• 17 مئی, 2024

بگ بینگ سے بگ کرنچ تک قرآن اور سائنس کی روسے (قسط 2)

بگ بینگ سے بگ کرنچ تک
قرآن اور سائنس کی روسے
قسط 2

(تسلسل کے لئے دیکھیں الفضل آن لائن 4؍جون 2022ء)

کائنات کی وسعت پذیری

کائنات کی ابتدا ء عظیم دھماکے سے ہوئی تھی۔ بلا شبہ بگ بینگ ایک بہت بڑا دھماکہ تھا۔ اس کے بعد سے ایک طویل سفر کا آغاز ہوا اور کائنات مسلسل توسیع کے عمل سے گزر رہی ہے۔

ایک طرف انسان فضاؤں سے نکل کر خلاء میں جھانکنے کی کوشش میں مصروف ہے تو دوسری طرف یہ بات انتہائی قابل توجہ ہے کہ قرآن کریم نے آج سے 1500سال قبل اُس وقت کائنات کی وسعت پذیری کا اعلان کر دیا تھا جب کہ ہر طرف کائنات کے مجرّداور غیر متحرک ہونے کا نظریہ تمام دنیا میں تسلیم شدہ تھا۔

اس سلسلہ میں قرآن کریم کی چند آیات پیش خدمت ہیں۔

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ جَاعِلِ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیۡۤ اَجۡنِحَۃٍ مَّثۡنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ؕ یَزِیۡدُ فِی الۡخَلۡقِ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲﴾

(فاطر: 2)

کامل تعرىف اللہ ہى کے لئے ہے جو آسمانوں اور زمىن کا پىدا کرنے والا ہے فرشتوں کو دو دو، تىن تىن اور چار چار پروں (ىعنى طاقتوں) والے پىغامبر بنانے والا وہ خَلق مىں جو چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے ىقىناً اللہ ہر چىز پر جسے وہ چاہے دائمى قدرت رکھتا ہے۔

انیسویں صدی کے آخر تک انسان یہی سمجھتا رہا کہ آسمان اور ستارے غیر متحرک ہیں۔کیونکہ ہم لاکھوں سال سے ستاروں سے راستہ معلوم کرتے آئے ہیں لیکن بیسویں صدی کے آغاز میں روسی ماہر طبیعات الیگزینڈر فرائیڈ من اور بیلجیم کے ماہر فلکیات جارج لیمیٹ نے انکشاف کیا کہ آسمان مسلسل پھیل رہا ہے۔سیارے ستارے تیزی سے ایک دوسرے سے دور ہٹ رہے ہیں۔

پہلے پہل تو انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن 1929 میں امریکا کے ماہر فلکیات ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے ٹیلی اسکوپ کی مدد سے آسمان کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس امر کا مشاہداتی ثبوت فراہم کیا کہ تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔

طبیعات کے قانون کے مطابق مشاہدے کے مقام کی طرف بڑھنے والی روشنی بنفشی رنگ کی ہوتی ہے جبکہ مشاہدے کے مقام سے دور بڑھنے والی روشنی گہری سرخی مائل رنگت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کو ہم ریڈ شفٹ بھی کہتے ہیں اور ڈاپلر Doppler Effect اس کی وضاحت کرتا ہے۔ ٹیلی سکوپ کی مدد سے آسمان کا مشاہدہ کرتے ہوئے ہبل نے دریافت کیا کہ اپنے فاصلے کے لحاظ سے ستارے جو روشنی خارج کرتے ہیں وہ سرخی مائل رنگت کی ہوتی ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ستارے اور گلیکسیز ہر وقت نہ صرف ہم سے بلکہ ایک دوسرے سے بھی دور بڑھ رہے ہیں۔ کائنات میں ہر شے کا ایک دوسرے سے دور حرکت کرنا دلالت کرتا ہے کہ کائنات توسیع کے عمل سے گزر رہی ہے۔

پہلی دفعہ بی بی سی کے ایک پروگرام میں مذاحاً استعمال ہونے والی ’’بگ بینگ‘‘ کی اصطلاح بعد میں زبان زد عام ہو گئی اور کثرت سے استعمال ہونے لگی۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے یہ عرض کر دوں کہ اگر کائنات مسلسل پھیلتی رہے تو انتہائی ٹھنڈی ہو جائے گی جسے سائنسدان ’’Big Chill‘‘ یا ’’Big Freeze‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ اور اگر کائنات توازن اختیار کر لے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ ہو رہی ہو تو اسے سائنسدان ’’Big Bore‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ اور اگر کائنات منہدم ہوتے ہوئے اکائی تک پہنچ کر دوبارہ باہر کی سمت دھماکے سے پھٹ جائے تو کہتے ہیں کہ کائنات

