• 25 اپریل, 2024

محرم، حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ کی فضیلت (قسط 3)

محرم، حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ کی فضیلت،
اہل بیت پر درود وغیرہ سے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ارشادات
قسط 3

(تسلسل کے لئے دیکھیں الفضل آن لائن موٴرخہ 10؍اگست 2022ء)

حضرت مسیح موعودؑ پر
حضرت امام حسینؓ کی توہین کا الزام

اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعودؑ پر مولوی حضرت امام حسینؓ کی توہین کا بھی الزام لگاتے ہیں اور یہ چونکہ محرم کے دن ہیں اس لئے بعید نہیں کہ ان دنوں میں یہ مسیح والی تحریک کے ساتھ اس کو بھی شامل کر لیا ہو اور ہمیں علم ہے کہ ایسا کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’ہم پر الزام لگائے جاتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور (حضرت) امام حسینؓ کی توہین کی جاتی ہے حالانکہ ہم ان کو راستباز اور متقی سمجھتے ہیں۔ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کی بہت ہتک اوربے عزتی کی جاتی ہے اور ان کو گالی دی جاتی ہے حالانکہ ہم ان کو ایک اولواالعزم نبی اور خدا کا راستباز بندہ سمجھتے ہیں۔ ہاں اگر عیسیٰ کا مرجانا ثابت کرنا ان کے نزدیک گالی دینا ہے تو اس طرح سے تو ہم نے نکالی ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ دوسرے نبیوں کی طرح وفات پاگئے ہیں۔‘‘

(الحکم نمبر 36 جلد11 مؤرخہ 10؍اکتوبر 1907ء صفحہ9)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے بعض سوالات کئے گئے جن کے جواب آپ نے دئے۔ یہ سوال کرنے والے مشیر اعلیٰ کہلاتے تھے اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے بھائی تھے اور وہ ایک دفعہ قادیان آئے تو انہوں نے خود حضرت مسیح موعودؑ سے بعض سوالات کئے۔

پہلا سوال

’’آپ کی طرف سے نبی یا رسول ہونے کے کلمات شائع ہوئے ہیں اور یہ بھی کہ میں عیسیٰؑ سے افضل ہوں اور اور بھی تحقیر کے کلمات بعض اوقات ہوتے ہیں جن پر لوگ اعتراض کرتے ہیں۔

حضرت اقدس:۔۔۔۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے اصل مقام اور درجہ کا جتنا مجھ کو علم ہے دوسرے کو نہیں ہے کیونکہ جوہری ہی جوہر کی حقیقت کو سمجھتا ہے۔ اس طرح پردوسرے لوگ خواہ امام حسین (رضی اللہ عنہ) کو سجدہ کریں مگر وہ ان کے رتبہ اور مقام سے محض ناواقف ہیں اور عیسائی خواہ حضرت عیسیٰ (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کو خدا کا بیٹا یا خدا جو چاہیں بناویں مگر وہ ان کے اصل اتباع اور حقیقی مقام سے بے خبر ہیں اور ہم ہرگز تحقیر نہیں کرتے۔‘‘

انہی صاحب نے جو مشیر اعلیٰ کہلاتے تھے پھرسوال کیا کہ:
’’عیسائی خواہ خدا بناویں لیکن مسلمان تو نبی سمجھتے ہیں اس صورت میں ایک نبی کی تحقیر ہوتی ہے۔

حضرت اقدس:ہم بھی حضرت عیسیٰ کو خدا کا سچا نبی یقین کرتے ہیں اور سچے نبی کی تحقیر کرنے والے کو کافر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح پر حضرت امام حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی بھی جائز عزت کرتے ہیں لیکن جب عیسائیوں سے مباحثہ کیا جاوے وہ راضی نہیں ہوتے جب تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ یا ابن اللہ نہ کہا جاوے اس لئے جو کچھ ان کی کتاب پیش کرتی ہے وہ دکھانا پڑتا ہے تا کہ ایک کفر عظیم کو شکست ہو۔‘‘

(الحکم نمبر8 جلد8، مؤرخہ10مارچ 1904ء، صفحہ:2)

۔۔۔۔پھر حضور ضمیمہ نزول المسیح میں فرماتے ہیں:
’’خبیث ہے وہ انسان جو اپنے نفس سے کاملوں اور راستبازوں پرزبان دراز کرتا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان حسینؓ جیسے یا حضرت عیسیٰؑ جیسے راستباز پربد زبانی کر کے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا اور وعید مَنْ عَادَا وَلِیًّالِی دست بدست اس کو پکڑ لیتا ہے۔‘‘

اب سوال یہ ہے کہ ظاہری طورپر تو بہت بدبخت ہیں جو حضرت امام حسینؓ کے خلاف بدزبانی کرتے ہیں اورحضرت عیسیٰ پر بھی سخت بدزبانی کرتے ہیں تووہ ایک ہی رات میں مرکیوں نہیں جاتے۔ اصل میں یہ روحانی مضمون ہے کہ وہ مرے ہوئے ہی ہوتے ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں یعنی روحانی لحاظ سے وہ زندہ رہ ہی نہیں سکتے ایسی گستاخی کے بعد۔ اگروہ پہلے سے مردہ نہ ہوں توایسی گستاخی نہیں کریں گے۔ اگر زندہ بھی سمجھتے تھے اپنے آپ کو تو اس گستاخی کے بعد ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتے یعنی روحانی معنوں میں۔

