• 12 جولائی, 2025

مکرم سلطان احمد سندھو کا ذکر خیر

ہمارے بہت ہی پیارے ، محبت کرنے والے، نہایت مہربان والد ِمحترم سلطان احمد سندھو 21 مارچ 2020 ءبروز ہفتہ صبح 8بجے 87 برس کی عمر پاکر اس جہان ِ فانی کو چھوڑ کر اپنے مولائے حقیقی سے جا ملے۔ انا لله وانا الیہ راجعون

ان کی جائے پیدائش پاکستان میں گولیکی ضلع گجرات کی ہے ۔ میرے دادا جان کا نام منشی احمددین اور دادی جان کا کرم بھری تھا۔ دادا جان قبول ِ احمدیت سے پہلے بھی ایک نیک اور دعا گو انسان کے طور پر جانے جاتے تھے۔ 1928 ءمیں دادا جان کی شبانہ روز متضرعانہ دعاؤں کے نتیجہ میں انہیں خواب میں ’’مرزا غلام احمد اہم ہستی‘‘ کے الفاظ ایک سفید کا غذ پر لکھے ہوئے دکھائے گئے۔ جس پر آپ فوراً بیعت کرکے حلقہ بگوش ِ احمدیت ہوگئے۔ آپ اپنے خاندان کے پہلے فرد تھے جنہیں احمدیت قبول کرنے اور حضرت مولوی امام دین ؓاور حضرت مولانا غلام رسول راجیکیؓ جیسے جیّد صحابہ کے قریبی ساتھی بننے کا اعزاز حاصل ہوا ۔فالحمدللہ احمدیت قبول کرنے سے پہلے دادا جان کی 4بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ 4روں بیٹیاں وفات پاچکی تھیں اور صرف ایک بیٹا حیات تھا ۔ بیعت کے بعد الله تعالیٰ نے آپ کو 5بیٹے عطا فرمائے۔ یوں ہمارے والد صاحب 6 بھائی تھے۔ جن میں چوہدری سعید احمد صاحب مرحوم ، چوہدری نذر محمد نذیر صاحب گولیکی مرحوم ، چوہدری عطا محمد صاحب مرحوم ،(ابا جان) سلطان احمد صاحب سندھو مرحوم ، چوہدری فضل احمد صاحب مرحوم اور چوہدری عنایت الله صاحب مرحوم شامل ہیں ۔ یہ سب مخلص اور فدائی احمدی تھے جن میں سے 5 بھائی موصی تھے اور ان سب کو حسب حال جماعت کی خدمت کرنے کی توفیق ملی ۔