’’Big Crunch‘‘ کے بعد ’’Big Bounce‘‘ کا مظاہرہ کرے گی۔

یہ بات آج مسلمہ سائنسی حقائق میں شامل ہے اور اب حتمی طور پر ثابت ہوگیا ہےکہ بگ بینگ کے بعد جو پھیلاؤ شروع ہوا تھا۔ وہ آج بھی مسلسل جاری ہے۔جس کی بدولت تما م فلکی اجسام ایک دوسرے سے دور جا رہے ہیں۔آج بھی گریوٹی Gravity کی قوت روز اول کی طرح نئے سیارے ستارے اور کہکشائیں تخلیق کررہی ہے۔کائنات کی وسعتیں عظیم سے عظیم تر ہو رہی ہیں۔

سائنس کی کڑی مشقت کے بعد پیش کردہ اس تھیوری پر قرآن کریم کچھ یوں مہر صداقت لگاتا ہے۔

وَالسَّمَآءَ بَنَیۡنٰہَا بِاَیۡٮدٍ وَّاِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ ﴿۴۸﴾

(الذّاریات: 48)

اور ہم نے آسمان کو اىک خاص قدرت سے بناىا اور ىقىناً ہم وسعت دىنے والے ہىں۔

عربی لفظ ’’موسعون‘‘ کا صحیح ترجمہ ’’ہم وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘ بنتا ہے اور یہ ایک ایسی کائنات کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی وسعتیں مسلسل پھیلتی جا رہی ہوں۔

اس آیت کریمہ میں بڑے واضح اور دو ٹوک انداز میں اس سائنسی حقیقت کو بیان فرما دیا ہے کہ کائنات وسیع تر انداز میں ہر سمت بڑھتی اور پھیلتی جا رہی ہے۔ لَمُوسِعُونَ کا لفظ اس پر واضح دلالت کرتا ہے۔ کائنات کے پھیلاؤ کے اس تصور کا سوائے قرآن کریم کے کسی اور آسمانی صحیفہ میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اور آج سے چودہ سو سال قبل یہ نظریہ کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے، جو قرآن نے پیش کیا اب سائنسی حلقوں میں ایک حقیقت بن چکا ہے۔کائنات کے پھیلاؤ کا یہ نظریہ بگ بینگ کے نظریہ سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔

کرۂ ارض کا محیط فقط پچیس ہزار میل ہے۔ لیکن قرآن کریم جس کائنات کا ذکر کر رہا ہے اس کا ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا فاصلہ 18 سے 20 ارب نوری سال ہے اور اس میں حیرت انگیز رفتار کے ساتھ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک خلا نورد آج سے کائنات کے ایک سرے سے اپنے سفر کا آغاز روشنی کی رفتار یعنی 186,000میل فی سیکنڈ سے کرے تو وہ آج سے اندازاً 18 سے 20 ارب سال کے بعد کائنات کے دوسرے سرے تک اس صورت میں پہنچ سکے گا کہ کائنات جوں کی توں رہے، جو واقعۃً نہیں ہے۔

(الہام عقل علم اور سچائی از مرزا طاہر احمدؒ صفحہ245)

یہ آیت بگ بینگ کے اس نظریہ کی حمایت کرتی ہے جو کہ آفاقی بلیک ہول کا تصور پیش کرتا ہے۔ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ قرآن نے کس طرح کھول کر علم فلکی طبیعات (Astrophysics) اور علم تخلیقات (Cosmology) کے اس جدید نظریے سے انسانیت کو آگاہ فرمایا۔ جبکہ کائنات کے جمود کا نظریہ بیسویں صدی کے اوائل تک ناقابل تردید حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا۔ ’’نیوٹن‘‘ کا قانون تجاذُب اسی لئے حقیقت تک رسائی حاصل نہ کر سکا۔ بلکہ آئن سٹائن کو بھی ’’نظریہ جمود کائنات‘‘ پر اس حد تک یقین تھا کہ اسے 1915ء میں اپنے ’’عمومی نظریۂ اضافیت‘‘ (General Theory of Relativity) کی مساوات میں مشہورِ عالم ’’تخلیقیاتی مستقل‘‘ (Cosmological Constant) کو متعارف کراتے ہوئے اس نظریئے میں ممکنہ حد تک تبدیلی کرنی پڑی۔

