اللہ تعالیٰ انبیاءکے ذریعہ انسانیت کی فلاح و بہبود اور ہدایت کا انتظام فرماتا ہے جو الٰہی تعلیمات اور اپنے عملی نمونہ کے ذریعہ لوگوں کو انسانی ہمدردی کے پیکر بننے کا درس دیتے ہیں۔ بیمار کی تیمارداری کرنا، غریب، ضرورت مند، مسافر، مظلوم ایسے لوگوں کی خود آگے بڑھ کر مدد کرنا انبیاءکرام کی بعثت کی مرکزی غرض و غایت ہے اورایسی نیکیاں کرنے والے اپنے خالق و مالک کی رضا حاصل کرتے ہیں۔ ضروریات زندگی کیلئے رزق کے حصول کیلئے محنت مزدوری یا کاروبار کرنا اللہ کا حکم ہے مگر مال و دولت جمع کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنالینا اور اس دوڑ میں جائز ناجائز کی تمیز بُھلا دینا گویا ہلاکت کے زُمرے میں آئے گا۔ انسان اگر اس خواہش اور کوشش میں رہے کہ غرباء اور حاجت مندوں پر اپنی نیک کمائی کا مال خرچ کرے تو یہ بہت بڑی سعادت اورعظیم نیکی ہوگی۔جماعتِ احمدیہ کے چندوں کے بابرکت نظام کے ذریعہ دُنیاکے مختلف ممالک میں بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے مختلف منصوبوں پر کام ہو رہے ہیں۔غرباء کیلئے ہسپتالوں، سکولوں اور بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے منصوبے بفضلہٖ تعالیٰ کامیابی سے چل رہے ہیں اسی طرح بیواؤں، یتیموں اور غریب طلباکی فلاح و بہبود کے بیشمار منصوبے ہیں۔چندوں کے ذریعہ ان منصوبوں میں حصہ ڈال کر ہم اللہ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں۔مالی قربانی کے میدان اوراس کی لامتناہی برکات۔
اللہ کاپسندیدہ اور سب سے بہترین بندہ بننا
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمام مخلوقات اللہ کی عیال ہیں۔پس اللہ تعالیٰ کو اپنے مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کے عیال(مخلوق) کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔
(شعب الایمان، التاسع والاربعون من شعب الایمان۔7448)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا مسلمانوں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں میں سب سے بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہے اور اس کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا ہے۔
(ابن ماجہ کتاب الادب باب حق الیتیم 3679)
اگر ممکن ہوتو یتیم کواپنی کفالت میں لے کر بہترین پرورش اور تربیت کرنی چاہئے، کیونکہ ایسا کرنے والے کاگھر سب سے اچھا گھر بن جائے گا۔ لیکن اگر ذاتی طور پر یتیم کو پالنا کسی کیلئے ممکن نہ ہو تویتامیٰ اور غرباءکی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں حصہ ڈال کر انسان اللہ کا محبوب بندہ بن سکتا ہے۔اگر اس نیت سے صدقہ خیرات کریں کہ اللہ کی رضا حاصل ہو تواللہ کی رضا بھی حاصل ہوگی اور مال میں فراخی بھی ہو گی۔
سائل اور محروم لوگوں کے حق کی ادائیگی
جن لوگوں کو اللہ نے مالی فراخی دی ہو،اُن کو سمجھنا چاہئے کہ اُن کے اموال میں غربا،ضرورت مندوں کا حق ہوتا ہے اور اگر وہ یہ حق ادا نہ کریں اور اپنے اوپر ہی خرچ کرتے رہیں یا جمع کرتے رہیں تو وہ اس حقداروں کو اُن کے حق دینے کی بجائے حق دبائے رکھنے کے جرم کے مرتکب ہوں گے اور اللہ کی ناراضگی مول لینے والے ہوں گے اور جن لوگوں کی ایسی حالت میں وفات ہو جائے تو ایسے گناہ کا کفارہ ممکن نہیں ہوگا۔قرآن کریم میں اس کی وضاحت ان الفاظ میں ہے۔