’’اور وعید مَنْ عَادَا وَلِیًّالِی دست بدست اس کو پکڑ لیتا ہے۔ پس مبارک وہ جو آسمان کے مصالح کو سمجھتا ہے اور خدا کی حکمت عملیوں پر غور کرتا ہے۔‘‘

(اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ:149)

(خطبات طاہر جلد19 صفحہ220تا 224 خطبہ جمعہ فرمودہ 14اپریل 2000ء)

(5) ایک اور روایت ہے حضرت ام سلمہؓ سے کہ
’’آنحضرتﷺ نے حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ اور حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے اوپر کپڑا ڈالا اور فرمایا اے اللہ! یہ میرے اہل بیت اور میرے خاص لوگ ہیں ان سے رجس دور کردے اور انہیں اچھی طرح پاک فرمادے۔‘‘

(جامع الترمذی، کتاب المناقب، باب ماجاء فی فضل فاطمةؓ بنت محمدؐ، نمبر:3871)

ایک صحیح بخاری میں حضرت امام حسنؓ کے متعلق خصوصی دعا کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت ابو ہریرۃؓ سے مروی ہے کہ
’’حضرت نبی کریم ﷺ دن کے ایک حصہ میں باہر نکلے اور آپﷺ نے مجھ سے کوئی بات نہ کی اور نہ ہی میں نے آپ سے کچھ عرض کیا یہاں تک کہ آپ بنو قینقاع کے بازار میں پہنچے اور حضرت فاطمہؓ کے گھر کے صحن میں تشریف فرما ہوئے اور فرمایا بچے ادھر آؤ بچے ادھر آؤ۔ حضرت فاطمہؓ کو کسی وجہ سے دیر لگی۔ میں نے سمجھا کہ وہ اسے کوئی ہار وغیرہ پہنا رہی ہوں گی یا نہلا رہی ہوں گی۔اس پر رسول اللہﷺ تیزی سے آئے اور حضرت امام حسن کو گلے سے لگا لیا اور پیار دیا اور فرمایا اَللّٰھُمَّ أَحْبِبْہُ وَأَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہُ۔ اے اللہ! اس سے محبت کر اور ان لوگوں سے بھی محبت فرما جو اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘

(صحیح البخاری،کتاب البیوع، باب ماذکر فی الاسواق،نمبر:2122)

بخاری کتاب الادب میں حضرت اسامہ بن زید کی یہ روایت درج ہے۔ حضرت اسامہ ابھی بہت چھوٹے بچے تھے کہ
’’آپﷺ نے ان کو پکڑ کر اپنے ایک زانو پر بٹھا لیا اور دوسرے پر حضر ت حسنؓ کو اورایسا کئی بار ہوا۔ آپﷺ ہم دونوں کو اپنے سینہ سے چمٹا لیتے تھے اور فرماتے تھے اَللّٰھُمَّ ارْحَمْھُمَا فَاِنِّیْ اَرْحَمُھُمَا۔ اے اللہ! ان دونوں پر رحم فرما کیونکہ میں بھی ان سے بہت شفقت کا سلوک کرتا ہوں۔‘‘

(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب وضع الصّبیّ علی الفخذ،نمبر:6003)

(خطبات طاہر جلد19 صفحہ399، 400، خطبہ جمعہ فرمودہ 23جون 2000ء)

دروس القرآن اردو

(1) اسی واسطے میں حضرت محمدرسول اللہ ﷺ کے اہلِ بیت کی دعا کو بھی ضرور شامل رکھیں کیونکہ اہلِ بیت سے جیسا اُمت کاحق تھا ویسا سلوک نہیں ہوا اور بڑے ظلم ہوئے ہیں اور ان ظلموں کی پاداش میں بڑی فتنوں میں اُمت مبتلا کی گئی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعائیں مانگنی چاہئیں اور رسول اللہ ﷺ کے وہ اہلِ بیت جنہوں نے عظیم قربانیاں کی ہیں اسلام اور سچائی کی خاطر، اُن کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ محمد رسول اللہ ﷺکا فیض ان میں ہمیشہ جاری رکھے۔ ان میں جو گمراہ ہو چکے ہیں جو دُور ہٹ گئے ہیں اللہ ان کو واپس رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں لائے اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی صفاتِ حسنہ سے ان کو منور فرما دے۔ اُن کے گھر برکتوں سے بھر دے۔

(در س القرآن 23مارچ 1993ء بمقام بیت الفضل لندن)

(2) یہ عجیب انداز ہے جو شیعوں کا جو ہر جگہ اسی طرح چلتا ہے لیکن یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امام حسنؓ اور حسینؓ کی ذات کے خلاف جاتا ہے۔ ان کی عظمت کے خلاف جاتا ہے۔ یہ بےوقوف یہ نہیں سوچتے۔ اگر ان کو سچی محبت ہو تو کبھی یہ انداز اختیار نہ کریں۔ کربلا کے قصے پڑھیں، یوں لگتا ہے کہ جدھر رُخ کیا ہے جدھر نگاہ ڈالی ہے وہاں موتا موتی لگ گئی ہے اور کفار کے چھکے چھوٹ گئے ہیں اور بھاگتے چلے جارہے ہیں۔ جب سارا میدان مارا گیا تو پھر وہ دردناک کیفیت سامنے آتی ہے کہ وہ فتح پتا نہیں کیسی فتح تھی جس کے نتیجہ میں یہ مظلوم شہزادے، حضرت محمد رسول اللہ ﷺکی اولاد اور آپؐ کے جگر گوشے اس طرح ظالمانہ طور پر شہید کئے جارہے اور پھر کوئی بھی بس نہیں سب بے اختیاری کا عالم ہے۔

