دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 27
بہترین دعا
بہترین دعا وہ ہوتی ہے جو جامع ہو تمام خیروں کی اور مانع ہو تمام مضرات کی۔ اس لئے اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ کی دعا میں آدمؑ سے لیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک کے کل منعم علیہم لوگوں کے انعامات کے حصول کی دعا ہے اور غیر المغضوب علیھم ولا الضالین (الفاتحہ: 7) میں ہر قسم کی مضرتوں سے بچنے کی دعا ہے چونکہ مغضوب سے مراد یہود اور ضالین سے مراد نصاریٰ بالاتفاق ہیں تو اس دعا کی تعلیم کا منشا صاف ہے کہ یہود نے جیسے بیجا عداوت کی تھی۔ مسیح موعود کے زمانہ میں مولوی لوگ بھی ویسا ہی کریں گے اور حدیثیں اس کی تائید کرتی ہیں یہانتک کہ وہ یہودیوں کے قدم بہ قدم چلیں گے۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ429-430 آن لائن ایڈیشن 1984ء)
انعامات کی اُمّ- اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ہے
ہر ایک شے کی ایک اُمّ ہوتی ہے۔ میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ کے جو انعامات ہیں ان کی اُمّ کیا ہے؟ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ ان کی اُمّ، اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن: 61) ہے۔ کوئی انسان بدی سے بچ نہیں سکتا جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو۔ پس اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ فرما کر یہ جتلا دیا کہ عاصم وہی ہے اسی کی طرف تم رجوع کرو۔
(ملفوظات جلد6 صفحہ3 آن لائن ایڈیشن 1984ء)
خاک پیری ہی میں برکت ہے
اِنَّمَاالۡاَعۡمَالُ بِالنِّیَّاتِ اگر انسان نیکی نہ کرسکے تو کم از کم نیکی کی نیت تو رکھے کیونکہ ثمرات عموماً نیتوں کے موافق ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیوی حکام بھی اپنے قوانین میں نیت پر بہت بڑا مدار رکھتے ہیں اور نیت کو دیکھتے ہیں۔ اسی طرح پر دینی امور میں بھی نیت پر ثمرات مرتب ہوتے ہیں پس اگر انسان نیکی کرنےکا مصمم ارادہ رکھے اور نیکی نہ کر سکے تب بھی اس کا اجر مل جاویگا اور جو شخص نیکی کی نیت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو توفیق بھی دے دیتا ہے اور توفیق کا ملنا یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے دیکھا گیا ہے اور تجربہ سے دیکھا گیا ہے کہ انسان سعی سے کچھ نہیں کرسکتا۔ نہ وہ صلحاء، سعداء و شہداء میں داخل ہوسکتا ہے اور نہ اور برکات اور فیوض کو پاسکتا ہے۔ غرض
نہ بزور نہ بزاری نہ بزرمے آید
بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ گوہر مقصود ملتا ہے اور حصول فضل کا اقرب طریق دعا ہے اور دعا کامل کے لوازمات یہ ہیں کہ اس میں رقت ہو۔ اضطراب اور گدازش ہو۔ جو دعا عاجزی، اضطراب اور شکستہ دلی سے بھری ہوئی ہو وہ خداتعالیٰ کے فضل کو کھینچ لاتی ہے اور قبول ہو کر اصل مقصد تک پہنچاتی ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔اور پھر اس کا علاج یہی ہے کہ دعا کرتا رہے، خواہ کیسی ہی بے دلی اور بے ذوقی ہو لیکن یہ سیر نہ ہو۔ تکلف اور تصنع سے کرتا ہی رہے اصلی اور حقیقی دعا کے واسطے بھی دعا ہی کی ضرورت ہے۔
بہت سے لوگ دعا کرتے ہیں اور ان کا دل سیر ہوجاتا ہے وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ کچھ نہیں بنتا۔ مگر ہماری نصیحت یہ ہے کہ اس خاک پیزی ہی میں برکت ہے کیونکہ آخر گوہر مقصود اسی سے نکل آتا ہے اور ایک دن آجاتا ہے کہ جب اس کا دل زبان کے ساتھ متفق ہوجاتا ہے اور پھر خود ہی وہ عاجزی اور رقت جو دعا کے لوازمات ہیں پیدا ہوجاتے ہیں۔ جو رات کو اٹھتا ہے خواہ کتنی ہی عدم حضور ی اور بے صبری ہو لیکن اگر وہ اس حالت میں بھی دعا کرتا ہے کہ الٰہی دل تیرے ہی قبضہ اور تصرف میں ہے تو اس کو صاف کردے اور عین قبض کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے بسط چاہے تو اس قبض سے بسط نکل آئے گی اور رقت پیدا ہوجائے گی۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جو قبولیت کی گھڑی کہلاتا ہے۔ وہ دیکھے گا کہ اس وقت روح آستانۂ الوہیت پر پانی کی طرح بہتی ہے اور گویا ایک قطرہ ہے جو اوپر سے نیچے کی طرف گرتا ہے۔