’’اور اُن کے مالوں میں مانگنے والوں کا بھی حق تھا اور جو مانگ نہیں سکتے تھے اُن کا بھی(حق تھا)‘‘
(الذاريات:20)
یہاں مانگے والوں سے مراد ایسے غریب افراد ہیں جو اپنی ضرورت کیلئے کسی سے مدد کی درخواست کریں، اسی طرح دینی ضروریات کیلئے چندہ کی ادائیگی کی یاد دہانی کرانے والے بھی مانگنے والوں میں شامل ہوتے ہیں جو اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ دینی ضروریات اور دیگر غربا کیلئے مانگ رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف جو مانگ نہیں سکتے اس میں اپنے قریبی عزیز رشتہ دار، دوست ہمسائے جو سفید پوشی میں اپنا بھرم رکھنے کیلئے اپنی بنیادی ضروریات کیلئے کسی سے قرض تک بھی مانگنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اسی طرح اگر چندہ کی ادائیگی کی یاد دہانی کرانے والے افراد اگر کبھی اپنا فرض ادا نہ کر پائیں تو چندہ دینے والوں کو بن مانگے اپنا چندہ خود ادا کر دینا چاہئے کیونکہ یہ اللہ کے حکم کے مطابق اپنا حق ادا کرناہے جیسا کہ اوپر درج شدہ سورہ الذاریات کی آیت میں مذکور ہے۔
رازقِ حقیقی سے تعلق
رزق کے حصول کے ضمن میں یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ حقیقی رازق ہے اور سب کچھ اُسی کی عطا ہوتی ہے۔کوششوں اور محنت کی توفیق اور پھر محنت کا پھل لگنا اور اس پھل کو کھانے کیلئے صحت مندہوناسب اللہ کے فضل سے ہوتا ہے۔ لہٰذا اُس ذاتِ باری تعالیٰ سے جو تمام اسباب کا پیدا کرنے والا اور تمام مخلوق کا خالق ورازق ہے پر توکل کرنا چاہئے اور اُس کی رضااور خوشنودی کی خاطر تقویٰ اختیار کرتے ہوئے غریب مخلوق کیلئے اپنا مال خرچ کرنا چاہئے ۔جیسا کہ ارشادِ ربّانی ہے۔
اور جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اللہ اُس کیلئے کوئی نہ کوئی رستہ نکال دے گا اور اُس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے رزق آنے کا اُسے خیال بھی نہیں ہوگا اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے وہ (اللہ) کیلئے کافی ہے۔
(الطلاق:4،3)
سیّدنا حضرت مسیح موعودؑ اس تعلق میں فرماتے ہیں۔
’’اصل رازق خدا تعالیٰ ہے وہ شخص جو اُس پر بھروسہ کرتا ہے کبھی رزق سے محروم نہیں رہ سکتا، وہ ہر جگہ سے اپنے پر توکل کرنے والے شخص کیلئے رزق پہنچاتا ہے، خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مجھ پر بھروسہ کرے اور توکل کرے میں اس کیلئے آسمان سے برساتا اور قدموں میں سے نکالتا ہوں۔ پس چاہئے کہ ہر ایک شخص خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرے۔‘‘
(ملفوظات جلد9 صفحہ 360)
دُکھی غریب مخلوق کا خیال رکھنا، اللہ کی رضا جوئی
حضرت ابو الدرداؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ کمزوروں میں مجھے تلاش کرو(یعنی میں ان کے ساتھ ہوں اور ان کی مدد کرکے تم میری رضا حاصل کرسکتے ہو) یہ حقیقت ہے کہ کمزوروں اور غریبوں کی وجہ سے ہی تم خدا کی مدد پاتے ہو اور اس کے حضور سے رزق کے مستحق بنتے ہو۔
(ترمذی کتاب الجہاد۔1702)
اگر کوئی امیر کاروباری شخص اپنے غریب مزدور کو مناسب معاوضہ نہ دے تو غریب مزدور مجبوراً کام تو کرتا رہے گا مگر اندر سے کڑھتا رہے گااور عین ممکن ہے امیر کیلئے بد دعا بھی کرنے لگے اور اگر وہ بد دعا نہ بھی کرے تب بھی غریب مجبور پر ظلم کے نتیجہ میں وہ امیر شخص اللہ کے غضب کا مورد بن سکتا ہے۔اسی طرح اگرکسی امیرفرد کے علم میں کوئی حاجت مند آئے اور امیر شخص مدد نہ کرے تو وہ امیر شخص بھی اللہ کے ہاں مجرم ہوگا۔
