• 3 مئی, 2024

حضرت عائشہؓ کی شادی کی عمر پر اعتراض کا جواب

حضرت عائشہؓ کی شادی کی عمر پر اعتراض کا جواب
کچھ حقائق کی روشنی میں

کچھ عرصہ قبل بھارت کے ایک چینل پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان نوپر شرمااور پروگرام میں شریک ایک مسلمان صاحب کے درمیان تلخ کلامی ہوئی ۔ ایک مرحلہ پر طیش میں آ کر نوپر شرمانے کہا کہ میں جو قرآن میں اڑتے ہوئے گھوڑے کا ذکر ہے اس کا مذاق اڑانا شروع کردوں اور اس سلسلہ میں انہوں نے اپنی طرف سے قرآن کریم کی سورۃ نمبر 88 کی آیت 20 کا حوالہ پیش کیا۔اور پھر کافی نا مناسب الفاظ اور لہجے میں یہ کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نو سال کی لڑکی سے شادی کر کے ازدواجی تعلق قائم کیا۔ یہ اعتراض نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی پر تھا۔ اور بعد میں یہی اعتراض زیادہ بحث کا موضوع بنا اور اس بیان پر تنازع اب تک چل رہا ہے۔یہ سب کچھ کہتے ہوئے نوپر شرما کو بہت غصہ آیا ہوا تھا اور جس لہجے میں بات کہی جا رہی تھی ، اس میں بعض الفاظ نا قابل فہم بھی تھے۔ لیکن ان ٹوٹے ہوئے جملوں میں یہی اعتراضات کئے گئے تھے۔

جب بعض مسلمان ممالک نے اس گستاخی پر بھارت کی حکومت سے احتجاج کیا تو بھارتیہ جنتا پارٹی نے نوپر شرماکو اپنے ترجمان کے منصب سے سبکدوش کر دیا اور ان کی پارٹی کی رکنیت کو معطل کردیا اور بی جے پی نے اپنے دہلی کے میڈیا انچارج نوین کمار جندل کی پارٹی رکنیت بھی منسوخ کر دی اور چند روز قبل بھارت کی سپریم کورٹ نے نوپر شرما کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ پوری قوم سے معافی مانگیں۔

جب سچ کہا تو مذمت کیسی؟

لیکن اس کے ساتھ ہی ایک طبقہ نے یہ آواز بلند کرنی شروع کردی کہ نوپر شرما نے جو بات کہی تھی وہ تو صحیح تھی پھر اسے کس بات کاالزام دیا جا رہا ہے؟ ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے جریدے پنچجانیہ نے اپنے اداریہ میں اس کا دفاع کیا ہے اور لکھا کہ اس واقعہ کی آڑ میں یہ پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ہندو انتہا پسند ہوتے جا رہے ہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نوپر شرما نے وہی کہا تھا جو کہ مشہور مسلمان سکالر ذاکر نائک نے کہا تھا ۔مختلف یو ٹیوب چینلز پر بھی یہ دعویٰ کیا گیا کہ نوپرشرما نے تاریخی طورپر صحیح حقائق بیان کئے تو پھر اس بیان کے خلاف اتنے غم و غصہ کا اظہار کیوں کیا جا رہا ہے؟

ہالینڈ کے ممبر پارلیمنٹ Geert Wilders جوکہ مسلمانوں کی مخالفت میں شہرت رکھتے ہیں اور یہ مطالبہ بھی کر چکے ہیں کہ قرآن مجید پر پابندی لگائی جائے، انہوں نے بھی نوپر شرما کی حمایت میں بیان دیا اور بھارت کے عوام کو یہ مشورہ دیا کہ انہیں نوپر شرما کی حمایت میں کھڑا ہونا چاہیے۔

کیا واقعی سچ کہا تھا؟

دنیا کے مختلف مذاہب کے لٹریچر میں مختلف قسم کی روایات موجود ہوتی ہیں اور وہ ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متضاد بھی ہو سکتی ہیں لیکن ایک چیز مسلمہ ہے تمام اسلامی لٹریچر میں قرآن کریم کا مقام سب سے بلند ہے اور مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کا ایک ایک حرف خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اپنے بیان میں نوپر شرما نے معین طور پر کسی اڑتے ہوئے گھوڑے کا ذکر کیا تھا جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے اور اس ضمن میں خاص طور پر قرآن کریم کی سورۃ نمبر 88 کی آیت نمبر 20 کا ذکر کیا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم کی مختلف سورتوں میں گھوڑوں کا ذکر ہے۔ یہ ذکر سورۃ آل عمران آیت 15، سورۃ الانفال آیت 61، سورۃ النحل آیت 9، سورۃ الحشر آیت 7، سورۃ بنی اسرائیل آیت 65، سورۃ العادیات آیت 3تا6، سورۃ ص آیت 31 تا 34 میں موجود ہے۔ ان سب آیات میں کسی اڑتے ہوئے گھوڑے کا ذکر موجود نہیں ہے۔نوپر شرما نے اس سلسلہ میں قرآن مجید کی سورۃ 88 کی آیت 20کا حوالہ دیا تھا۔ اس سورۃ یعنی سورۃ الغاشیہ میں گھوڑوں کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا۔