میں نے خیال کیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا واقعہ بھی عجیب ہے۔ اور وہ حالت دعا کا ایک صحیح نقشہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی بد قضاء و قدر مقدر تھی اور وہ قبل از وقت ان کو دکھائی گئی تھی اور انہوں نے بھی یہی سمجھا تھا کہ اس سے رہائی محال ہے اور پہلے نبیوں نے بھی ایسا ہی سمجھا تھا اور آثار بھی ایسے ہی نظر آتے تھے۔ اس واسطے انہوں نے بڑی بیکلی اور اضطراب کے ساتھ دعا کی۔ انجیل میں اس کا نقشہ خوب کھینچ کر دکھایا ہے۔ پس ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی قضاء و قدر کو جو موت کے رنگ میں مقدر تھی غشی کے ساتھ بدل دیااور ان کی دعا سنی گئی چنانچہ انجیل کے مطالعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے جہاں لکھا ہے فَسُمِعَ لتقوٰہُ کہ اس کی دعا اس کے تقویٰ کے باعث سنی گئی اور خدا نے تقدیر ٹال دی اور موت غشی سے بدل گئی۔
(ملفوظات جلد6 صفحہ93-95 آن لائن ایڈیشن 1984ء)
دعا میں خشوع و خضوع ضروری ہے
دعا میں خشوع و خضوع ضروری ہے اور اگر دعا کو دل نہ چاہے اور پورا خشوع خضوع دعا میں حاصل نہ ہو تو اس کے حصول کے واسطے بھی دعا کرے اور اس بات سے ابتلا میں نہ پڑے کہ میری دعا تو صرف زبان پر ہی ہوتی ہے دل سے نہیں نکلتی۔ دعا کے جو لفظ ہوتے ہیں ان کو زبان سے ہی کہتا رہے۔ آخر استقلال اور صبر سے ایک دن دیکھ لے گا کہ زبان کے ساتھ اس کا دل بھی شامل ہوگیا ہے اور عاجزی وغیرہ لوازمات دعا میں پیدا ہوجائیں گے۔
(ملفوظات جلد6 حاشیہ صفحہ94)
انسان کا پرستار کبھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا
… اس میں شک نہیں کہ دعاؤں کی قبولیت پر ہمارا ایمان ہے اور اللہ تعالیٰ نےا ن کے قبول کرنے کا وعدہ بھی فرمایا ہے مگر دعاؤں کے اثر اور قبولیت کو توجہ کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے اور پھر حقوق کے لحاظ سے دعا کے لئے جوش پیدا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا حق سب پر غالب ہے۔ … دعا کرانے والے کے لئے یہ بھی ضرور ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرے اور اللہ تعالیٰ سے صلح کرے۔ اپنے گناہوں سے توبہ کرے۔ پس جہانتک ممکن ہو تم اپنے آپ کو درست کرو اور یہ یقیناً سمجھ لو کہ انسان کا پرستار کبھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔
(ملفوظات جلد6 صفحہ102-103)
زمینی ہتھیاروں کا کام آسمان کے فرشتے
دعا کے ذریعہ کرتے ہیں
ہمارا مقابلہ صرف مسٹر ڈوئی ہی سے نہیں ہے بلکہ تمام عیسائیوں کے مقابلہ پر ہے اور یہ بھی ایک طریق ہے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کسرِ صلیب کرے گا۔ حدیثوں میں آیا ہے کہ آنے والے مسیح کے خادم فرشتے ہوں گے۔ ان الفاظ سے اس کی کمزوری نکلتی ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پاس زمینی ہتھیار نہ ہوں گے بلکہ جو کام زمینی ہتھیاروں سے ہوتا ہے وہ دعا کے ذریعہ سے آسمان کے فرشتے خود کرتے رہیں گے۔ مشکوٰۃ میں یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں عیسائیوں کے ساتھ کوئی شخص مقابلہ نہ کرسکیگا مگر ہاں مسیح موعود دعاؤں سے مقابلہ کرے گا سو اب وہ مقابلہ آپڑا ہوا ہے جس سے اسلام اور عیسائیت کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔
(ملفوظات جلد6 صفحہ109)
یہ مقام صبر اور رضا کے ہوتے ہیں
اس سے بڑھ کر انسان کے لئے فخر نہیں کہ وہ خدا کا ہو کر رہے جو اس سے تعلق رکھتے ہیں وہ ان سے مساوات بنا لیتا ہے۔ کبھی ان کی مانتا ہے اور کبھی اپنی منواتا ہے ایک طرف فرماتا ہے اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن: 61) دوسری طرف فرماتا ہے وَلَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ (البقرہ: 156) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک مقام دعا کا نہیں ہوتا۔ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ کے موقع پر اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کہنا پڑے گا۔ یہ مقام صبر اور رضا کے ہوتے ہیں لوگ ایسے موقعہ پر دھوکا کھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دعا کیوں قبول نہیں ہوتی۔ ان کا خیال ہے کہ خدا ہماری مٹھی میں ہے جب چاہیں گے منوالیں گے۔ بھلا امام حسین علیہ السلام پر جو ابتلا آیا تو کیا انہوں نے دعا نہ مانگی ہوگی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قدر بچے فوت ہوئے تو کیا آپ نے دعا نہ کی ہوگی۔ بات یہ ہے کہ یہ مقام صبر اور رضا کے ہوتے ہیں۔
(ملفوظات جلد6 صفحہ156-157 آن لائن ایڈیشن 1984ء)
(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)