چودہ سو سال پہلے مکہ اور مدینہ کی کچی گلیوں میں کونسی فلکیاتی لیبارٹریاں نصب تھیں۔جہاں اس مقدس کتاب کو لکھا جاتا رہا۔اس کتاب کے قاری کئی کئی روز مسجد نبوی میں فاقوں کی حالت میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ اس مقدس کتاب کی تقریباً ایک ہزار آیات سائنس کے تمام نظریات پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہیں۔اگر ناسا کی لائبریری میں جھانکیں تو وہاں اس کتاب کی حقیقت کا پتہ چلے گا۔

غور فرمائیے کہ قرآن پاک کے کائنات کے پھیلنے کو اس وقت بیان فرما دیا ہے جب انسان نے دوربین تک ایجاد نہیں کی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عربوں نے فلکیات میں ترقی کی کیونکہ فلکیاتی مباحث کو قرآن پاک میں اہم مقام دیا گیا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام فرماتے ہیں:
’’سائنسدانوں کے نزدیک یہ دریافت کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے، خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے انہیں کائنات کی تخلیق کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔‘‘

عصر حاضر کا مشہور ترین فلکی طبیعیات دان اسٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking) اپنی تصنیف اے بریف ہسٹری آف ٹائم میں لکھتا ہے۔

‘‘The discovery that the universe is expanding was one of the great intellectual revolutions of the twentieth century.’’

(A brief history of time, Page 24)

’’یہ دریافت کہ کائنات پھیل رہی ہے، بیسویں صدی کے عظیم علمی و فکری انقلابات میں سے ایک ہے۔‘‘

1925ء میں امریکی ماہر طبیعیات ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے اس امر کا مشاہداتی ثبوت فراہم کیا کہ تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ یہ بات آج مسلمہ سائنسی حقائق میں شامل ہے۔

دراصل کائنات کی وُسعت پذیری کا نظریہ پہلی بار 1922ء میں ایک روسی سائنسدان الیگزینڈر فرائیڈ مین (Alexander Friedman) نے پیش کیا جسے بعد میں ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے سائنسی بنیادوں پر آگے بڑھایا یہاں تک کہ 1965ء میں نیو جرسی میں واقع بیل فون لیبارٹریز میں کام کرنے والے دو امریکی سائنسدانوں آرنو پنزیاس (Arno Penzias) اور رابرٹ ولسن (Robert Wilson) نے اسے ثابت کیا اور 1978ء میں نوبل پرائز سے سرفراز کئے گئے۔اس طرح قرآن کریم کی سچائی پر مہر ثبت کر دی۔

کائنات کا خاتمہ اور دوبارہ نئی کائنات کی پیدائش۔بگ کرنچ (BIG CRUNCH)

The Big Crunch is one possible scenario for the ultimate fate of the universe, in which the metric expansion of space eventually reverses and the universe re۔collapses, ultimately causing the cosmic scale factor to reach zero or causing a reformation of the universe starting with another Big Bang.

اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کائنات کی اس کہانی کا ڈراپ سین کب اور کیسے ہوگا۔ اس آخری سین کو مذاہب کی دنیا میں کیسے دیکھا جاتا ہے؟ کیا مذاہب کی دنیا میں اسی کا نام قیامت ہے؟

یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن کریم جہاں کائنات کی مسلسل وسعت پذیری کے تصور کو پیش کرتا ہے وہیں یہ واضح اعلان بھی کرتا ہے کہ کائنات کا آغاز اور اختتام اکائی Singularity پر ہے۔ یہی خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا مضمون ہے جو کہ اس سے بہتر کسی اور انداز میں پیش کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اور آج سائنسدان بھی اس نظریے کے قائل ہوتے نظر آرہے ہیں اور اسے بگ کرنچ Big Crunch کا نام دیتے ہیں۔

ویسے تو سائنس قیامت کے نظریے کو ہمیشہ سےمسترد کرتی آئی ہے۔ لیکن اب حال ہی میں سائنس نے اعتراف کیا ہے کہ جس طرح بگ بینگ کا دھماکہ ہوا تھا اور کائنات وجود میں آئی تھی۔ اسی طرح بگ کرنچ نامی دھماکہ ہوگا۔ جس کی آواز طویل طوطی جیسی (صور کی آواز سے ملتی ہوئی) اور لرزاہت خیز ہوگی۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب کائنات کا وزن ایک خاص حد تک پہنچے گا اور کشش ثقل کی بدولت اس کی توسیع رک جائیگی اور واپس سکڑنے کے بعد کائنات خود ختم ہوجائے گی اور آخر ایسے نقطے پر پہنچ جائے گی جہاں سے اس کی شروعات ہوئی تھی۔