ان حقائق کی موجودگی میں یہ کہنا کہ کہنے والے نے جو کچھ کہا صحیح کہا، اس پر کہنے والے کو کیوں الزام دیا جا رہا ہے غلط ہے۔ معین طور پر قرآن مجید کا حوالہ دے کر یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ قرآن مجید میں اڑنے والے گھوڑوں کا ذکر موجود ہے اور یہ دعویٰ غلط ہے اور یہ غلطی اس لئے اور بھی واضح ہو جاتی ہے کیونکہ جس سورۃ کا حوالہ دیا جا رہا ہے اس پوری سورۃ میں تو گھوڑوں کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔اس اعتراض کا آغاز بہر حال ایک واضح غلط بیانی سے ہوا تھا۔یہ تو درست ہے کہ مختلف مذاہب کی روایات میں اڑتے ہوئے گھوڑوں کا ذکر موجود ہے اور مختلف مزاج اور سوچ کے لوگ اس کی مختلف توجیہات پیش کریں گے لیکن یہ کہنا بہرحال درست نہیں کہ قرآن مجید میں یا قرآن مجید کی سورۃ 88 میں کسی اڑتے ہوئے گھوڑے کا ذکر کیا گیا ہے۔

اڑتے ہوئے گھوڑے کی روایت

یقینی طور پر نوپر شرما مذہبی جذبات رکھنے کی وجہ سے اس بات سے واقف ہوں گی کہ خود ہندو مت کی مقدس روایات میں ایک اڑتے ہوئے گھوڑے کا ذکر موجود ہے۔ ان روایات میں اس گھوڑے کو اچے سروا فاسک Uchchaihshravas کا نام دیا گیا ہے۔ اور اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کا رنگ سفید ہے اور اس کے سات سر ہیں۔ اور یہ دیوتا اندر کی سواری کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس اڑنے والے گھوڑے کا ذکر مقدس گیتا میں موجود ہے۔ مثال کے طور پر وشنو پران کے باب9 میں اس کا ذکر موجود ہے۔ اور خود گیتا میں اس کا ذکر دسویں باب کی آیت 27 موجود ہے۔ اسی طرح بائیبل کی کتاب2 سلاطین باب2 میں آگ سے بنے ہوئے ایسے گھوڑوں کو ذکر ہے جو کہ آگ کی بنی ہوئی رتھ کو چلا رہے تھے اور آسمان تک چلے گئے۔ بہر حال یہ تو ایک ضمنی ذکر ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ نوپر شرما کا یہ معین دعویٰ درست نہیں تھا۔ اور اس سے دو ہی نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی وجہ سے عمداَ غلط بیانی کی گئی تھی یا پھر وقتی طیش کی وجہ سے ایسی حالت ہو گئی کہ ایک خلاف واقعہ دعویٰ کر دیا گیا۔

اس اعتراض سے پیدا ہونے والے سوالات

بہر حال اب دوسرے اعتراض کی طرف آتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر نو سال تھی ۔ اور اس طرح ایک نا بالغ لڑکی سے شادی کی گئی۔ اس اعتراض کو اس لئے بھی خاص ہوا دی جا رہی ہے کیونکہ آج کل دنیا میں کم عمر کی شادی کے خلاف ایک مہم چلی ہوئی ہے اور اسے ایک ظلم قرار دیا جاتا ہے۔اس اعتراض کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں چند سوالوں کا جائزہ لینا ہوگا اور وہ سوال یہ ہیں۔

  1. کیا دنیا کی تاریخ میں لڑکیوں کی بلوغت کی عمر ایک ہی سطح پر قائم رہی ہے یا اس میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ اس سلسلہ میں سائنسی شواہد کیا بتاتے ہیں؟ کیو نکہ شادی کی مناسب عمر اور بلوغت کی عمر کا ایک سائنسی تعلق ہے۔
  2. کیا موجودہ دور میں مختلف ممالک میں رائج قوانین میں شادی کی کم از کم عمر ایک ہی ہے یا ان میں خاطر خواہ فرق ہے ؟کیا دنیا کی تاریخ کے مختلف ادوار میں شادی کی مروجہ عمر تقریباََ اتنی ہی رہی ہے جتنی اس دور میں ہے یا اس سے قبل یہ عمر اس دور میں مروجہ عمر سے بالکل مختلف تھی؟
  3. اگر گذشتہ صدیوں میں شادی کی عمر اس دور سے مختلف تھی تو اس کی کیا سائنسی اور معا شرتی وجوہات تھیں؟
  4. کیا تمام تاریخی روایات میں یہی بیان کیا گیا ہے کہ شادی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر نو سال تھی یا بعض دوسری روایات میں مختلف عمر بھی بیان کی گئی ہے؟
  5. اس سوال سے قطع نظر کہ شادی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کیا عمر تھی؟ جس عمر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی ہوئی کیا اس وقت اس معاشرے میں اس عمر کی شادی ایک غیر معمولی بات سمجھی جاتی تھی؟

