھے کیا معلوم کہ کب دوسرا جہاز ملے۔ تم تسلی رکھو۔ بیوی کو کہا تم تسلی رکھو مبارک کو کچھ نہیں ہوگا۔ یہ کہہ کر انہوں نے جہاز کے کپتان سے پُریقین لہجے میں کہا،کہاں دستخط کرنے ہیں لاؤ کاغذ اور پھر کیپٹن کو کہا کہ اگر یہ مر گیا تو اسے سمندر میں پھینک دینا لیکن ساتھ میں تمہیں یہ بھی بتا دوں کہ اسے کچھ بھی نہیں ہو گا۔ یہ وہ توکّل تھا جو آپ کے والد کو خدا تعالیٰ کی ذات پر تھا کہ مَیں ایک واقف زندگی ہوں، اس کے دین کی اشاعت کے لیے نکلا ہوں، خدا تعالیٰ ضرور میری مدد اور میرے اہل و عیال کی حفاظت فرمائے گا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ گیارہ سالہ بچہ نہ صرف زندہ رہا بلکہ اس نے ستاسی سال عمر پائی اور اسلام اور احمدیت کی خدمت کی توفیق بھی ملی۔ اپنے آباء کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی زندگی بھی وقف کی۔ اس کی سعادت بھی پائی اور خدمت دین کے میدان میں خود بھی توکل علی اللہ کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔
گریجوایشن کرنے کے بعد ان کو سرکاری محکمے میں اچھی نوکری بھی مل گئی تھی جہاں کچھ عرصہ انہوں نے کام کیا پھر حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر الفضل میں یہ اعلان پڑھا کہ وقف کریں، چاہے عارضی وقف کریں۔ تو اپنے کام سے استعفیٰ دے کر حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓکی خدمت میں اپنے آپ کو عارضی وقف کے لیے پیش کیا اور حضرت خلیفہ ثانیؓ کے ارشاد کی روشنی میں 1963ء میں پہلی دفعہ وقف عارضی کے لیے سیرالیون چلے گئے جہاں ایک لمبا عرصہ آپ کے والد حضرت مولانا نذیر علی صاحب کو بھی خدمت کی توفیق مل چکی تھی اور ان کی قبر بھی یہیں تھی، وہیں دفن ہوئےتھے مولوی نذیر علی صاحب۔ سیرالیون پہنچتے ہی سب سے پہلے اپنے والد کی قبر پر حاضر ہوئے۔ اس وقت موصوف نے اپنے والد کے وہ الفاظ یاد کیے جو مکرم مولانا نذیر علی صاحب نے 26؍نومبر 1945ء کو اپنی ایک روح پرور تقریر میں کہے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ آج ہم خدا تعالیٰ کے لیے جہاد کرنے اور اسلام کو مغربی افریقہ میں پھیلانے کے لیے جا رہے ہیں۔ موت فوت انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ ہم میں سے اگر کوئی فوت ہو جائے تو آپ لوگ یہ سمجھیں کہ دنیا کا کوئی دور دراز حصہ ہے جہاں تھوڑی سی زمین احمدیت کی ملکیت ہے۔ احمدی نوجوانوں کا فرض ہے کہ اس تک پہنچیں اور اس مقصد کو پورا کریں جس کی خاطر اس زمین پر ہم نے قبروں کی شکل میں قبضہ کیا ہو گا۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ تھوڑی سی زمین ہے احمدیت کی جہاں ایک احمدی مبلغ کی قبر ہے اور اس قبر کی وجہ سے اس زمین پر اس کا قبضہ ہے۔ پس ہماری قبروں کی طرف سے یہی مطالبہ ہو گا کہ اپنے بچوں کو ایسے رنگ میں ٹریننگ دیں کہ جس مقصد کے لیے ہماری جانیں صَرف ہوئیں اسے وہ پورا کریں۔ چنانچہ اپنے والد بزرگوار کی وصیت کو پورا کرتے ہوئے مولانا مبارک نذیر صاحب وہاں پہنچے اور اپنے والد کی قبر پر حاضر ہو کر کہا کہ لبیک میں حاضر ہوں اور آپ کی پکار کا جواب دینے کے لیے آیا ہوں۔
سیرالیون کے مختلف مقامات میں آپ کو خدمت کی توفیق ملی۔ اس کے بعد خلیفة المسیح الرابعؒ کے ارشاد پر 1985ء میں پاکستان واپس آ گئے۔ 1985ء میں جب افریقہ سے واپس آئے تو پھر حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ کی خدمت میں انہوں نے عارضی کی بجائے مستقل زندگی وقف کرنے کی درخواست دی جسے حضور نے قبول فرمایا اور پھر 1988ء میں ان کو بطور مبلغ کینیڈا بھجوایا گیا جہاں یہ مختلف جگہوں پر مبلغ کے طور پر خدمت سرانجام دیتے رہے۔ 