کائنات کے اس خاتمے کو ’’بگ کرنچ‘‘ کا نام دیا گیا۔اسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کے طبیعات کے پروفیسرز کا اس بارے میں کہنا ہے کہ آج جو ہم دیکھ سکتے ہیں یا نہیں بھی دیکھ سکتے سب کچھ پروٹون ذرے سے بھی چھوٹے سائز میں تباہ ہوجائے گا۔ یہ بالکل اس طرح ہے کہ جیسے آپ ایک سیاہ سوراخ (black hole) کے اندر تھے۔

دوسرے الفاظ میں اس دھماکے کے بعد کائنات واپس اپنے مرکز کی طرف سمٹنا شروع ہو جائے گی۔

گزشتہ صدی کے دوران کائنات کے وسعت پذیر ہونے سے متعلق اہم دریافتیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ پوری کائنات کروی اور فلکی طور پر ایک غبارے کی طرح پھیل رہی ہے۔ اس کا تصور اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ کرے کی سطح ایک مرکز سے باہر کی طرف مسلسل پھیل رہی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ اپنی کتاب Revelation, Rationality, Knowledge and Truth میں تحریر فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کائنات کی مسلسل وسعت پذیری کے تصور سے بھی آگے نکلتا ہے اور واضح اعلان کرتا ہے کہ کائنات کا آغاز اور اختتام اکائی Singularity پر ہے۔ یہ وہ مضمون ہے جس کو قرآن کریم نے بہترین انداز میں اس ایک فقرہ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ (البقرہ: 157) یعنی ہم ىقىناً اللہ ہى کے ہىں اور ہم ىقىناً اسى کى طرف لوٹ کر جانے والے ہىں۔ میں پیش فرما دیا ہے۔ یہی خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا مضمون ہے جو کہ اس سے بہتر کسی اور انداز میں پیش کیا ہی نہیں جا سکتا۔

اور آج سائنسدان بھی اس نظریے کے قائل ہوتے نظر آرہے ہیں اور اسے بگ کرنچ Big Crunch کا نام دیتے ہیں۔

پس قیامت سے متعلق سائنس نے اپنا نظریہ بگ کرنچ کی صورت میں پیش کیا ہے۔ اس نظریے میں بتایا گیا ہےکہ غبارے کی مانند پھیلتی یہ کائنات ایک مخصوص حد تک پھیل کر واپس اپنے مرکزی نقطہ پیدائش کی طرف سمٹنا شروع ہوجائے گی۔ بالکل اسی طر ح جیسے لکھا ہوا کاغذ لپیٹ دیا جاتا ہے۔ یہ سب نہایت تیزی سے ہوگا۔ سورج اور چاند باہم مل کر ایک ذرہ بن جائیں گے۔ قرآن چودہ سو سال پہلے بگ کرنچ کا نقشہ کچھ یوں بیان کرتا ہے

اس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے جس طرح لکھا ہو اکاغذ لپیٹ دیا جاتا ہے پھر جس طرح ہم نے تخلیق کا آغاز کیا تھا اس کا اعادہ کریں گے۔ یہ وعدہ ہم پر فرض ہے۔ یقیناً ہم یہ کر گزرنے والے ہیں۔

(الانبیاء: 105)

یہاں واضح طور پر فرما دیا ہے کہ کائنات ابدی نہیں ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ یہ عالم بھی کھاتوں کی طرح لپیٹ دیا جائے گا۔ سائنسدان بلیک ہول کا جو نقشہ کھینچتے ہیں وہ اسی آیت کے بیان کردہ نقشہ سے گہری مماثلت رکھتا ہے۔

جوں جوں خلا سے مادہ بلیک ہول میں گرتا ہے توں توں کشش ثقل اور برقی مقناطیسی (Electromagnetic) قوت کی شدت کی وجہ سے دباؤ کے تحت ایک چادر کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ چونکہ بلیک ہول کا مرکز اپنے محور کے گرد گھومتا رہتا ہے اس لئے یہ تمام مادہ کوئی نامعلوم صورت اختیار کرنے سے پہلے اس کے گرد لپیٹا جاتا ہے۔