سیّدنا حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ۔
’’شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ ایک بادشاہ کو نارواکی بیماری تھی، اس نے کہا میرے لئے دُعا کریں کہ اللہ کریم مجھے شفا بخشے تو میں نے جواب دیا کہ آپ کے جیل خانہ میں ہزاروں بے گناہ قید ہوں گے ان کی بد دعاؤں کے مقابلہ میں میری دُعا کب سنی جا سکتی ہے، تب اُس نے قیدیوں کو رہا کر دیا اور پھر وہ تندرست ہو گیا، غرض خدا کے بندوں پراگر رحم کیا جاوے تو خدابھی رحم کرتا ہے جو لوگ دوسروں پر رحم کرتے ہیں ان پر اللہ اور اس کے رسول کو بھی رحم آجاتا ہے دوسروں کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آنا اور بے جا طور پر مال اکٹھا کرنا اور اسباب پر ہی گرے رہنا بہت بُری بات ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد9 صفحہ 369)
اللہ کی مخلوق کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا اللہ کی رضا کا موجب بنتا ہے جو ہماری زندگی کا حاصل ہے، لہٰذا بامراد زندگی گزارنے اور انجام بخیر کیلئے مجبور بے سہارا غریب لوگوں کی مددکرناازبس ضروری ہے، رمضان المبارک میں مالی قربانی کا اجر عام دنوں کی نسبت بہت زیادہ ہے لہٰذا ان دنوں بڑھ چڑھ کر مالی قربانی کرنی چاہئے۔
فراخیٔ رزق اور انفاق فی سبیل اللہ
عام طورپر خرچ کرنے سے مال کم ہوتا ہے مگر اللہ کی خاطر ٖخرچ کرنے سے وقتی طور پر تو مال کم ہوگامگر اللہ اس خرچ کی برکت سے انسان کے رزق میں برکت ڈال دیتا ہے اور بہت سے اخراجات سے اللہ بچا لیتا ہے اور جاب یا کاروبار میں بھی اللہ کا خاص فضل شاملِ حال ہوجاتا ہے۔ یہ گویا ایک تجارت ہے۔
قرآن کریم میں اس بارہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
کیا کوئی ہے جو اللہ کو (اپنے مال کا) ایک اچھا ٹکڑا کاٹ کر دیتاکہ وہاں سے اس کیلئے بہت بہت بڑھائے اور اللہ(کی یہ بھی سُنّت ہے کہ وہ بندہ کا مال) لیتا ہے اور بڑھاتا ہے اور (آخر) تمہیں اُسی کی طرف لوٹایا جائے گا۔
(البقرہ: 246)
جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان(کے اس فعل)کی حالت اس دانہ کی حالت سے مشابہ ہے جو سات بالیں اُگائے(اور) ہربالی میں سو دانہ ہو اور اللہ جس کیلئے چاہتا ہے۔(اس سے بھی)بڑھا (بڑھاکر) دیتا ہے اور اللہ وسعت دینے والا (اور) بہت جاننے والا ہے۔
(البقرہ: 262)
اسی طرح صدقہ کو ردِّبلا کہا جاتا ہے اور اس کی برکت سے انسان بیماریوں اور بیشمار مسائل سے بچا رہتا ہے۔
فضول خرچی اور کنجوسی کی انتہائیں
اکثر لوگ جن کے مالی وسائل ہوں وہ بڑے اور مہنگے گھر، نئی مہنگی گاڑی ، مہنگے اِن فیشن کپڑوں اور قسما قسم کے کھانوں پر خرچ کرتے رہتے ہیں اور بعض تو فیشن اور دوسروں کی دیکھا دیکھی کی دوڑ میں فضول خرچی کرکے مالی تنگی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ بالعموم ایسے لوگ انفاق فی سبیل اللہ میں اپنے قریبی عزیزوں کی حاجات اور غریب جاننے والوں کی بنیادی ضروریات کیلئے خرچ کرنے میں کنجوس ہوتے ہیں یعنی ایک طرف فضول خرچی اور دوسری طرف کنجوسی۔ لیکن جو لوگ اللہ کی رضا کیلئے خرچ کرتے ہیں وہ اپنی ذات کیلئے ہر ممکن بچت کرتے ہیں اور اللہ کی رضاکے حصول کیلئے دلی خوشی سے خرچ کرتے ہیں۔
