دنیا کے اکثر علاقوں ، قوموں اور مختلف زمانوں میں ایسے بزرگ انسان پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی کے لئے مامور ہوئےہیں، یہ نبی رسول اور اوتار کہلائے ہیں،بائبل اور قرآن کریم میں انبیاء کا کثرت سے ذکر آیا ہے۔ قرآن کریم سے ہم یہ بات دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ ایسے انسانوں کا اور ان کے دعاوی کا انکار کیا گیا۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ قرآن کریم نے اس موضوع پر تفصیل سے ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ جہاں انبیاء کرام کی تاریخ بیان فرمائی ہے اور منکرین کے انکار کی تفصیلی وجوہات بیان فرمائی ہیں وہاں ان منکرین کی تباہی اور بربادی کا بھی ذکر کیا ہے۔ قرآن کریم نے انبیاء کرام اور بالخصوص آنحضور ﷺ کی صداقت پر اصولی دلائل پیش کئے ہیں۔ اِن دلائل کے اندر وہ ابدی صداقتیں بیان کی ہیں کہ اب ہم کسی بھی مدعی نبوت کی صداقت اُن اصولوں اور پیمانوں سے آزما سکتے ہیں ۔
آج مسلمان کہلانے والوں اور ماننے والوں کی ایک بڑی اکثریت اس وجہ سے ایمان رکھتی ہےکہ اُن کے آباؤ اجداد یہی عقائد رکھتے تھے اور وہ پیدائشی مسلمان ہیں۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ نتائج کے لحاظ سے ایسے ایمان کی اہمیت بہت کم ہے اور ایسا ایمان وہ نتائج کبھی پیدا نہیں کرسکتا جو انبیاء کرام پر ایمان کا لازمی نتیجہ ہے، نہ روحانی تبدیلی کے لحاظ سے نہ اعمال میں اصلاح کے لحاظ سے نہ علمی ترقیات کے لحاظ سے۔ یہ بات عملاً ہمارے سامنے ہے اور کسی تفصیلی ثبوت کی ضرورت نہیں ۔
سچی بات یہ ہے کہ ایمان تب ایمان کہلائے گا جب وہ مضبوط اور یقینی بنیادوں پر قائم ہو اور ایسے شواہد اور آثار کا نتیجہ ہو جس کا انکار ممکن نہ ہو۔ صرف ایسا ایمان ہی حقیقی تبدیلی اور نتائج کا باعث بنے گا ۔جس کی جڑیں دلائل کی ٹھوس زمین میں مضبوطی سے قائم ہوں اور جس کی شاخیں آسمان تک جاتی ہوں۔ جس طرح بصارت کا لفظ آنکھوں دیکھی حقیقت کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح ’’بصیرت‘‘ فہم و ادراک کی آنکھ سے دیکھنے کو کہتے ہیں۔ قرآن کریم انبیاء اور ان کے ماننے والوں کے لئے یہی معیار مقرر فرماتا ہے ۔
کہ وہ ’’بصیرت‘‘ کے ساتھ اپنے عقائد پر قائم ہوتے ہیں ۔
قُلْ هٰذِهِ سَبِيلِىٓ أَدْعُوٓا۟ إِلَى اللّٰهِۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِىۖ وَسُبْحَٰنَ اللّٰهِ وَمَآ أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ یوسف :109) ترجمہ: آپ کہہ دیجئے یہی میری راه ہے۔ میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، بصیرت پر قائم ، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم انبیاء کرام پر ایمان لانے کے لئے اور ایسے علیٰ وجہِ البصیرت ایمان پر قائم ہونے کے لئے کیا طریق بتا تا ہے ؟ اور کیا دلائل پیش فرماتا ہے ؟
پہلی دلیل
انبیاء کرام کی شناخت کے لئے پہلا اور سیدھا سادا معیار تو اُن کی شخصیت اور سیرت و سوانح ہیں ! ہم روزمرہ کے تجربے سے جانتے ہیں کہ انسانی شخصیت ایک لمبے عرصے کے تجارب اور واقعات کے اندر سے تشکیل پاتی ہے ۔ اسی طرح انسانی ہستی (Personality) کچھ جینیاتی (Genetic) اور ساختیاتی (Structural) بنیادوں پر قائم ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ایک انسان کی بنیادی شخصیت بڑی حد تک ایک خاص فریم کے اندر ہی رہتی ہے اور یہی ہر شخص کی پہچان ہوتی ہے ۔ گویا چالیس پچاس سال تک ایک شخص کی جو شخصیت اور ہستی رہتی ہے وہ اچانک مخالف سمت میں تبدیل نہیں ہو سکتی ۔
اس عقلی بنیاد کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے بطور دلیل کے پیش کیا ہے۔ کیونکہ مکہ کے لوگ ساری زندگی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند معیارِ امانت و دیانت اور اعلیٰ سیرت و کردار کے دل سے قائل تھے ۔ یہی اس دلیل کی بنیاد ہے۔
فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهٖٓۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
(یونس:17)
ترجمہ: دیکھو میں اس (دعویٰ نبوت ) سے پہلے ایک بڑا حصہ عمر کا تم میں گزار چکا ہوں۔ (یعنی میری شخصیت اور سیرت سوانح تمہارے سامنے ہیں ) پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ گویا ازروئے قرآن کسی مدعی نبوت کی سیرت و سوانح قبل از نبوت اس کے دعوی پر بڑی دلیل ہے !