بلوغت کی عمر تبدیل ہوتی رہی ہے

لڑکے یا لڑکیوں کی شادی کس عمر میں ہونی چاہیے ، اس کا تعلق اس سوال سے ہے کہ ان کے جسم بلوغت کا عمل کب مکمل کرتے ہیں ؟انسانی جسم میں بلوغت ظاہر ہونے اور پھر مکمل ہونے کا عمل جسے Puberty کہا جاتا ہے ایک ایسا عمل ہے جس میں دماغ کا ایک حصہ Hypothalamus اور غدود [glands] میں Pituatary Gland اہم کردار ادا کرتے ہیں اور انسانی خون میں دوڑنے والے کئی ہارمون [hormone] نشو نما کے ان اہم سالوں کے دوران بلوغت کے عمل کو آگے بڑھاتے ہیں۔خلاصہ کلام یہ کہ اس معاملہ میں کوئی بحث صرف سوشیالوجی یا قانونی بحث نہیں ہے کہ ہم صرف موجودہ دور کے قوانین، نظریات یا رواج تو مد نظر رکھیں لیکن سائنسی اور تاریخی حقائق سے آنکھیں بند کر کے ڈیڑھ ہزار سال قبل کے واقعات پر ماہرانہ رائے دینا شروع کردیں۔سب سے پہلے ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا دنیا کی تاریخ میں لڑکیوں کی بلوغت کی عمر ایک ہی سطح پر قائم رہی ہے یا یہ عمر کم اور زیادہ ہوتی رہی ہے؟

سب سے پہلے تو اہم نکتہ ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس بات کے بھاری سائنسی شواہد سامنے آ چکے ہیں کہ لڑکیوں یا لڑکیوں میں جسمانی بلوغت کی عمر وقت کے ساتھ کم یا زیادہ ہو تی رہتی ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آج جو بلوغت کی عمر ہے، وہی بلوغت کی عمر ہزار ڈیڑھ ہزار سال قبل تھی۔ یہ دعویٰ قطعی طور پر غیر سائنسی ہوگا۔ ہزار سال تو بہت دور کی بات ہے امریکہ میں سائنسدانوں کا ایک پینل بیٹھا اور اس پینل نے 1940ء اور 1994 کے درمیان جمع کئے جانے والے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا۔ ان میں سے بھاری اکثریت اس نتیجہ پر پہنچی کہ لڑکیوں میں بلوغت کا آغاز آج کل 1940ء، کی نسبت کم عمر میں ہو رہا ہے اور اسی طرح ماہواری کا آغاز جسے سائنسی طور پر Menarche کہا جاتا ہے 1940ء میں زیادہ عمر میں ہوتا تھا اور اب 1940ء کی نسبت کم عمر میں ہو رہا ہے۔حوالہ نیچے درج کیا جا رہا ہے۔

(Euling SY et al. Examination of US puberty-timing data from 1940 to 1994 for secular trends: panel findings. Pediatrics. 2008 Feb;121 Suppl 3:S172-91.)

ایک اور دلچسپ تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس جدید دور میں بعض وجوہات کی وجہ سے ماہواری شروع ہونے کی عمر اسی طرف واپس جا رہی ہے جو کہ پتھر کے دور میں تھی۔

(Gluckman PD, Hanson MA. Changing times: the evolution of puberty. Mol Cell Endocrinol. 2006 Jul 25;254-255:26-31)

ایک اور وسیع البنیاد سائنسی تجزیہ جس میں تیس سائنسی تحقیقات کے اعداد و شمار شامل کئے گئے تھے یہ ظاہر کرتا ہے کہ 1977 اور2013ء کے درمیان لڑکیوں میں بلوغت کے آغاز کی عمر جسے سائنسی طور پر Thelarche کہا جاتا ہے ایک بار پھر کم ہو رہی ہے اورہر دہائی میں تین ماہ کم ہو رہی ہے۔

(Eckert-Lind C, Busch AS, Petersen JH, Biro FM, Butler G, Bräuner EV, Juul A. Worldwide Secular Trends in Age at Pubertal Onset Assessed by Breast Development Among Girls: A Systematic Review and Meta-analysis. JAMA Pediatr. 2020 Apr 1;174(4).)

اسی طرح جرمن محققین نے یہ نتائج پیش کئے کہ 1860ء میں لڑکیوں میں بلوغت کا اوسط آغاز ساڑھے سولہ سال کی عمر میں ہوتا تھا اور 1950ء میں یہ آغاز ساڑھے چودہ سال کی عمر میں ہونے لگا ۔1980 میں یہ اوسط عمر گر کے تیرہ سال اور 2010ء میں صرف ساڑھے بارہ سال رہ گئی ۔اور امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی نارتھ کیرولانیہ کی  Marcia Herman-Giddens کی یہ تحقیق سامنے آئی کہ وہ پہلے سے بہت زیادہ ایسی بچیوں کا معائنہ کر رہی ہیں جو کہ دس سال سے بھی پہلے بلوغت کے مرحلہ کا آغاز کر رہی ہیں۔

(Onset of puberty in girls has fallen by five years since 1920 by Robin McKie , The Guardian 21 Oct 2012)

اس جیسے بیسیوں سائنسی شواہد یہ ظاہر کر دیتے ہیں کہ بلوغت کی عمر میں کچھ دہائیوں میں بھی خاطر خواہ کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ اور ایک ڈیڑھ صدی کے عرصہ میں آسانی سے اس عمر میں پانچ چھ سال کی تبدیلی آ سکتی ہے۔تو ہم آج کے دور میں بلوغت کی عمر کو معیار بنا کر ہزار ڈیڑھ ہزار سال قبل کے واقعات پر تبصرے نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس ایسے قابل اعتبار سائنسی شواہد موجود نہیں ہیں جن سے ہم یہ معلوم کر سکیں کہ ان قدیم صدیوں میں بلوغت کی اوسط عمر کیا تھی اور شادی کی مناسب عمر کیا تھی اس کے لئے ہمیں تاریخی شواہد کا جائزہ لینا پڑے گا۔