فضول خرچ لوگ بسا اوقات فیشن کی دوڑ اور نمود و نمائش میں پھنسے رہتے ہیں جبکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے محروم رہتے ہیں یاد رہے اللہ فضول خرچوں کو پسند نہیں کرتا لیکن انفاق فی سبیل کرنے والوں کو اللہ کی رضا اور مالی وسعت حاصل ہوتی ہے۔
شکرگزاری کے اثماراور ناشکری کا انجام
اگر کوئی انسان زبان سے الحمد للہ کا ورد کرتے رہے اور اللہ تیرا شکر ہے کہتا رہے مگر عملی طور پر شکر گزاری نہ کرے تو زبانی شکر محض لاف و گزاف کے سوا کچھ نہیں ہوگا، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے ہمسائے کے مکان گر جانے پر نیا مکان تعمیر کرنے میں دل کھول کر اُس کی مدد کرتا ہے مگر وہ ہمسایہ ضرورت کے وقت اپنے محسن ہمسایہ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے اوراپنے مکان کی تعمیر نو پر شکر الحمد للہ کا وظیفہ دن رات پڑتا رہے تو شکر الحمد للہ کاوظیفہ بیکار ہوگا۔ اپنے محسن اور علم میں آنے والے ہر حاجت مند کی مدد کرنا اللہ کی شکر گزاری کا عملی طریق ہے۔یہ بھی درست ہے کہ جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کر سکتا اور بغیر کسی غرض اور لالچ یا بنا کسی تعلق کے غربا، مساکین کی مدد کرنادراصل اللہ کا شکرادا کرنا ہے۔ قرآن کریم میں شکر گزاری اور ناشکرگزاری کے تعلق میں ارشاد ہے۔
اور(اس وقت کوبھی یاد کرو) جب تمہارے رب نے (انبیاء کے ذریعہ سے) اعلان کیا تھا کہ (اے لوگو!) اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا اور اگر تم نے ناشکری کی تو (یادرکھو) میرا عذاب یقیناً سخت (ہواکرتا) ہے۔ (ابراہیم: 8) رازقِ حقیقی اللہ کی ذات ہے اور انسان کی کوششوں کا ثمرآور ہونا اللہ کے فضل سے ممکن ہوتا ہے۔ بعض لوگ چھوٹے کام اور کاروبار سے بہت زیادہ مالدار ہوجاتے ہیں تو بعض باوجود سخت محنت کے تنگ دست رہتے ہیں۔ ہر حال میں اللہ کا شکرگزار بننا انسان کو رضائے باری تعالیٰ کے حصول کاذریعہ بناتاہے اوراللہ کا وعدہ ہے کہ میں شکر گزاری کرنے پر اور بھی زیادہ دوں گا۔ لہٰذا اللہ کا شکرگزار بننا ہی حقیقی کامیابی اور دین و دُنیا کی فلاح کا ضامن ہے اور مالی قربانی کا اصل مفہوم خود کو سخت تنگی میں ڈال کر غربا کی مدد کرناہے۔
خالق، مخلوق اور جنت کا قُرب اور ان سے دُوری
کسی انسان کا سخی یا بخیل ہونا مالدار یا غریب ہونے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ انسان کے اللہ پر توکل اور تقویٰ پرمنحصر ہوتا ہے۔ بہت سے امیر دیکھے گئے ہیں جو انتہائی بخیل ہونے کے علاوہ بد اخلاق اور بد تہذیب بھی ہوتے ہیں۔ لیکن بعض امیر شخص إِلَّا مَا شَاءَ اللّٰه کمال کے سخی، حلیم اور بااخلاق ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بہت سے غریب لوگ کمال سخی ہوتے ہیں جبکہ کئی غریب بہت بخیل ہوتے ہیں۔ بہرحال سخی اوربخیل ہونا اللہ سے تعلق اور تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا سخی اللہ کے قریب ہوتا ہے لوگوں سے قریب ہوتا ہے اور جنت کے قریب ہوتا ہے اور دوزخ سے دور ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بخیل اللہ سے دور ہوتا ہے۔ لوگوں سے دور ہوتا ہے۔ جنت سے دور ہوتا ہے لیکن دوزخ کے قریب ہوتا ہے۔ ان پڑھ سخی، بخیل عابد سے اللہ عزوّجل کو زیادہ محبوب ہے۔
(ترمذی کتاب البر والصلۃ۔1961)
(ڈاکٹر محمد ظفر وقار کاہلوں۔ امریکہ)