• 6 مئی, 2024

میرے والد محترم رانا عبدالحکیم خاں کاٹھگڑھی

میرے والد محترم دسمبر 1930ء میں کاٹھگڑھ ضلع ہوشیار پور انڈیا میں حضرت حاجی چوہدری عبدالحمید خاں صاحب کاٹھگڑھی رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر محترمہ نیا ز بیگم صاحبہ کے بطن سےپیدا ہوئے۔ آپ کے 5 بھائی اور 6 بہنیں تھیں۔ بھائیوں میں سے آپ چوتھے نمبر پر تھے۔ آپ نے تعلیم کاٹھگڑھ سے ہی حاصل کی ۔ آپ میٹرک میں تھے کہ پارٹیشن پاک وہند کا وقت آگیا جس کی وجہ سے آپ میٹرک کا امتحان نہ دے سکے۔ الحمدللہ آپ شروع سے ہونہار تھے پارٹیشن کےمشکل حالات میں آپ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان پہنچے۔ راستے میں آپ کی دادی جان کی وفات ہوگئی ۔ جن کی تدفین راہوں انڈیا میں ہوئی۔ لاہور پہنچنے کے بعد آپ کے دادا جان محترم چوہدری غلام نبی خاں صاحب کی وفات ہوگئی۔ ان کی تدفین لاہور میں ہوئی۔

محترم دادا جان کے ہمراہ ککی نو ضلع جھنگ میں آباد ہوئے۔ کچھ عرصہ کے بعد دادا جان اور دادا جان کے چچا زاد اور خالہ زاد بھائی چوہدری عبدالرحیم خاں صاحب رئیس آف کاٹھگڑھ کی محنت اور کوشش سے چک نمبر 2 ٹی ڈی اے ضلع خوشاب میں ہماری ساری فیملی کو زمین الاٹ ہوگئی۔ تقریباً 120 ایکٹر اراضی دادا جان اور ان کے بچوں اور نواسوں کو الاٹ ہوئی۔ ہرفرد کو 15 ایکٹر کی ایک مستطیل الاٹ ہوئی۔ جس کی کچھ رقم گورنمنٹ کو ادا کرنی تھی۔ زمین کی آباد کاری میں سارا خاندان مصروف ہوگیا۔

ہجرت کے بعد گھر، ذریعہ معاش، اور دوسری کوئی بھی بنیادی سہولیات میسر نہ تھیں۔جبکہ کاٹھگڑھ ہوشیار پور انڈیا میں آپ سب سہولیات سے آراستہ گھراور جائیدادیں ، کاروبار اورسب کچھ چھوڑ کر پاکستان آئے تھے۔ ان حالات میں پورے خاندان کو از سرنو زندگی کا آغاز کرناپڑا ۔ اس بے سروسامانی کے حالات میں بڑی مشکل سے گزر بسر ہو رہی تھی۔محترم دادا جان نے والد صاحب کو جھنگ پٹوار سکول میں داخل کروادیا۔ محترم والد صاحب نے بڑی محنت سے پٹوار کورس مکمل کیا اور آپ کی تقرری بطور پٹوار ی مال ضلع جھنگ میں ہوگئی۔ محترم والد صاحب بیان کرتے تھے کہ میری پہلی تنخواہ صرف 36 روپےتھی۔ میں اپنے گزارا کی رقم رکھ کر ساری تنخواہ حضرت دادا جان اور دادی جان کو دے آتا تھا۔ اس رقم سے دادا جان زمین کی اقساط ادا کرتے تھے۔ وقت گزرتا گیا اور اللہ تعالی نے اپنے فضل سےحالات بہتر کردئیے۔ 30جون 1959ء کو محترمہ دادی جان نیاز بیگم صاحبہ کی وفات چک نمبر 2ٹی ڈی اے ضلع خوشاب میں ہوئی تھی۔ آپ اللہ تعالی کے فضل سے موصیہ تھیں اور آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔ آپ ایک نہایت سلیقہ شعار، مہمان نواز، دعا گو اور صائب الرئے، خدا ترس اور شفیق خاتون تھیں۔ محترم والد صاحب نے ہمیشہ اپنی والدہ کو دعا دی اور یہ کہا میری ماں نے مجھے یہ سکھایا۔ اللہ ان پر رحم کرے۔ آمین۔