والد صاحب نے اپنی جائے پیدائش گولیکی سے لے کر ابدی آرامگاه (ورجینیا) امریکہ تک بڑی فعال اور پُر وقار زندگی گزاری- انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز پاکستان ایئر فورس سے کیا ۔ بعد ازاں محکمہ بہبود ِ آبادی سے ڈویژنل ڈائریکٹر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے موقع پر جب اُن کی الوداعی دعوت ہوئی تو اُن کے رفقاء کار نے اُنہیں ان الفاظ کے ساتھ رخصت کیا کہ ’’آج ہمیں ایک فرشتہ چھوڑ کر جا رہا ہے‘‘ریٹائرمنٹ کےبعدپاکستان کی معروف سماجی شخصیت اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عطیہ عنایت الله کی دعوت پر آپ نے 1993ء سے 1998ء تک ان کی این جی او’’پاپولیشن ویلفیئر آرگنائزیشن‘‘میں سینئر ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا۔ آپ نے چوہدری انورحسین صاحب امیر ضلع شیخوپوره کے ساتھ 1984ء سے 1988ء تک نائب امیر ضلع کے طور پر خدمات سرانجام دیں اور اسی طرح گوجرانوالہ میں میاں غلام احمد صاحب کے ساتھ بھی 1989ء سے 1992ء تک نائب امیر ضلع کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ 1998ء میں امریکہ آنے کے بعد آپ 10سال تک نیویارک میں مقیم رہے ۔ اس دوران آپ نے صدر جماعت نذیر احمد ایاز صاحب کے ساتھ ان کے معاون کے طور پر شبانہ روز کام کیا ۔ مربی صاحب کی عدم موجودگی میں آپ کو امام الصلاۃ مقرر کیا جاتا – نیویار ک سے بوسٹن میں کچھ برس قیام کرنے کے بعد آپ 2013ء میں رچمنڈ (ورجینیا )چلے آئے اور اپنی وفات تک یہیں قیام پذیر رہے ۔ والد صاحب لڑکپن سے ہی تقو ٰی کی راہوں پہ گامزن تھے۔ تقسیم ہند کے وقت آپ کی عمر 14 اور 15 برس کے درمیان تھی۔ گاؤں سے کچھ سکھ خاندان ہندوستان منتقل ہو گئے۔ ان میں سے ایک خاندان والے اپنی 2 چارپائیاں دادا جان کے پاس امانتاً رکھوا گئے۔ ہمارے ابو کبھی اُن چارپائیوں کو اپنے تصرف میں نہ لاتے اور یہی کہتے کہ یہ چارپائیاں ہمارے پاس امانت ہیں۔ جن لوگوں کو آپ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا وه آپ کی منتظمانہ صلاحیتوں کے علاوه آپ کی صاف گوئی ، دیانتداری اور راستبازی کے معترف تھے ۔ آپ اپنا ایک خواب اکثر سنایا کرتے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح ثالث رحمہ الله امتحان لے رہے ہیں – آپ اپنا پرچہ حل کرنے کے بعد حضور کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی آپ کی انکھ کھل جاتی ہے۔اس خواب کے بعد طبعاً آپ کے دل میں نتیجے کے بارے میں تشویش پیدا ہوئی تو آپ نے کئی روز تک تضرع کے ساتھ دعائیں کیں تو اسی دوران آپ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انہیں سنہری حاشیے میں ایک دیده زیب سرٹیفکیٹ عنایت فرماتے ہیں ۔جسےپاکر انہوں نے ہمیشہ اپنی طبیعت میں یہ انشراح محسوس کیا کہ حضرت ِ اقدس نے انہیں امتحان میں کامیابی پر خوشنودی کا سرٹیفکیٹ عطافرمایا ہے – اس بابرکت خواب کو بکثرت بیان کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وه اپنے متعلقین کو ان روحانی برکات کے حصول کی اہمیت سے آگاه کرنا چاہتے تھے جن سے انہوں نے خدا تعالی ٰ کے فضل وکرم کے ساتھ حصہ پایا تھا –

ہمارے پیارے ابا جان تمام عمر پابند ِ صوم وصلوٰۃ رہے۔ آپ ہمیشہ نمازوں کو قائم کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے ۔ ان کا پُختہ ایمان تھا کہ نماز جنت کی کنجی ہے۔ آپ نے اپنی آخری سانسوں تک اس کی عملی طور پر پابندی کی – ان کی آخری بیماری کا عرصہ 2 ماه کے قریب ہے ۔ اس دوران ہو سکتا ہے کہ کچھ چیزیں آپ کے ذہن سے محو ہوئی ہوں مثلاً بعض دور کے رشتہ داروں کے نام وغیره ۔لیکن یہ نہیں ہوا کہ ادائیگی نماز کے بارے میں آپ کبھی بھولے ہوں یا کوئی غفلت ہوئی ہو۔ آپ خدا تعالی ٰ کے فضل سے موصی تھے اور چندوں کی ادائیگی میں انتہائی مستعد ی کا مظاہره کرتے تھے ہمیشہ میعاد ختم ہونے سے پہلے ادائیگی کرتے ۔ آپ نے حصہ جائیداد اپنی زندگی میں ہی ادا کر دیا تھا -لازمی چنده جات کے ساتھ ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اُن کی وفات کے بعد جب چنده وصیت کا حساب ہوا تو معلوم ہواکہ امریکہ اور پاکستان ہر دو جگہ فاضل ادا ہے ۔ الحمد للہ ۔خلفائے احمدیت کے لئے اپنے دل میں پیار اور خلافت ِ احمدیہ کے لئے گہری محبت اور غیرت رکھتے تھے۔ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی الله تعالیٰ سے لے کر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایده الله تعالیٰ کا زمانہ دیکھا ۔ آپ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے ۔ آپ کے پسماندگان میں آپ کی بیوه کے علاوه 3 بیٹے خاکسار رضوان احمد سندھو، نعمان احمد سندھو عثمان احمد سندھو اور ایک بیٹی عظمی ٰ شوکت نذیر اہلیہ شوکت نذیر سندھو صاحب ہیں۔ آپ کی اہلیہ اور 2بچے مو صی ہیں۔ تمام بچوں نے مختلف حیثیتوں میں جماعت کی عملی خدمت کرنے کی توفیق پائی ہے۔خاکسار رچمنڈ میں زعیم انصارالله اور سیکریٹری جنرل کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔ نعمان سندھو یو کے میں جماعت کے ایک سرگرم کارکن کے طور پر ایم ٹی اے میں خدمات بجا لا رہا ہے اور عثمان سندھو بوسٹن میں قائد مجلس خدام الاحمدیہ رہا ہے اور آج کل کیلیفورنیا میں مقیم ہے –

