• 29 اپریل, 2024

ایک اور اہم عہد ہے جس کی طرف مَیں توجہ دلانا چاہتا ہوں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر ایک اور اہم عہد ہے جس کی طرف مَیں توجہ دلانا چاہتا ہوں جو ہر ملک کا شہری خدا کو گواہ بنا کر یا قرآن کو گواہ بنا کر ملک سے کر رہا ہوتا ہے یا بعض دفعہ اگر صرف ملک کے بادشاہ کے نام پر عہد لے رہا ہو تب بھی یہ ایک ایسا عہد ہے جس کو پورا کرنا اور اس کو نبھانا ایک مسلمان پر فرض ہے اور نہ پورا کرنا ایمان کی کمزوری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ اس کی باریکیوں پر بھی احمدیوں کو غور کرنا چاہئے۔

مجھے یہ اطلاع ہے کہ بعض جگہ بعض لوگ جو اپنے کاروبار کرتے ہیں، اُن کاروباروں میں ملازم رکھتے ہیں تو اُسے کم تنخواہ دیتے ہیں یا کم تنخواہ ظاہر کرتے ہیں کہ باقی benefit کونسل سے claim کر لو۔ کہتے تو یہ ہیں کہ ہم تمہارے فائدے کے لئے کام کر رہے ہیں لیکن خود بھی جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور اُس سے بھی جھوٹ بلوا رہے ہوتے ہیں۔ خود بھی بدعہدی کر رہے ہوتے ہیں اور اُس سے بھی بدعہدی کروا رہے ہوتے ہیں۔ عملاً یہ ہے کہ اپنا فائدہ اُٹھا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ پھر ایسے بچائے ہوئے پیسے کی جو کمائی کرتے ہیں تو اُس پر ٹیکس بھی بچاتے ہیں جو حکومت کا نقصان ہے۔ حکومت سے کئے گئے عہد کی بدعہدی ہے اور اُن ملازمین کو کم تنخواہ دے کر اور پورا کام لے کر یا کچھ حد تک اس تنخواہ سے زیادہ کام لے کر کونسل سے اُن کے الاؤنس دلوا کر پھر قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ تو یہ سب باتیں جو ہیں، یہ سراسر ظلم ہیں اور عہد کو توڑنا ہے جو یہاں کی شہریت لیتے ہوئے ایک شخص کرتا ہے۔ یہ عہدِ بیعت کو بھی توڑنا ہے کیونکہ وہاں بھی یہی ہے کہ میں ہمیشہ سچائی سے کام لوں گا۔ پس ایسے لوگ حکومت کا عہد بھی توڑ رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کا عہد بھی توڑ رہے ہیں اور گناہگار بھی بن رہے ہیں۔ پس ایک احمدی کو ہر معاملے میں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔

عہد پورا نہ کرنے کی وجہ سے ایک اور برائی کا بھی میں ذکر کرنا چاہتا ہوں جو گھر سے نکل کر دو گھروں بلکہ خاندانوں کے سکون برباد کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ پہلے بھی اس کا ذکر ہو چکا ہے اور وہ خلع اور طلاق کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل نہ کرنا ہے اور اپنے عہد کو توڑنا ہے۔ ان رشتوں میں انصاف اور قولِ سدید کا ذکر پہلے ہو چکا ہے، جس پر اگر عمل ہو تو مسائل آرام سے سلجھ جائیں یا پیدا ہی نہ ہوں۔ لیکن مسائل کے پیدا ہونے پر، میاں بیوی کے تعلق میں اختلاف ہونے پر اللہ تعالیٰ نے جو نصیحت ہمیں فرمائی ہے وہ خاص طور پر خاوند کو سامنے رکھنی چاہئے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنۡ اَرَدۡتُّمُ اسۡتِبۡدَالَ زَوۡجٍ مَّکَانَ زَوۡجٍ ۙ وَّاٰتَیۡتُمۡ اِحۡدٰہُنَّ قِنۡطَارًا فَلَا تَاۡخُذُوۡا مِنۡہُ شَیۡئًا ؕ اَتَاۡخُذُوۡنَہٗ بُہۡتَانًا وَّاِثۡمًا مُّبِیۡنًا ﴿۲۱﴾ وَکَیۡفَ تَاۡخُذُوۡنَہٗ وَقَدۡ اَفۡضٰی بَعۡضُکُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ وَّاَخَذۡنَ مِنۡکُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا ﴿۲۲﴾ (النساء: 21-22) اور اگر تم ایک بیوی کو دوسری بیوی کی جگہ تبدیل کرنے کا ارادہ کرو اور تم ان میں سے ایک کو ڈھیروں مال بھی دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔ کیا تم اسے بہتان تراشی کرتے ہوئے اور کھلے کھلے گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے لوگے؟ اور تم کیسے وہ لے لو گے جبکہ تم ایک دوسرے سے مل چکے ہو اور وہ تم سے وفا کا پختہ عہد لے چکی ہے۔