بے وقوفی ہے! صرف کہیں جہاں رُلانا چاہتے ہو وہاں یہ باتیں کردیتے ہو۔ جہاں جن کو تم عظمت دینا چاہتے ہو جو تمہاری عظمت کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ خدا سے عظمت پاچکے ہیں ان کے متعلق غلط تصوّر باندھنے کے لئے کہ اس طرح وہ لڑ رہے تھے اور اس طرح دشمن کے چھکے چھوٹ رہے تھے، فرضی کہانیاں بناتے چلے جاتے ہو۔ یہی وہ ذہن ہے جس کی یہ پیداوار ہے یہ الزام۔

(درس القرآن 5 رمضان بمطابق 16فروری 1994ء)

(3) اب مَیں اُسے چھوڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی بعض تحریرات آپ کے سامنے رکھتا ہوں جن سے پتہ چلتا ہے کہ شیعوں کو خود حضرت علیؓ کے حقیقی مقام کا کوئی علم ہی نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ اور آپؐ کے اہلِ بیت کے عشق کا جیسا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں ہے اس کی اور آپ کو مثال کہیں دکھائی نہیں دے گی لیکن شیعہ یہ شرارت کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بعض تحریرات کو پیش کرتے ہیں تاکہ شیعوں میں احمدیت کے خلاف بغض و عناد پھیلے اور یہ ثابت ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نعوذ باللہ حضرت امام حسینؑ کی بڑی سخت ہتک کی ہے۔ اس میں جو اُن کے الزام میں سب سے نمایاں طور پر جو شعر پیش کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے:

فَھَذَا عَلَی الْاِسْلَامِ اِحْدَی الْمَصَائِبِ
لَدَیْ نَفَحَاتِ الْمِسْکِ قَذْرٌ امُّقَنْطَرُ

شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ پس اسلام کے اوپر جو مصیبتیں ٹوٹ پڑی ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کستوری کی خوشبوکے پاس گندگی کا ڈھیر لگا دیتے ہیں۔

یہ سارا قصیدہ توحید کی تائید میں شرک کے خلاف ایک جہاد پر مشتمل ہے اور اس ضمن میں ذکر فرماتے ہیں کہ دیکھو! تم نے بھی بہت بڑے بڑے پاک لوگوں حضرت علیؓ، حضرت حسین رضی اللہ عنھما وغیرہ وغیرہ پر دراصل شرک کا بہتان باندھ دیا ہے۔ جب تم ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہو، ان سے منتیں مانگتے ہو تو شرک میں مبتلا کرتے ہو اور نعوذ باللہ ان کو جھوٹا خدا بنا لیتے ہواور یہ بہت بڑا ظلم ہے ان کی پاک ذات پر اور اسلام پر یہ بڑا بھاری ظلم ہے کہ ایک طرف توحید اور ایک طرف شرک۔ توحید کی خوشبو کو مشک کی خوشبو سے تشبیہ دی ہے اور شرک کو گندگی سے۔ تو یہ لوگ جھوٹ بولتے ہوئے، جانتے ہوئے کیونکہ اس قصیدہ میں اس کی کوئی گنجائش بنتی ہی نہیں ہے۔ جو یہ بات بنا رہے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپؑ نے نعوذ باللہ حضرت حسینؑ کوگندگی سے تشبیہ دی ہے۔ یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم میں آپؑ کی زندگی میں آئی اور اس کے ردّ میں جو آپؑ نے فرمایا ہے میں آپ کے سامنے پڑھ کے سناتا ہوں۔ اس کے باوجود ان کا طریقہ یہ ہے، بعض ایسی روایات ملتی ہیں کہ جہاں کسی شیعہ کے پاس احمدی کا کیس ہو تواس کو پیچھے پیچھے کان میں جا کر پھونکتے ہیں کہ ان کے حق میں فیصلہ کرو گے؟ یہ دیکھو! یہ کیا لکھا ہوا ہے؟ اب اس کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اصل حقیقت کیا ہے، اس سے تعصب میں مبتلا ہوکر بعض دفعہ وہ ظالمانہ فیصلے کردیتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس الزام کے جواب میں فرمایا:
’’میں نے اس قصیدے میں جو امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت لکھا ہے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بیان کیا ہے۔۔۔‘‘۔ دونوں وہی مضمون ہیں کہ وہاں بھی شرک کرتے ہوئے ان دونوں پاک بزرگوں پر تم نے معبود انِ باطلہ بننے کا الزام لگادیا ہے، گویا وہ بھی اس بات میں شریک ہیں۔ یہ ہے طرز استدلال۔ فرماتے ہیں:
’’مَیں نے اس قصیدہ میں جو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت لکھا ہے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بیان کیا ہے۔ یہ انسانی کارروائی نہیں ہے۔ خبیث ہے وہ انسان جو اپنے نفس سے کاملوں اور راستبازوں پر زبان دراز کرتا ہے۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان حسینؑ جیسے یا حضرت عیسیٰؑ جیسے راستباز پر بد زبانی کرکے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا (مطلب ہے روحانی موت ہے اس کے لئے) اور وعید مَنْ عَادَ وَلِیًّا لِیْ دست بدست اس کو پکڑ لیتا ہے۔ (یہ جو وعید ہے کہ جو میرے ولی کا دشمن ہو میں اس کا کادشمن بن جاتا ہوں) پس مبارک وہ جو آسمان کے مصالح کو سمجھتا اور خدا کی حکمت عملیوں پر غور کرتا ہے‘‘

