• 3 مئی, 2024

خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍ستمبر 2022ء (بمقام مسجد فتح عظیم،زائن امریکہ)

خطبہ جمعہ

زائن شہر میں مسجد فتح عظیم کی عالی شان تعمیر کی تاریخ کا مختصر ایمان افروز تذکرہ
بیان فرمودہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 30؍ستمبر 2022ء بمقام مسجد فتح عظیم،زائن امریکہ

آج آپ یہاں زائن (Zion) کی مسجد کے افتتاح کے لئے جمع ہیں

اللہ تعالیٰ نے جماعتِ احمدیہ امریکہ کو توفیق دی کہ اس مسجد کی تعمیر کرے اور اس شہر میں کرے جو جماعت کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ دو دن پہلے ایک جرنلسٹ نے مجھ سے سوال کیا کہ یہ مسجد یہاں کے لئے اتنی اہم کیوں ہے؟ مسجد تو ہمارے لئے ہر ایک اہم ہوتی ہے۔ میں نے اسے یہی کہا تھا۔ تمام مساجد ہی ہمارے لئے اہم ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ صرف اس مسجد کے لئے خاص طور پر میں یہاں آیا ہوں۔ میں نے کہا پہلے بھی میں مساجد کے افتتاح کے لئے جاتا رہتا تھا۔ تو بہرحال اس کو میں نے کہا کہ اس مسجد کی ایک اہمیت بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ مسجد اس شہر میں تعمیر ہوئی ہے جو ایک مخالفِ اسلام کا آباد کیا ہوا شہر ہے اور جن لوگوں کو تاریخ سے دلچسپی ہے وہ اس تاریخ کے جاننے کی کوشش کریں گے اور کیونکہ جماعت کے علاوہ تو کوئی اس شہر کی تاریخ کو نہیں جانتا، نہ ڈوئی کو جانتا ہے۔ اس تاریخ کے بتانے کے لئےایک نمائش کا اہتمام بھی جماعت نے کیا ہوا ہے۔جس سے اس تاریخ پر روشنی پڑتی ہے جو جماعت کے نزدیک اس شہر کی اہمیت ہے اور جن کو دلچسپی ہے وہ اس نمائش سے کچھ حد تک فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ شاید وہ کل اس بارے میں آرٹیکل بھی لکھے گی…

اس شہر میں جماعت کا قائم ہونا
ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے والا بناتا ہے اور بنانا چاہئے

اور اس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہم اس شہر کے لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے باوجود اس کے کہ شروع میں کونسل نے مسجد کی تعمیر کی مخالفت کی تھی، بنانے سے انکار کر دیا تھا۔ لوگ ہمارے حق میں کھڑے ہوئے اور کونسل کو مجبور کیا کہ وہ ہمیں مسجد کی تعمیر کی اجازت دے دے۔پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی یہ ارشاد ہے کہ جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکرگزار نہیں ہے۔

(سنن الترمذی ابواب البر والصلۃ باب ما جاء فی الشکر لمن احسن الیک حدیث 1954)

پس اس ارشاد کے تحت ہمیں خدا تعالیٰ، اس عظیم خدا کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جس نے ہمیں اس مسجد کی تعمیر کی توفیق دی۔ پس اس لحاظ سےہم احمدیوں کے لئے ایک صرف خوشی کا دن نہیں ہے بلکہ انتہائی شکرگزاری کا دن بھی ہے۔ اس خدا کی شکر گزاری کا دن جس نے ہمیں مسجد کی تعمیر کے ساتھ زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کی سچائی کا بھی زندہ نشان دکھایا۔