والد صاحب کی شادی محترمہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ بنت چوہدری عبداللہ خاں صاحب کاٹھگڑھی کے ساتھ مورخہ 24.07.1957 کو چک نمبر 2 ٹی ڈی اے ضلع خوشاب میں ہوئی۔اللہ تعالی نے آپ کو میری بڑی والدہ محترمہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے بطن سے ایک بیٹی اور 2 بیٹوں سے نوازا۔ والد صاحب کچھ سالوں کے بعد کسوآنہ ضلع جھنگ میں اپنی فیملی کو ساتھ لے گئے۔ وہاں پر میری بڑی والدہ محترمہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی مختصر علالت کے بعد مؤرخہ 21.09.1970 کو وفات ہوگئی۔ آپ نے چھوٹی عمر میں نظام وصیت کے بابرکت نظام میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔آپ بہت ساری خوبیوں کی مالک تھیں۔ محترم والد صاحب ہمیشہ آپ کی سیرت کے نمایاں پہلو دعا گو،صابرۃ، سلیقہ شعار، مہمان نواز اور عبادت گزار ہونے کا ذکر کیا کرتے تھے۔

بچے ابھی چھوٹے تھے اور والد صاحب کی عمر بھی 40 سال تھی۔ حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کی خدمت میں صورت حال لکھ کر مشورہ کی درخواست کی تو حضور انور رحمہ اللہ نے از راہ شفقت فرمایا کہ بہترہے کہ بچوں کی خالہ سے شادی ہوجائے۔ اس ارشاد کی تعمیل میں محترم نانا جان نے اپنی دوسری بیٹی محترمہ آصفہ فرحت صاحبہ کا رشتہ کر دیا اور مؤرخہ 14.11.1972 کو دوسری شادی ہوئی۔ اللہ تعالی نے آپ کو ان کے بطن سے ایک بیٹی اور 3 بیٹوں سے نوازا۔ حضور انور رحمہ اللہ کے ارشاد کی تعمیل کی برکت سے انتہائی پیار ومحبت سے فیملی پروان چڑھی۔ جوانی کی عمر تک پہنچنے میں ہمیں یہ علم نہ تھا کہ والد صاحب کی اولاد 2 بیویوں سے ہے۔ اس میں میری والدہ محترمہ نے بھی اپنا بہترین کردار نبھایا۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ

اللہ تعالیٰ نے آپ کو کثیر اولاد سے نوازا جس میں دو بیٹیاں اور پانچ بیٹے شامل ہیں۔ بڑی بیٹی محترمہ امتہ الشافی صاحبہ زوجہ رانا نعیم احمد صاحب آف چک نمبر 88 ج ب فیصل آباد حال مقیم ربوہ ، دوسری بیٹی محترمہ شائستہ انجم صاحبہ اہلیہ محمد بوٹا صاحب آف ڈوگری گھمناں سیالکوٹ حال مقیم ربوہ ہیں۔ بیٹوں میں بڑے بیٹے محترم رانا ممتاز احمد خاں صاحب سابق صدرجماعت بون جرمنی حال مقیم جرمنی ، محترم رانا سعیدناصر خاں صاحب حال مقیم یوکے ، خاکسار رانا مبین کاشف خاں ایڈووکیٹ کارکن دارالقضاء صدر انجمن احمدیہ ربوہ ،ممبر عاملہ مجلس خدام الاحمدیہ مقامی ربوہ، عزیزم رانا نوید احمد خاں صاحب (پی ایچ ڈی ۔ریسرچ اسسٹنٹ صدر جماعت کوٹ بُس جرمنی حال مقیم جرمنی)، عزیزم رانا منیب احمد خاں صاحب ماسٹر ان پروجیکٹ مینجمنٹ لندن حال مقیم لندن سابق زعیم خدام الاحمدیہ دارالعلوم شرقی نور۔ ربوہ ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سےآپکی اہلیہ محترمہ اور آپ کے سب بیٹے بیٹیوں کو نظام وصیت میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ الحمدللہ علیٰ ذالک

