• 3 مئی, 2024

خدا کی قدرتیں اور ہمارا ظرف

خدا کی زمین پر بسنے والے بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو آسمان ہمیں دکھائی دیتا ہے یا کم وبیش 220 کے قریب جو ممالک ہیں بس یہی خدا کی کل کائنات ہے یا کچھ یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ نظام شمسی ہیں جن میں سے ایک ہمارا نظام شمسی بھی ہے۔ یہ خدا کی کُل کائنات ہے۔

مگر سچ تو یہ ہے کہ جو آسمان نیلے رنگ کا ہم دیکھتے ہیں اور بے انتہاستارے ہمیں نظر آتے ہیں وہ ہمارے خدا کی کل کائنات کا ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ چلیں ہم اللہ تعالیٰ کی کائنات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

زمین،جہاں پر ہم رہتے ہیں کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں نے ساری زمین کی سیر کی ہے۔ سینکڑوں ممالک، ان گنت شہر، سمندر ،دریا ،صحرا ہماری زمین پر موجود ہیں۔ ہماری ٹیکنالوجی کا جدید ترین جہاز پاکستان سے امریکہ جاتے ہوے 7 گھنٹے لیتا ہے وگرنہ نارمل کمرشل جہاز 16،17 گھنٹے لیتا ہے۔ جہاز کی رفتار سے سب واقف ہی ہیں۔ مگر حیرانگی آپ کو اس بات پر ہوگی کہ اتنی بڑی زمین ہونے کےباوجود کائنات میں اس زمین کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے ریت سے بھرے ایک ٹرک میں ایک ریت کا ذرہ۔

ہماری زمین کا نظام شمسی کروڑوں سال سے9 سیاروں کی موجودگی کے ساتھ ایک خاص سمت کو محوِ سفر ہے۔ ہماری کائنات کا سب سے بڑا سیارہ سورج ،ہماری زمین سے 2لاکھ گنا بڑا ہے اور ہماری کائنات میں سورج جیسے بے شمار ستارے ہیں۔ رات کو نظر آنے والے ستارے تو ہمارے سورج سے بھی لاکھوں گنا بڑے ہیں۔ مگر بے انتہا دور ہونے کی وجہ سے بہت چھوٹے نظر آتے ہیں۔ ان کی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں ہزاروں سال لگ جاتے ہیں۔ ہم آسمان پر جو ستارے دیکھتے ہیں وہ ہمارے نظام شمسی کے آس پاس کے ستارے ہیں مگر ایک دوسرے سے اربوں کھربوں میل دور۔

بےشمار ستارے مل کر کہکشاں یا ستاروں کے جھرمٹ کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ آسمان پر نظر آنے والے ان ستاروں کے جھرمٹ کو ملکی وے Milky way کہا جاتا ہے، جس میں ان گِنت کہکشایں ہیں۔ ہمیں جو آسمان دکھائی دیتا ہے وہ اس مِلکی۔وےکا بس تھوڑا سا حصہ ہے۔ اس کائنات میں ہماری کہکشاں کے علاوہ اور بھی ان گنت کہکشائیں موجود ہیں۔

ہماری کہکشاں ،ملکی وے اور اس طرح کی دیگر اور کہکشائیں مل کر لوکل گیلیکٹک گروپ بناتی ہیں۔ ہماری کروڑوں ستاروں والی مِلکی وے، اس گروپ میں ایک ذرّے کی حیثیت رکھتی ہے۔

اب آپ اندازہ لگائیں کہ خدا کی کائنات کتنی بڑی ہے۔ اربوں کھربوں میلوں پر پھیلی ہوئی….. انسان صرف جدید آلات سے دیکھ ہی سکا ہے اور پھر اس کائنات میں ہزاروں لاکھوں شہابِ ثاقب گھومتے پھر رہے ہیں۔ کچھ شہابِ ثاقب زمین سے بھی کئی گنا بڑے ہیں جنہیں زمین تک پہنچنے میں ہی لاکھوں سال لگ جائیں گے۔