جتنا ہم شکر گزار بنیں گے اتنا ہی خدا تعالیٰ ہمیں
اپنے فضلوں سے نوازتا رہے گا

اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کے نشان ہم پر کھلتے جائیں گے۔پس یہ ہماری شکرگزاری کی حالت ہے جو ہمیں ان نشانوں کی سچائی کا گواہ بنائے گی۔ بےشک حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں، جماعت کی ترقی کے بےشمار وعدے ہیں وہ آپ کو جماعت کی ترقیات دکھائے گا۔ دکھائے اور دکھا رہا ہے اور آئندہ دکھائے گا لیکن ہم ان ترقیات کے دیکھنے اور ان کا حصہ بننے کے حق دار تب ہوں گے جب ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگزار ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بجا لانے والے ہوں گے اور اس کا حق ادا کرنےو الے ہوں گے۔بےشمار وعدے ہیں جو ہم نے اپنی زندگیوںمیں پورے ہوتے دیکھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے وقت پر ہر وعدے کے پورا ہونے کے نظارے دکھاتا ہے۔ یہ وعدوں کے پورا ہونے کا نظارہ نہیں تو اور کیا ہے کہ

آج سے ایک سو بیس سال پہلے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر جس جھوٹے دعویدار اور دشمنِ اسلام کی ہلاکت کی پیش گوئی آپؑ نے فرمائی تھی

آج اس کے شہر میں جس کے بارے میں اس کا اعلان تھا کہ کوئی مسلمان یہاں داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ عیسائی نہیں ہو جاتا اللہ تعالیٰ نے جماعت کو مسجد بنانے کی توفیق دی۔ پس یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے کام۔ ایک ارب پتی اور دنیاوی جاہ و حشمت رکھنے والے کو اللہ تعالیٰ نے جھوٹا کر دیا، ختم کر دیا اور پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والے اپنے فرستادے کا دعویٰ جو اسلام کی نشأة ثانیہ کے ساتھ کیا گیا تھا۔ دنیا کے دو سو بیس ممالک میں گونجنے کے سامان پیدا کر دیے۔ لیکن کیا یہاں ہمارا کام ختم ہو جاتا ہے؟ کیا یہی کافی ہے کہ امریکہ کے ایک چھوٹے سے شہر میں ہم نے مسجد بنا لی اور جماعت کو ترقی مل گئی؟ نہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے
پوری دنیا کو میدانِ عمل بنایا ہے

ہم نے تو چھوٹے شہر، بڑے شہر اور ملکوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لانا ہے۔ ہم اگر اپنے وسائل دیکھیں تو یہ بڑا وسیع کام نظر آتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سب کے باوجود ہمارے سپرد یہ کام کیا ہوا ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے وعدہ ہے لیکن آپؑ نے فرمایا یہ سب کام جو کیے جا رہے ہیں یہ تو ہماری معمولی کوشش ہے۔ اس کے ساتھ اصل میں تو دعاؤں کی ضرورت ہے،دعاؤں سے یہ کام ہونے ہیں۔

اس اہم بات کو ہمیں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ
دعاؤں کی طرف توجہ دیں

اور مساجد کی تعمیر بھی اس لئے ہوتی ہے کہ اس میں عبادت کے لئے لوگ جمع ہوں۔ پانچ وقت اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں۔ جمعوں میں باقاعدگی اختیار کریں۔ دنیا کے لہو و لعب اور کاموں میں اپنی عبادتوں کو نہ بھول جائیں۔ اگر ہم اپنی عبادتوں کو بھول گئے تو یہ مسجد بنانا صرف ایک ظاہری ڈھانچہ کھڑا کرنا ہے۔ دنیا کو ہم بتا رہے ہوں گے کہ یہاں مسلمانوں کی ایک مسجد بن گئی ہے، لیکن ہمارے عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قابل نہیں ہوں گے کہ اس مسجد کی برکات سے فیض پانے والے ہوں یا ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مددگاروں میں سے ہوں۔ آپؑ نے تو فرمایا ہے کہ مسلسل دعاؤں سے میرے مددگار بنو، تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جلد سے جلد پورا ہوتا دیکھیں۔

آج ہم میں سے ہر ایک کا کام ہے کہ مقبول دعاؤں کے لئے
اپنی عبادتوں کو زندگیوں کا حصہ بنا لیں