ہم سب بڑے بھاری دل کے ساتھ انہیں الوداع کہتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وه خداتعالی ٰکے فضل سے ایک بہت بہتر مقام کی طرف گئے ہیں ۔ بچوں کے لئے ان کا آخری پیغام نمازوں کی پابندی کرنا ، تقوی ٰ کے ساتھ زندگی گزارنا اور خلافت ِ احمدیہ سے وابستہ رہنا تھا ۔ خدا تعالی ٰ ہمیں تا دم ِآخر اس پر عمل پیرا رہنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین۔ ابو کے ساتھ قلب وجاں کا رشتہ کچھ اس طرح سے جڑ چکا تھا کہ اب بھی کبھی کبھی تنہائی میں کانوں میں ان کی رس گھولتی ہوئی آواز سنتا ہوں۔گویا وه کہہ رہے ہوں کہ کل جب میرے بغیر صبح طلوع ہو گی تو یہ تصور کرنا کہ ایک فرشتہ آیا اور اس نے میرا نام پکارااور پھر میرا ہاتھ تھام لیا اور بتایا کہ آسمان کی بلندیوں سے کہیں اوپر جنت میں میری جگہ تیار ہو چکی ہے اور مجھے اپنے تمام عزیزوں اور پیاروں کو پیچھے چھوڑ کر منزل ِ مقصود کی جانب روانہ ہونا ہے ۔ پھر جس وقت میں جنت کے دروازے پر پہنچا تو ایسا لگا کہ میرے خدا نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور خوش آمدید کہا اور میں نے یوں طمانیت محسوس کی کہ گویا مدتوں بعد لوٹ کر اپنے گھر پہنچا ہوں ۔ چنانچہ جب کل صبح میرے بغیر طلوع ہو تو یہ نہ سوچنا کہ ہم جدا ہیں ، جب بھی میرے بارے میں سوچو گے مجھے اپنے دل کے قریب محسوس کرو گے ۔ ہمیں یقین ہے کہ وہاں وه پہلے سے کہیں بڑھ کر آرام اور راحت وسکون میں ہیں ۔لیکن یہاں ان کا چھوڑا ہوا خلا ء کبھی پُر نہیں ہو گا ۔ آخر میں اپنے پیارے والد ِ گرامی کے آخری الفاظ درج کرکے ان کی یاد میں لکھا ہوا یہ مختصر سا نوٹ ختم کرتا ہوں – ان الفاظ پر ہلکا سا غور کرنے سے بھی انسان کسی اور ہی کیفیت میں پہنچ جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا ’’:کیا انتظام ہے؟قافلہ تیار ہے ؟ میں تیار ہوں۔ الله اکبر الله اکبر اس کے بعد ُخود بستر سے اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا میری چھڑی پکڑاؤچلو چلیں‘‘

(رضوان احمد سندھو۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 11۔مئی2020ء