(ضمیمہ نزول المسیح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ149)

تو یہ ہے اس کا جواب اس جھوٹے الزام کا۔ اور کئی دفعہ آج کل اس زمانے میں بھی پاکستان سے بعض بچے بےچارے مجھے خط لکھتے ہیں کہ یہ ہمارے متعلق دیواروں پر لکھا جار ہا ہے۔ سکول میں ہمیں تکلیف دینے کے لئے یہ مشہور کرتے ہیں، دیکھو! انہوں نے حضرت حسینؑ کے متعلق یہ لکھ دیا اور لوگ ہمیں طعنے دیتے اور مارتے اور گالیاں دیتے ہیں۔ تو یہ سب اِن کے افترا کی باتیں ہیں، اس کا حقیقت سے کوئی بھی تعلق نہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

فرماتے ہیں، ملفوظات جلد6 صفحہ282:

’’حضرت عیسیٰؑ اور امام حسینؑ کے اصل مقام اور درجہ کا جتنا مجھ کو علم ہے دوسرے کو نہیں ہے کیونکہ جوہری ہی جوہر کی حقیقت کو سمجھتا ہے۔ اس طرح پر دوسرے لوگ خواہ امام حسینؑ کو سجدہ کریں مگر وہ ان کے رتبہ اور مقام سے محض ناواقف ہیں اور عیسائی خواہ حضرت عیسٰی کو خدا کا بیٹا یا خدا، جو چاہیں بنا ویں مگر ان کے اصل اتباع اور حقیقی مقام سے بے خبر ہیں اور ہم ہر گز تحقیر نہیں کرتے۔‘‘

یہ جھوٹا الزام ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا:
’’وہ بلا شبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرتﷺکے آل تھے لیکن کلام اس بات میں ہے کہ کیوں آل کی اعلیٰ قسم کو چھوڑا گیا ہے اور ادنیٰ پر فخر کیا جاتا ہے‘‘

فرماتے ہیں، ہم تو صرف یہ گفتگو کرتے ہیں کہ تم آل کی اعلیٰ قسم کو نظر انداز کردیتے ہوجو روحانی آل ہے اور محض جسمانی آل پر زور دیتے ہو اور روحانی آل والوں کو اس مضمون سے ہی باہر نکال پھینکتے ہو۔

’’تعجب کہ وہ اعلیٰ قسم امام حسنؓ اور حسینؓ کے آل ہونے کی یا اور کسی کے آل ہونے کی، جس کی رو سے وہ آنحضرت ﷺکے روحانی مال کے وارث ٹھہرتے ہیں اور بہشت کے سردار کہلاتے ہیں یہ لوگ اس کا تو کچھ ذکر ہی نہیں کرتے۔ اور ایک فانی رشتہ کو بار بار پیش کیا جاتا ہے جس کے ساتھ روحانی وراثت لازم ملزوم نہیں ہے۔‘‘

یہ ہے گفتگو۔ جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس موضوع پر قلم اُٹھایا ہے، ان معنوں میں اُٹھایا ہے۔

حضرت علیؓ کے مرتبہ اور مقام کی بات مَیں بتا رہا ہوں۔ یہ نہ سمجھیں کہ چونکہ شیعوں نے نعوذ باللہ پہلے تین خلفاء پر الزامات عائد کئے ہیں اور ظلم توڑے ہیں، اس لئے کسی طرح بھی نعوذ باللہ من ذلک حضرت علیؓ کے لئے دل میں کہیں کوئی میل کا ایک معمولی سا شائبہ بھی آپ کے دل پہ طاری ہوجائے۔ اگر اس کے جواب میں حضرت علیؓ کے متعلق آپ کے دل پر میل آئے تو یہ ہلاکت کی نشانی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بیان کیا، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قطعاً کوئی ادنیٰ بھی حصہ اس میں نہیں ہے کہ پہلے تین خلفاء کے اوپر بدزبانی کی جائے، گالیاں دی جائیں۔ آپؓ نے جب بھی ذکر فرمایا محبت اور احترام سے ذکر فرمایا۔ جب تک ان کی بیعت میں رہے اور ہمیشہ رہے، آخر دم تک رہے ان کے ساتھ کامل وفا کی ہے۔ ان کے ہر اشارے پر لبیک کہا ہے۔ پس حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر الزام ہے اور ہرگز ان پر کوئی حرف کسی قسم کا نہیں ہے۔ بعض سُنی بعض دفعہ زیادتی کرتے ہوئےبعض حضرت علیؓ کی طرف منسوب الزامات کو بھی پیش کرنا شروع کردیتے ہیں کہ آپؓ سے اس طرح رسول اللہ ﷺ کو دُکھ پہنچا، آپؓ پر شادی کے معاملہ میں یہ الزام لگا، وہ ہوا۔ یہ ناپاک طریق ہیں، مَیں اس کو جماعت میں بالکل پسند نہیں کرتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاک وجود پر کسی قسم کا اتہام دوسرے کی روایت کے طورپر بھی پیش کرنا مناسب نہیں ہے۔ ورنہ آپ کے دل میں آہستہ آہستہ ایک بغض کا اثر پڑناشروع ہوجائے گا اور آپ دُور ہونا شروع ہوجائیں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو الفاظ ہیں سُنیے!!!

