• 26 جون, 2025

اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہو گا (قسط دوم)

اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہو گا
قسط دوم

گزشتہ دنوں ایک شاعر کے قطعہ کے درج ذیل پہلے شعر پر اداریہ لکھنے کی توفیق ملی۔ شعر یوں تھا۔

خواہش سے نہیں گرتے پھل جھولی میں
وقت کی شاخ کو میرے دوست ہلانا ہو گا

آج اس قطعہ کے دوسرے شعر کے حوالہ سے بات کرنی ہے۔ شاعر کہتا ہے

کچھ نہیں ہو گا اندھیروں کو بُرا کہنے سے
اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہو گا

اس شعر میں دراصل شاعر نے انسان کو اپنے اعمال اچھے کرنے اور اچھے وعمدہ رکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ جو عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اعمال حسنہ اور اعمال سیئہ بیان کرتے ہوئے انسان کو دو راستے دکھلا دیئے اور فرمایا وَہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ (البلد: 11) کہ ہم نے انسان کو دو راستے دکھلائے۔ نیکی اور بدی کا اور ان کا چناؤ انسان پر چھوڑ دیا۔

انسان اپنے اعمال سے اپنے اخلاق کی عمارت تعمیر کرتا ہے۔ اگر یہ اعمال اچھے ہیں۔ وہ اخلاق حسنہ پر عمل پیرا ہے۔ وہ عدل، ایثار، عہد کی پاسداری، اصلاح بين الناس، صلح کاری، امانت و دیانت، عفو و درگزر، شکر، قوت برداشت، پاک دامنی، تواضع و انکساری پر عمل پیرا ہے تو جنت کا راستہ ہموار کر رہا ہوتا ہے اور اگر برے اور سیاه اعمال یعنی اخلاق سیئہ پر عمل پیرا ہے۔ وہ چوری، جھوٹ، بدظنی، غیبت، چغل خوری، استہزاء، خیانت، حسد اور بخل وغیرہ جیسی مہلک بدیوں اور بُرائیوں کو اپنی زندگی میں اپنائے رکھتا ہے تو وہ جہنم اور آگ کا راستہ صاف کر رہا ہوتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اس مضمون کو سورة بنی اسرائیل آیت 55 اِنۡ یَّشَاۡ یُعَذِّبۡکُمۡ کے تحت یوں بیان فرمایا ہے کہ وہ نیک اعمال یا بد اعمال کی جزاء یا سزا دے گا۔ (قرآن کریم متر جم صفحہ595) اور ایک شاعر نے اس مضمون کو یوں بیان کیا ہے۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

آنحضورﷺ نے تو بچے کی پیدائش سے ہی والدین کو توجہ دلائی کہ اپنے بچے کی ایسی احسن تربیت کریں کہ وہ آپ کو بھی جنت لے کر جائے۔ فرمایا بچہ فطرت صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے والدین ہی اُسے مجوسی، نصرانی، یہودی اور مسلمان بناتے ہیں۔

