• 9 مئی, 2025

دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کی ترقی خلافت کی بدولت ہے

سوال۔ جرمنی ناصرات میں سے ایک بچی نے سوال کیا کہ لاہوری جماعت ہم سے علیحدہ کیوں ہوئی تھی؟

جواب۔ حضورِ نے جواب میں تفصیل سے واضح فرمایا کہ ’’ان کا یہ سلسلہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے زمانے میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ فرق یہ ہے کہ وہ کہتے تھے کہ جو خلافت ہے وہ انجمن کے ماتحت ہونی چاہئے اور انجمن کے جو افسران تھے وہ کہتے تھے کہ ہم جماعت کو چلائیں۔ سارے فائدے اٹھانا چاہتے تھے۔ تو خلیفہ اول ؓ نے فرمایا تھا کہ خلیفہٴ وقت کو کل اللہ تعالیٰ نے اختیار دئے ہیں۔ یہ ہی اسلامی طریقہ ہے۔ انجمن کے ماتحت نہیں ہو سکتا خلیفہ۔ خیر اس وقت تو ان لوگوں نے برداشت کر لیا۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ کے چھ سال کا زمانہ لیکن پھر جب خلافت ِ ثانیہ کا انتخاب ہوا تو پھر جو بڑے بڑے مولوی تھے عہدیدار جماعت کے، انہوں نے کہا کہ خلافت نہیں ہونی چاہئے اور ان کو یہ شک تھا کہ مرزا بشیرالدین محمود احمد اب خلیفہ منتخب ہو جائیں گے اس لئے انہوں نے شور مچا دیاکہ ہم خلافت نہیں مانتے۔ حضرت خلیفہ ثانی حضرت مرزا بشیر الدین ؓ نے کہاکہ یہ خلافت تو بہر حال ہونی چاہئے تمہیں یہ اگر شک ہے کہ میں خلیفہ بنوں گا تو مجھے کوئی خواہش نہیں خلیفہ بننے کی۔ اگر تم چاہتے ہو تو تمہارے میں سے کسی ایک کو ہم خلیفہ مان لیتے ہیں لیکن ہو گی خلافت ہی جس پر ہم اکٹھے ہو جائیں۔ چاہے وہ مولوی محمد علی صاحب ہوں یا کوئی اور ہو۔ کسی ایک کو ہم خلیفہ مان لیتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ نہیں نہیں ہمیں پتہ ہے کہ جماعت نے آپ کو ہی بنانا ہے۔ تو اس لئے انہوں نے خلافت سے انکار کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے تو یہ وعدہ کیا تھا کہ خلافت قائم ہو گی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے رسالہ الوصّیت میں جب وصیت کی سکیم شروع فرمائی ہے۔ اس میں یہ بھی فرمایا تھا کہ میرے بعد خلافت ہو گی۔ اس لئے خلافت تو بہرحال قائم ہونی تھی آنحضرت ﷺ نے بھی یہی فرمایا تھا۔ آپ کی حدیث بھی یہی ہے۔ لیکن یہ لوگ خلافت کو ماننے پر تیار نہیں تھے اسی لئے یہ لوگ علیحدہ ہو کر لاہور چلےگئے اور وہاں جا کرانہوں نے اپنی جماعت بنا لی۔ جتنا جماعت کا خزانہ تھا، پیسے تھے، وہ بھی ساتھ لے گئے اوربہت سارے بڑے بڑے علماء ان کے ساتھ چلے گئے۔لیکن اللہ تعالیٰ نے کیونکہ خلافت کی حفاظت کرنی تھی اس لئے ان کی جماعت تو کچھ عرصے کے بعد آہستہ آہستہ ختم ہوتے ہوتے اب تو ختم ہی ہو چکی ہے۔ لیکن جماعت احمدیہ جو خلافت کے ساتھ تھی، جس کا خلافت سے تعلق تھا، وہ بڑھ ر ہی ہے اور بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اور دنیا کے اب 212 ملکوں میں پہنچ چکی ہے۔تو اختلاف یہاں ہوا تھا کہ وہ لوگ جو تھے،بڑے علماء، وہ کہتے تھے کہ ہم افسران جو ہیں ہمارے پاس سارے اختیار ہوں اور خلیفہٴ وقت کے پاس کوئی اختیار نہ ہو۔بلکہ خواہش انکی یہ تھی کہ خلیفہ ہو ہی نہ۔ صرف انجمن ہو۔ اس لئے اس بات کو مانا نہیں خلیفہ ثانی نے، نہ ہی جماعت کے ممبران نے اور اس کے بعد وہ ناراض ہو کے لاہوری جماعت لاہور چلی گئی۔ لاہور جا کر انہوں نے ایک جماعت علیحدہ قائم کر لی۔ اسکو پیغامی بھی کہتے ہیں اور لاہوری بھی کہتے ہیں۔ غیر مبائع بھی کہتے ہیں۔ جنہوں نے خلافت کی بیعت نہیں کی۔

