• 6 مئی, 2024

رمضان اور اصلاحِ نفس

رمضان اورقرآن آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ قرآن کے نزول کا آغاز 24رمضان کو ہوا۔ کہتے ہیں کہ قرآن کریم رمضان میں نازل ہوا یا رمضان کے بارے میں نازل ہوا۔ حضرت جبرائیل ؑرمضان میں نازل ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قرآن کا ورد کیا کرتے تھے۔ آنحضور ﷺ خود بھی کثرت کے ساتھ رمضان میں تلاوت فرماتے اور صحابہ کرامؓ کو بھی کثرت کے ساتھ رمضان میں تلاوت کرنے کی ہدایت فرماتے۔

يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْ ءٍتَوَ دُّلَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِیْدًا وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهُ وَاللّٰهُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِo

(آل عمران:31 )

ترجمہ: جس دن ہر جان جو نیکی بھی اس نے کی ہو گی اُسے اپنے سامنے حاضر پائے گی اور اس بدی کو بھی جو اس نے کی ہو گی۔ وہ تمنا کرے گی کہ کاش اس کے اور اس (بدی) کے در میان بہت دور کا فاصلہ ہوتا اور اللہ تمہیں اپنے آپ سے خبر دار کر تا ہے حالانکہ الله بندوں سے بہت مہربانی سے پیش آنے والا ہے۔

حضرت ابراہیم تیمیؒ ایک بزرگ گزرے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے نفس کو سمجھانے کیلئے اسے تصوّراتی جنت میں لے گیا۔ میرے نفس نے وہاں کے مزیدار پھل کھائے اور شیریں نہروں سے پانی پیا اور جنت کے مزے اڑائے ۔پھر میں اپنے نفس کو لے کر دوزخ گیاوہاں اسے زقّوم کا درخت کھانے کو ملا اور زخموں کے دھوون اور پیپ اور کھولتا ہوا پانی پینے کے لئے اور آگ اور بیڑیوں میں قید کیا گیا۔ تب میں نے اسے پوچھا بتا کیا چاہتا ہے تو؟ میرے نفس نے جواب دیا أُرِيْدُ أُنْ أَرُدَّ إِلٰى الدُّنْيَا فَأَعْمَلَ صَالِحًا کہ میں چاہتا ہوں کہ دنیا میں لوٹ جاؤں اور نیک عمل بجالاؤں تا کہ جنت میں داخل ہوں تب میں نے اپنے نفس سے کہا دیکھ تیری تمنا تجھے مل گئی۔ تو دنیا میں ہے اس لئے نیک عمل بجالا اور گناہوں سےدوررہ۔

(محاسبة النفس لابن أبي الدنيا ،اجهاز النفس في الأعمال)

ماہ رمضان اصلاح نفس کا مہینہ ہے اور خدا تعالیٰ اس بابرکت مہینہ میں ہمیں ایک ایساماحول فراہم کرتا ہے کہ ہم اس میں اپنی اصلاح کر سکیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جب ماہ رمضان آتا ہے تو فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِيْنُ یعنی جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔

(صحيح البخاری، کتاب الصوم، هل يقال رمضان أو شهر رمضان)

سو جب سب ایک جہت کو چلنے لگ جائیں تو اس جہت میں چلنا آسان ہو جاتا ہے کیونکہ کوئی روک پیش قدمی سے روکتی نہیں۔ پس جب ایک چیز دوسری چیز کی ممد بن جائے اور ایک کام کرنے سے دوسرے کام آسان ہو جائیں تو پیش قدمی تیز کر دینی چاہئے۔ اس لئے آپ ﷺ فرماتے ہیں۔ روزه (گناہوں کے خلاف ایک حفاظتی تدبیر ہے۔ پس روزہ رکھنے والے کو چاہئے کہ وہ لَا يَرْفُثْ وَلَا يَجْهَلْ کہ نہ زبان سے کوئی گناہ کرے اور نہ اپنے دوسرے اعضاء کو کسی ایسے کام میں لگائے جس سے خداتعالیٰ ناراض ہو جائے۔

(صحيح البخاري، کتاب الصوم، هل يقول إني صائم)

سو روزے کا ایک ہدف ہے جو اس ہدف کو پورا نہیں کر رہا تو اس کے روزہ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِه جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنانہ چھوڑے۔ تو خدا کو اس کے بھوکا پیاسارہنے کی کوئی حاجت نہیں۔

(صحيح البخاری، کتاب الصوم، من لم يدع قول الزور)

کیونکہ روزہ تو جائز کاموں سے رکنے کا صبر پیدا کر دیتا ہے تو ایسے میں ناجائز کام کیسے ہو سکتےہیں۔
آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ الصِّيَامُ نصِفُ الصَّبَرِ یعنی روزے تو آدھا صبر ہیں۔