دوسری دلیل
ہم جب غور سے دیکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی ذات ، اللہ تعالیٰ کا کسی سے ہمکلام ہونا، نبی کی نبوت کا معاملہ اور اُس کی پیشگوئیوں کا مستقبل وغیرہ ، تمام ایسے امور ہیں جو عملاً انسانی فہم و ادراک سے قطعی اوجھل ہیں اور درحقیقت یہ تمام باتیں ایسے غیب پر مشتمل ہیں جو کسی انسان کے بس سے باہر ہیں کہ اُن کا علم پا سکے ۔ پھر کسی نبی کی نبوت پر عام عقلِ انسانی کیسے علیٰ وجہِ البصیرت ایمان لا سکے؟ چونکہ اللہ تعالیٰ اس امر سے بخوبی آگاہ ہے اس لئے اس کا حل بھی اُسی نے پیدا کیا۔ جہاں انبیاء ایسے امور پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں جو عقلِ انسانی سے اوجھل ہوتے ہیں (یا فی الوقت اوجھل ہوتے ہیں جیسے مرنے کے بعد کیا معاملات در پیش ہوں گے؟ اِس خدائی جماعت کا آخر کار انجام کیا ہو گا اور دیگر بہت ساری ایسی باتیں۔) اس لئے اللہ تعالیٰ انبیاء کرام کے ذریعہ بعض وہ امور غیبیہ ظاہر کردیتا ہے جو عام انسانوں کے مشاہدہ میں آتی ہیں اور جن کے ذریعے عام لوگ خدا تعالیٰ کی ہستی، اُس کی بے انتہا قدرتوں اور لامحدود علم اور اُس نبی کے اللہ تعالیٰ سے علم پانے کے دعاوی کے بارے میں ایک یقین کا مرتبہ حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ انبیاء کی شناخت کا ایک زبردست ذریعہ بن جاتا ہے۔ درحقیقت ’’نبی‘‘ کے لغوی معنی ہی اللہ تعالیٰ سے بکثرت غیب کی خبریں پانے والا انسان ہے۔ ایسی خبریں جب کثرت سے لوگوں کے سامنے پوری ہوں تو ایک غیر معمولی دبدبے اور شوکت کے ساتھ نبی کے نبوت اور دعاوی پر دلیل ہوتی ہیں اور ایمان علیٰ وجہِ البصیرت کا باعث بنتی ہیں۔ اس امر کی طرف اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اشارہ فرماتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’غیب‘‘ کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور صرف وہی اُس کے پیغمبروں پر وہ ایسے امور غیبیہ ظاہر فرماتا ہے۔ گویا ہمارے ہاتھ میں انبیاء کی شناخت کا ایک بڑا ذریعہ آگیا ہے ۔
عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا (الجن: 28-29) وه اللہ تعالی ہی غیب کا جاننے والاہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اس پیغمبر کے جسے وه پسند کرلے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہریدار مقرر کردیتا ہے۔
انبیاء کرام کی پیش گوئیاں جو شرائط کے مطابق پوری ہوتی ہیں ان کے دعاوی پر ایک عظیم الشان دلیل ہوتی ہیں، ان کے نتیجے میں ہی وہ زبردست ایمان پیدا ہوتا ہے جو انسانوں کو غیر معمولی قربانیوں پر آمادہ کردیتی ہیں اور بے شمار روحانی عملی اور اخلاقی تبدیلیوں کا ذریعہ بنتی ہیں۔
تیسری دلیل
انبیاء کرام کی صداقت پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں عام فہم انداز میں عام انسانی معاشروں اور دنیاوی بادشاہوں کے انداز حکومت سے بھی دلائل پیش فرمائی ہیں۔ یہ امر ایک پیچیدہ امر کو عام فہم بنا دیتی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی حکومت یہ امر برداشت نہیں کرسکتی کہ کوئی شخص جھوٹے طور پر حکومت یا بادشاہ کی طرف سے مقرر کردہ افسر یا نمائندہ بن کر عوام میں جائے اور جھوٹ موٹ سے اپنی اتھارٹی اور رعب قائم کرکے دھوکے سے اپنے مفاد حاصل کرے۔ ایسا شخص بہت جلدپکڑا جاتا ہے اور قرار واقعی سزا پاتا ہے۔