2003ء میں جب یہ فیصلہ ہوا کہ جامعہ کینیڈا کھولا جائے جس کی منظوری حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے دے دی تھی اور پرنسپل کے طور پر ان کی تقرری بھی کی تھی لیکن جامعہ کھلا نہیں تھا ان کی زندگی تک۔ جو بعد میں پھر میرے وقت میں کھلا اور پھر میں نے بھی اسی کی توثیق کر دی جو حضرت خلیفہ رابعؒ نے ان کو مقرر کیا تھا کہ پرنسپل یہی رہیں گے۔ بہرحال یہ جامعہ احمدیہ کینیڈا کے پہلے پرنسپل تھے۔ پھر 2009ء تک انہوں نے جامعہ میں بطور پرنسپل خدمت کی۔ 2010ء میں مشنری انچارج کینیڈا کی خدمت پر ان کو میں نے مقرر کیا اور 2018ء تک ان کو بھرپور خدمت کی توفیق ملی۔ کُل عرصہ خدمت ان کا انسٹھ سال پر محیط ہے۔ عارضی وقف بھی اُن کا مستقل وقف ہی تھا۔ اسی طرح مولانا صاحب کو بطور مرکزی نمائندہ کئی جلسوں اور پروگراموں میں شرکت کی توفیق ملی اور ان کی تقریریں اپنے اور غیر بہت پسند کیا کرتے تھے، بہت اثر کرنے والی تقریریں ہوا کرتی تھیں۔ سننے والوں کو بالکل اپنی طرف کھینچ لیا کرتے تھے۔ 2016ء میں ان کو میری نمائندگی میں گوئٹےمالا میں نور ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھنے کی بھی توفیق ملی۔ پھر ان کے تبلیغی مضامین بھی شائع ہوتے تھے کینیڈا کے نیشنل نیوز، ٹورنٹو سٹار اور آٹوا سٹیزن جیسے اخبارات میں شائع ہوتے تھے۔ مولانا مبارک نذیر صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب تجلیات الٰہیہ اور فتح اسلام کا انگریزی ترجمہ کرنے کی توفیق ملی۔ پھر گلف کرائسز جو حضرت خلیفہ رابع ؒکی کتاب تھی اس کا بھی انہوں نے ترجمہ کیا۔
ان کے لواحقین میں ان کی اہلیہ امة الحفیظ نذیر صاحبہ اور تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ یہ بہت سی خصوصیات کے حامل تھے اور ایک مثالی واقف زندگی تھے اور مربیان کے لیے خاص طور پر ایک نمونہ تھے۔ ان کی زندگی دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی ایک عملی تصویر تھی۔ ہمیشہ جماعت کی خدمت کی اور خلیفہ وقت کی اطاعت کو اپنا نصب العین بنایا۔ جیسا کہ میں نے کہا فن تقریر میں بھی مہارت رکھتے تھے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں بڑے قادر الکلام تھے۔ بہت پُراثر تقریریں ہوتی تھیں۔ ان کی اہلیہ امة الحفیظ صاحبہ لکھتی ہیں کہ ساری زندگی بہت نیکی اور تقویٰ کے ساتھ انہوں نے بسر کی۔ جماعت کے ایک ایک پیسے کا درد رکھتے تھے اور اپنی زندگی نہایت سادگی سے گزاری۔ سیرالیون چھوڑنے کے بعد بھی وہاں کے بہت سے غرباء کی مدد مستقل طور پر خاموشی سے کرتے۔ کہتی ہیں میں اس بات کی گواہ ہوں کہ وہ بہترین واقف زندگی کے ساتھ ساتھ بہترین خاوند اور نہایت شفیق باپ بھی تھے۔ ہمیشہ اس بات کی فکر میں رہے کہ جماعت مجھ پر اتنا خرچ کر رہی ہے تو میں کس طرح فائدہ پہنچا سکتا ہوں۔ اکثر اس بات کو بھی دہراتے تھے کہ میں خلیفۂ وقت کی ناراضگی کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کر سکتا۔
ان کے بچوں کے بھی تاثرات ہیں ساروں نے اکثر یہی لکھا ہے کہ والد صاحب کا اللہ تعالیٰ پر اور آخرت پر بڑا پکا ایمان تھا۔ خلافت کی اطاعت اور نظام جماعت پر پختہ یقین تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ پر بہت زیادہ توکل تھا اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کبھی نہیں چھوڑے گا اور ہمیشہ میری مدد کو آئے گا اور اللہ تعالیٰ کا سلوک بھی ان سے یہی تھا۔ مالی تحریکات کے لیے جہاں بھی جاتے، بعد میں جب مشنری انچارج تھے اس وقت بھی امیر صاحب جہاں بھی بھیجتے تھے یا اس کے علاوہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جب ان کی طبیعت خراب ہوئی ہے کبھی کبھی ان سے فائدہ اٹھایا جاتا تھا، جہاں بھی یہ جاتے تھے مالی قربانی کی تحریک کرتے تھے اور لوگوں کو اثر ہوتا تھا۔ اس لیے کہ پہلے خود اس میں حصہ ڈالتے تھے پھر باقی جماعت کو تلقین کرتے تھے۔
