• 19 اپریل, 2024

سچی تہذیب وہ ہے جو قرآن شریف نے سکھلائی

سچی تہذیب وہ ہے جو قرآن شریف نے سکھلائی
خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ دنیا میں سچی تہذیب اور رُوحانیت پھیلے
(مسیح موعودؑ)

آج کے جدید دور میں ترقی یافتہ قوموں، معاشروں حتیٰ کہ بعض خاندانوں میں بھی مہذب ہونے کا فخر یہ انداز میں ذکر ہوتا رہتا ہے۔دیگر معاشروں اور خاندانوں کو غیر مہذب ہونے کے طعنے عام ملتے ہیں۔ آج کی دنیا میں ایسی قوموں کے لئے Third world countries کے الفاظ بولے جاتے ہیں جن کونچلے درجہ کا سمجھا اور تحقیر کے انداز میں دیکھا، جانا،پہچانا جاتا اور ان سے بُرا سلوک کیا جاتا ہے۔ بعض قومیں اپنے آپ کو سُپر(super) اقوام کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ اور تہذیب یافتہ تصور کرتی ہیں۔ ہم بھی باتوں باتوں اور انجانے میں گفتگو کے دوران فقروں میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ’’آج کی مہذب دنیا میں‘‘

جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف الفاظ میں فرمایا کہ ’’سچی تہذیب وہ ہے جو قرآن شریف نے سکھلائی‘‘۔ یعنی اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے والا اصل میں مہذب کہلانے کے قابل ہے اور جب سے دنیا بنی ہے۔ سیدنا حضرت محمد مصطفٰےﷺ جن کی قوتِ قدسیہ سے تربیت پانے والے صحابہؓ ہی سب سے بڑے تہذیب یافتہ کہلائے جا سکتے ہیں۔ ہمارے آقا ﷺ نے جن کو جہالت کی اتھا ہ گہرائیوں سے اٹھا کے با خدا اور پھر خدا نما وجود بنا دیا۔ انہوں نے قرآنی تعلیم اور اس کے احکام و نصائح کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور تمام بدیوں، بُرائیوں کو خیر باد کہہ کر اللہ کے متوالے اور حضرت محمدؐ کے جیالے بن گئے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک جگہ صحابہؓ کو آنحضورؐ کے جسم کے اعضاء قرار دیا ہے۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ان صحابہؓ کے اس کردار کو اپنے ایک عربی قصیدہ میں بیان فرمایا ہے۔ جس میں سے تین اشعار مع ترجمہ پیش ہیں۔

قَامُوْا بِاِقْدَامِ الرَّسُوْلِ بِغَزْوِھِمْ
کَالْعَاشِقِ الْمَشْغُوْفِ فِی الْمَیْدَانٖ

وہ رسولؐ کی پیش قدمی پر اپنی جنگ میں ایک عاشق شیدا کی طرح میدان میں ڈٹ گئے۔

فَدَمُ الرِّجَالِ لِصِدْقِھِمْ فِیْ حُبِّھِمْ
تَحْتَ السُّیُوْفِ اُرِیْقَ کَالْقُرْبَانٖ

سو ان جواں مردوں کا خون اپنی محبت میں ثابت قدمی کی وجہ سے تلواروں کے نیچے قربانیوں کی طرح بہایا گیا۔

جَآءُوْکَ مَنْھُوْبِیْنَ کَالْعُرْیَانٖ
فَسَتَرْتَھُمْ بِمَلَاحِفِ الْاِیْمَانٖ

وہ تیرے پاس لُٹے پُٹےبرہنہ شخص کی مانند آئے تو تُو نے انہیں ایمان کی چادر یں اوڑھا دیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی دنیا نے جو مہذب ہونے کی دعویدار ہے، رفاہ عامہ کے لئے قوانین اور قواعد وضوابط بنا کے پھر ان پر سختی سے عمل کرنے کے نتیجہ میں جو مضبوط نظام بنایا ہے، اسے دیکھ کر ایسے لگتا هے جیسے انہوں نے اسلامی و قرآنی تعلیمات کو اپنالیا ہے۔