آج کی دنیا میں شادی کی کم از کم قانونی عمر

اب ہم دوسرے سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ کیا دنیا بھرکے ممالک میں میں شادی کی کم از کم قانونی عمرایک ہے؟ یا مختلف ممالک نے اپنے اپنے حالات کے مطابق مختلف عمریں مقرر کی ہوئی ہیں۔ پہلے پاکستان میں مسلم فیملی لا آرڈیننس 1961کے تحت یہ عمر 16 سال تھی۔ اس سال اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار صاحب نے ایک فیصلہ دیا ہے جس کی رو سے 18 سال سے کم عمر کی لڑکی کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ (فرائڈے ٹائمز یکم مارچ 2022) بنگلہ دیش میں یہ عمر 18 سال، ہانگ کانگ میں یہ عمر 16 سال ، چین میں یہ عمر 20 سال اور بھارت میں پہلے یہ عمر 18 سال تھی لیکن اب اسے بڑھا کر 21 سال کر دیا گیا ہے۔ ایران میں ماں باپ کی رضامندی سے یہ عمر 13 سال ہے۔شمالی کوریا میں یہ عمر 17 سال ہے۔ آسٹریا ،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ویسے تو لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے شادی کی کم از کم عمر 18 سال ہے لیکن والدین کی رضامندی سے اور عدالت کی اجازت سے 16 سال کی عمر کی لڑکی کو بھی شادی کی اجازت مل سکتی ہے۔ اسی طرح ترکی میں والدین کی رضامندی کے ساتھ 17 سال کی عمر میں اور عدالت کی اجازت سے 16 سال کی عمر میں شادی ہو سکتی ہے۔ افریقن ممالک میں انگولا میں والدین کی رضا سے 15سال کی لڑکی کی شادی ہو سکتی ہے۔باہاماس میں ماں باپ کی مرضی سے 15 سال کی عمر میں شادی ہو سکتی ہے۔ بحرین میں 15سال، بیلاروس میں ماں باپ کی مرضی سے 14سال ،برکینا فاسو میں 17سال، کیمرون میں 15سال ،کینیڈا ، سائپریس، جمیکا، جاپان، کرغستان ، کوسوو، لکسمبرگ، مالٹا، ماریشس اور چلی میں والدین کی مرضی سے 16 سال، کوسٹا ریکا میں والدین کی مرضی سے 15سال ، کیوبا میں والدین کی مرضی سے 14سال، ایلسیلوا ڈور میں بلوغت کی شرط کے ساتھ 14سال، گیبون، نائیجر اور ملاوی میں 15سال، گیمبیا میں 12سال، بلغاریہ، ہنگری، اسرائیل، جرمنی، ناروے اور گی آنا میں میں عدالت کی اجازت سے 16 سال کی لڑکیاں قانونی طور پر شادی کر سکتی ہیں۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار یہ واضح کرتے ہیں کہ اس دور میں بھی جب دنیا ایک گلوبل ویلج بنتی جا رہی ہے اور ایک لمحہ میں پوری دنیا میں اطلاع پہنچ سکتی ہے مختلف ممالک نے اپنے اپنے حالات کے مطابق شادی کی کم از کم عمر ایک دوسرے سے بالکل مختلف رکھی ہوئی ہے۔ اور یہ قانونی عمر 12سے 21 سال تک ہے۔ ایسی کوئی حتمی سائنسی تحقیق موجود نہیں جو کہ ایک ملک کی تجویز کردہ عمر کو حتمی طور پر پوری دنیا کے لئے صحیح قرار دیتی ہو۔ اس پس منظر میں ہم ڈیڑھ ہزار سال قبل کے دور کے لئے اپنے ذہن سے کوئی حتمی معیار کس طرح مقرر کر سکتے ہیں؟

(https://assets.pewresearch.org/wpcontent/uploads/sites/12/2016/09/FT_Marriage_Age_Appendix_2016_09_08.pdf)

قدیم تہذیبوں میں شادی کی عمر

اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ موجودہ دور سے پہلے شادی کے لئے مناسب کم از کم عمر کیا سمجھی جاتی تھی؟ کیونکہ سائنسی طور پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پہلے زمانوں میں بلوغت کی عمر وہی تھی جو اس دور میں ہے۔ یورپ کی تاریخ میں رومن تہذیب کو ہمیشہ سے ایک نمایاں حیثیث حاصل رہی ہے۔ اور یورپ کی بہت سی تہذیبیں رومن تہذیب سے متاثر رہی ہیں۔ محققین کے نزدیک رومی تہذیب میں متمول طبقوں میں 12 سال کی عمر کی لڑکی شادی ایک عام بات تھی۔ اور یہ کوئی استثنائی صورت حال نہیں کہلا سکتی کیونکہ ان محققین کے نزدیک اس تہذیب میں لڑکیوں کی شادی کی اوسط عمر 13 اور 16 کے درمیان بیان کی جاتی ہے۔

(The Age of Roman Girls at Marriage by M. K. Hopkins ,Population Studies Vol. 18, No. 3 (Mar., 1965), pp. 309-327)