آسمانی بادشاہت کے مالک اور عالم الغیب خدا جو قادر مطلق بھی ہے اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے ، نے اپنے بندوں کو کسی ابتلاء یا گمراہی میں پڑنے سے بچانے کے لئے یہی انتظام کیا ہے۔ کوئی شخص خدا تعالیٰ کے نام سے اسی کا فرستادہ بن کر انسانوں کو گمراہ کرے ، یہ ممکن ہی نہیں۔ اور چونکہ خدا تعالیٰ عالم الغیب اور قادر مطلق بھی ہے اس لئے کوئی شخص جھوٹی نبوت کا دعویٰ کر بھی لے تو یہ ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ کی پکڑ سے بچ سکے۔ درحقیقت قرآن کریم نے کہیں پر بھی جھوٹی نبوت کے فتنے سے ہمیں خبردار نہیں کیا کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں۔ اگر جھوٹی نبوت کا امکان تسلیم کر لیا جائے تو پھر گزشتہ تمام انبیاء کی نبوت خطرے میں پڑجائے گی۔
مذہب کی تاریخ میں یہ ایک قدیم مسلمہ اصول کے طور پر مانا گیا ہے ۔ ہم تورات میں اس مسئلے کا ذکر یوں دیکھتے ہیں ۔
’’وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے۔‘‘
(استثنا 18:20)
یہ ایک مسلّمہ اصول ہے کہ اللہ تعالیٰ پر بقائم ہوش وحواس، جھوٹ باندھ کر وحی و الہام کا دعویٰ کرنا اور خود کو ایک افتراء کے طور پر نبی اور رسول کے پیش کرنا، ایک سنگین گستاخی ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کو گمراہ کرنے اور فتنہ عظیم برپا کرنے کی کوشش ہے۔ یہ قطعی ممکن نہیں کہ ایسے شریر مفتری کو اللہ تعالیٰ بغیر پکڑ کے چھوڑ دے ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسی جلیل القدر نبی کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ اسی اصول کو بیان کرکے اُن کی سچائی اور حقانیت پر ایک قوی دلیل لاتا ہے ۔
فرمایا۔ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ۔ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ۔ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ۔ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ۔ (الحاقہ: 45 تا 48) ترجمہ: اور اگر یہ ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتا۔ تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے۔ پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ پھر تم میں سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔
بنیادی طور قرآن کریم نے تورات ہی کے اس قدیم اصول کو دوبارہ پیش فرما کر اور آنحضور ﷺ پر اُس کا اطلاق فرما کر یہود و نصاری کے لئے ایک زبردست دلیل بنادی جس کا انکار ممکن نہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی طے ہوا کہ یہ قدیم اصول ہمیشہ کے لئے ایک لٹمس ٹیسٹ ہے اور خداتعالیٰ کے ساتھ وحی کا دعویٰ منسوب کرنے والے کی سچائی کی پہچان کے لئے ایک زبردست ثبوت ہے۔ اس کی بنیاد یہ بات ہے نبوت و رسالت کا جھوٹا دعویٰ یا بذریعہ وحی خدا تعالیٰ کی طرف ماموریت کا جھوٹا دعویٰ ایک ایسی چیز ہے جو لاکھوں کروڑوں لوگوں کی گمراہی کا باعث بن سکتا ہے اور وہ بھی خدا تعالیٰ کے نام پر ، اور اُس کی محبت میں ۔ مزید یہ بات کہ اگر جھوٹوں اور مفتریوں کی ایسی خدائی پکڑ نہ ہو تو تمام انبیاء کرام علیہم السلام جو گزشتہ زمانوں میں گزرے ہیں ان سب کے دعاوی مشکوک ہوجائیں۔
چوتھی قرآنی دلیل
