• 8 مئی, 2024

بزہد و ورع کوش و صدق و صفا و لیکن میفزائے بر مصطفٰی

بزہد و ورع کوش و صدق و صفا
و لیکن میفزائے بر مصطفٰی

یہ شعر شیخ سعدی کا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ
ترک دنیا، پرہیز گاری اور صدق و صفا کے لئے ضرور کوشش کرتا رہ لیکن مصطفٰےؐ کے بتائے ہوئے طریقوں سے تجاوز نہ کر۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شیخ سعدی کے اس شعر کو اپنی گفتگو میں بہت دفعہ استعمال فرمایا ہے۔ جیسے ایک موقع پر احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمدؐ کی کما حقہٗ پیروی کرنے کی تلقین میں فرمایا کہ صدق و صفااور پرہیز گاری کے طریقے ضرور اپنائے جائیں مگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں سے آگے ہر گز نہ بڑھیں۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں۔
’’میں یہ بھی تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ بہت سے لوگ ہیں جو اپنے تراشے ہوئے وظائف اور اَوراد کے ذریعہ سے ان کمالات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن میں تمہیں کہتا ہوں کہ جو طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار نہیں کیا وہ محض فضول ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر منعم علیہ کی راہ کا سچا تجربہ کار اور کون ہو سکتا ہے۔ جن پر نبّوت کے بھی سارے کمالات ختم ہو گئے۔ آپ نے جو راہ اختیار کیا ہے وہ بہت ہی صحیح اور اقرب ہے۔ اس راہ کو چھوڑ کر اور ایجاد کرنا، خواہ وہ بظاہر کتنا ہی خوش کرنے والا معلوم ہوتا ہو۔ میری رائے میں ہلاکت ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر ایسا ہی ظاہر کیا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع سے خدا ملتا ہے اور آپ کی اتباع کو چھوڑ کر خواہ کوئی ساری عمر ٹکریں مارتا رہے، گوہر مقصود اس کے ہاتھ نہیں آسکتا، چنانچہ سعدی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی ضرورت بتاتا ہے۔

بزہد و ورع کوش و صدق و صفا
و لیکن میفزائے بر مصطفٰی

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ کو تو نہ چھوڑو۔ میں دیکھتا ہوں کہ قسم قسم کے وظیفے لوگوں نے ایجاد کر لئے ہیں۔ الٹے سیدھے لٹکتے ہیں اور جوگیوں کی طرح راہبانہ طریقے اختیار کئے جاتے ہیں، لیکن یہ سب بے فائدہ ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کی یہ سنت نہیں کہ وہ الٹے سیدھے لٹکتے رہیں یا نفی اثبات کے ذکر کریں اور ارّہ کے ذکر کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اسوۂ حسنہ فرمایا لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب: 22) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلو ایک ذرّہ بھی ادھر یا اُدھر ہونے کی کوشش نہ کرو۔

غرض منعم علیہم لوگوں میں جو کمالات ہیں اور صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ (الفاتحہ: 7) میں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ان کو حاصل کرنا ہر انسان کا اصل مقصد ہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کے قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیار کرے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کی تھی تاکہ اس آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ323-324 ایڈیشن2016ء)

اہلِ دنیا اپنی زبان میں اس عمل کو ’’حدّ ادب‘‘ کے لفظ سے یاد کرتے ہیں۔ دنیا میں جب اکثر جگہوں پر بادشاہت قائم تھی تو گستاخی کرنے والے کو ’’حدّ ادب‘‘ کہہ کر اس کی توجہ گستاخی کی طرف دلا کر اسے احتیاط کرنے کو کہا جاتا تھا کہ بادشاہ کے مقام و مرتبہ کے کچھ آداب ہیں۔ ان سے آگے نہ گزرو۔ گو یہ الفاظ روحانی دنیا میں سننے کو کم ملتے ہیں تا ہم پیری فقیری، مریدی اور اولیاء، اصفیاء و انبیاء میں ان کے بلند مقام و مرتبہ کو مدِ نظر رکھ کر ان کی عزت و احترام کرنے کا حکم ملتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے نبی کی آواز سے اپنی آواز کو بلند کرنے سے منع فرمایا ہے۔

آج ایشیائی ممالک بالخصوص پاکستان میں سیدنا حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اور فدائیت کے ایسے انوکھے طریق نظر آتے ہیں جن کا اسلام، اس کی تعلیمات اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات زندگی سے دُور دُور تک کوئی مناسبت نہیں۔ ان طریقوں کے لئے بعض نام نہاد مولویوں، فقیروں نے دنیا میں سب سے پیاری جگہیں مساجد کا سہارا لے لیا ہے۔ اللہ کی عبادت کی خاطر تعمیر ہونے والی بعض مساجد، درس گاہیں شرک کی آماجگاہ بن چکی ہیں۔ جہاں کسی نام نہاد بزرگ کو کرسی پر یا گدّی پر بٹھا کر یا مجمع میں کھڑا کر کے اس کے ارد گرد ناچا جاتا ہے۔ لڈیاں ڈالی جاتی ہیں۔ سجدے ہوتے ہیں اور غیر انسانی و غیر فطرتی حرکات کے ساتھ لوٹ پَوٹ ہو کر یا سر کے بالوں کو بکھیر کر اس کے نزدیک جا کر اس نام نہاد بزرگ کو چوما جاتا ہے۔ بعض محفلوں میں تو عورتیں بھی پردہ کی رعایت نہ رکھتے ہوئے مردوں کے ساتھ گھل مل کر ایسی غیر اسلامی حرکات میں شامل ہوتی ہیں۔ اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت کا اظہار کر سکیں گے۔