’’آپؓ بڑے تقوی شعار پاک باز تھے۔ ان لوگوں میں سے تھے جو رحمان خدا کو سب سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں۔ قوم کے چنیدہ لوگوں میں سے اور سادات میں سے تھے۔ خدا کے غالب شیر اور اس کے مہربان دردمند جوان تھے۔ بڑے سخی اور پاک دل تھے۔ بے مثل شجاع تھے۔ میدان میں جس جگہ جم جاتے اس جگہ سے ہر گز نہ ٹلتے خواہ دشمن کی فوجیں مقابل پر آجائیں۔ تمام عمر پُر مشقت زندگی بسر کی۔ زُہد میں نقطہءِ کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ مال و دولت دینے، حاجت و تکلیف کو دُور کرنے، یتیموں، مسکینوں اور ہمسائیوں کی خبر گیری میں اوّل درجے کے انسان تھے اور معرکوں میں بہادری کے ابواب رقم کیا کرتے تھے۔‘‘ (کیسا خوبصورت کلام ہے؟ اور معرکوں میں بہادری کے ابواب رقم کیا کرتے تھے۔ نئے نئے ابواب کا اضافہ ہوتا تھا معرکوں کی تاریخ میں) اور تیر و تلوار کی جنگ میں مظہرِ عجائب تھے۔ ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ شیریں بیان، فصیح اللسان تھے۔ آپؓ کی بات سننے والے کے دل کی گہرائیوں میں اُتر جاتی تھی۔ اپنی گفتگو سے ذہنوں کا زنگ دُور کر دیتے تھے، اور اپنی تقریر کو نورِ برہان سے منور کر دیتے تھے۔ ہر طرح کے اندازِ بیان پر قادر تھے اور جو اِس میدان میں آپؓ کا مقابلہ کرتا تھا وہ اسی طرح اپنی بے بسی کا اور شکست کا اعتراف کرتا جس طرح ایک مغلوب شخص کرتا ہے (یعنی جس کو شکست نصیب ہوجائے، آخر ماننا پڑتا ہے)۔ ہر خیر میں اور فصاحت و بلاغت کے میدان میں فردِ کامل تھے‘‘

اب یہاں فردِ کامل ایک عظیم دادِ تحسین ہے۔ مَیں نہیں جانتا مردِ کامل تھا یا فرد ِکامل، یہاں فردِ کامل لکھا ہے، دونوں مضمون اپنی جگہ اپنی شان رکھتے ہیں۔ مرد ِکامل کہا جائے تو ایسے موقع پر اس کی بہادری اور جواں مردی کی ایک بہت ہی پیاری تصویر ہے اور فردِ کامل کا مطلب ہے اس کی کوئی مثال اَور نہیں۔

’’جو آپؓ کے کمالات کا انکاری ہو تو جان لو !کہ اس نے بے حیائی کی طرز اختیار کی۔ مصیبت زدہ اور لاچار کی ہمدردی کی ترغیب دیتے تھے۔ تنگ دستی پر قانع اور پریشان حال افراد کو کھانا کھلانے کا حکم دیتے تھے اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے تھے۔ اور ان باتوں کے ساتھ ساتھ فرقانِ مجید کے معارف کے دودھ کا پیالہ پینے میں سابقین میں سے تھے۔ دقائقِ قرآنیہ کے ادراک میں آپؓ کو فہمِ عجیب عطا کیا گیا تھا۔ مَیں نے آپؓ کو عین بیداری کی حالت میں دیکھا نہ کہ نیند میں۔ آپؓ نے مجھے خدائے علاّم کی کتاب کی تفسیر عنایت فرمائی اور فرمایا کہ یہ میری تفسیر ہےجو اَب تمہیں عطا کی جاتی ہے۔ پس مَیں اس تفسیر کے ملنے پر خوش ہوا۔ تب مَیں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور وہ تفسیر لے لی اور خدائے وہاب و قدیرکا شکر ادا کیا۔ مَیں نے آپ کو نہایت مضبوط جسم والا اور گہرے اعلیٰ اخلاق والا، عاجز، منکسر المزاج، روشن اور پُر نور چہرے والا پایا۔ اور مَیں حلفاً کہتا ہوں کہ حضرت علیؓ نے محبت اور اُلفت کے ساتھ مجھ سے ملاقات کی۔‘‘

(سر الخلافۃ، روحانی خزائن جلد8 صفحہ358)

یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حضرت علیؓ کے متعلق تصوّر۔ تصوّر نہیں، ایسا بیان جو لفظاً لفظاً حقیقت پر مبنی ہے۔ کوئی مبالغہ آمیزی نہیں، کوئی تحریر کی سجاوٹ کا خیال شامل نہیں ہے۔ جوآپؑ کے مقدس و مطہر دل نے محسوس کیا، جو جانا، جو علم آپ کو کشفاً عطا کیا گیا اس کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ تصویر کھینچی ہے۔