مفتری یعنی جھوٹا دعویٰ بنوت کرنے والے کو کبھی کامیابی نہیں مل سکتی ۔ قرآن کریم کی سورۃ انعام آیت 22میں اللہ تبارک و تعالیٰ نہایت واشگاف الفاظ میں ایک اصول بیان فرماتا ہے ۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللّٰہِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِـَٔايَٰتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّٰالِمُونَ۔ ترجمہ: اور اس سے زیاده بےانصاف کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اللہ کی آیات کو جھوٹا بتلائے ایسے بےانصافوں کو کامیابی نہ ہوگی۔
جھوٹ بولنا ایک نہایت مکروہ فعل ہے ، پھر اُس سے بڑھ کر کسی پر جھوٹا بہتان باندھنا ہے، اور سب سے بڑا جرم تو اللہ تبارک و تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا ہے۔ یعنی یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے اور مجھے اُس کی طرف سے وحی ہوتی ہے ۔ یہ بہت بڑا جرم ہے اور ظلم عظیم ہے۔ ایسے جھوٹے کے بارے میں قرآن کریم فرماتا ہے کہ اُس سے بڑا مجرم کوئی نہیں اور ایسا مدعی کبھی کامیابی نہیں پاسکتا۔ گویا آنحضورؐ کی صداقت کے لئے اللہ تعالیٰ نے مذہب کے ماننے والوں کو یہ بڑی دلیل دی کہ اگر یہ محمد ؐ جھوٹا ہے تو ممکن نہیں کہ کامیابی پائے۔ گویا ایک اصولی دلیل بھی ہمیں عطا کردی کہ خدا تعالیٰ اپنی ذات پر جھوٹ باندھنے والے کو کامیابی نہیں دے گا وہ ناکام اور خائب وخاسر ہو کر مٹا دیاجائے گا۔
پانچویں دلیل
خداتعالیٰ اپنے مقرر کردہ فرستادوں کی تائید و نصرت فرماتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے مخالفین پر غالب ہوتے ہیں ۔ ان کا غلبہ یقینی ہوتا ہے ۔
سورۃ الصافات آیات171 تا 173 ملاحظ کریں ۔
وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ۔ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُونَ ۔وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَٰلِبُونَ۔ ترجمہ: اور البتہ ہمارا وعده پہلے ہی اپنے رسولوں کے لئے صادر ہو چکا ہے۔ کہ یقیناً وه ہی مدد کئے جائیں گے۔اور ہمارا ہی لشکر غالب (اور برتر) رہے گا۔
اسی طرح سورۃ المجادلہ آیات 21 اور 22 میں بتاتا ہے۔ إِنَّ الَّذِينَ يُحَآدُّونَ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ أُولَٰٓئِكَ فِى الْأَذَلِّينَ ۔ كَتَبَ اللّٰهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِىٓۚ إِنَّ اللّٰہَ قَوِىٌّ عَزِيزٌ۔ ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی جو لوگ مخالفت کرتے ہیں وہی لوگ سب سے زیاده ذلیلوں میں ہیں اللہ تعالیٰ لکھ چکا ہے کہ بیشک میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ زورآور اور غالب ہے۔
ان دو حوالوں پر غور کرنے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ نبی اور اُس کی جماعت چونکہ خدا تعالیٰ سے تائید و نصرت پاتے ہیں اس لئے لازمی طور پر ان کے لئے غلبہ مقدر ہے اور مخالفین اور دشمنوں کے لئے سوائےناکامی ذلت اور رسوائی کے اور کچھ نہیں ۔ یہ چند قرآنی معیار ہیں جو ایسے واشگاف اور کھلے کھلے اصول ہیں جو سچے اور جھوٹے مدعی نبوت کے درمیان مکمل امتیاز کرتے ہیں – تقویٰ اور انصاف سے جائزہ لینے والوں پر کبھی یہ بات مشتبہ نہیں رہ سکتی کہ ہم کیسے سچے اور جھوٹے مدعیان کا فرق کریں گے ۔
(ڈاکٹر محمد علی)