(سنن ابن ماجہ، کتاب الصيام، في الصوم زكاة الجسد)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ کہلاتا ہے کیونکہ اپنی خواہشات پر صبر کرنا ہے، اپنے غصّوں پر صبر کرنا ہے، نیکیوں پر جم کے بیٹھنا ہے۔ بدیوں کی طرف جو تحریک ہے اس کا مقابلہ کر کے رک جانا ہے۔ ان سب چیزوں کو صبر کہا جاتا ہے۔

(خطباتِ طاہر جلد15 صفحہ75)

بہر حال اس ماحول سے وہ فائدہ اٹھا سکتا ہے جو ایمان کی طرف توجہ دے، اپنا محاسبہ بھی کرتا چلا جائے جیسا کہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ٰﷺ فرماتے ہیں: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّاِحْتِسَابًاغُفِرَ لَه مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ یعنی جس نے رمضان کے روزےایمان اور اپنا محاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھے۔ اس کے رمضان سے پہلے کئے گئے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

(سنن أبي داوود، کتاب الصلاة، باب في قيام شهر رمضان)

لیکن جو اس مہینہ میں اپنے ایمان کی طرف توجہ نہیں دیتا اور نہ اپنے محاسبہ کے ذریعہ اپنے اندر اصلاح پیدا کر تا ہے تو آپ ﷺ نے اس کے لئے فرمایا ہے کہ رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ رَمَضَانَ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ أَنْ يُّغْفَرَ لَهُ کہ مٹی میں ملے اس کی ناک جس پر رمضان کا مہینہ آیا اور گزر گیا لیکن اس سے قبل اس کے گناہ نہ بخشےگئے۔

(سنن الترمذي، كتاب الدعوات، قول رسول اللّٰہ رغم أنف رجل)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’اپنے دلوں کو ہر دم ٹٹولتے رہو اور جیسے پان کھانے والا اپنے پانوں کو پھیرتا رہتا ہے اور ردی ٹکڑے کو کاٹتا ہے اور باہر پھینکتا ہے۔ اسی طرح تم بھی اپنے دلوں کے مخفی خیالات اور مخفی عادات اور مخفی جذبات اور مخفی ملکات کو اپنی نظر کے سامنے پھیرتے رہو اور جس خیال یا عادت یا ملکہ کو ردّی پاؤ اس کو کاٹ کر باہر پھینکو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارےسارے دل کو ناپاک کر دے اور پھر تم کاٹےجاؤ‘‘

(روحانی خزائن جلد2 صفحہ548،547)

خدا تعالیٰ بھی انسان کے اعمال کا روزنامچہ بناتا ہے۔ پس انسان کو بھی اپنے حالات کا ایک روزنامچہ تیار کرنا چاہئے اور اس میں غور کرنا چاہئے کہ نیکی میں کہاں تک قدم آگے رکھا ہے۔ انسان کا آج اور کل برابر نہیں ہونے چاہئیں۔ جس کا آج اور کل اس لحاظ سے کہ نیکی میں کیا ترقی کی ہے برابر ہو گیا وہ گھاٹے میں ہے۔

(ملفوظاتِ احمدجلد5 صفحہ 455)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’روزوں میں ہر شخص کو اپنے نفس کا بھی محاسبہ کرتے رہنا چاہئے۔ دیکھتے رہنا چاہئے کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اس میں میں جائزہ لوں کہ میرے میں کیا کیا برائیاں ہیں، ان کا جائزہ لوں ۔ ان میں سے کون کون سی برائیاں ہیں جو میں آسانی سے چھوڑ سکتا ہوں ان کو چھوڑوں۔ کون کون سی نیکیاں ہیں جو میں نہیں کر سکتا یا میں نہیں کر رہا۔ اور کون کون سی نیکیاں ہیں جو میں اختیار کرنے کی کوشش کروں۔ تو اگر ہر شخص ایک دو نیکیاں اختیار کرنے کی کو شش کرے اور ایک دو برائیاں چھوڑنے کی کو شش کرے اور اس پر پھر قائم رہے تو سمجھیں کہ آپ نے رمضان کی برکات سے ایک بہت بڑی برکت سے فائدہ اٹھالیا۔‘‘

(خطباتِ مسرور جلد1 ص418)

اللہ تعالٰی ہمیں روزوں کی غایت سمجھنے اور اسے حاصل کرنے کی توفیق دے، اور ہم سے ایسا راضی ہو کہ پھر کبھی ناراض نہ ہو۔ آمین

(ابو سعید)


پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 11۔مئی2020ء