• 14 جولائی, 2025

قرآن سے محبت کے رنگ جدا جدا

اللہ تعالیٰ نے جیسے انسانوں کی شکلیں جدا جدا بنائیں ایسے ہی ان کی سوچ بھی الگ الگ ہے۔ انہی مختلف سوچ کی بنا پر انسان کی محبت کے زاویے اور انداز بھی جدا جدا ہیں ۔ جو ادائیگیِ محبت پورے تقاضوں سے نبھاتے ہیں۔ ان کی مثال ماحول کو معطر کر دینے والے حسین رنگت کے پھول جیسی ہے اور کچھ کے انداز محبت زبانی کلامی دعوؤں کے سوا کچھ نہیں ہوتے یعنی محبت بنا عمل ایسے ہی ہے جیسے خوش رنگ پھول بِنا خوشبو کے جو دلوں کو معطر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

ایسے ہی قرآن پاک سے محبت کے دعویدار بھی جدا جدا ہیں۔ بہت سے مدارس اس محبت میں بچوں کو خوب ہلا ہلا کر قرآن ایسے رٹاتے ہیں کہ جیسے گھول گھول کر زبردستی ان کے دماغوں میں انڈیلا جا رہا ہو۔ کجا یہ کہ یہ پاک کلام ان کے دلوں کو معطر کر رہا ہے یا نہیں۔

جبکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ۔

لَا تُحْرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ (القیامۃ: 17)

تو اس کی قرأت کے وقت اپنی زبان کو اس لئے تیز حرکت نہ دے کہ تو اسے جلد جلد یاد کرے۔

پھر یہی بچے ان مدارس سے فارغ التحصیل ہو کر ٹخنوں سے اونچی شلواروں، بے لگام داڑھیوں اور سر پر شرافت کی ٹوپیاں پہنے نکلتے ہیں کہ گویا کسی جہاد پر نکلے ہوں۔ بے شک علم سیکھنا اور سکھانا کسی جہاد سے کم نہیں لیکن ان کا جہاد سیکھنے سکھانے کے عمل سے دو ر پیٹ کی بھوک مٹانے پر ہوتا ہے کہ اب زندہ رہنے کے لئے قرآن کو کس کس رنگ میں استعمال کریں۔

پھر کچھ لوگ ایسے بھی ملیں گے جو ان مدارس کے ہلنے ہلانے والے پُر مہارت عمل سے تو نہیں گزرے ہوتے لیکن خود کو عا شقانِ قرآن میں صف اول میں شمار کرتے ہیں ایسے لوگ اکثر ایشیاء،خصوصاً پاکستان، انڈیا ، بنگلہ دیش میں وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ جو قرآن پاک کو خوبصورت کپڑے میں لپیٹ کر قیمتی رہل میں سجا کر اونچی طاق پر رکھ دیتے ہیں کہ کسی کا ہاتھ نہ پہنچنے پائے۔ آخر قیمتی چیز کی حفاظت بھی کوئی چیز ہے۔ خیر جب کوئی مشکل در پیش ہو تو قرآن پاک پر آنکھیں پیشانی ٹیک کر اور چوم کر بے لوث محبت کے اظہار کے بعد با حفاظت رکھ دیا جاتا ہے۔ پھر کچھ اور قسم کے لوگ بھی نظر آئیں گے۔ یوں تو یہ عشق قرآن کا عملی مظاہرہ کرتے نظر نہیں آتے البتہ اس محبت سے بکلی انحراف کر کے کفر کرنا بھی کفر سمجھتے ہیں۔ مثلاً تعویز گنڈوں میں قرآن کی چند آیات یا حروف کو جنتر منتر کی صورت میں لکھ کر دینے والے بھی بڑا فخر رکھتے ہیں اپنے علم پر اور یہ تعویز لینے والے بھی اس کو بڑے فخر یہ اپنے یا اپنے بچوں کے گلوں میں بھینس کے گلے میں گھنٹی کی مانند لٹکائے پھرتے ہیں کہ فلاں پہنچے ہوئے پیر، فقیر کا بڑا پُر اثر تعویز ہے ۔ واقعی جہالت کی انتہا تک تو پہنچ ہی چکے ہیں۔ کاش کہ یہ آیت ان جیسوں کو چھو کر گزرتی۔

وَلَقَدْ یَسَّرْ نَاالْقُرْاٰنَ لِذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (القمر: 33)

اور یقیناً ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنا دیا ۔پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟

ابھی عاشقان ِ قرآن کی بات ختم نہیں ہوئی اگر نظر دوڑائیں تو دوسرے مسلمان ممالک یا تو بکلّی اس خزانے سے بے خبر اپنی رنگینیوں میں گم ہیں یا بس لفظ ‘‘قرآن’’ سے آشنا ہیں۔ بے حد افسوس کہ پڑھنا نہیں جانتے البتہ اتنا علم ہے کہ یہ ایک مقدس کتاب ہے جو گھر میں رکھی ہو تو اچھا ہے۔اور جن ممالک کی زبان عربی ہے ان کے نزدیک تو یہ ایک قصے کہانیوں کی کتاب ہے جہاں الماری میں اور بہت سی کتابیں موجود ہیں ان میں سے ایک یہ بھی سہی۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’یہ سچ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے قرآن شریف کو چھوڑ دیا ہے لیکن پھر بھی قرآن شریف کے انوار و برکات اور اس کی تاثیرات ہمیشہ زندہ اور تازہ بتازہ ہیں۔ چنانچہ میں اس وقت اس ثبوت کے لئے بھیجا گیا ہوں…‘‘

(الحکم 17نومبر 1905)

پھر ایک قسم جو درج بالا تمام عاشقان ِ قرآن پر بھاری پڑتی ہے۔ وہ مولوی حضرات ہیں جو تھوڑی بہت قرآن کی سوجھ بوجھ حاصل کرنے کے بعد درس وتدریس کے میدان میں ایسے اُترتے ہیں جیسے ان کو سند مل گئی ہو کہ جیسے چاہو قرآنی آیا ت کو توڑ مروڑ کر مطالب نکالو اور سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرو۔ بجائے مسلمانوں کو ایک اچھے مسلمان کی صحیح تعریف سمجھانے اور بتانے کے بس کفر کفر کے فتوؤں پر زور چلتا ہے گویا قرآن کی سوجھ بوجھ کیا حاصل کی کفر کی فیکٹری کا ڈپلومہ حاصل کر لیا ہو کہ جہاں سے دھڑا دھڑ کافر نکالنا عین فرض اولین ہو۔

انہی رویوں کی بنا پر غیر مسلم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہیں کہ اسلام، قرآن تشدد کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر با عمل اچھے مسلمان ہوتے توکیوں مسلمان دنیا اتنی پستی کا شکار ہوتی۔

غیر مسلم کی نظروں کو تو کیا دیکھنا افسوس تو اس پر ہے کہ انہی مولویوں کی غلط تعلیم اور مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ کی آئے دن جو نا زیبا حرکات کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ان باتوں نے ایک پڑھے لکھے طبقے کے دلوں میں قرآن و حدیث کی تعلیم کو بے معنی کر دیا ہے ۔ بلکہ پڑھا لکھا طبقہ دینی تعلیم کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھتا بلکہ اس کی نظر میں دینی تعلیم اب ترقی کا ذریعہ نہیں رہا ۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے اورایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں۔ صحابہؓ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو دیکھو انہوں نے جب پیغمبر ِ خدا ﷺ کی پیروی کی اور دین کو دنیاپر مقدم کیا تو وہ سب وعدے جو اللہ نے کئے تھے پورے ہو گئے … رسول کی اطاعت میں گم ہو کر وہ پایا جو صدیوں سے ان کے حصے میں نہ آیا تھا۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 409جدید ایڈیشن)

پھر درمیانہ طبقہ جو قرآن سے عقیدت تو رکھتا ہے لیکن سمجھنے کی راہ نہیں پاتا تو ان مولوی حضرات نے ان کو وظیفوں ٹونوں ٹوٹکوں پر لگا دیا ہے کہ فلاں فلاں آیت کو اِتنی بار پڑھو اور اُتنی با ر پڑھواور فلاں فلاں کر و وغیرہ وغیرہ ۔

حضر ت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’…رسم اور بدعات سے پرہیز بہتر ہے۔ اس سے رفتہ رفتہ شریعت میں تَصّرف شروع ہو جاتا ہے بہتر طریق یہ ہے کہ ایسے وظائف میں جو وقت اس نے صرف کرنا ہے وہی قرآن شریف کے تدبر میں لگاوے…اپنی طرف سے الحاق کی کیا ضرورت ہے ورنہ پھر سوال ہوگا کہ ایک نئی بات کیوں بڑھائی خدا کے سوا اور کس کی طاقت ہے کہ کہے فلاں راہ سے سورۃ یاسین پڑھو گے تو برکت ہو گی ورنہ نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ 519جدید ایڈیشن)

قرآن پاک بھی اس بات کو خوب کھول کر بیان کرتا ہے کہ

ھٰذَا بَصَائِرُ لِلنَّاسِ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۔ (الجاثیہ: 21)

یہ لوگوں کے لئے بصیرت کی باتیں ہیں اور یقین لانے والی قوم کے لئے ہدایت اور رحمت ہیں۔

