• 18 مئی, 2024

تم وہى سوہنے خان ہو، خوابوں والے…

حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ بنصرہ العزىز فرماتے ہىں:
حضرت مىاں سوہنے خان صاحبؓ فرماتے ہىں کہ کمترىن 1899ء مىں رىاست پٹىالہ مىں محکمہ بندوبست مىں ملازم ہوا اور کام پىمائش کا کرتا رہا۔ شىخ ہاشم على سنورى گرداور قانون گو تھے۔ ہمارى پڑتال کو آىا اور کام دىکھ کر بہت راضى ہوا۔ انہوں نے بىان کىا کہ تمہارے سے قادىان کتنى دور ہے؟ مىں نے عرض کىا کہ تىس کوس ہے۔ شىخ صاحب موصوف نے فرماىا کہ مىں حضرت مسىح موعود علىہ الصلوۃ والسلام کا خادم ہوں۔ مَىں نے جواب دىا (ىعنى اُس وقت ىہ احمدى نہىں تھے ناں تو ان کا لہجہ کىا تھا) کہ اىک مرزا صاحب چوہڑوں کا پىر ہے۔ اىک عىسىٰ بن گىا۔ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) اور دولت اکٹھى کر رہے ہىں۔ چند روز گزرے تو موضع ہٹ مىں اىک بزرگ ولى اللہ کى مزار دىرىنہ ہے (پرانا مزار ہے) جس کانام فتح على شاہ ہے۔ مىرى خواب مىں اس بزرگ کى مزار مىں جنابِ مسىح موعود آئے۔ مَىں نے مسىح موعود کو لوئى بچھا دى۔ حضرت صاحب اوپر بىٹھ گئے۔ مَىں اُن کى خدمت مىں حاضر رہا (ىہ اپنى خواب کا ذکر کر رہے ہىں ) اور خدمت کرتا رہا۔ اىک ماہ لگاتار ىہى حالت رہى۔ اس کے بعد مىرى خواب مىں شاہ فتح على صاحب مزار والے آئے اور فرماىا کہ امامِ وقت پىدا ہو گىا قادىان مىں۔ مىں نے عرض کىا کہ مرزا غلام احمد! اس بزرگ نے فرماىا۔ مرزا غلام احمد صاحب۔ مىں اىسا خواب خىال سمجھ کر چُپ رہا۔ تھوڑے دنوں کے بعد مىرى خواب والے بزرگ آئے اور فرماىا کہ تم کىوں نہىں قادىان گئے اور کىوں نہىں بىعت کى۔ جلدى جا کر بىعت کرو۔ مىں ارادہ مستقل کر کے رخصت لے کر گھر آىا۔ کچھ خانگى معاملات کى وجہ سے مجھے دىر ہو گئى کہ وہى ولى اللہ پھر خواب مىں ملے کہ ہم نے تم کو گھر بىٹھنے کے لئے نہىں کہا تھا۔ تم جلد ہى قادىان جا کر بىعت کر لو۔ اس دن کمترىن گھر سے روانہ ہو کر موضع راسگو مىں رات جارہا۔ (وہاں ٹھہرے) اُس جگہ مىرے رشتہ دار تھے۔ انہوں نے کہا: ماہ پوہ کے بعد چلىں گے۔ مَىں نے اُن کى بات کو مان لىا۔ رات کو مجھے خواب مىں شاہ فتح على صاحب ملے اور فرماىا۔ پندرہ کوس آ گئے ہو اور سترہ کوس باقى ہے۔ ہم تمہارے ساتھ ہىں۔ کونسا تم کو خوف ہے۔ پھر صبح کو روانہ ہوا۔ قادىان مىں پہنچ گىا۔ جناب مسىح موعود علىہ السلام صاحب جنوب کى طرف بہت سے آدمىوں کے درمىان سىر کو گئے تھے۔ مىں نے لوگوں سے درىافت کىا کہ لوگ جنگل مىں کىوں جمع ہو گئے۔ لوگوں نے بتلاىا کہ مرزا صاحب سىر کو جا رہے ہىں۔ اُن کے ساتھ جاتے ہىں۔ مَىں اُن لوگوں کے ساتھ ہو کر جا ملا اور جا کر حضرت صاحب کے ساتھ اَلسَّلَامُ عَلَىْکُمْ کہا اور مصافحہ کىا۔ مرزا صاحب نے مجھے فرماىا کہ کس جگہ سے آئے ہو؟ مىں نے عرض کىا ضلع ہوشىار پور اور موضع مىٹىانہ سے آىا ہوں۔ فرماىا تمہارا نام کىا ہے؟ مىں نے عرض کىا: سوہنے خان۔ فرماىا تم وہى سوہنے خان ہو، خوابوں والے۔ (حضرت مسىح موعود علىہ الصلوۃ والسلام کو بھى لگتا ہے اللہ تعالىٰ نے ان کے بارے مىں بتا دىا تھا)۔ مَىں نے عرض کىا کہ مَىں وہى آپ کا غلام ہوں۔ فرماىا تىن دن تک رہو۔ تىن دن کے بعد بىعت لے لىں گے۔ تىن دن کے بعد بىعت لى۔ فرماىا کہ پہلے مسىح ناصرى کے بھى بىعت غرىب لوگ ہوئے تھے۔ (انہوں نے کہا تھا ناں کہ بہت سے غرىب لوگ اور چوہڑے چمار بىعت کر رہے ہىں، مسىح بن گئے ہىں۔ حضرت مسىح موعود علىہ الصلوۃ والسلام نے ان کے اس جواب مىں فرماىا جو انہوں نے خود تو نہىں کہا ہو گا، ىا ہو سکتا ہے خبر پہنچى ہو کہ پہلے مسىح ناصرى کى بىعت بھى غرىب لوگوں نے کى تھى)۔ مىرے بھى پہلے غرىب لوگ ہوئے ہىں۔ بعد ازاں فرماىا: مجھے سچا جانو۔ (جو نصائح فرمائىں اىک ىہ کہ کامل ىقىن ہو مىرى سچائى پر) دوسرے پنج وقت نماز ادا کرو اور تىسرى بات کبھى جھوٹ نہىں بولنا۔ اور ىہ فرما کر مجھے اجازت دے دى۔