لیکن ان کے کلچر میں عریانی و بے حیائی کے ذریعہ پردہ کے اسلامی حکم کی دھجیاں بکھیرنے اور دیگر خرابیوں کی بناء پر انہیں مہذب دنیا نہیں کہا جا سکتا۔ مہذب دنیا وہی کہلائے گی جس پر صاف ستھری و پاکیزہ شریعت ِ اسلام و قرآن کو ماننے اور عمل کرنے کی چھاپ لگی ہو گی اور آج کی دنیا میں جماعت احمدیہ ہی وہ واحد اسلام کی علمبردار جماعت ہے جو اسلامی احکام پر عمل کر رہی ہے اور ستاروں کی مانند صحابہؓ رسول ﷺ کی تقلید میں مہذب قوم تیار کر رہی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے سرینام کے جلسہ سالانہ 1985ء میں بھجوائے گئے پیغام میں تحریر فرمایا کہ ’’صحابہؓ کے نمونہ پر چلنے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ میرا دل گوارا نہیں کرتا کہ اب دیر کی جائے‘‘

(الفضل آن لائن، تاریخ جلسہ ہائے سالانہ نمبر 4 اگست 2021ء صفحہ37)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محفل میں 10 اگست 1905ء کو ذکر آیا کہ ایک انگریزی اخبار میں مضمون نکلا ہے کہ اسلام ہند میں نہیں پھیلا کیونکہ ہندو خود مہذب تھے اور کسی مہذب قوم میں اسلام پھیل نہیں سکتا۔ اس پر حضورؑ نےفرمایا:
’’یہ جھوٹ ہے ہندوستان میں سوائے چند ایک قوموں کے جو باہر سے آئی ہیں (قریش، مُغل، پٹھان) باقی سب ہند کے باشندے ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا مثلاً شیخ، خواجگان، زمینداروں کی سب اقوام وغیرہ، یہ سب پہلے ہندو تھے۔

فرمایا، عیسائیوں کا عجیب طریقہ ہے، اگر کثرت دکھائی جاوے تو کہتے ہیں جبراً مسلمان ہوئے اور اگر کثرت نہ دکھائی جاوے تو کہتے ہیں اسلام کا کچھ اثر نہ ہوا۔

فرمایا:
تہذیب بھی ان کا اپنا بنایا ہواایک لفظ ہے جس کے معنے ان کی اصطلاح میں سوائے اس کے نہیں کہ انسان خدا تعالےٰ کی مقرر کردہ رسموں کو توہین سے دیکھے اور دُنیا پرستی اور دہریہ پن کی طرف جُھک جائے۔ سچی تہذیب وہ ہے جو قرآن شریف نے سکھلائی۔ جس کے ذریعہ سے رُوحانی زندگی حاصل ہوتی ہے اور انسان اور حیوان میں فرق معلوم ہوتا ہے۔اور جس کے ذریعے سے سچّے اور جُھوٹے مذہب میں ایک امتیاز پیدا ہوتا ہے اور انسان کوسفلی زندگی سے دل سردہو کر عالم جاودانی کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک تہذیب اس کا نام ہے کہ انسان دُنیا کا کیڑا بن جاوے۔ خدا تعالیٰ کو بُھول جاوے اور ظاہری اسباب کی پرستش میں لگ جائے۔ مگر خُدا تعالیٰ کے نزدیک تہذیب یہ ہے کہ خُدا تعالیٰ پر پُورا بھروسہ ہو جائے اور اس کی عظمت اور ہیبت دل میں بیٹھ جائے اور دل کو سچی پاکیزگی حاصل ہو جائے۔

یورپ میں جب عیسائیت پھیلی تھی تو اس وقت یورپ کس قدر تاریکی اور سخت بُت پرستی میں مبتلا تھا۔ پھر ان وحشی قوموں پر عیسائیت کا کیا اثر ہوا۔ صرف یہ کہ ایک بُت پرستی کی جگہ دوسری بُت پرستی قائم ہو گئی۔‘‘