اپنے بچوں کو بھی عبادت کی عادت ڈالیں۔ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کریں۔ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں اور اس سے مزید فتوحات کی بھیک مانگیں۔ کتنے خوش قسمت ہوں گے ہم میں سے وہ جن کو یہ سب کچھ حاصل ہو جائے اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش برستا دیکھیں۔اگر ہم اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں گے، دین کو دنیا پر مقدم کریں گےتو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے جو وعدے ہیں انہیں اپنی زندگیوں میں پورا ہوتے دیکھیں گے۔

ہمیں اپنی حالتوں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے

ان ترقی یافتہ ممالک میں آ کر دنیا میں نہ کھو جائیں۔ اب گزشتہ کچھ عرصہ سے نئے اسائلم سیکر بھی یہاں آئے ہیں پس دنیا میں نہ ڈوب جائیں۔ یہاں ہر تعمیر ہونے والی مسجد ایک نیا جوش اور ولولہ اور اللہ تعالیٰ سے تعلق ہمارے اندر پیدا کرنے والی ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے وعدے پورے فرمانے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ ہمارے عملوں کی وجہ سے ان کے پورا ہونے کا وقت دُور ہو جائے یا وہ کسی اَور کے ذریعہ سے، بعد میں آنے والے لوگوں کے ذریعہ سے پورے ہوں اور ہم محروم رہ جائیں…

آج ہم اس مسجد میں بیٹھے ہیں، اس کا افتتاح کر رہے ہیں،
اس کا نام بھی ’’فتحِ عظیم‘‘ مسجد رکھا ہے

اور یہ نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے الہام اور پیش گوئی کے حوالے سے رکھا گیا ہے۔ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر ڈوئی کی ہلاکت کی پیش گوئی فرمائی تھی اور آپؑ نے فرمایا تھا کہ یہ نشان جس میں فتح عظیم ہو گی عنقریب ظاہر ہو گا۔

(ماخوذ از حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ511 حاشیہ)

اور دنیا نے دیکھا کہ پندرہ بیس دن کے اندر ہی اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کر دیا اور بڑی ذلت سے ہلاک کر دیا۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس سے کیا سلوک کیا وہ ایک علیحدہ تفصیل ہے۔ بہرحال اس کی ہلاکت کے نشان کو اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر آپؑ نے فتح عظیم قرار دیا اور آج اس کا اگلا قدم ہے جو اس شہر میں ہم مسجد کا افتتاح کر رہے ہیں۔

آپؑ کے الہام کے ایک حصہ کو ہم نے تقریباً ایک سو پندرہ سال پہلے پورا ہوتے دیکھا اور اس کا اگلا قدم ہم آج پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں

ایک سو پندرہ بیس سال پہلے اس وقت کے اخباروں نے جو دنیاوی اخبار ہیں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیلنج کو اپنے اخباروں میں جگہ دی اور پھر اس کی ہلاکت کی بھی خبر دی۔ پس یہ خدا تعالیٰ کا نشان تھا جسے دنیا نے مانا۔ ایک اخبار کے کچھ حصہ کا میں یہاں ذکر کر دیتا ہوں، زیادہ تو نہیں ہو سکتا۔ 23؍جون 1907ء کے The Sunday Herald Boston نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعارف لکھا۔ پھر آپؑ کا دعویٰ اور چیلنج لکھا۔ پھر ڈوئی کے حوالے سے لکھا۔ اسی اخبار کے کچھ الفاظ میں پیش کر دیتا ہوں۔ وہ کہتا ہے، اس نے ہیڈنگ یہ جمایا۔ عظیم ہے مرزا غلام احمد جو مسیح ہے جنہوں نے ڈوئی کے عبرت ناک انجام کی خبر دی…