پس اس جہالت میں کبھی مبتلا نہ ہوں کہ اگر کسی خلیفہ پر شیعہ زبانِ طعن دراز کریں تو مقابل پر آپ نعوذ باللہ من ذلک حضرت علیؓ کی کمزوریاں ڈھونڈ کر اپنی دلیل کو طاقت دینے کی کوشش کریں۔ یہ ایسا موقع ہے جہاں جیسا کہ مَیں نے پہلے آیت قرآنیہ کے حوالے سے آپ کو سمجھایا تھا، وہاں زبان دراز کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ سب بزرگ خدا کے پاک بندے تھے، خدا کے حضور حاضر ہوگئے، ان کے متعلق قرآنی گواہی یہ ہے۔ آنحضرتﷺ کی آخری دم تک یہ گواہی ہے کہ یہ پاک لوگ ہیں، ورنہ حضرت ابوبکرؓ کو نماز کی امامت پہ کیسے کھڑا کردیتے۔ پس ایسے موقع پر اگر تکلیف بھی ہے تو برداشت کرلو لیکن حضرت علیؓ میں آپ کے ساتھی اور آل کے متعلق کوئی میلا خیال دل میں نہ آنے دو۔

’’حضرت حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا‘‘ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام ہے جو مَیں پڑھ کے سنا رہا ہوں۔

’’حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلا شبہ وہ اُن برگزیدوں میں سے ہےجن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلا شبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجبِ سلب ِایمان ہے۔ اور اس امام کی تقویٰ اور محبتِ الٰہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے او ر ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہوگیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہوگیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔‘‘

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق تو شاذ اشارے ملتے ہیں مناظروں میں مگر حضرت امام حسینؓ کے متعلق تو بعض سُنیوں نے ایسا ظالمانہ رویہ اختیار کیا ہے کہ ان کے مقابل پر یزید کو حضرت یزید کرکے لکھا گیا اور حضرت امام حسینؓ کی غلطیاں ظاہر کی گئیں اور یہ بتایا گیاکہ ایسی صورت میں نعوذ باللّٰہ من ذلک حضرت یزید کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں تھا جو انہوں نے کرکے دکھایا۔ تو یہ نہایت ہی خبیثانہ حرکت ہے اور جماعت احمدیہ کا اس سے کوئی دُور کا بھی تعلق نہیں۔ ہم سُنی العقیدہ ہونے کے باوجود ایک امتیاز رکھتے ہیں۔ ہمیں وقت کے امام نے ایک روشن دماغ اور روشن دل عطا کیا ہے اور ہمارے دل کو حقیقت، سچ کے نور سے بھر دیا ہے اس نور سے جو خدا سے آپؑ نے پایا۔

پس شیعوں کے مقابل پر جو ہمارا مؤقف تھا مَیں نے کھول کر بیان کردیا۔ کوئی اس میں بات لپیٹی نہیں، کھول کر بتایا کہ یہ مؤقف ہے جو سچا ہے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم ان سُنیوں کے ساتھ شامل ہیں جو جواباً نعوذ باللّٰہ من ذلک حضرت امام حسینؓ پر بھی حملے کر دیتے ہیں اور آپؓ کے دشمنوں کی تعریف کرتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں:
’’ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہوگیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہوگیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبتِ الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش ہو۔‘‘

یعنی حضرت امام حسینؓ کے نقوش کو اسی طرح اپنے دل پہ قبول کریں کہ وہ آپ کے دل میں جلوہ گر ہوجائیں جیسے ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش۔

’’یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ کون جانتا ہے ان کا قدر مگر وہی جو اُن میں سے ہیں۔ دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کرسکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دُور ہیں۔ یہی وجہ حسینؓ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسینؓ سے بھی محبت کی جاتی۔ غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے۔ اور جو شخص حسینؓ یا کسی اور بزرگ کی جو آئمۂ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے، وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جلّ شانہ اس شخص کا دشمن ہوجاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات، جلد3 صفحہ545)

’’افاضۂ انوار الٰہی میں محبتِ اہلِ بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے۔‘‘

’’افاضہ انوار الٰہی میں‘‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوروں کے پہنچنے میں۔ یعنی نوروں کو تم تک پہنچایا جاتا ہے جو، اس میں کون کون سےمحرکات و موجبات شامل ہوتے ہیں؟

فرمایا:
’’محبتِ اہلِ بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے۔ اور جو شخص حضرتِ اَحدیّت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ اِنہیں طیّبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔ اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نمازِ مغرب کے بعد عین بیداری میںایک تھوڑی سی غَیبتِ حِس سے جو خفیف سے نشہ سے مشابہ تھی (جیسے ہلکا سا طبیعت میں ایک نشہ سا آجائے، یعنی اس میں لطف بھی تھا) ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے یک دفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی، جیسی بسرعت چلنے کی حالت میں پائوں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے۔ پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے، یعنی جنابِ پیغمبر خدا ﷺ و حضرت علی و حسنین و فاطمہ زہرا رضی اللہ عنھم اجمعین، اور ایک نے اُن میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادرِمہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا، پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کودی گئی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیرِ قرآن ہے جس کو علیؓ نے تالیف کیا ہے اور اب علیؓ وہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے۔ فالحمد للہ علی ذالک۔

(براہین احمدیہ ہر چہار حصص حاشیہ در حاشیہ نمبر3 صفحہ598-599)