والد صاحب محترم کی سروس ضلع جھنگ میں تھی۔ اس لیے والد صاحب بڑی والدہ کی وفات کے بعد اپنے غیر ازجماعت کزن رانا عبدالغفور خاں صاحب کے پاس گڑھ موڑ ضلع جھنگ میں شفٹ ہوگئے۔ چچا جان رانا عبدالغفور خاں صاحب کی والدہ محترمہ نواب بی بی صاحبہ حیات تھیں انہوں نے والد صاحب کو اپنے بیٹوں کی طرح رکھا۔ گھر کے دو بیڈ روم تھے ۔ ایک چچا جان کے پاس اور دوسرا والد صاحب کے پاس تھا۔ وہاں تقریبا 11 ، 12 سال کا عرصہ گزارا ۔ وہاں نماز سنٹر بنایا، جماعتی مہمانان اور مربیان بھی جاتے تھے۔ 1974ء کے نامساعد حالات میں وہیں مقیم تھے چچا جان مرحوم نے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ان حالات میں استقامت دکھائی۔ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے کسی کو ان کی طرف آنکھ اٹھانےکی جسارت نہ ہوئی۔

محترم والد صاحب پیدائشی احمدی ، موصی ، باعمل ، دلیر ، باہمت نڈر انسان تھے۔ آپ نافع الناس ، خدمت خلق اور مہمان نوازی کے جذبہ سے سرشار تھے ۔ آپ صائب الرائے اور صاحب فراست اور زیرک انسان تھے اللہ تعالی نے آپ کو بارعب شخصیت کے ساتھ گرج دار اور بااثر آواز سے بھی نوازا تھا۔ آپ خوش اخلاق، خوش لباس ، دراز قد اور وجیہہ انسان تھے۔آپ ایک پر جوش اور باثمر داعی الی اللہ تھے۔

کیونکہ آپ کی ساری ملازمت ضلع جھنگ میں ہی رہی اور عارضی رہائش چچا جان عبدالغفور خاں صاحب کے پاس تھی۔ اس لیے 1981ء میں والد صاحب نے گڑھ موڑ ضلع جھنگ میں دو کنال زمین خرید کر اپنا مکان تعمیر کیا۔ اور وہاں شفٹ ہوگئے۔ گڑھ موڑ ضلع جھنگ میں ہمارا احمدیوں کا اکیلا مستقل گھر تھا۔ اسکے علاوہ کوئی ملازمت پیشہ اور کچھ دوست تھوڑے عرصہ کے لیے آئے۔ اس طرح باقاعدہ جماعت کا قیام ہوا ۔ نماز سنٹربھی قائم تھا ۔ والد صاحب نے ایک کنال جگہ میں ڈیرہ بنایا ہوا تھا۔ جہاں پر مہمانوں کے ٹھہرنے کے لیے جگہ اور دیگر انتظام موجود تھا۔ والد صاحب پٹواری مال تھے نیز آپ اپنے کام میں مہارت اور عبور کی وجہ سے علاقہ میں نمایاں تھے اور آپ بے لوث خدمت کے جذبہ سے سرشار تھے اس وجہ سے بے شمارغیر از جماعت لوگ تقسیم جائیداد، لین دین اور وراثت کے مسائل کے مشورہ کے لیے آپ کے پاس بڑی تعداد میں آتے تھے۔ ان کی موسم کے مطابق مہمان نوازی بھی کی جاتی تھی۔ اسی طرح جماعتی نمائندگان بھی کثیر تعداد میں تشریف لاتے تھے ۔ ان سب کی بھرپور مہمان نوازی کا موقع بھی ملتا رہا ۔

میں نے محترم والد صاحب کو حضرت دادا جان کی یہ بات بار بار دہراتے ہوئے سنا کہ یہاں جگہ لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جھنڈا لگاؤ۔ ان کے ارشاد کی تعمیل میں پھر یہ جگہ میں نےخریدی تھی۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مہمان خانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مہمان نوازی میں والد صاحب نے مہمان خانہ کی مثال قائم کی ہوئی تھی۔ مہمانوں کےلیے 20 چار پائیاں تیار کر کے رکھی ہوئی تھی اور 20 بستر موسم گرما اور 20 بستر موسم سرما کے تیار کرکے مہمانوں کے لیے رکھے ہوئے تھے۔50 من سے زائد گندم ہر سال گھر میں سٹور کی جاتی تھی۔ اس کے پکانے کے لیے لکڑیوں کا ایندھن اکٹھا کر کے رکھا جاتا تھا۔ روٹی پکانے کے لیے بڑے توے کا انتظام تھا جس پر ایک وقت میں 4 یا 5 روٹیاں پک سکتی تھیں۔ اس پرروزانہ 3 وقت روٹیاں پکائی جاتی تھیں۔