جب ان علاقوں میں لوگوں نے عیسائیت کو قبول کر لیا تو بھی زیادہ تر مغربی یورپ اور انگلستان میں لڑکیوں کے شادی کے لئے کم از کم مناسب عمر 12 سال ہی برقرار رہی اور اسی کو مذہبی قوانین میں شامل کر لیا گیا۔ جب سولہویں صدی میں انگلستان نے رومن کیتھولک چرچ سے علیحدگی اختیار کی تو بھی یہ عمر برقرار رہی اور اور ایک طویل عرصہ تک انگلستان میں لڑکیوں کی شادی کے لئے کم از کم مناسب عمر 12 سال ہی برقرار رہی۔اور جب امریکہ میں نوآبادیاں بسانے کا کام شروع ہوا تو ان علاقوں میں بھی 12 سال کی لڑکی کو شادی کے قابل تصور کیا جاتا تھا۔

(THE ORIGINS OF THE EUROPEAN MARRIAGE PATTERN IN EARLY MODERN PERIOD FROM THE PERSPECTIVE OF POLISH HISTORY by Piotr Guzowski January 2013 ,Acta Poloniae historica 108:5-44)

اسی طرح قدیم مصری تہذیب میں 12 سال کی لڑکی کو شادی کے قابل سمجھا جاتا تھا۔اور اس عمر میں لڑکیوں کی شادی ہونا ایک عام بات تھی۔

(https://www.worldhistory.org/article/934/love-sex-and-marriage-in-ancient-egypt/)

آج کل اگر کسی ملک میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال ہے تو بہت سے لوگ اپنے ذہن میں یہ مفروضہ قائم کر لیتے ہیں کہ ہمیشہ سے دنیا کے تمام علا قوں میں شادی کی کم از کم عمر یہی رہی ہے۔ یا اگر اس دور میں کوئی لڑکی 18 سال کی عمر میں بالغ ہوتی ہے تو ہر دور میں سائنسی طور پر اسی عمر میں لڑکی بلوغت کے مراحل طے کرتی تھی۔ تاریخی طور پر اور سائنسی طور پر یہ مفروضے بالکل غلط ہیں۔اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ مفروضے قائم کرتے ہوئے تاریخی اور سائنسی حقائق پر سرسری نظر بھی نہیں ڈالی گئی۔ کسی معنی خیز بحث سے قبل ضروری ہے اس ضمن میں تاریخی اور سائنسی حقائق کا جائزہ لیا جائے۔

پہلے ادوار میں جلد شادی کی وجہ

اب اس سوال کی طرف بڑھتے ہیں کہ اگر گذشتہ ادوار میں شادی کے لئے مناسب سمجھی جانے والی عمر آج کی نسبت کم تھی تو کیا اس کی کوئی وجوہات بھی تھیں؟ اس کی ایک سائنسی وجہ تو پہلے ہی بیان کی جا چکی ہے کہ ایک صدی میں بھی بلوغت کی عمر چھ سات سال کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ تو آج سے ہزار یا ڈیڑھ ہزار سال کے لوگ ہی بہتر سمجھ سکتے تھے کہ ان کے دور میں لڑکوں اور لڑکیوں کی بلوغت کی عمر کیا ہے؟ لیکن اس کے علاوہ ایک اور وجہ ہے انسان کی اوسط عمر ۔آج ترقی یافتہ ممالک میں اوسط عمر ستر سے تجاوز کر کے اسی کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اور پاکستان جیسے ملک میں جو طبی لحاظ سے کافی پسماندہ ہے اوسط عمر 67 سے زائد ہو چکی ہے۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ جن ادوار کی ہم بات کر رہے ہیں ان میں انسان کی اوسط عمر کیا تھی۔ آج سے ہزار یا ڈیڑھ ہزار سال قبل انسان کی اوسط عمر 30 اور 35سال کے درمیان تھی۔ اور یہ ان ممالک کے حالات پر مبنی تخمینہ ہے جن کے حالات عرب کے حالات سے بہت بہتر تھے۔

ایک سوال اور اس کا جواب

اس پر یہ سوال کیا جائے گا کہ اوسط عمر کا شادی کی عمر سے کیا تعلق؟ تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ ان دونوں کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ آج اکثر ممالک میں شادی کی اوسط عمر 26 اور 28 ہے۔ اگر قدیم زمانوں میں بھی اسی عمر کے مردوں اور عورتوں کی شادیاں ہوتیں تو معاشرے میں اکثریت کا انتقال شادی کے سات آٹھ یا دس پندرہ سال بعد ہی ہوجاتا۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ نسل انسانی کے اکثر بچے والدین کی حفاظت کے بغیر پلتے یا دوسرے الفاظ میں بھوکے مرتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ گذشتہ ادوار میں کوئی شخص طویل عمر نہیں پاتا تھا۔ لیکن یہ اعدادو شمار یہی ظاہر کرتے ہیں کہ اس اوسط عمر کے پیش نظر یہی مناسب سمجھا جاتا تھا کہ بلوغت کے فوری بعد شادی کر دی جائے۔ تاکہ گھرانے کی اکائی برقرار رہنے کے امکانات زیادہ ہوں۔