مندرجہ بالا عنوان میں شاعر نے ایک حقیقت بیان کی ہے انسان اپنے بُرے اعمال سے سیاہی اپنے منہ پر ملتا ہے اور اپنے ارد گرد اندھیرے اور گھٹا ٹوپ سیاہی پاتا ہے۔ مگر اس کے نتائج اور اندھیروں کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دیتا ہے۔ جبکہ یہ اندھیرے اس کے اپنے ہی اعمال اور کرتوتوں کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ اس لئے اپنے حصہ کا دیا (لالٹین) خود ہی روشن کرنا اور رکھنا ہو گا۔ آج بھی مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے میں جہاں بجلی ہے وہاں بلب روشن کرنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو خود ہی بٹن دبانا پڑتا ہے اور جہاں بعض دیہاتوں میں یا افریقہ کے بعض ممالک میں ابھی بھی لائیٹ نہیں تووہ د یا یا لالٹین روشن کرنے کے لئے خود ہی تیل بھی دیئے میں ڈالتے اور دیا سلائی سے آگ لگا کر اسے روشن بھی کرتے ہیں۔ تا اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ مجھے دیئے میں تیل ڈالنے سے یہاں حضرت عمر بن عبد العزیزؓ یاد آگئے۔ اُن کے متعلق لکھا ہے کہ آپ کے گھر ایک دن کچھ مہمان آگئے۔ رات پڑنے پر دیا روشن کیا گیا۔ تیل کم ہونے کی وجہ سے وہ ٹمٹمانے لگا تو مہمانوں نے آگے بڑھ کر تیل ڈالنا چاہا مگر خلیفہ وقت حضرت عمر بن عبد العزیزؓ خود آگے بڑھےاور دیئے کو تیل سے بھر دیا اور فرمایا کہ دیئے میں تیل ڈالنے سے پہلے بھی میں عمر بن عبد العزیز تھا اور تیل ڈالنے کے بعد بھی عمر بن عبد العزيز ہوں۔ اس واقعہ کا بھی میرے بیان کردہ مضمون سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اسی طرح حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس موضوع پر متعدد بار روشنی ڈالی ہے اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی اہمیت کو اجاگر فرمایا ہے۔ حضور نے یہ بھی ذکر فرمایا کہ آپ بچوں کی موجودگی میں بھی خود اٹھ کر پانی پیتے تھے۔ کسی کو پانی پلانے کانہ کہتے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک خواہ جتنے بڑے عہدے پر بھی فائز ہو تو انسان کے ناطے اُسے اپنے کام کرنے کا دیا خود ہی جلانا ہے۔

اس لئے ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ ہم اللہ کو پانے، اس کو دیکھنے، اس کے پیارے رسول حضرت محمدﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے، قرآن پڑھنے اور دیگر اخلاق حسنہ کے اعمال کے دیئے جلائے رکھیں تا ہم خود بھی اس کی روشنی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ بلکہ ہمارے عزیز و اقارب بھی اس روشنی سے اپنی نیکی کی راہیں تلاش کرتے رہیں۔

ہم احمدی تو خوش نصیب ہیں کہ ہم نے یا ہمارے بزرگوں، ہمارے باپ دادوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پاکر، اُن کے نور سے اپنے اسلامی دیئے کو مزید روشن کیا۔ جس کو خلافت احمدیہ کے ذریعہ مزید روشنائی مل رہی ہے۔ حضور انور ہر جمعہ کو ہمارے ان دئیوں میں تیل ڈالتے ہیں۔ جو ہمارے ماحول میں، ہمارے گھروں میں روشن رہتا ہے اور ہم آج بھی خلافت کے توسط سے اپنے خالق حقیقی اللہ تعالیٰ کے نور سے منور ہیں۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی تعلیمات سے براہ راست فیض یاب ہو رہے ہیں اور آپ کا حضرت مہدی علیہ السلام کو السلام علیکم پہنچا کر خطبات و خطابات کے ذریعہ خليفة المسیح سے براہ راست سلامتی لے کے اپنے دئیوں کو روشن رکھے ہوئے ہیں۔ اس لئے ہم پر لازم ہے کہ ہم خلافت کے ساتھ اپنے دیئے اور اپنی نسلوں کے تعلق کو مضبوط سے مضبوط کرتے چلے جائیں اور ایک سے دوسرا اور دوسرے دیئے سے تیسرا دیا اور علىٰ هذا القياس دنیا میں پھیلی مخلوق کے ہر گھر میں اسلام کا دیا روشن کرتے چلے جائیں۔

(أبو سعید)

پچھلا پڑھیں

ہیومینٹی فرسٹ ہالینڈ کے چیئرمین اور IAAAE کے چیئرمین کی ساؤتھ افریقہ میں آمد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جون 2022