یہاں بھی کھاتوں کی مانند لپیٹ دینے کی بات کی گئی ہے جو کہ غور طلب ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کاغذ کو تہہ لگا کر لپیٹا جاتا ہے اور تہہ ایسی چیز کی لگائی جاتی ہے جو متوازی ہو۔ اسی طرح پہلے کے سائنسدان اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کائنات بیضوی یا گول شکل کی ہے لیکن بیسویں صدی کے سائنس دان آئن سٹائن نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ہماری کائنات متوازی ہے اور ململ کے کپڑے کی مانند ہے جس پر کوئی بھی چیز رکھ دی جائے تو اس چیز کے وزن کی بدولت جتنا زیادہ دباؤ ہوگا اس کے متاثرہ حصوں تک اس کی کشش ثقل کی قوت موجود ہوگی۔ جیسا کہ ہماری زمین کا اس کی کمیت کی وجہ سے خلا میں جتنا زیادہ دباؤ ہے اس کے اثرات چاند تک موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ چاند زمین کی کشش ثقل کی قوت کی وجہ سے اس کے گرد گھومنے پر مجبور ہے۔اسی طرح سورج کی زیادہ کمیت کی وجہ سے اس کی کشش ثقل کے اثرات پلوٹو سیارے تک موجود ہیں جو بہت زیادہ فاصلہ ہونے کے باوجود سورج کی کشش ثقل کی وجہ سے اس کے گرد گھوم رہا ہے۔لیکن حال ہی میں ایک تحقیق ہوئی ہے جس کے مطابق پلوٹو سیارہ سورج کی کشش ثقل سے نکل کر کائنات میں اب آزادگھوم رہا ہے۔

یہاں یہ وعدہ بھی دیا گیا ہے کہ جب کائنات ایک بلیک ہول میں گم ہو جائے گی تو اس کے بعد ایک نیا آغاز ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کائنات کی از سر نو تخلیق کرے گا جیسا کہ اس نے پہلے کیا تھا۔ بلیک ہول میں گم کائنات ایک بار پھر اندھیرے سے باہر آ جائے گی۔ اور تخلیق کا یہ عمل ایک بار پھر دہرایا جائے گا۔ یعنی قرآن پاک کے مطابق کائنات کے سکڑنے اور پھیلنے کا عمل ایک جاری عمل ہے۔

چاند اور سورج باہم ملے ہوئے ہونگے (القیامہ: 9)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی کتابRevelation, Rationality, Knowledge and Truth سے لئے گیا ایک اقتباس پیش خدمت ہے جو اس phenomenonکی صحیح تصویر کشی کرتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’کائنات کی تخلیق اوّل کے ضمن میں قرآن کریم بڑی وضاحت سے بیان کرتا ہے کہ اس کائنات کا خاتمہ ایک اور بلیک ہول کی صورت میں ہو گا۔ اس طرح کائنات کی ابتدا اور اس کا اختتام ایک ہی طرز پر ہو گا اور یوں کائنات کا دائرہ مکمل ہو جائے گا۔‘‘

نیز فرمایا:
’’تخلیق کے آغاز اور اس کے انجام سے متعلق قرآنی نظریہ بلا شبہ غیر معمولی شان کا حامل ہے۔ اگر عصر حاضر کے کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان کو یہ باتیں الہاماً بتائی جاتیں تو یہ بھی کچھ کم تعجب کی بات نہ ہوتی۔ لیکن یہ دیکھ کر انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ تخلیق کے ہمیشہ دہرائے جانے سے متعلق یہ اتنے ترقی یافتہ نظریات آج سے چودہ سو سال قبل صحرائے عرب کے امّی ﷺ پر بذریعہ وحی منکشف فرمائے گئے تھے۔‘‘

بہر حال کائنات کی ابتداء اور خاتمے کے بارے میں موجودہ سائنس کی تحقیقات چودہ سو سال پہلے قرآن کریم میں دئیے گئے بیانات سے مکمل اتفاق کرتی ہیں۔اس کے باوجود سائنس جتنی بھی ترقی کر لے کائنات اور اس کے اندر چھپے رازوں کو اس کو تخلیق کرنے والے خالق و مالک سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ لیکن پھربھی آج کے دور میں ہم انسان سائنس کی تحقیقات پر تو بہت یقین رکھتے ہیں لیکن قرآن میں بیان کیے گئے معجزات پر غور و فکر نہیں کرتے۔

(پروفیسر مجید احمد بشیر)

پچھلا پڑھیں

ہیومینٹی فرسٹ ہالینڈ کے چیئرمین اور IAAAE کے چیئرمین کی ساؤتھ افریقہ میں آمد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جون 2022