حضرت داد جان چوہدری عبدالحمید خاں صاحب کاٹھگڑھی رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام محترم والد صاحب کے پاس گڑھ موڑتشریف لے آئے۔ محترم داد جان نے وہاں آکر بہت خوشنودی کا اظہار کیا اور حضرت داد جان محترم والد صاحب سے بہت خوش تھے کہ انہوں نے میری ہرکام میں اطاعت کی اور اپنی آواز میں یہ پیغام ریکارڈ کروایا نیز محترم والدصاحب کو بہت ساری دعاؤں سے نوازا۔ آپؓ کی وفات 18 اپریل 1985ء کو گڑھ موڑ ضلع جھنگ میں ہوئی۔ آپ کا جنازہ گڑھ موڑ ضلع جھنگ میں پڑھایا گیا تو غیر از جماعت لوگوں کی کثیر تعداد نے اس میں شرکت کی ۔ اس کے بعد آپ کا جسد خاکی ربوہ لایا گیا اور مسجد مبارک میں جنازہ ہونے کے بعد آپ کی تدفین قطعہ صحابہ بہشتی مقبرہ دارالفضل ربوہ میں عمل میں آئی۔

محترم والد صاحب نے ہمیشہ اپنے عمل سےہمیں احمدیت کی تعلیم دی۔ بار ہا میں نے آپ سے غیر ازجماعت دوستوں کویہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں احمدیت کا نشان ہوں۔ میں آپ کے درمیان میں اتنے عرصہ سے رہ رہا ہوں۔ بتاؤ میں نے کبھی کسی کا کوئی حق مارا ہو، کسی کو دکھ دیا ہو یا کسی سے زیادتی کی ہو؟ یا میرے بچوں نے آپ سےکبھی زیادتی کی ہو؟ یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور احمدیت کی سچائی کا ثبوت ہے۔ ورنہ میری راجپوت برادری اور بھی یہاں موجود ہے وہ یہ سب کچھ بڑے فخر سے کرلیتے ہیں۔

آپ نے احمدیت کی تعلیم کو عملی شکل میں رائج کرنے کے لیے جہاد کیا۔ ایک واقعہ پیش کرتا ہوں ۔ میرے بڑے بھائی کی شادی 1989ء میں ہوئی۔ شادی کے وقت چچا جان مکرم عبدالغفور خاں صاحب اور دادی جان مکرمہ نواب بی بی صاحبہ جن کا اوپر ذکر کیا ہے کہ وہ غیر ازجماعت تھے اور انہوں نے بےانتہا قربانیاں دی تھیں، انہوں نے اصرار کیا کہ خوشی کا موقع ہے اس پر ہمیں ڈھول او ر بینڈ باجے بجانے ہیں بلکہ بینڈ باجوں والوں کو بلوا لیا۔ یہ ایک انتہائی مشکل وقت تھا کیونکہ دادی جان کی بات کو نہ ماننا ناممکن تھا۔ ہم سب بھی کافی پریشان تھے کہ اب کیا ہوگا۔ والد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے کمال حوصلہ اور فراست دی تھی۔ آپ نے بینڈ باجے والوں کو جا کر کہا کہ آپ نے باجے بجا کر پیسے لینے ہیں اگر میں آپ کو ویسے ہی رقم دے دوں؟ پس ان کو رقم دے کر واپس بھجوا دیا۔ اس پر دادای جان ناراض ہوگئیں کہ آپ نے ہماری اتنی سی بات نہیں مانی۔اس پر آپ نے نہایت ادب سے عرض کی کہ یہ میرے ایمان کی بات ہے، میں یہ نہیں کرسکتا۔ تھوڑی ناراضگی کے بعد ان کو منا لیا۔

چونکہ اپنا ملکیتی زرعی رقبہ خوشاب میں تھا اور گڑھ موڑ میں اپنی زرعی زمین نہ تھی تو ایک دوست سے ٹھیکہ پر 5 ایکڑ اراضی لے کر مزارع سے کاشت کرواتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی میں اس قدر برکت رکھ دی تھی کہ سارے معاملات بااحسن و خوبی چلتے رہے ۔ اس عرصہ میں جوبھی مہمان آیا اس کی خوب خاطر مدارات کیں۔ بلکہ جس دن مہمان نہ آتا تھا تو فکر کرتے تھے اور مکرم دادا جان کی یہ بات یاد کرتے تھے کہ جس دن مہمان نہ آئے اس دن یہ سوچو کہ کیا گناہ ہوا ہےکیونکہ مہمان تو رحمت ہوتا ہے۔