لیکن اب دیکھ لو، آہستہ آہستہ وہ لوگ جو بڑے بڑے لوگ تھے اور سمجھتے تھے کہ قادیان ختم ہو جائے گا۔ کہا کرتے تھے کہ اب قادیان میں کچھ بھی نہیں رہے گا۔ اسکی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی۔ لیکن قادیان تو ترقی کرتا گیا اور جب ہجرت ہوئی تو پھر اسکے بعد اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں بھی مرکز دے دیا۔پھر دنیا میں اور جگہ جماعتیں بننی شروع ہو گئیں۔لیکن وہ پیغامی تو اب چندایک جگہ پر ہی ہیں۔اب ایک برلن میں، تمہارے جرمنی میں، انکی مسجد ہے جو پرانی سب سے بڑی مسجد ہے۔ لیکن اس مسجد میں انکو تو امام بھی کوئی نہیں ملتا نماز پڑھانے کے لئے۔ بڑی مشکلوں سے کوئی آتا ہے مہینے تین مہینے کے لئے پھر چلا جاتا ہے۔جبکہ ہماری مسجد برلن میں بن گئی ہے آباد رہتی ہے۔ جب میں وہاں گیا ہوں برلن، تو انکی مسجد دیکھنے بھی گیا تھا۔ اسوقت وہاں امریکہ سے ایک لڑکا سا آیا ہوا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ میں ہی ان کا امام ہوں اور میں عارضی طور پر یہاں آیا ہوا ہوں۔ نہ ہی اس میں اماموں والی کوئی بات تھی، نہ ہی وہ کوئی دینی علم پڑھا ہوا تھا۔لٹریچر بھی، حضرت مسیح موعود ؑ کی کتابیں بھی شائع کرتے ہیں۔ لیکن بس کیونکہ ان کے پاس پیسہ ہے تھوڑا بہت لٹریچر شائع کر لیتے ہیں۔ چند ایک وہ رہ گئے ہیں، چند سو ہوں گے ان کے ماننے والے۔ لیکن جماعتِ احمدیہ جو خلافت کے ساتھ ہے وہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ وہاں مسجد میں بھی میں نے دیکھا کہ ہر طرف کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ بڑا بُرا انتظام تھا۔ مسجد کی صفائی وغیرہ بھی نہیں ہوئی تھی۔ لیکن جماعتِ احمدیہ دیکھ لو جرمنی میں بھی نئی نئی مسجدیں بھی بنا رہی ہے اور ترقی بھی کر رہی ہے۔یہ خلافت کی وجہ سے ہی ہے۔اور اسی طرح دنیا کے دوسرے ملکوں میں افریقہ میں، ایشیا میں، آسٹریلیا میں، جزائر میں، امریکہ میں، یورپ میں ہر جگہ جماعت ترقی کر رہی ہے۔ تو وہ لوگ خلافت کے انکاری تھے اس لئے چلے گئےاور اس کا نقصان بھی انہوں نے دیکھ لیا۔ اب ان میں سے بہت سارے ایسے ہیں جو اس بات کو مانتے ہیں کہ ہم نے خلافت کو چھوڑ کے غلطی کی اور اب ان میں سے، پیغامیوں میں سے ہی، جب میں فجی گیا ہوں تو وہاں مجھے ملنے بھی آئے تھے بعض اور انہوں نے بیعت بھی کی ہے۔ اسی طرح وہاں نیوزی لینڈ میں آئے تھے۔ انہوں نے بیعت بھی کی۔ تو آہستہ آہستہ لوگ ان میں سے جن کو سمجھ آ رہی ہے احمدی ہوتے بھی گئے اور خلافت کے سائے تلے آ گئے۔‘‘

(This Week with Huzoor مؤرخہ 25فروری 2022ء مطبوعہ الفضل آن لائن 19؍مارچ 2022ء)

پچھلا پڑھیں

اعلان دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مئی 2022