آہ صیادِ اَجل تُجھ سے کیا نادانی ہوئی
پھول وہ توڑا کہ گلشن بھر میں ویرانی ہوئی
حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد ابن حضرت مصلح موعودؓ و حضرت سیّدہ عزیز بیگم بنت حضرت ابوبکر (جو احمدیہ جماعت میں عرب صاحب کے نام سے مشہورومعروف تھے) کے بطن سے 1927ء میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم کے بعد آپ کوحضرت مصلح موعودؓ نے مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل کیا تقسیم مُلک کے بعد آپ کو قادیان ہی میں قیام کرنے کی ہدایت فر مائی یہ آپ کی سعادت اورخوش نصیبی ہےکہ بہت کم عُمر میں آپ نے اپنے مقدّس خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بستی قادیان کو اپنا مسکن بنا لیا۔ بےنظیروبے مثال فرمانبردار واطاعت گزار فرزندِ گرامی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرح یَا اَنت افْعَلْ… کا نمونہ پیش کیا تادم مرگ اس مقدس عہد کو نبھایا۔ آپ کی والدہ محترمہ کی وفات پاکستان میں1965ء میں ہوئی۔ ملکی قوانین کےپیش آپ کوآخری دیداربھی نصیب نہیں ہوا۔اَے مرد مجاہد! سلام تجھ پر بےمثال ہے تیری قربانی ،کون ہے جو اس طرح کی قربانی پیش کرے اور نوعمری میں کئے ہوئے عہد کو وفا کے ساتھ نبھائے۔ تقسیم مُلک کے انتہائی پُرآشوب و پُرخطر اور ہنگامہ خیز دورمیں جہاں ہر طرف قتل و غارت گری اورخون ریزی تھی کامیاب قیادت کرتے رہے۔
آپ 313 درویشان قادیان جنہیں شعائراللہ کی حفاظت کی ذمہ داری تھی کی انتہائی ڈھارس کاموجب بنے اور آپ کے وجودِ بابرکت کی موجودگی سے درویشان قادیان نے بہت ہمت اور حوصلہ پایا ۔ حضرت مصلح موعودؓ نےایک موقع پرفر مایا تھا ’’میں ہندو ستان میں دو آدمی چھوڑ آیا ہوں ان میں ایک حضرت عبداللہ الہٰ دین ؓ اور دوسرے مرزا وسیم احمد ہے۔ حضرت مُصلح موعودؓ نے آپ کو ناظردعوت وتبلیغ مقرر فرمایا۔ تقسیم مُلک کے بعد بھارت کے مختلف صوبوں، شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کی جماعتوں کو یکجا کرنا جوئےشیر لانے سے کچھ کم نہیں تھا۔ آپ نےکردکھایا ۔
ان جماعتوں کے قیام و استحکام کےلئے بہت کام کیا ۔اِن میں تنظیم سازی کو منظم کیا اور ان میں داعی اللہ کا شعورپیدا کیا اُنہیں فعال بنانے میں آپ کا کلیدی رول رہا۔ مبلغین کی بے حدکمی تھی بھارت کی جماعتوں کی ہرکانفرنس اورہرجلسہ میںآپ کی شرکت لازمی تھی کشمیر سے کنیا کماری تک اور ہرسٹیج پرآپ رونق افروزرہے۔قد آور شخصیت بُلند پایہ عالم دین، باکمال مقرروخطیب، حلیم طبع، نرم مزاج اور مدبر شخصیت اورقائدانہ صلاحیت کےحامل بزرگ تھے۔غیرمسلم و غیراحمدی بھی آپ کا بڑا احترام کرتے تھے ۔ بڑی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔آپ کی بزرگی اور حسن خُلق کے مداح تھے۔ بھارت کی اکثر جماعتوں میں شاز و نادر ہی کوئی احمدی خاندان ہوگا جن سے آپ کے ذاتی تعلقات نہ ہوں۔ہرایک کےتفصیلی حالات سےبخوبی واقف تھے۔آپ کا وجود ایک نافع الناس تھا۔ بھارت کی جما عتوں کے اکثر احمدی اورغیرمسلم وغیراحمدی احباب بھی اپنے ذاتی اور خاندانی اَمورمیں آپ سے مشورہ اور رہنمائی حاصل کرتے۔ آپ کے مشورں اور دعاؤں سے اُن کوتسکین حاصل ہوتی تھی۔ بحیثیت ناظر دعوة و تبلیغ بھارت کے مرکزی وزراء اور صوبائی وزراء گورنر، ممبرانِ کونسل اور سرکاری احکام سے ملنے اور انہیں احمدیت کا تعارف کرانے اور سلسلہ کا لٹر یچروقرآن مجید کے مختلف زبانوں میں تراجم کی پیش کرنے کی نمایاں خدمت آپ کے حصہ میں آئی۔ آپ کی خداداد صلاحیت سے پُر وقار،پُررُعب شخصیت کی وجہ سے ہندوستان کے صوبہ اُڑیسہ میں صوبائی حکومت نے آپ کی عزت و احترام کے پیشِ نظر آپ کو State Guest کا درجہ دے رکھا تھا۔ جب بھی آپ اُڑیسہ کی جماعتوں کا دورہ کرتے سرکاری اعزازات سے آپ کو نوازاجاتا اور آپ سر کاری مہمان ہوتے۔
آپ شکار کے شوقین تھے۔ قادیان میں گوشت دستیاب نہیں تھا۔ تین چار مہینہ میں ایک دفعہ امرتسر شہر سےگوشت لاکر لنگرخانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں پکایا جاتا تھا۔ آپ کا یہ شوق شکار درویشان قادیان کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا۔ عموماً آپ چھٹی کے دن آخری جمعرات اپنی ٹیم کے ساتھ شکار کے لئے جاتے اور دو تین نیل گائے شکار کر لاتے۔ اس طرح ہم سب کیلئے گوشت نصیب ہوتا۔الحمد للہ ایسا اس لئے بھی ضروری تھا کہ آپ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام سے نسبت تھی آپ علیہ السلام کا گزر بسربھی شکار کےگوشت پرمنحصر تھا۔ آپ کوکھیل کا بھی شوق تھا بالخصوص والی بال بہت پسند تھا۔درویشان قادیان کی والی بال ٹیم بہت فعال تھی۔محلہ احمدیہ گراؤنڈمیںآپ اکثر والی بال دیکھنے کے لئے آتے۔ٹیم کاحوصلہ بڑھانےکےلئےخودبھی کھیلنے لگے۔آپ سینٹرپر کھیلتے۔خاکسارکو بھی آپ کے ساتھ کھیلنے کا شرف حاصل رہا۔
1971ء کی ہندوپاک جنگ نے جس کے بعد بنگلہ دیش وجود میں آیا درویشان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ وہ دورصبر آزما تھا اوربحران کی کیفیت تھی۔ انتہائی سنگین اور خطرناک گھڑی تھی ۔ حکام کی طرف سے یہ احکامات جاری ہوئے کہ احمدیوں کو محلہ احمدیہ خالی کرنا پڑے گا ان کو قادیان سےدورکسی کیمپ میں شفٹ کیا جائے گا۔یہ خبربجلی کی طرح ہم پر گری۔درویشان قادیان کی کمر توڑدی۔آپ اندازہ کر سکتے ہیں تو کریں۔ مولانا عبدا لرحمن جٹ ؓ اور حضرت مرزا وسیم احمد اور درویشان قادیان کا کیا حال ہوا ہوگا ۔ مغرب کی نماز مسجد مبارک میں اندھیرے میں ادا کی گئی۔ روشنی کرنے کی اجازت نہیں تھی اندھیرے کےسناٹے میں جبکہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے ۔حضرت مرزا وسیم احمد احباب جماعت سے مخاطب ہوئے دیکھو میری لاش کو گھسیٹتے ہوئے لے جائیں تب بھی تم نے محلہ احمدیہ دارالمسیح کو خالی نہیں کرنا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے جس اعتماد اور اُمید پرشعائراللہ کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی ہے اس کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بہادینا…مسجد مبارک میں آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ آیا۔ہرطرف آہ وبکا چیخ و پکار ہی سنائی دی۔ آسمان بھی تھرایا ہوگا۔ درویشان قادیان نے اپنے پیارے خدا کو آسمان سے زمین پر اُتار دیا۔ہماری دعاؤں اور بلند و بالا حوصلوں کے آگے حکام کے احکامات سرد پڑ گئے ۔محلہ احمدیہ کو خالی کروانے والا آرڈیننس واپس لیا گیا۔ چوہدری فیض احمد گجراتی مرحوم نے اس منظر کو ’’قیامت صغریٰ‘‘ کے مضمون میں سمویا ہے پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے کیا شعائراللہ کی حفاظت کرنی تھی شعائراللہ نے خود ہماری حفاظت کی ہے۔
خلافت ثالثہ، خلافت رابعہ اورخلافت خامسہ کےانتخاب کے موقعوں پر ساری جماعتوں میں، اتفاق، اتحاد اوریکجہتی کو قائم رکھنے میں اوراحباب جماعت کو خلافت سے جُڑے رہنے میںاہم رول ادا کیا ہے۔آپ کاتعلق ایک مخیر خاندان سے تھا اس کے باوجود آپ نے درویشان قادیان کے ساتھ بہت تنگی و ترشی میں دن گزارے آپ سادگی پسند تھے۔ سادہ زندگی گزاری ہر وقت صبر و تحمل سے کام لیااوردرویشان کرام کوتلقین کرتےرہے۔خدا کی ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں اس مقدس وجود پر ہوں جس نے اپنی ساری زندگی میں قربانی کا اعلیٰ معیار پیش کیا اور وقف کی روح پر قائم رہتے ہوئے اس کے تمام تقاضوں کو پورا کیا ۔
حضرت مولاناعبدالرحمٰن فاضل ؓ کی وفات کے بعد آپ 1979ء میں ناظر اعلیٰ و امیر مقرر ہوئے۔ قریباً تیس سال کا عرصہ نہات عاجزی انکساری اور وفاداری کے ساتھ ایک عام کارکن کی طرح اپنے مفوضہ امور بجا لائے ۔ بھارت میں احمدیہ جماعت کی بیشتر مساجد ، دار الذکر، مشن ہاؤس کا سنگِ بنیاد رکھنے اور ان کا افتتاح کرنےکی سعادت بھی آپ کے حصہ میں آئی ہے ۔آپ نے اپنی وفات سے کچھ پہلے جنوبی ہند کیرالہ میں اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ تشریف لا کر پانچ چھ احمدیہ مساجد کا افتتاح فر مایا ۔اسی موقع پرمرکرہ صوبہ کرناٹک کی نئی عالیشان مسجد کا افتتاح بھی آپ کے مبارک ہاتھوں سے ہوا غا لباًجنوبی ہندمیں یہ آپ کا آخری دورہ رہا ۔ جنوبی ہند کی ان تقاریب میں شرکت کرتے ہوئے آپ کے قافلہ کا گزرخاکسارکی قیام گاہ ویراج بھیٹ ہونا تھا ۔خاکسار کی ناشتہ کی دعوت کوآپ نے شرف قبولیت بخشااورغریب خانہ میں آپ مع بیگم صاحبہ وقافلہ رونق افروز ہوئے اور برکت بخشی ۔
حضرت خلیفۃ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اوصاف حمیدہ اور خوبیاں بیان کرتے ہوئے ایک خطبہ جمعہ ہی وقف کر دیا۔ آپ کی وفات کو ایک ناقابل ِتلافی نقصان قرار دیا اور آپ کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے فر مایا۔
’’آپ کی وفات سے مجھے فکر مندی بھی ہوئی کہ ایک کام کرنے والا بزرگ ہم سے جدا ہو گیا وہ صرف میرے ماموں نہیں بلکہ میرے دستِ راست تھے ۔اور اللہ تعالیٰ نے انہیں میرا سلطانِ نصیر بنایا ہوا تھا۔‘‘
(خطبہ جمعہ 4 مئی 2007ء)
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فر مائے جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فر مائے اور ہم سب کو آپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فر مائے آمین۔
(محمد عُمر تیماپوری۔اِنڈیا)