مہمان کو کھانا بھجوا نے سے پہلے آپ خود کھانا نہیں کھاتے تھے۔ ہم میں سے ایک بھائی کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ جب تک مہمان کھانا ختم نہیں کرلیتا ہم نے اس کے پاس بیٹھ کر اس سے دریافت کرنا ہے کہ کچھ مزید چاہیے؟ نہ صرف دریافت کرنا ہے بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ مہمان کے پاس روٹی ختم نہیں ہونی چاہیےکیونکہ والد صاحب کا خیا ل تھا کہ بعض مہمان شرم محسوس کرتے ہیں کہ بتائیں کہ کچھ اور چاہیے یا نہیں۔

میری والدہ صاحبہ اور ہمشیرگان کو اکثر یہ نصیحت کرتے کہ سالن بناتے وقت اس میں مزید پانی شامل کرکے شوربہ بنا لیں اور ضرورت مند ہمسائیوں کو ضرور دیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے گھر سے روزانہ تین، چار گھر سالن لے کر جاتے تھے۔ آپ ہر سال میری والدہ کو تقریباً 1 من کچے آم لا کردیتے اور اس سے 4 مرتبان اچار کے تیار کرکے گھر رکھے جاتے تھے۔ کہتے تھے کہ اگر سالن نہیں تو ان کو اچار لازمی دے دیں۔ مہمان کو بھی ضرور پیش کریںکیونکہ بعض سالن پسند نہیں کرتے۔

ایک دفعہ رات کے 1 بجے کے قریب محترم جہانگیر محمد جوئیہ صاحب مرحوم سابق امیر ضلع خوشاب ہمارے گھر تشریف لائے۔ ان سے تعارف کے بعد ان کو اندر ڈیرے پر لایا گیا۔ والد صاحب نے حسب معمول بھائی کو کھانا لانے کے لیے کہا تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے آگے کام سے جانا تھا تو کسی وجہ سے تاخیر ہوگئی اور ہم نے ہوٹل پر کھانا کھا لیاہے اور ان سے ہی دریافت کیا کہ یہاں کوئی احمدی رہتا ہے تو انہوں نے ہمیں آپ کا بتایا اس لئے تو ہم قیام کے لیے یہاں آگئے۔ والد صاحب نے ان کو کہا کہ جب آپ نے قیام کے لیے آنا تھا تو آپ کو کھانا بھی یہاں آکر کھانا چاہیے تھا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ ہم آئندہ خیال رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سےآپ معروف احمدی تھے اس لئےآپ کو سب جانتے تھے ۔ غیر ازجماعت دوست مہمانوں کو گھر پہنچا جایا کرتے تھے۔

جماعتی میٹنگ اور دیگر کئی مواقع پر 25 سے 30 افراد کے کھانے کا بھی انتظام کرنامعمول تھا۔مربیان کرام کی ضلعی میٹنگ جس میں مکرم ناظر صاحب اصلاح وارشاد مقامی تشریف لائے، وہ بھی گڑھ موڑ پر منعقد ہوئی تواس کے انتظامات بھی آپ نےکئے۔ ایک موقع پر محترم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب کی مہمان نوازی کا بھی موقع ملا۔ اس کے علاوہ بہت سارے بزرگان سلسلہ جن میں محترم مولانا مبشر احمد کاہلوں صاحب، محترم حافظ مظفر احمد صاحب، محترم محمود احمد بنگالی صاحب، محترم نصراللہ خان ناصر صاحب ،محترم اشرف ضیاء صاحب ، محترم مسعود سلیمان صاحب ، محترم حافظ خالد افتخار صاحب ، محترم ظفر احمد ناصر صاحب اور دوسرے بہت سارے واقفین زندگی شامل ہیں،کی خدمت کا موقع ملا۔