یہ روایت مَیں نے خاص طور پر اس لئے یہاں چُنی ہے کہ احمدیوں پر جو ظلم کئے جارہے ہیں پاکستان میں، اُن میں بعض خبیث فطرت لوگ اس روایت کو بھی بگاڑ کر عوام الناس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق گندے الزامات لگاتے ہیں اور یہ الزام دراصل ان پر اُلٹتا ہے۔ ان کا خُبثِ باطن ہے جو ایسی ناپاک بات حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کرتے ہیں جس کا اس روایت سے کوئی دُور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ کوئی وہم و گمان بھی کوئی شریف انسان نہیں کرسکتا کہ اس روایت میں کوئی ایسا مضمون بیان ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کھڑے ہوئی حالت میں ایک کشفی نظارہ ہے۔ جن پانچ بزرگوں کے آنے کا ذکر ہے اس میں حضرت رسول اللہ ﷺ موجود ہیں، حضرت علیؓ موجود ہیں حضرت فاطمہؓ کے بیٹے موجود ہیں اور آپؑ کو ایک بچے کے طور پر دکھایا گیا ہے، ورنہ اگر اپنے زانوں سے سر لگاتیں تو ایک بڑے آدمی کا سر تو زانوں کے ساتھ نہیں لگ سکتا ہے۔ صاف پتہ چلا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشفی حالت میں ان سب بزرگوں کو قد آور دیکھا ہے اور اپنے آپ کو اُن کے مقابل پر ایک چھوٹا بچہ دیکھا ہے اور تب ہی جس طرح ماں بچے کا سر اپنے ران کے ساتھ لگاتی ہے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کشف میں جب آپؑ کا سر اپنی ران کے ساتھ لگایا تو وہ ران کے برابر تھا۔ یہ تو نہیں کہ دوہرا کر کے اُلٹا کر نیچے لے جایا گیا، ایسا کوئی نقشہ تو اس عبارت سے ظاہر نہیں ہورہا۔ ایک نہایت پاکیزہ کشف ہے۔ مادرِ مہربان کا لفظ موجود ہے ’’ایک مادر مہربان کی طرح‘‘۔ اور منظر کیا ہے؟ باپ موجود ہیں، خاوند موجود ہیں، بچے موجود ہیں اور یہ ناپاک اور کمینے لوگ یہ گند اُچھالتے ہیں اور حیاء نہیں کرتے کہ حضرت فاطمہؓ کے اوپر یہ بکواس کررہے ہیں۔ جب یہ ایسا گندا خیال اس سےجو نکالتے ہیں تو الزام لگانے والے یہ ہیں اور بے حرمتی کرنے والے یہ ہیں۔ اس عالمِ کشف میں تو اس کا دُور کا بھی اشارہ موجود نہیںجو یہ بکواس حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرنے کی خاطر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر کرتے ہیں۔ اس لئے میں یہ کھول کر بتا رہا ہوں کہ یہ جو پاکستان کی دیواریں اس قسم کی گندگیوں سے کالی کی جاتی ہیں یہ ان مولویوں کے دل کے گند ہیں اور یہاں شیعہ، سُنی سب اکٹھے ہوجاتے ہیں یہ گند اچھالنے میں اور حیاء نہیں کرتے کہ کس کے متعلق کیا بات کررہے ہیں۔

پھر یہ کہ جان کر حوالہ وہ دیتے ہیں جو مختصر حوالہ ہے۔ جب 1974ء میں جماعت احمدیہ کو موقع ملا، یعنی ان کو زبردستی بلایا گیا کہ نیشنل اسمبلی کے سامنے پیش ہوں اور ہم تم پر الزام لگائیں گے، تم ان کا جواب دو۔ تو حضرت خلیفہ المسیح الثالثؒ کے ساتھ میں بھی شامل تھا اور مجھے یاد ہے یہ الزام بھی ان الزامات میں شامل تھا لیکن حوالہ براہین احمدیہ کا دینے کی بجائے ایک بعد کی کتاب کا دیا جس میں مختصر ذکر تھا اس کا حالانکہ ان کی انہوں نے باقاعدہ علماء کی ٹیمیں بٹھا رکھی تھیں اور نہ صرف مذہبی امور کی وزارت بلکہ امورِ قانون کی وزارت بھی کئی مہینوں سے دن رات کام کررہی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے کوئی قابلِ اعتراض بات نکالی جائے اور براہین احمدیہ بھی ان کے مطالعہ میں تھی۔ جان کے اس کو چھوڑ کر جس میں پوری تشریح موجود ہے اس مختصر حوالے کو لے لیا تاکہ لوگوں کو پتہ نہ لگے کہ کیا بات کہی جارہی ہے۔ یہ ہے مادرِ مہربان والا حوالہ جس سے انہوں نے سارا طوفان کھڑا کیااور جب وہاں حضرت خلیفتہ المسیح الثالثؒ نے براہین احمدیہ سے پڑھ کر سنایاکہ یہ ہے تو مولویوں کے منہ دیکھنے والے تھے اور سارا ہال جو دوسرا تھا ان کی طرف دیکھ کر ہنس رہا تھاکہ یہ تھا حوالہ؟ وہ ریکارڈ تو ہوگئی ہےوہ ساری کارروائی لیکن افسوس ہے کہ ویڈیو نہیں ہوسکی، ورنہ آپ دیکھتے مولویوں کے چہرے اور دیکھتے کہ کس طرح ہال میں موجود ممبران کی اکثریت اس موقع پر مولویوں کی طرف دیکھ دیکھ کے ہنس رہی تھی، لو جی !یہ دیکھ لو! آگیا جواب تمہارا۔ لیکن حیاء نہیں ہے، پھر وہی بات کئے چلے جاتے ہیں۔