یہ ایک اخبار کا نمونہ ہے جو میں نے پیش کیا ہے

یقیناً یہ فتح تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی پر دلیل بھی تھی اور ہے لیکن جیساکہ میں نے کہا آپ علیہ السلام کا مشن تو بہت وسیع ہے۔ یہ تو ایک محاذ کی ایک جگہ کی فتح کا ذکر ہے۔ہماری حقیقی خوشی تو اس وقت ہو گی، جب ہم دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نیچے لائیں گے۔ اس کے لئےہمیں اب اس مسجد کے بننے کے ساتھ تبلیغ کے نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے۔ مسیح محمدی کے دلائل کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہو گا۔ پہلے سے بڑھ کر اپنی عملی اور روحانی حالت کو بہتر بنانا ہو گا۔ جیساکہ میں نے کہا اصل فتح عظیم تو فتح مکہ تھی۔ کیا فتح مکہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے یا بعد کے مسلمانوں نے تبلیغ کے کام کو روک دیا تھا؟ کیا اسلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کی بھرپور کوشش نہیں کی تھی؟ جنگوں سے علاقے فتح نہیں کیے تھے؟ ہاں جنگیں بھی ہوئیں لیکن اس لئے نہیں کہ دین پھیلے بلکہ دل جیتے تھے جس سے قربانی کرنے والے لوگ گروہ در گروہ اسلام میں شامل ہوتے چلے گئے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ حاصل ہونے والی فتح کومستقل تبلیغ اور دعاؤں سے دائمی کرنے کی ضرورت ہے…

اس خوبصورت مسجد کی طرف لوگوں کی توجہ تبھی پیدا ہو گی

تبھی ہم اسلام کا پیغام حقیقی رنگ میں آگے پہنچا سکیں گے، تبھی ہم مسیح موعودؑ کے مشن کو پورا کر سکیں گے جب ہم اپنی کوششوں کو اللہ تعالیٰ کی مدد سے حاصل کرنے کی کوشش کریں اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنی عبادتوں کے حق ادا کرنے والے نہ ہوں۔ پس ہر احمدی اس پر سوچے اور اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کرے کہ اس کی عبادت کے حق ادا کرنے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بن سکیں۔

آج اس مسجد کا افتتاح فتح عظیم تب بنے گاجب ہم اس حقیقت کو پہچان لیں کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے

ورنہ دنیا میں بےشمار مسجدیں ہیں جو خوبصورت ہیں۔ بہت اعلیٰ ہیں لیکن وہاں آنے والے اپنے مقصد پیدائش کو پورا کرنے والے نہیں۔ عبادت صرف اتنی نہیں کہ جلدی جلدی پانچ نمازیں یا چند نمازیں ٹھونگے مار کر پڑھ لیں بلکہ عبادت یہ ہے کہ جو نماز کا حق ہے وہ ادا کیا جائے۔ اسے سنوار کر پڑھا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو تین چار مرتبہ، بار بار نماز پڑھنے کا اس لئے ارشاد فرمایا کہ آپؐ کے نزدیک وہ نماز کا حق ادا نہیں کر رہا تھا اور جس طرح سنوار کر نماز پڑھنی چاہئے اس طرح نہیں پڑھ رہا تھا۔

(صحیح البخاری کتاب الاذان باب وجوب القراءۃ للامام … حدیث 757)

پس نمازوں کو بھی اس کا حق ادا کرتے ہوئے ادا کریں تو پھر اللہ تعالیٰ کا قرب بھی ہمیں ملتا ہے اور اسی طرح عبادتوں کی مقبولیت تب ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ کے بندوں کا بھی حق ادا کیا جا رہا ہو۔ جو لوگوں کے حق مارنے والے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کی نمازیں ان کے لئے ہلاکت کا سامان ہیں وہ ان کے منہ پر ماری جائیں گی۔

ہمارا مقصد مسجدوں کو آباد کرنا اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے آباد کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ادا کرنا ہے اور ہونا چاہئے