مگر ذرا ٹھہریئے ! یہ تو ایک کائنات کا ذکر ہو رہا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق اس سے بڑی چھوٹی 2 ہزار ارب اور کائناتیں بھی دریافت ہو چکی ہیں۔ جس طرح انسان زندہ ہوتے اور مرتے ہیں اسی طرح کائناتیں بن رہی ہیں اور ختم ہو رہی ہیں۔

اگر ایسا ہے تو میرے خدا کی کائنات کی وسعت کا اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہی ہے۔ ہم بیٹھے ہیں ایک چھوٹی سی کائنات کے ایک چھوٹی سی کہکشاں کے ایک چھوٹے سے نظام ِ شمسی کے ایک چھوٹے سے سیارے زمین پر….. اب ذرا زمین پر پاؤں رکھیں اور سوچیں کہ اتنی زیادہ کائناتوں کے مقابلہ میں ایک زمین کی کیا حیثیت ہے؟ اور اس زمین پر بسنے والی ایک مخلوق جسے انسان کہا جاتا ہے اس کی اس خدا کے آگے، جس نے یہ کائناتیں بنائیں، یہ نظام بنایا،کیا حیثیت ہے ؟؟

اور دیدہ دلیری دیکھیں اس انسان کی کہ سرکشی بھی کرتا ہے تو کس کے آگے ؟خدا کی سرکشی؟جس کی کائناتوں کی کائناتیں ہیں۔ کیا اوقات یا حیثیت اس اشرف المخلوقات کی ؟نجانے کتنے سیاروں پر مخلوق آباد ہوگی؟نجانے کتنے سیاروں پر ہم سے ذہین اور عقلمند لوگ آباد ہوں گے ؟نجانے کتنے سیاروں پر نبیوں اور اللہ کے بھیجے ہوئے بندوں کے سلسلے ہوں گے؟نجانے کتنے فرشتے جو کہ صرف زمین کی طرف آنے والے ہی اَن گنت ہیں تو دوسرے سیاروں پر کتنے خدا کے پاس سے جاتے ہوں گے؟

خدا اپنی اس مخلوق انسان سے فرماتا ہے کہ میں تمہارے شہ رگ سے بھی قریب ہوں۔ میں نے تمہیں اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ تمہارے رزق کا ذمہ دار میں ہوں۔ کائنات کی وسعت کا اندازہ تو آپ کو پڑھ کر ہو ہی گیا ہوگا لیکن دیکھیں اس خدا کی شان کہ ایک چھوٹی سی زمین کے اندر پتھروں کی تہہ میں دبے ہوے کیڑے کو بھی رزق پہنچا رہا ہے۔ اس کو اپنی مخلوق میں اس کیڑے کا بھی خیال ہے۔ جب وہ اس کیڑے سے اتنی محبت کرتا ہے تو سوچیں جس مخلوق کو اس نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اس سے کتنی محبت کرتا ہوگا ؟ جس کو اس نے اپنی فطرت پر بنایاہے۔ بطور ایک انسان سوچیں کہ ہم کیا ہیں؟

عرض اتنی ہے کہ خدا میں بہت طاقتیں ہیں ۔یہ زمین تو کیا ساری کائناتیں بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ کوئی اس کو مانتا ہے مانے ،نہیں مانتا نہ مانے ، خدا بے نیاز ہے۔

لیکن اپنی زندگیوں پر غور کر کے کم از کم اتنا ضرور سوچیں کہ اتنی بڑی سلطنت اور قدرتوں کا مالک ہو کر آپ پر کس قدر انعامات کرتا ہے۔ آپ کی غلطیوں کو ہر بار نظر انداز کر کے آپ کو رزق دیتا ہے۔ جس زمین پر آپ رہتے ہیں اس کی حیثیت اس کائنات کے آگے ایک ذرہ کی بھی نہیں اور ہم اس زمین پر کیا طاقت رکھتے ہیں؟