مختلف زمانوں کا یہ فرق صرف جسمانی بلوغت یا شادی کی مناسب عمر تک محدود نہیں ہے۔ پیشہ وارانہ طور پر بھی مناسب عمر زمانے کے ساتھ تبدیل ہوتی رہی ہے۔ آج کے دور میں بیس سال سے کم عمر جرنیل تو ایک طرف رہا، 35 سال سے کم عمر کسی شخص کو بھی کسی ملک کی فوج میں جرنیل کا عہدہ نہیں دیا جائے گا۔ کیونکہ یہ عمر اُس کم از کم عمر سے کم ہے جب کسی فوج میں کسی افسر کو یہ اہم عہدہ سنبھالنے کے قابل سمجھا جا سکتا ہے۔

مشہور رومی جرنل Scipio Africanus نے جب سپین فتح کیا تو اس کی عمر 25 سال تھی۔اس کے تقریباَ دس سال بعد اس نے مشہور جنگ میں ہنی بال کو شکست دی۔سکندر اعظم کی موت 32 سال کی عمر میں ہوئی۔ اور ظاہر ہے جب وہ دنیا فتح کرنے کو نکلا تو اس کی عمر پچیس سال سے کم تھی۔ جس عمر میں آج کے دور میں کسی شخص کو کیپٹن کا عہدہ دیا جاتا ہے، اس عمر میں سکندر اعظم دنیا فتح کرنے کے لئے نکل کھڑا ہوا تھا۔ امریکہ کی خانہ جنگی میں نمایاں خدمات سرنجام دینے والا Pennypaker صرف بیس سال کی عمر میں برگیڈیر جنرل کے عہدہ پر فائز ہو چکا تھا۔ کیا آج امریکہ کی فوج میں اس عمر کے شخص کو یہ عہدہ دیا جا سکتا ہے؟ حضرت اسامہ بن زید نے 16 یا 17 سال کی عمر میں ایک عالمی قوت کے خلاف مہم کی قیادت کی تھی۔ محمد بن قاسم جب سندھ پر حملہ آور ہوا تھا تو اس کی عمر بیس سال سے کم تھی۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ اگر آج کا کوئی تجزیہ نگار یا مورخ یہ تنقید کرنے بیٹھ جائے کہ اتنی کم عمر کے نا تجربہ لوگوں کو افواج کی کمان دینا ایک سنگین غلطی تھی اور ابھی تو ان لڑکوں کے کھیلنے کی عمر تھی اور انہیں جرنیل بنا دیا گیاتو ہم ایسے دانشمند پر صرف ہنس ہی سکتے ہیں۔ اُس دور کے تقاضے اور تھے اور آج کل کے تقاضے اور ہیں۔

شادی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر
اور مختلف روایات

اب اس سوال کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا تمام روایات میں شادی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر 9 سال بیان ہوئی ہے۔ یا اس میں کوئی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان تفصیلات میں جانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اُس دور میں سالوں کا حساب رکھنے کا نظام اتنی خام حالت میں تھا کہ کسی کی عمر ہو یا کسی مدت کا بیان کرنا ہو مختلف روایات میں پانچ سال کا فرق ہونا یا کسی روایت میں اصل سے پانچ سال کا فرق بیان ہونا ایک معمولی سے بات تھی۔ اس کی صرف ایک مثال بیان کر کے ہم اپنا جائزہ پیش کریں گے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزول وحی یا آغاز نبوت سے لے کر ہجرت تک کتنا عرصہ مکہ مکرمہ میں قیام پذیر رہے؟ تو اس بارے میں صرف ایک کتاب طبری میں صرف ایک صفحہ پر صرف ایک راوی سے تین مختلف مدتیں بیان کی گئی ہیں۔ چنانچہ اس کتاب میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی یہ مدت دس سال بھی بیان ہوئی ہے اور تیرہ سال بھی بیان ہوئی ہے اور پندرہ سال بھی بیان ہوئی ہے۔

(تاریخ طبری اردو ترجمہ از سید محمد ابراہیم، جلد دوئم ناشر دارالاشاعت 138)

یہ واضح کرنا ضروری ہے کیونکہ اس تنازع کے وقت بھی بعض مبصرین اس بات پر برافروختہ دکھائی دے رہے تھے کہ جب ایک روایت میں نو سال کی عمر بیان کی گئی ہے تو دوسری عمر کیوں بیان کی جا رہی ہے؟ عرض ہے کہ اس دور کی تاریخ سے ادنیٰ سی واقفیت رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ یہ ایک معمول کی بات ہے ۔اس پر ناراض ہونے والی کیا بات ہے؟ اس کی وجہ یہ تھی قبل از اسلام عرب میں سالوں کے تعین کا کوئی ایسا معروف ذریعہ نہیں تھا جس طرح آج کل کے دور میں عیسوی کیلنڈر ہے یا مسلمانوں میں ہجری کیلنڈر ہے۔بلکہ اسلام کے ظہور کے بعد بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک کاغذ پیش ہوا جس پر صرف شعبان لکھا ہوا تھا ۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا کہ یہ کس طرح علم ہوگا کہ یہ کون سے سال کا شعبان ہے؟ اس بات پر غور ہوا کہ کیا طریق نکالا جائے۔ بعض لوگوں نے تجویز کیا کہ سالوں کے حساب کے لئے رومیوں کا کیلنڈر اپنایا جائے اور بعض نے یہ تجویز کیا کہ اہل فارس کا کیلنڈر اپنایا جائے۔ آخر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہمارے کیلنڈر کو ہجرت کے سال سے شروع کرو۔

