• 26 اپریل, 2024

کہیں ہم اپنے مردہ بھائی کا گوشت تو نہیں کھا رہے؟

اس عنوان سے ہی ایک انسان کراہت محسوس کرنے لگ جاتا ہے۔ لیکن وہ یہ کام کرتے ہوئے کراہت محسوس نہیں کرتا بلکہ بعض اوقات بعض لوگ اس کو خوشی سے کرتے ہیں اور کرنا شاید فرض سمجھتےہیں۔ اِس طرح جی بھر کر اپنا پیٹ اپنے مردہ بھائی کے گوشت سے نہ سمجھی میں بھرتے ہیں۔اور ذرہ بھی محسوس نہیں کرتے کہ یہ فعل کرکے وہ کس قدر خداتعالیٰ اوراُس کی مخلوق سے دور چلے جاتے ہیں۔ وہ گناہ کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں اور اُن کی زبان کس قدر ناپاک ہوتی جاتی ہے۔ یہ وہ بیماری ہےجو ہمارے معاشرے میں بعض اور برائیاں لے کر آتی ہے۔ بظاہر بہت چھوٹی نظر آتی ہیں لیکن اس کے اثرات پورے معاشرے پر ہورہے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایک فساد برپا ہو رہا ہوتاہے۔ اس گندی اور پلید بیماری کو غیبت کی بیماری کہا جاتا ہے۔یا دوسرا نام چغلی خوری رکھا جاسکتا ہے۔ جب کوئی کسی سے ناراض ہوتا ہے اوراُس پر غصہ آرہا ہوتا ہے تو اپنا کلیجہ اور غصہ ٹھنڈا کرنے کےلیے دوسرے بھا ئی کے عیب زبا ن پر لے آتا ہے۔ اور وہ سمجھتا ہے کہ لو جی ہم نے بھی اپنا بدلہ لے لیا۔یا حفظِ ما تقدم کے طور پر بھی وہ یہ عیب کرتاہے جس کےسا تھ اُس کی نہیں بنتی۔یا حسد کی آگ مٹانے کے لیے دوسرے کی عزّت کو کم کرنے کے لیے وہ اِس بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔ کئی تو محفل کو گرمانے کے لیےاس کا سہارا لیتے ہیں تا کہ لوگ اُس کی طرف متوجہ ہوں۔ کئی لوگ ہر سچی بات کو آگے بتانا فرضِ اوّل سمجھتے ہوئے اپنا فرض اِس طرح پورا کرتے ہیں۔ یوں انسان اس خطرناک بیماری کی لپیٹ میں آتا جاتاہے۔ جو کہ معاشرہ اور سوسائٹی کے لیے ناسور ثابت ہوتا ہے۔ جس سے گھروں کے گھربے سکونی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

قرآن کریم اِس بیماری کو یوں بیان کرتا ہے فرمایا: لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ۔ (سورۃ الحجرات :۱۳) تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔

اس آیت کی وضاحت میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز یوں فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں یہ فرمایاکہ غیبت جو ہے یہ مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر ہے۔ اب دیکھیں ظالم سے ظالم شخص بھی، سخت دل سے سخت دل شخص بھی، کبھی یہ گوارا نہیں کرتاکہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ اس تصور سے ہی ابکائی آنے لگتی ہے، طبیعت متلانے لگتی ہے۔ ایک حدیث ہے، قیس روایت کرتے ہیں کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اپنے چند رفقاء کے ساتھ چلے جا رہے تھے۔ آپ کا ایک مردہ خچر کے پاس سے گزر ہوا جس کا پیٹ پھول چکاتھا (مرے ہونے کی وجہ سے پیٹ پھول جاتاہے، کافی دیر سے پڑا تھا)۔ آپ نے کہا بخدا تم میں سے اگر کوئی یہ مردار پیٹ بھر کر کھالے تو یہ بہتر ہے کہ وہ کسی مسلمان کا گوشت کھائے۔ (یعنی غیبت کرے یا چغلی کرے) تو بعض نازک طبائع ہوتی ہیں۔ اس طرح مرے ہوئے جانور کو، جس کا پیٹ پھول چکاہو، اس میں سے سخت بدبو آرہی ہو، تعفن پیدا ہو رہاہو، اس کو بعض طبیعتیں دیکھ بھی نہیں سکتیں، کجا یہ کہ اس کا گوشت کھایاجائے۔ لیکن ایسی ہی بظاہر حساس طبیعتیں جو مردہ جانور کو تو نہیں دیکھ سکتیں، اس کی بدبو بھی برداشت نہیں کر سکتیں، قریب سے گزر بھی نہیں سکتیں، لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر غیبت اور چغلیاں اس طرح کررہے ہوتے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ تویہ بڑے خوف کامقام ہے، ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرتے رہنا چا ہئے۔ اب یہ بھی اللہ تعالیٰ کااحسان ہے کہ وہ اپنے بندوں پر کتنا مہربان ہے، کہ فرمایااگر اس قسم کی باتیں پہلے کربھی چکے ہو، تو استغفار کرو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، اپنے رویّے درست کرو، مَیں یقینا بہت رحم کرنے والا، توبہ قبول کرنے والاہوں۔ مجھ سے بخشش مانگو تومَیں رحم کر تے ہوئے تمہاری طرف متوجہ ہوں گا۔ بعض لوگ غیبت اور چغلی کی گہرائی کا علم نہیں رکھتے۔ ان کو سمجھ نہیں آتی کہ کیابات چغلی ہے، غیبت ہے۔ بعض اوقات سمجھ نہیں رہے ہوتے کہ یہ چغلی بھی ہے کہ نہیں۔ بعض دفعہ بعض باتوں کو مذاق سمجھا جارہا ہوتاہے لیکن وہ چغلی اور غیبت کے زمرے میں آتی ہے اس لئے اس کو مَیں تھوڑی سی مزید وضاحت سے کھولتاہوں۔ علامہ آلوسی وَلَایَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :

’’اس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دوسرے افراد سے ایسی بات نہ کرے جو وہ اپنے بارہ میں اپنی غیر موجودگی میں کئے جانے کو ناپسند کرتاہے۔۔۔ اور جو چیز وہ ناپسند کرے اس سے مراد عمومی طور پر یہ ہوگی کہ وہ باتیں اس کے دین کے بارہ میں، یا اس کی دنیا کے بارہ میں کی جائیں، اس کی دنیاوی حالت کے بارہ میں کی جائیں، اس کے مال یعنی امیری غریبی کے بار ہ میں کی جائیں۔ یا اس کی شکل وصورت کے بارہ میں کی جائیں، یا اس کے اخلاق کے بارہ میں کی جائیں، یا اس کی اولاد کے بارہ میں کی جائیں، یا اس کی بیوی کے بارہ میں کی جائیں، یااس کے غلاموں اور خادموں کے بارہ میں کی جائیں، یا اس کے لباس کے بارہ میں اور اس کے متعلقات کے بارہ میں ہوں تو یہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ اگر کسی کے پیچھے کی جائیں تو وہ ناپسند کرتاہے۔ اب دیکھ لیں کہ اکثر ایسی مجلسوں کا محور یہی باتیں ہوتی ہیں، دوسرے کے بارہ میں تو کررہے ہوتے ہیں لیکن اگراپنے بارہ میں کی جائیں تو ناپسند کرتے ہیں اور پھر جب باتیں ہو رہی ہوتی ہیں تو ایسے بے لاگ تبصرے ہورہے ہوتے ہیں جیساکہ مَیں نے کہا کہ اگران کے اپنے بارہ میں یہ پتہ لگ جائے کہ فلاں فلاں مجلس میں ان کے بارہ میں بھی ایسی باتیں ہوئی ہیں تو بُرا لگتاہے، برداشت نہیں کر سکتے، فوراً مرنے مارنے پرآمادہ ہو جاتے ہیں۔ اس لئے جو باتیں وہ اپنے لئے پسند نہیں کرتے، اپنے بھائی کے لئے بھی پسند نہ کریں۔ جن باتوں کا ذکراپنے لئے مناسب نہیں سمجھتے کہ مجلسوں میں ہوں، اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند کریں کہ اس کا ذکر بھی اس طرح مجلسوں میں نہ ہو‘‘۔

(خطبہ جمعہ 26؍ دسمبر 2003ء۔ خطبات ِمسرور صفحہ 566۔567)

رسول اللہﷺ نے اس کا نقشہ یوں کھنچا ہے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندے وہ ہیں کہ جب ان کو دیکھا جائے تو اللہ یاد آجائے اور اللہ تعالیٰ کے بُرے بندے غیبت اور چغلیاں کرتے پھرتے ہیں، دوستوں پیاروں کے درمیان تفریق ڈالتے ہیں، نیک لوگوں کو تکلیف، مشقت، فساد، ہلاکت او ر گناہ میں ڈالنا چاہتے ہیں۔