ان جیسی محفلوں کے متعلق تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان میں نام نہاد بزرگوں کی بناوٹی تعظیم کی جاتی ہے۔ حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وغیرہ کا عنصر شامل نہیں۔ لیکن میلاد النبیؐ کے مواقع پر جو جلوس نکالے جاتے ہیں۔ بچے گھروں کے باہر زمین پر کچھ مناظر بناتے ہیں۔ بعض فرقوں میں لوگ چند لمحوں کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں یہ سمجھتے ہوئے کہ اب رسول پاکؐ کی آمد ہو رہی ہے۔ ان امور سے تو بظاہر حضرت محمدؐ کی کوئی تعظیم نہیں۔ اصل تعظیم و تکریم تو یہ ہے کہ ہم اپنے پیارے رسول حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر اس فعل، عمل اور حرکت کو حرز جان بنائیں جو ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کی۔ یہی طریق ہمارے پیارے رسولؐ کے صحابہؓ کا تھا وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری قدموں کی بھی پیروی کرتے تھے اور روحانی معنوں میں وہی افعال کرتے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھتے۔ مثلاً آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو ٹھہر ٹھہر کر کرتے، بات کو دہراتے، تو بے شمار صحابہؓ نے اس طریق کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیا تھا۔ آپؐ کی عبادت کے طریق کو صحابہؓ نے اپنایا۔ حضرت ابن عمرؓ تو ایک سفر کے دوران عین اس درخت کے قریب پہنچ کر قافلے سے الگ ہو کر اس درخت کے نیچے قضائے حاجت کے طریق پر بیٹھ گئے جہاں اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کو آپؓ نے بیٹھے دیکھا تھا۔ حالانکہ آپؓ کو اس وقت قضائے حاجت کی ضرورت بھی محسوس نہ ہو رہی تھی۔

اور ہمیں بھی ایسے طُرق سے منع فرمایا جن کا اسلام کی تعلیم سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ایک عورت جس نے اپنی چٹیوں کو چھت کے ساتھ ایک رسی سے باندھ لیا کہ نیند کے وقت کھچاؤ سے آنکھ کھل جائے گی اور میں عبادت کر لوں گی تو آنحضورؐ نے علم ہونے پر یہ کہتے ہوئے منع فرمادیا کہ اِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا کہ تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے اور خود آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔

پہلا حصہ عوام الناس، دوسرا حصہ اہل خانہ اور تیسرا حصہ خدائے عزو جل کے لئے۔

الغرض یہ تمام راستے اپنے آقا سے آگے بڑھنے کے لئے ہیں جو مناسب نہیں۔ آج تو ہین رسالت، تو ہین قرآن، تو ہین مذہب کی آڑ میں قتل و غارت روا رکھا جاتا ہے۔ گستاخی ٔ رسول کے نام پر مر مٹنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس نبیؐ کی بیان فرمودہ تعلیمات کے بر عکس عمل کرتے ہوئے جھوٹ بھی بولتے ہیں۔ کذب بیانی بھی کرتے ہیں، دھوکہ دہی بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ توہین رسالت اور گستاخیٔ رسول نہیں مگر کسی اور کو گستاخی رسول کا نشانہ بنا کر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر کسی کو قتل بھی کر دیں گے جبکہ آنحضورؐ نے خود فرمایا مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو۔

حضرت مسیح موعودؑ اپنی جماعت کو اس حوالہ سے نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’یاد رکھو ہماری جماعت اس بات کے لئے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں۔ نِرا زبان سے کہہ دینا کہ ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی جیسے بد قسمتی سے مسلمانوں کا حال ہے۔ کہ پوچھو تم مسلمان ہو؟ تو کہتے ہیں شکر الحمدللہ مگر نماز نہیں پڑھتے اور شعائر اللہ کی حرمت نہیں کرتے۔ پس میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ یہ نکمی حالت ہے۔ خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا۔ اور دنیا کی اس حالت نے ہی تقاضا کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اصلاح کے لئے کھڑا کیا ہے۔ پس اب اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر بھی اپنی حالت کی اصلاح نہیں کرتا اور عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا۔ بلکہ زبانی اقرار ہی کو کافی سمجھتا ہے۔ وہ گویا اپنے عمل سے میری عدم ضرورت پر زور دیتا ہے۔ پھر تم اگر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میرا آنا بے سود ہے، تو پھر میرے ساتھ تعلق کرنے کے کیا معنے ہیں؟ میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو میری اغراض و مقاصد کو پورا کرو۔ اور وہ یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنا اخلاص اور وفا داری دکھاؤ اور قرآن شریف کی تعلیم پر اسی طرح عمل کرو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھایا اور صحابہ نے کیا۔ قرآن شریف کے صحیح منشا کو معلوم کرو۔ اور اس پر عمل کرو۔خدا تعالیٰ کے حضور اتنی ہی بات کافی نہیں ہو سکتی کہ زبان سے اقرار کر لیا اور عمل میں کوئی روشنی اور سر گرمی نہ پائی جا وے۔ یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خد اتعالیٰ قائم کرنی چاہتا ہے وہ عمل کے بدوں زندہ نہیں رہ سکتی۔ یہ وہ عظیم الشّان جماعت ہے جس کی تیاری حضرت آدم کے وقت سے شروع ہوئی۔ کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا جس نے اس دعوت کی خبر نہ دی ہو۔ پس اس کی قدر کرو اور اس کی قدر یہی ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ اہل حق کا گروہ تم ہی ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ370-371 ایڈیشن 1984ء)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

ہماری مساجد دعوت الیٰ اللہ کا ایک ذریعہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 اگست 2022