ہمارے ہاں خلع طلاق کے مسائل میں اگر اس حکم پر عمل کی کوشش ہو تو جو جھگڑے قضاء میں لمبا عرصہ چلتے چلے جاتے ہیں، وہ نہ ہوں۔ بعض طلاق دے کر عملاً بہتان تراشی بھی کرتے ہیں۔ یہ تو کھلا کھلا گناہ ہے۔ اگر کوئی حقیقت بھی ہو تب بھی اللہ تعالیٰ پر معاملہ چھوڑنا چاہئے۔ اور اُس کے لئے بھی گواہیوں کی بہت ساری شرائط ہیں۔ دوسری اہم بات کہ شادی ایک معاہدہ ہے۔ مرد اور عورت کے عہد و پیمان ہوتے ہیں۔ خاوند بیوی میں عہد ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ علیحدگی میں جو یہ عہد و پیمان ہیں، بیشک اس کا کوئی ظاہری گواہ نہیں ہے لیکن اس عہد کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ خدا تعالیٰ تو ہر جگہ موجود ہے۔ پس اگر کسی وجہ سے اس عہد کو، رشتے کو ختم بھی کر رہے ہو تب بھی اُن باتوں کا پاس کرو جو تمہاری علیحدگی میں باتیں ہو چکی ہیں۔ تب بھی جو تحفے تحائف دے چکے ہو اُن کا مطالبہ نہیں کرنا۔ اور سوائے اس کے کہ قاضی بعض کھلی غلطیوں کو لڑکی کی طرف دیکھے اور فیصلہ دے، مرد کو ہر صورت میں مقررہ حق مہر ادا کرنا چاہئے۔ یہ بہانے کہ جی خلع ہے تو حق مہر نہیں دینا، اس کا حق مہر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس قسم کے بہانے نہیں ہونے چاہئیں۔ اس کی اَور بھی تفصیلات ہیں۔ اس وقت میں صرف اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ مرد اور عورت کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ شادی ایک معاہدہ ہے جس کو نبھانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے اور اگر کہیں بد قسمتی سے اس معاہدے کو ختم بھی کرنا ہے تو پھر بھی بعض باتوں کا خیال رکھنا چاہئے اور ایک دوسرے کے راز رکھنے چاہئیں۔ یہاں اگر عورت کو برابری کا حق ملا ہے، خدا تعالیٰ نے عورت کے لئے قائم کیا ہے تو عورت کا بھی فرض ہے کہ وہ بھی قولِ سدید سے کام لیتے ہوئے، عدل سے کام لیتے ہوئے اس عہد کو پورا کرنے کے لئے اپنے گھر کی ذمہ داریاں نبھائے اور اگر کوئی ایسی صورت ہو تو بلا وجہ مردوں پر بھی بہتان تراشی نہ کرے۔

(خطبہ جمعہ 9؍اگست 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خدائی صفات کے مظہر اتم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جولائی 2022