• 24 اپریل, 2024

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے نظیر اور کامل نمونہ

ایک وقت ہے کہ آپؐ فصاحت بیانی سے ایک گروہ کو تصویر کی صورت حیران کر رہے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ تیرو تلوار کے میدان میں بڑھ کر شجاعت دکھاتے ہیں۔ سخاوت پر آتے ہیں تو سونے کے پہاڑ بخشتے ہیں۔ حلم میں اپنی شان دکھاتے ہیں تو واجب القتل کو چھوڑ دیتے ہیں۔ الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے نظیر اور کامل نمونہ ہے جو خداتعالیٰ نے دکھا دیا ہے۔ اس کی مثال ایک بڑے عظیم الشان درخت کی ہے جس کے سایہ میں بیٹھ کر انسان اس کے ہر جزو سے اپنی ضرورتوں کو پورا کر لے۔ اس کا پھل، اس کا پھول اور اس کی چھال، اس کے پتے غرضیکہ ہر چیز مفید ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس عظیم الشان درخت کی مثال ہیں جس کا سایہ ایسا ہے کہ کروڑ ہا مخلوق اس میں مرغی کے پروں کی طرح آرام او رپناہ لیتی ہے۔ لڑائی میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھاجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا تھا۔ کیونکہ آپؐ بڑے خطرناک مقام میں ہوتے تھے۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ! کیا شان ہے۔ اُحد میں دیکھو کہ تلواروں پر تلواریں پڑتی ہیں۔ ایسی گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے کہ صحابہ ؓ برداشت نہیں کر سکتے مگر یہ مرد میدان سینہ سپر ہو کر لڑ رہا ہے۔ اس میں صحابہ ؓ کا قصور نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کوبخش دیا بلکہ اس میں بھید یہ تھا کہ تا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کا نمونہ دکھایا جاوے۔ ایک موقع پر تلوار پر تلوار پڑتی تھی اور آپؐ نبوت کا دعویٰ کرتے تھے۔ کہ محمد رسول اللہ میں ہوں۔کہتے ہیں حضرتؐ کی پیشانی پر ستر زخم لگے مگر زخم خفیف تھے۔ یہ خُلقِ عظیم تھا۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ84 ایڈیشن1988ء)

اصل بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُنس اور ذوق پیدا ہو جاتا ہے تو پھر دنیا اور اہل دنیا سے ایک نفرت اور کراہت پیدا ہو جاتی ہے۔ بالطبع تنہائی اور خلوت پسند آتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی حالت تھی۔ اللہ تعالیٰ کی محبت میں آپؐ اس قدر فنا ہو چکے تھے کہ آپؐ اس تنہائی میں ہی پوری لذّت اور ذوق پاتے تھے۔ ایسی جگہ میں جہاں کوئی آرام کا اور راحت کا سامان نہ تھا اور جہاں جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہو، آپؐ وہاں کئی کئی راتیں تنہا گزارتے تھے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کیسے بہادر اور شجاع تھے۔ جب خدا تعالیٰ سے تعلق شدید ہو تو پھر شجاعت بھی آ جاتی ہے اس لئے مومن کبھی بزدل نہیں ہوتا۔ اہل دنیا بزدل ہوتے ہیں۔ ان میں حقیقی شجاعت نہیں ہوتی۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ317 ایڈیشن 1988ء)

پچھلا پڑھیں

اعلان دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مئی 2022