(رجسٹر رواىات صحابہ غىر مطبوعہ جلد12 صفحہ193تا195رواىات مىاں سوہنے خاں صاحب سکنہ مىٹىانہ)

تو ىہ تىن نصىحتىں ہر احمدى کو اپنے سامنے رکھنى چاہئىں۔ حضرت فضل الٰہى صاحبؓ ولد محمد بخش صاحب فرماتے ہىں کہ اىک دفعہ کا ذکر ہے کہ اىک دن حضرت مسىح موعود علىہ الصلوۃ والسلام اور اماں جان سىر کرتے ہوئے ہمارے گاؤں آئے۔ جب واپس جانے لگے تو حکم کىا کہ پانى پلاؤ۔ (حضرت اماں جان کو پىاس لگى۔ اُن کى بھى اطاعت کاچھوٹا سا واقعہ ہے)۔ مىرى والدہ صاحبہ نے مجھے گلاس مىں پانى ڈال کر دىا اور کہا کہ لے جاؤ۔ مىں جلدى سے اُن کے پاس پانى لے گىا اور اماں جان اور حضرت صاحب راستے مىں کھڑے تھے۔ اماں جان کو مَىں نے پانى دىا۔ انہوں نے پکڑ کر پىنا شروع کىا۔ حضرت صاحب نے صرف اتنا لفظ کہا کہ پانى بىٹھ کر پىنا چاہئے۔ اماں جان نے صرف اىک گھونٹ پانى پىا تھا۔ ىہ بات سن کر فوراً بىٹھ گئے اور باقى پانى بىٹھ کر پىا۔

(رجسٹر رواىات صحابہ غىر مطبوعہ جلد7 صفحہ353 رواىات حضرت فضل الٰہى صاحبؓ)

حضرت نظام الدىن صاحبؓ بىان کرتے ہىں کہ اىک مرتبہ کا ذکر ہے کہ اُس زمانے مىں دستور تھا کہ پہلے سب مہمان گول گمرہ مىں جمع ہو جاىا کرتے تھے۔ حضرت اقدس فداہ اَبى واُمّى کو اطلاع پہنچائى جاتى کہ حضور تمام خادم حاضر ہىں۔ اىک دن حضرت اقدس پہلے ہى تشرىف فرما ہو گئے تو حضرت خلىفہ اول حضرت مولوى نورالدىن صاحب رضى اللہ تعالىٰ عنہ ابھى تشرىف نہ لائے تھے۔ اس غلام کو حضور نے فرماىا کہ جاؤ مولوى صاحب کو بلا لاؤ۔ بندہ دوڑتا ہوا مطب مىں گىا اور حضرت اقدس کا ارشاد عرض کىا۔ حضرت خلىفہ اوّل رضى اللہ تعالىٰ عنہ فرمانے لگے (سوال کىا) کہ حضرت صاحب تشرىف لے آئے ہىں؟ بندے نے کہا: ہاں اور کہا کہ جناب کو ىاد فرماىا ہے۔ اس پر حضرت خلىفہ اول مطب سے دوڑ پڑے اور گول کمرہ تک دوڑتے ہوئے حاضر ہوئے۔ مجلس مىں حضرت خلىفہ اوّل عموماً سرنگوں رہتے تھے (نىچا سر کئے بىٹھے رہتے تھے) سوائے اس صورت کے کہ حضرت اقدس خود مخاطب فرمائىں ورنہ دىر تک سر نگوں رہتے تھے۔

(رجسٹر رواىات صحابہ غىر مطبوعہ جلد3 صفحہ106 تتمہ رواىات نظام الدىن صاحب)

 (خطبہ جمعہ 25؍مئى 2012ء بحوالہ الاسلام وىب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

تکمیل حفظ قرآن کریم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 نومبر 2021