’’اس بصیرت اور یقین کی مثال حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی قرآں سے محبت یوں عیاں ہوتی ہے ۔ آپ لاہور میں B.Aکی تعلیم حا صل کر رہے تھے کہ اچانک آپ نے کالج چھوڑ دیا اور قادیان آکر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سے قرآن و حدیث پڑھنے میں مشغول ہوگئے ۔ روایت ہے کہ کالج چھوڑنے کی وجہ یہ ہوئی کہ کسی طالب علم نے احمدیت کے متعلق کوئی ایسا سوال کیا جس کا آپ فوری جواب نہ دے سکے اس کا آپ کی طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ آپ نے کالج چھوڑدیا اور یہ فیصلہ کیا کہ جب تک میں قرآن پورے طور نہ پڑھ لوں میں کالج نہیں جاؤں گا آپ کا یہ کہنا تھا کہ کالج تو پھر مل جائے گا مگر زندگی کا کچھ اعتبار نہیں ممکن ہے کہ قرآن مجید اور حدیث پڑھنے کا پھر اور وہ بھی نور الدیؓن ایسے پاک انسان سے پھر موقع نہ مل سکے اس لئے میں نے یہی بہتر جانا ’’ آپ کے کالج چھوڑنے کا پرنسپل کو خاص افسوس ہوا اس نے یہ الفاظ لکھے۔

An Excellent Student. His leaving is a big loss to the collage. (G.AW)

(تشحیذالاذہان مارچ 1913 ص154)

قرآن علم وعرفان کا ایک جاری چشمہ ہے اس چشمہ سے فیضیاب ہونے کی ایک اور درخشاں مثال نوبل انعام یافتہ مکرم ڈاکٹر عبدالسلام ہیں۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ اس تھیوری کا خیال آپ کو کیسے آیا؟ آپ نے کہا کہ میں نے قرآن کو پڑھا اور سمجھا۔

ہم احمدی بہت خوش قسمت ہیں کہ اس زمانے کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن مجید کے ایسے چھپے خزانوں سے روشناس کروایا جن تک ایک عام آدمی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ ایک عام احمدی چاہے بچہ ہو یا بوڑھا ،عورت ہو یا مرد اس کو یہ مشکل درپیش نہیں کہ وہ قرآن کی تعلیم سے اس لئے محروم ہے کہ اس کی رسائی مدارس تک نہیں بلکہ MTA پر خلفاء کرام کے سلسلہ سے ہی درس القرآن پروگرام اب تک چلتا آرہا ہے۔ جس میں قرآنی معارف سے سب فیضیاب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پور ی دنیا میں بذریعہ انٹرنیٹ بذریعہ فون کانفرنس کال کلاسز میں ترتیل القرآن، لفظی ترجمہ، گرائمر سکھائی جا رہی ہے۔ سب سے خوشی کی بات یہ ہے کہ ایک عام گھریلو عورت بھی قرآن سیکھ کر دوبارہ فیلڈ میں آکر سکھا رہی ہے اور یہ کلاسز سا را سال سہولت کے مطابق صبح شام ہو رہی ہیں۔ بچیوں اور لجنہ میں قرآن سیکھنے اور سکھانے کا یہ باعمل مظاہرہ کوئی زبردستی بوجہ حکم ٹھونسا نہیں گیا بلکہ یہ محبت اور اطاعت کی آمیزیش ہے جو پیارے خلفاء کی اس ہدایت پر کہ ہر گھر قرآن کے نور سے منور ہو اس کا عملی مظاہرہ ہے۔ اور ہمارے مربیان سلسلہ بھی بہت رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔

یہ قرآن سے محبت کے عملی نمونے ہیں جن سے ہر احمدی گھر انہ منور اور معطر ہو رہا ہے۔ (الحمد اللہ) ایک دم بیدار نہیں ہو جاتے اس محبت کے پیچھے بھی ایک تاریخ ہے وہ قرآنی جواہرات جو یہ زمین کھو بیٹھی تھی ثریا ستارے سے واپس لانے والے اس زمانے کے مسیح و مہدی علیہ السلام نے ان معارف کے نور کو دلوں میں جگا دیا اور آپ کے خلفاء کی تفاسیر نے ہر قدم پر ہماری رہنمائی کی۔ اس پُر اثر عربی کلام کو ہل ہل کر پڑھنے اور رٹنے پر ہی بے یارو مددگار نہیں چھوڑا بلکہ حقیقی معنی سے روشناس کروایا کہ خدا نے انسان سے کیا کلام کیا۔ محبت تو تبھی پروان چڑھتی ہے جب دونوں فریقین ایک دوسرے کو سمجھیں۔ خدا کرے ہم اس محبت کو حقیقی معنی میں سمجھیں اور پروان چڑھائیں۔ کیونکہ اب آسمان پر وہی عزت پائے گا جو قرآن کو عزت دے گا۔

(نوشابہ واسع بلوچ ۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 11 جون 2020ء