’’ازالہ اوہام‘‘ میں آئمہ اثنا عشری کے متعلق لکھا ہوا ہے:۔
’’آئمہ اثنا عشر نہایت درجہ کے مقدس اور راستباز اور ان لوگوں میں سے تھے جن پر کشفِ صحیح کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔‘‘

اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مؤقف تو یہ ہے کہ نہ صرف اہلِ بیت جسمانی اہلِ بیت تھے بلکہ روحانی اہلِ بیت بھی تھے اور اس پہلو کو زیادہ اُٹھانے کی ضرورت ہے، اس پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے دوسروں کے دلوں میں بھی اہلِ بیت بننے کی طمع پید ہوگی، ورنہ جو جسمانی اہلِ بیت ہیں ان کا لاکھ ذکر کرتے رہو کوئی دوسرا بن ہی نہیں سکتا، وہ بے چارہ بیٹھا کیا سنتا رہے گا؟ فرمایا،اس طرف بلاؤ جس طرف لوگ بھی آسکتے ہیں اور جیسا بنانے کے لئے حضرت محمد رسول اللہﷺ کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔ پھر اہلِ بیت کی محبت میں جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ہے تمام آئمہ کے متعلق آپؑ نے ایک نہایت ہی پاک کلام میں ان کی محبت میں سرشار ہوکر ان کے تقویٰ پر مہر تصدیق ثبت کی ہے کہ ہمارے نزدیک یہ سارے آئمہ صاف اور پاک لوگ تھے۔ اسی لئے میں نے آئمہ کا حوالہ دیا تھا کہ آئمہ خود ان باتوں کو ناپسند کرتے اور مردُود قرار دیتے ہیں جو یہ الزام لگاتے ہیں۔ اب آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں یہ عرض کرتا ہوں۔

فرماتے ہیں:

جان و دلم فدائے جمال محمد است
خاکم نثار کوچہءِ آل محمد است
دیدم بعین قلب و شنیدم بگوش ہوش
در ہر مکان ندائے جلال محمد است
ایں چشمۂ رواں کہ بخلق خدا دھم
یک قطرئہ ز بحر کمال محمد است
این آتشم، ز آتش مہر محمدی یست
واینآب من ز آب زلال محمد است

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی اٰلِ مُحَمّدٍ وَبَارِک وَسَلِّم۔

(درس القرآن 13رمضان بمطابق 24فروری 1994ء)

(4)سُبْحانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ، اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ

سب سے پیاری بات جو خدا تعالیٰ کو بہت ہی زیادہ اچھی لگتی ہے۔ وہ ہے سُبْحانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ‘‘ یہ دو کلمے ہیں۔ پاک ہے وہ اللہ ہر قسم کی کمزوریوں سے لیکن اپنی حمد کے ساتھ۔ یعنی صرف کمزوریوں سے پاک نہیں، ہر کمزوری کے مقابل پر اس میں ایک حمد موجود ہے۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم، واہ کیا شان ہے ہمارے رب کی! عظیم کا لفظ یہاں اسی طرح کا ہے، جیسے ہم کسی بندے کے متعلق بہت ہی متاثر ہوجائیں کہ عظیم آدمی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ عظیم ہے جو ہر خرابی سے پاک، ہر خوبی سے مرصّع اور ہر خوبی اس کی ذات میں کامل طورپر موجود۔ ایسے وجود کی تعریف ہونی چاہئے، اسی سے تعلق جوڑنا چاہئے۔ اس کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا کہ درود اس کے ساتھ شامل کرو۔

اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ

اے اللہ! محمدؐ پر سلام بھیج اور ہر قسم کی برکتیں اسے عطا فرما اور آل محمدؐ پر بھی۔

تو یہ سب دعاؤں کا نچوڑ ہے۔ یہ دعا ہوجائے تو ساری دعائیں اس کے اندر داخل ہوجاتی ہیں اور آل محمدؐ میں محمد رسول اللہ ﷺ کی اُمت تو داخل ہے ہی مگر خصوصیت سے وہ اُمت جو حقیقتاً محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت پر چلنے والی ہے اور آپؐ کی آل میں سے وہ خونی تعلق والے بھی جو محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خونی رشتہ بھی رکھتے ہیں اور روحانی رشتہ بھی رکھتے ہیں۔ پھر ایک وسیع ترمعنے میں آل کا لفظ سارے بنی نوع انسان پر بھی صادق آتا ہے کیونکہ جس کی جو قوم ہو اُسے اس کی آل کہا جاتا ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی قوم سارے بنی نوع ہیں، تمام انسان ہیں۔ پس ان معنوں میں یہ دعا جو ہے بہت ہی وسعت اختیار کرجاتی ہے۔

(درس القرآن فرمودہ مؤرخہ 10مارچ 1994ء بمقام بیت الفضل لندن)

(طاہر فاوٴنڈیشن)

پچھلا پڑھیں

ہماری مساجد دعوت الیٰ اللہ کا ایک ذریعہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 اگست 2022