ان کی بڑی بیٹی کہتی ہیں کہ خلافت احمدیہ کے ساتھ مضبوط تعلق رکھنے کا مشورہ دیتے تھے۔ ہمیشہ ہم میں .نظامِ جماعت کی محبت اور احترام پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کی یہ خواہش تھی کہ ہم ہمیشہ خلیفة المسیح کی ہر ہدایت پر عمل کریں۔ کہتی ہیں کہ شاذ ہی کوئی ایسی مجلس ہوتی تھی جس میں ان باتوں کی تلقین نہ کرتے۔ پھر پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں جب بھی اکٹھے ہوتے تو ان سب کو پتا تھا کہ ہمیں بٹھا کر آپ نصیحت کریں گے اور نصیحت میں ہمیشہ یہ پیغام ہوتا تھا کہ ہمیں دنیاوی مشاغل میں نہیں پڑنا چاہیے، ہمیں ہمیشہ اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ اور خلافت سے ہے۔ پھر کہتی ہیں کہ ہمیں بتاتے تھے کہ جماعت کا کام تو مکمل ہو کر رہے گا اس میں تو کوئی شک نہیں اگر آپ لوگ جماعت کی خدمت نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ اَور لوگوں کو اس سے بہتر کام کرنے کے لیے لے آئے گا۔
پھر ان کی چھوٹی بیٹی ایک واقعہ لکھتی ہیں کہ سیرالیون میں ایک مسجد کی تعمیر کے وقت جب مزدوروں نے تنخواہ کا مطالبہ کیا، تعمیر ہو رہی تھی، پیسے تُھڑ گئے، اس وقت والد صاحب کے پاس دینے کے لیے رقم موجود نہیں تھی تاہم مولانا مبارک نذیر صاحب نے ان سے کہا کہ وہ کل آئیں تو ان کو ان کی تنخواہ دے دیں گے، جو اجرت ہے وہ دے دیں گے۔ جب صبح ہوئی اور مبارک نذیر صاحب اپنے گھر سے باہر نکلے تو دیکھتے ہیں کہ مزدور تو سامنے کھڑے انتظار کر رہے ہیں اور پیسے کا انتظام ابھی تک نہیں ہوا تھا۔ اس پر انہوں نے مزدوروں سے کہا کہ ابھی میرے پاس پیسے نہیں ہیں لیکن میں دعا کر رہا ہوں تھوڑا سا انتظار کرو۔ ان شاء اللہ جلد اللہ تعالیٰ انتظام فرمائے گا۔ اسی دوران کہتے ہیں ایک گاڑی تیزی سے ان کے پاس آئی اور ان کو ایک لفافہ دیا جس میں رقم تھی اور ان سے کہا کہ کسی شخص نے سنا تھا کہ آپ مسجد بنا رہے ہیں اس لیے اس نے یہ پیسے بھجوائے ہیں، یہ آپ رکھ لیں۔ اس سے پہلے کہ والد صاحب اس سے پوچھتے کہ کس نے پیسے دیے ہیں وہ گاڑی لفافہ دے کے تیزی سے چلی گئی۔ کہتے ہیں ان کو اس بات پر یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا سن لی ہے۔ اس طرح انہوں نے مزدوروں کو رقم ادا کر دی۔
تو یہ تھا ان کا اللہ تعالیٰ پر توکّل اور پھر اللہ تعالیٰ کا ان سے سلوک بھی۔ اس قسم کے توکّل اور اللہ تعالیٰ کے ان کے ساتھ سلوک کے بےشمار واقعات ہیں جو لوگوں نے لکھے ہیں مختلف لوگوں نے مربیان نے بھی لکھے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا یقیناً وہ ایک عالم باعمل تھے اور اسی لیے ان کی تقریروں کا لوگوں پر اثر بھی بہت ہوتا تھا لیکن خلافت کے سامنے ان کی عاجزی کی انتہا تھی۔
اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، ان کی اولاد اور نسل کو ان کے نقش قدم پر چلائے۔ ان کی دعاؤں کا ان کی اولاد کو وارث بنائے، نسل کو وارث بنائے اور اللہ تعالیٰ جماعت کو بھی ان جیسے بے لوث خدمت کرنے والے عطا فرماتا رہے۔ خاص طور پر جامعہ کینیڈا کے جو پڑھے ہوئے مربیان ہیں انہوں نے ان کے ساتھ بہت سے واقعات لکھے ہیں۔ کس طرح وہ تربیت کرتے تھے، کس طرح انہوں نے تبلیغ کرنا سکھایا، کس طرح اخلاق سکھائے، کس طرح دین سکھایا۔ بہرحال ان مربیان نے بہت فیض پایا۔ تو یہ ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ واقعات صرف یاد رکھنے کے لیے یا بیان کرنے کے لیے نہ ہوں بلکہ ان مربیان کو بھی ان چیزوں کا عملی نمونہ بننا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 08اپریل 2022ء)