اپنے مالک کی قدر کریں، وہ بہت بڑے ظرف کا مالک ہے۔ اس کا فضل ،اس کا رحم بہت بڑا ہے۔ آپ کے گناہوں کے باوجود آپ پر انعامات برساتا ہے۔ آپ کے غرور وتکبر کے باوجود آپ کو صحت عطا فرماتا ہے، بیماریوں سے بچاتا ہے۔ آپ کے کئے گئے ظلموں کے باوجود سکون دیتا ہے کہ شاید میرا بندہ سمجھ جائے، سُدھر جائے۔ میری عبادت کرے، میری مخلوق کی خدمت کرے۔ لیکن یاد رکھیں اس کی پکڑ بھی بہت سخت ہے۔ اس کا رحم اس کے غضب پر حاوی رہتا ہے۔

اس کی قدرتوں کا احاطہ کریں جو کائنات کی صورت میں بیان کیا ہے۔ اتنی بڑی ہستی اگر درگزر کرتی ہے ،اپنے اعلی ظرف کی وجہ سے تو اس کے آگے سرکشانہ چال نہ چلیں۔ کوئی حیثیت نہیں انسان کی، اس ربِّ کائنات کے آگے۔ وہ اتنی بڑی ہستی ہے کہ اس کے آگے شکایت کرنا بنتاہی نہیں۔ اپنی زندگی کی مشکلات کا ذمہ دار اسے نہ ٹھہرائیں۔ جتنی عزت آپ اپنےباپ یا استادکی کرتے ہیں وہ اس سے لاکھوں گنا زیادہ عزت کے قابل ہے۔
بہت ساری آپ کی تکالیف ومشکلات آپ کو بتائے بغیر ہی دور کر دیتا ہے۔آپ کسی انسان پر کوئی احسان کریں تو اسے بتا دیتے ہیں لیکن وہ تو آپ کو نہیں بتاتا کہ میرے تم پر کیا کیا احسانات ہیں۔ آپ کو کوئی بُرا کہہ دے تو آپ بُرامناتےہیں لیکن آپ اپنی ساری غلطیاں خدا پر ڈال کر خود کو بے قصور سمجھتے ہیں اور خدا آپ سے اتنا پیار کرتا ہے کہ خاموش رہ کراپنے انعامات سے نوازتا رہتا ہے اور غلطیوں کو سدھارتا رہتا ہے۔

آپ جب ناکامی کے اندھیروں میں گھِرے ہوتے ہیں اور خدا کو قصور وار سمجھ رہے ہوتے ہیں تب بھی وہ آپ کو امید کی کرن دکھاتا ہے اور اس ناکامی یا مشکل سے باہر نکال دیتا ہے لیکن آپ خدا کے شکر گزارہونے کی بجائے اپنی ہمت کہہ کر کریڈٹ لے رہے ہوتے ہیں۔ تب بھی وہ پیار کی نگاہ ڈالے، آپ کی کم ظرفی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی اعلیٰ ظرفی سے آپ کو کامیاب کرتا ہے۔

یہ ہے وہ خدا جو اتنی بڑی سلطنتوں کا مالک ہے۔ سب اسی کا ہے ناکامیاں بھی، کامیابیاں بھی ،ہم بھی، آپ بھی، دنیا بھی، آخرت بھی۔اس کی قدر کریں۔ عزت کریں، پیار کریں۔ اس کے آگے جھکیں کیونکہ وہی ہے جس کے آگے صرف جھکنا بنتاہے۔

دعائیں قبول کروانے کے بزرگوں نے بہت طریقے بتائے ہیں، ان سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ سب کی سنتا ہے اور سب سنتا ہے۔ بس کوشش کریں کہ اس کے سامنے پُرنم آنکھوں سے جائیں۔ وہ بہت بڑی عظیم ہستی ہے اس کا حق ہے کہ اس سے پُرنم آنکھوں سے مانگا جائے پھر جو مانگیں گے ملے گا۔ آزمائش شرط ہے۔

(عدنان احمد ظفر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 11۔مئی2020ء