(مسند احمد بن حنبل۔ مسند الشامیین جلد5 صفحہ268)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہُ نےاس آیت کی تفسیرمیں یوں فرمایا:
’’غرض خوب یاد رکھو سوء ظن سے تجسس اور تجسس سے غیبت کی عادت شروع ہوتی ہے۔۔۔اگر ایک شخص روزے بھی رکھتا ہے اور غیبت بھی کرتا ہے تجسس اور نکتہ چینیوں میں مشغول رہتاہے تو وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتاہے ۔۔۔اب جو غیبت کرتا ہے وہ روزے کیا رکھتا ہے، وہ تو گوشت کے کباب کھاتا ہے اور کباب بھی اپنے مردہ بھائی کے گوشت کے۔ اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ غیبت کرنے والا حقیقت میں ہی ایسا بد آدمی ہے جو اپنے مردہ بھائی کے کباب کھاتاہے۔ مگر یہ کباب ہر ایک آدمی نہیں کھا سکتا۔ ایک صوفی نے کشف میں دیکھاکہ ایک شخص نے کسی کی غیبت کی ہے۔ جب اس کو قے کرائی گئی تو اس کے اندر سے بوٹیاں نکلیں جن میں سے بدبو آتی تھی۔ یاد رکھو یہ کہانیاں نہیں، یہ واقعات ہیں۔ جو لوگ بدظنیاں کرتے ہیں جب تک اپنی نسبت بدظنیاں نہیں سن لیتے، نہیں مرتے۔اس لئے میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں اور دردِدل سے کہتا ہوں کہ غیبتوں کو چھوڑ دوں‘‘۔

(حقائق الفرقان جلد نمبر 4 صفحہ 6،7)

رسول اللہﷺ ہمیں ان الفاظ میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتےہیں: قیامت کے دن آدمی کے پاس اس کا کھلا ہوا اعمال نامہ لایا جائے گا۔ وہ اس کو پڑھے گا، پھر کہے گا اے میرے رب مَیں نے دنیا میں فلاں فلاں نیک کام کئے تھے وہ تو اس میں نہیں ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ لوگوں کی غیبت کرنے کی وجہ سے وہ نیکیاں تمہارے نامہ ٔاعمال سے مٹا دی گئی ہیں۔

(ترغیب و الترھیب)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصیحت ہمیں اس طرح ملتی ہے:
’’بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان اُن میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں۔ جوان سے بوڑھا ہوجاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے مثلاً گِلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت بُرا قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے أَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتاً خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو اور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے۔ ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہونا ثابت ہو یا اس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یا دشمنی پیدا ہو یہ سب برے کام ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 653-654 مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام مزیدفرماتے ہیں: ’’فساد اس سے شروع ہوتا ہے کہ انسان ظنونِ فاسدہ اور شکوک سے کام لینا شروع کرے۔۔بدظنی بہت بُری چیز ہے۔ انسان کو بہت سی نیکیوں سے محروم کردیتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ انسان خدا پر بدظنّی شروع کر دیتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ 375 جدید ایڈیشن)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمیں تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ مومنوں میں محبت، پیار اور بھائی چارہ پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ حسن ظن سے پیدا ہوتا ہے ۔پس فرمایا کہ بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی گناہ کی طرف لے جاتی ہے، جو نہ صرف انسان کی اپنی ذات کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جو معاشرے کے امن کو بھی برباد کردیتا ہے۔ دلوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ پس خداتعالیٰ نے اسے بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ ایک ایسا گناہ جو انسان بعض اوقات اپنی اَنا کی تسکین کے لئے کررہا ہوتا ہے۔ پھر فرمایا کہ تجسس نہ کرو، تجسس بھی بعض اوقات بدظنی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور جب انسان کسی کے بارہ میں تجسس کررہا ہوتا ہے اس کے بعد بھی جب پوری معلومات نہیں ملتیں تو جو معلومات ملتی ہیں انہی کو بنیاد بنا کر پھر بدظنّیاں اور بڑھ جاتی ہیں اور بدظنی میں بعض اوقات انسان اتنا اندھا ہو جاتا ہے کہ بعض لوگوں کی حالت دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے بھی ہیں، خدمت کرنے والے بھی ہیں اور ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو جاہل اجڈ عورتیں بھی نہیں کرتی ہوں گی۔ چھوٹے چھوٹے شکووں کو اتنا زیادہ اپنے اوپر سوار کر لیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی میں اس سے بڑی بات ہی کوئی نہیں ہے۔ اور اس سے نہ صرف اپنے کاموں میں حرج کر رہے ہوتے ہیں ۔ایسی سوچوں کے ساتھ اپنی زندگی بھی اجیرن کررہے ہوتے ہیں بلکہ اِدھر اُدھر باتیں کرکے جس کے خلاف شکوہ ہوتا ہے اس کی زندگی بھی اجیرن کررہے ہوتے ہیں‘‘۔

(خطبہ جمعہ 5؍ فروری 2010ء۔الفضل انٹرنیشنل 26فروری تا4مارچ صفحہ7)

(جاوید اقبال ناصر۔ مربی سلسلہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اگست 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 11 اگست 2020ء