(ملفوظات جلد7، صفحہ427 تا 428)

پھر فرمایا:
’’آسمانی تہذیب تو اور ہے جس میں ایمان، تقویٰ، دیانت، صلاحیت اور نیک کرداری شامل ہے۔ مگر اُن کے نزدیک دنیا کے جوڑ توڑ، ہر قسم کے مکروفریب کا نام تہذیب ہے۔ یہ تہذیب اُن کے ہی نصیب رہے ہم اس کو لینا نہیں چاہتے چند بے ہودہ رسوم و عادات کا نام جو اخلاق سے گری ہوئی ہیں تہذیب نام رکھتے ہیں اور خدائی رسُوم و آداب کی توہین اور استخفاف کرتے ہیں حالانکہ ان رسوم و عادات کے نتائج اعلیٰ درجہ کے ہوتے ہیں جن سے سوسائٹی میں امن، اخلاق اور نیک اعمالی پیدا ہوتی ہے۔ اپنی رسُوم و عادات کو جن کے نتائج بد ہیں، پسندیدہ سمجھتے ہیں۔‘‘

(الحکم جلد9 نمبر 29 صفحہ 3 مؤرخہ 17 اگست 1905ء)

مکرمی مفتی محمد صادق صاحبؓ نے حضور علیہ السلام سے بیان کیا کہ مسٹر بیک نے ایک مرتبہ علیگڑھ کالج کے طلباء کے سامنے تہذیب پر لیکچر دیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اگر تم راستہ میں چلو تو لیڈی تمہارے دائیں طرف ہو اور اگر کوئی تاروغیرہ آجاوے تو اس کو پاؤں سے دبا کر لیڈی کو آرام سے گزر نے دو۔ کھانا کھاؤ تو اپنی بیوی کے ساتھ نہیں بلکہ تمہاری بیوی کسی اور کے ساتھ کھائے اور تم کسی غیر کی بیوی سے۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا:
یہ تہذیب ان کو ہی مبارک ہو۔ قرآن شریف نے ہی سچی تہذیب دنیا کو سکھائی ہے یہ تہذیب وہ ہے جس سے انسانیت آتی ہے اور انسان اور حیوان کے درمیان مابہ الامتیاز حاصل ہوتا ہے اور پھر سچے اور جُھوٹے مذاہب کے درمیان مابہ الامتیاز عطا ہوتا ہے۔ اگر یہ تہذیب کسی کو نہیں ملی تو اسے تہذیب سے کوئی حصہ ہی نہیں ملا، یہ دنیا کے کیڑے ہیں۔ اباحت سے ملی ہوئی باتوں کا نام تہذیب قرار دیتے ہیں۔

خداتعالیٰ نے جس تہذیب کے پھیلنے کا ارادہ فرمایا ہے اسے اب کوئی روک نہیں سکتا۔ جیسے جب کوئی بڑابھاری سیلاب آتا ہے تو اس کے آگے کوئی بند نہیں لگا سکتا۔ اسی طرح پر اللہ تعالےٰ کا ارادہ اس سیلاب سے بھی بڑھ کر زبردست ہے۔ کون ہے جو اُس کے آگے بند لگائے۔ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ دنیا میں سچی تہذیب اور رُوحانیت پھیلے اور یہ اس کے بالمقابل عیسائیت کے گندے خیالات پھیلانا چاہتے ہیں۔ اب خداتعالےٰ سے اُن کی لڑائی ہے۔ معلوم ہو جائے گا کہ اس کا انجام کیا ہے۔ خداتعالیٰ نے جو ارادہ فرمایا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ وہی خدا ہے جس نے زمین و آسمان بنایا ہے۔وہ چاہے تو نئے سرے سے اس زمین و آسمان کو بنا سکتا ہے۔ اب اسی کاکام ہے کہ وہ دنیا پر اثر ڈال دے۔‘‘

(الحکم جلد9 نمبر29 صفحہ3 مؤرخہ 17 اگست 1905ء)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 ستمبر 2021