(تاریخ طبری اردو ترجمہ از سید محمد ابراہیم ، جلد دوئم ناشر دارالاشاعت 139)

یہ بات بالکل درست ہے کہ صحیح بخاری اور صحاح کی تین اور کتب میں ایک ہی روایت درج ہے جس کےمطابق شادی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر 9 سال تھی۔لیکن جب کسی واقعہ کے وقت کسی شخص کی عمر کے بارے میں اختلاف ہوتو یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس کی پیدائش کس سال میں ہوئی اور یہ واقعہ کس سال کا ہے اور ان دونوں کا فرق معلوم کر کے ہم اس وقت اس شخص کی عمر کا حساب لگا سکتے ہیں۔

سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش کب ہوئی؟ طبقات ابن سعد کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ کی ولادت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے آغاز کے چوتھے سال کے آغازمیں ہوئی یعنی جب نبوت کو تین سال گذر ے تب ہوئی۔

(طبقات ابن سعداردو ترجمہ از محمد اصغر مغل جلد چہارم ناشر دارالاشاعت 2004 صفحہ373)

اب یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ انحضرت نے نبوت کے بعد مکہ مکرمہ میں کتنا عرصہ گذارا تو جیسا کہ پہلے حوالہ دیا جا چکا ہے زیادہ تر معروف روایات کے مطابق آپ نے تیرہ سال کا عرصہ گذارا لیکن ایک روایت کے مطابق پندرہ سال کا عرصہ بھی گذارا ۔چنانچہ ہجرت کے وقت آپ کی عمر تقریباََ دس سال سے لے کر بارہ سال تک بنتی ہے۔ اور اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ ہجرت کے کتنے عرصہ بعد آپ کی شادی یا رخصتانہ ہوا۔ تو طبری کے مطابق ہجرت کے اٹھارہ یا سترہ ماہ کے بعد آپ کا رخصتانہ شوال میں ہوا۔

(تاریخ طبری اردو ترجمہ از سید محمد ابراہیم، جلد دوئم ناشر دارالاشاعت صفحہ145)

اس حساب سے اس وقت آپ کی عمر تقریبا َ بارہ سے ساڑھے تیرہ سال کے درمیان بنتی ہے اور نو سال نہیں بن سکتی۔ اب دوسرے طریق پر جائزہ لیتے ہیں ۔ یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ نکاح کے وقت آپ کی عمر چھ یا سات سال تھی اور آپ کا نکاح اور رختصانہ دونوں شوال میں ہوا تھا۔ اور انہی روایات کے مطاق آپ کا نکاح ہجرت سے تین سال قبل ہوا۔ اور معین طور پر ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ تین سال اور چار پانچ ماہ قبل ہوا۔ کیونکہ سیرت ابن ہشام کے مطابق ہجرت ربیع الاول میں ہوئی تھی۔ اس حساب سے ہجرت کے وقت آپ کی عمر دس سال اور چار یا پانچ مہینے یا اس سے ایک سال کم بنتی ہے۔ اور گذشتہ حساب کو پیش نظر رکھیں تو رخصتانہ کے وقت آپ کی عمر بارہ سال کچھ ماہ بنتی ہے۔

(تاریخ طبری اردو ترجمہ از سید محمد ابراہیم، جلد دوئم ناشر دارالاشاعت صفحہ145)
(تاریخ ابن ہشام اردو ترجمہ سید یسین علی جلد1 ناشر دارالاشاعت 1994صفحہ334)

کیا آپؓ کی شادی مروجہ عمر سے کم عمر میں ہوئی

اور پہلے حوالے پیش کئے جا چکے ہیں کہ گذشتہ صدیوں میں دنیا بھر میں اس عمر میں شادی ایک معمول کی بات تھی ۔بہر حال کسی بھی طریق سے حساب لگایا جائے تو یہ عمر بہرحال نو سال نہیں بنتی۔ چونکہ اس ضمن میں بار بار نامناسب طریق پر اعتراض کیا گیا ہے تو یہ حساب پیش کرنا پڑا۔ ورنہ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ اُس زمانے کےعرب میں کسی مدت کے اندازے میں چار پانچ سال کم یا زیادہ ہوجانا ایک عام بات تھی۔ اصل سوال یہ ہے کہ جب آپ کی شادی ہوئی اس وقت اس عمر کی لڑکی کی شادی معمول کی بات سمجھی جاتی تھی کہ نہیں ۔ کیونکہ سائنسی طور پر ہر دور میں بلوغت کی عمر بدلتی رہی ہے۔جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت خولہ کی تحریک پرحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لئے رشتہ بھجوایا تو اس سے قبل حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مطعم بن عدی کے بیٹے جبیر سے ان کا رشتہ طے کیا ہوا تھا۔ پھر جب حضرت ابو بکر نے مطعم کے پاس جا کر کہاکہ اس لڑکی کی شادی کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟تومطعم بن عدی اور اس کی بیوی نے اس وجہ سے انکار کیا کہ تمہاری لڑکی ہمارے بیٹے کو بھی تمہاری طرح بے دین کر دے گی۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ منظور کیا۔اور آپ کا نکاح ہوا۔

(سیرت حلبیہ جلد2 اردو ترجمہ از محمد اسلم قاسمی ناشر دارالاشاعت 2009 صفحہ424)
(طبقات ابن سعداردو ترجمہ از محمد اصغر مغل جلد چہارم ناشر دارالاشاعت 2004 صفحہ359)