جس شخص کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چیلنج دیا تھا، وہ کیا چاہتا تھا؟ وہ دین کے نام پر دنیا میں اپنی حکومت چاہتا تھا۔ اس کے لئے اس نے مسیح علیہ السلام کا نام استعمال کیا۔ بڑے دعوے کیے کہ وہ مسیح محمدی کے ساتھ یہ کر دے گا وہ کر دے گا جیساکہ میں نے ایک اخبار کے حوالے سے بیان کیا ہے اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے دعا کا چیلنج دیا تو پھر اس کا انجام ظاہر ہو گیا۔ دنیا نے ہر طرح سے ڈوئی کی ذلت و رسوائی دیکھی۔ اتنا واضح نشان ظاہر ہوا کہ اخباروں نے بھی اعتراف کیا کیونکہ اس کے بغیر چارا نہیں تھا اور مرزا غلام احمد کو عظیم قرار دینے پر مجبور ہوگئے۔

کیا اس عظیم فتح کی خوشی میں ہم صرف ایک یادگار مسجد بنا دیں
اور خوش ہو جائیں

جیساکہ میں نے کہا ہے، ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے پھل کھائے اور کھا رہے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی انہی قدموں پر چلنے کی تلقین فرمائی ہے جو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنےکے راستے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چیلنج صرف ہلاک کرنے کے لئے نہیں دیا تھا بلکہ اسلام کی عظمت قائم کرنے کے لئے دیا تھا، دنیا کو اسلام کے جھنڈے تلے لانے کے لئے دیا تھا۔ اس لئے دیا تھا کہ اب مسیح محمدی کی حکومت دنیا میں قائم ہونی ہے، جس نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو بلند کرتے ہوئے خدائے واحد کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا ہے۔

آج یہ ہمارا کام ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مسیح موعودؑ کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں

کہ مسیح محمدی کے پیغام کو ملک کے کونے کونے میں پھیلا دیں یہ ہمارا کام ہے۔ خدا تعالیٰ کی وحدانیت ان پر ثابت کریں اور یہ کام اس وقت ہو گا جب ہم اپنا بھی خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں گے۔ تقویٰ میں بڑھیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے۔ خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں …جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رو بہ دنیا تھے ان تمام آفات سے نجات پاویں۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ10 ایڈیشن1984ء)

پس اپنی اندرونی صفائی بھی بہت ضروری ہے اور جب یہ اندرونی صفائی ہو گی تو تقویٰ پیدا ہو گا تو پھر دنیا دیکھے گی کہ نشانات پر نشانات ظاہر ہوتے چلے جائیں گے اور یہی و ہ مقام ہے جہاں فتوحات کے مزید راستے کھلتے چلے جائیں گے۔ ان شاء اللّٰہ اور یہی وہ حالت ہے کہ فتحِ عظیم کی حقیقت کو بھی ہم دیکھیں گے۔

اے مسیح محمدیؐ کے غلامو! ہر فتح کا نشان ہمارے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے والا ہونا چاہئے

پس یہ عہد کریں کہ آج کا دن ہمارے اندر ایک روحانی انقلاب لانے کا دن ہو گا۔ہمارے بچوں کے لئے، ہماری نسلوں کے لئے بھی روحانی انقلاب لانے کا دن ہو گا اور ہونا چاہئے ورنہ ڈوئی کی ہلاکت سے یا اس شہر کے لوگوں کی ڈوئی کے نام سے عدم واقفیت سے ہمیں کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے کہ ہم نے ان کو متعارف کرا دیا یہ جانتے نہیں تھے۔ فائدہ تو تبھی ہے جب اس فتح عظیم کی پیش گوئی کے پورا ہونے سے ہمارے اندر بھی ایک انقلاب پیدا ہو، ایک انقلاب عظیم پیدا ہو اور ہمارے اہل وطن بھی اور دنیا بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا جوا اپنی گردن پر ڈال لے۔ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی قائل ہو جائے اور اس کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو یہ مقام حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(بحوالہ الفضل آن لائن مؤرخہ 24؍اکتوبر صفحہ4-7)

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

محبت ہو تو ایسی کہ ہر ادا دل کو لبھائے (قسط 1)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 نومبر 2022