ان روایات سے ایک بات ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر اتنی ہو چکی تھی جتنی اس معاشرے میں رشتہ کے وقت لڑکیوں کی ہوتی تھی۔ کیونکہ آپ کا رشتہ حضرت خولہ نے تجویز کیا تھا اور اس سے قبل آپ کا رشتہ جبیر بن مطعم سے ہوا تھا۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تو بالکل دعوے کے وقت ہی ایمان لے آئے تھے اور اعلانیہ ایمان لائے تھے۔ اگر مطعم اور اس کی بیوی اسلام کی وجہ سے یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ ان کے بیٹے کی شادی حضرت ابوبکرؓ کے گھر ہو تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے بیٹے کے لئے حضرت ابوبکر کی بیٹی کا رشتہ مانگا ہو۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ کی پیدائش دعویٰ نبوت سے بھی قبل کی تھی اور اس وقت ہی ان کا رشتہ مطعم کے بیٹے سے طے ہوا تھا۔یہ نکتہ اپنی ذات میں قابل توجہ ہے کیونکہ مطعم کے بیٹے سے رشتے کی روایت دوسری کتب میں بھی بیان ہوئی ہے۔اور اس کی تائید میں ایک بہت اہم روایت تاریخ طبری میں بیان ہوئی ہے کہ حضرت ابو بکر نے ام رومان سے شادی کی اور ان سے آپ کے دو بچے یعنی عبد الرحمن اور حضرت عائشہ پیدا ہوئے ۔ اور اس سے بھی قبل آپ نے قتیلہ سے شادی کی تھی۔ اس سے آپ کے دو بچے عبد اللہ اور سماء پیدا ہوئے۔ طبری میں اس مقام پر واضح لکھا ہے کہ آپ کے یہ دونوں نکاح زمانہ جاہلیت میں ہوئے اور آپ کے یہ چاروں بچے بھی زمانہ جاہلیت میں پیدا ہوئے۔ اس روایت کو صحیح قبول کیا جائے تو اس کے مطابق حضرت عائشہ کی پیدائش دعویٰ نبوت سے بھی قبل ہو چکی تھی اور ہجرت کے وقت آپ تیرہ یا پندرہ سال سے زائد کی عمر کی تھیں اور رخصتی کے وقت آپ کی عمر سولہ سترہ سال سے بھی زاید ہو چکی تھی۔

(تاریخ طبری اردو ترجمہ از سید محمد ابراہیم، جلد دوئم ناشر دارالاشاعت صفحہ616)

اس سے بھی اہم پہلو یہ ہے کہ ہجرت کے بعد خود حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ اپنی اہلیہ کو ا پنے گھر لے آئیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر کی رقم نہ ہونے کا عذر کیا۔ اس پر حضرت ابو بکرؓ نے آپ کی خدمت میں ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی پیش کی جو آپ نے بطور مہر حضرت عائشہ کو بھجوا دی۔کسی بھی لڑکی کے ماں باپ سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا کہ ان کی بیٹی اب شادی کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے تیار ہے کہ نہیں۔ قطع نظر اس بحث کے کہ اس وقت حضرت عائشہ کی عمر کیا تھی اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف اس وقت ان کی عمر اتنی تھی جو اس معاشرے میں شادی کے لئے مناسب سمجھی جاتی تھی بلکہ ان کے والدین سمجھتے تھے کہ اب ان کی شادی میں نا مناسب تاخیر ہو رہی ہے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عذر کے بعد بھی حضرت ابو بکر نے خود مہر کی رقم پیش کر کے رخصتانہ کی درخواست کی۔اور جو طبری میں جو روایت درج ہے کہ آپ کی پیدائش دعویٰ نبوت سے قبل ہو چکی تھی، اگر اس سے ملا کر اس روایت کو پڑھا جائے تو یہ ظاہر ہے کہ اُس دور میں بھی والدین کسی لڑکی کے نو یا بارہ سال کے ہونے پریہ محسوس نہیں کر سکتے تھے کہ شادی میں تاخیر ہو رہی ہے۔ اور اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی عمر اتنی ہو چکی تھی کہ والدین یہ محسوس کر رہے تھے کہ شادی میں تاخیر ہو رہی ہے۔

(طبقات ابن سعداردو ترجمہ از محمد اصغر مغل جلد چہارم ناشر دارالاشاعت 2004 ص362)

ان حقائق کی موجودگی میں آج اتنی صدیوں بعد اگر کوئی یہ اعتراض کرتا ہے یہ شادی ایک نا بالغ بچی سے شادی تھی تو عقل اس اعتراض کو کوئی اہمیت نہیں دے سکتی۔آخر میں اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ تحقیق اس کا نام نہیں کہ صرف ایک روایت یا کسی محدود خیال تک محدود ہو کر باقی تمام شواہد رد کر دیئے جائیں بلکہ ان کا تمسخر اڑایا جائے ۔ جب اس قسم کی بحث ہوتی ہے تو تمام سائنسی اور تاریخی شواہد سامنے رکھنے پڑتے ہیں اور مختلف روایات کو پرکھنا پڑتا ہے تب ہی کوئی علمی بحث آگے بڑھ سکتی ہے۔

(ابو نائل)

پچھلا پڑھیں

خدائی صفات کے مظہر اتم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جولائی 2022