آپ پیغام حق پہنچانے کا کوئی موقع نہ چھوڑتے بلکہ خودمواقع پیدا کرتے۔ جو آدمی مشورہ لینے کے لیے آتا اس کی مہمان نوازی کے بعد اس کو پیغام حق پہنچاتے ۔ ہم بچے تھے توہمیں کہتے نماز سناؤ، کلمہ سناؤ، درود شریف سناؤ جب ہم سنا دیتے تو کہتے آپ لوگ ان کو غیر مسلم کہتے ہو۔ آپ لوگ تو سرکاری مسلمان ہو اصل مسلمان تو ہم ہیں ۔ اختلافی مسائل اور عقائد احمدیت پر کمال دسترس تھی۔ ہم نے آپ کو نہایت مؤثر انداز میںبیان کرتے ہوئے سنا ہے ۔ آپ کو خدا تعالیٰ نے بااثر آواز سے نوازا تھا اوراس وجہ سے مجمع کی توجہ اپنی طرف آسانی سے مبذول کروا لیتے تھے۔ آپ جو بھی حق بات ہوتی آپ بغیر کسی خوف کے کہہ دیتے تھے۔ خداتعالیٰ نے بحیثیت احمدی علاقہ میں ان کے کردار کی وجہ سے بہت عزت عطا کی تھی۔ ہم نے لوگوں کو علاقہ کی روایت کے مطابق جھک کر ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر سلام کرتے دیکھا اور یہ بھی اکثر کہتے ہوئے سُنا کہ ’’توں ساڈا بابا ایں‘‘ یعنی آپ ہمارے باپ کی طرح ہیں۔

اگر آپ کی نماز کا وقت ہوجاتا تو مشورہ لینے والے مہمان کو کہتے کہ میری نماز کا وقت ہوگیا ہے ہم نماز پڑھنے لگے ہیں۔ آپ بھی نماز پڑھ لیں۔ آپ کا جو بھی مسلک یا عقیدہ ہے آپ وضو کرو اور اپنی نماز پڑھ لو۔ میں نے اکثر یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہے کہ میرے گھر میں بے نمازی کوئی نہیں رہتا ۔میں، میری بیوی ، بہوئیں، بیٹیاں اور بیٹے سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز پڑھ کرسوتے ہیں ۔ اس لیے آپ بھی نماز پڑھ لیں۔ آپ کی پابندیٔ نماز کا یہ عالم تھا کہ میں نے بارہا سنا ہے کہ آپ کہا کرتے تھے کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالی ہے نماز ترک نہیں کی اور یہ حدیث بھی پڑھا کرتے تھے کہ مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ كَفَرَ جِهَارًا۔ ہم بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ آپ نے بہت توجہ سے نماز کو قائم کیا۔ آخری بیماری میں آپ مسجد نہیں جاسکتے تھے تو گھر پر ہی نماز ادا کرتے تھے ۔ آپ کے دوست محترم عبدالعزیز مجاہد صاحب آپ کے پاس رہتے تھے۔ انہوں نے نماز ادا کر کے آنا اور بتانا کہ میں مسجد سے نماز پڑھ کر آیا ہوں تو والد صاحب گھر پر ہی نماز پڑھ لیتے۔ آپ کی وفات جمعہ کے روز مغرب سے چند منٹ قبل ہوئی۔ اس روز جمعہ کی نماز کے ساتھ نماز عصر جمع ہوگئی تھی۔ مکرم مجاہد صاحب نے آکر بتایا کہ نمازیں جمع ہوگئیں ہیں تو آپ نے میرے سامنے لیٹے ہوئے پہلے نماز ظہر ادا کی اور پھر نماز عصر ادا کی۔ گویا اپنی زندگی کی آخری نماز بھی ادا کرکے گئے۔

سال 1984ء میں جب حالات خراب ہوئے تو ایس ایچ او صاحب دو سپاہیوں کے ساتھ ہمارےگھر آئے اور کہا کہ مجھے آپ کی حفاظت کے لیے ہدایت ملی ہے۔ حالات ا چھے نہیں ہیں۔ آپ نے ان کو سمجھایا کہ میں گورنمنٹ سروس کرتا ہوں، میرے بیوی بچے ہیں، میرے نوکر ہیں اور میری گائے بھینس ہیں، آپ کس کس کی حفاظت کریں گے؟ آپ ان لوگوں کو سمجھائیں۔ ہم کام چھوڑ کر تو نہیں بیٹھ سکتے ۔ہماری حفاظت ہمارا خدا کرے گا۔ والد صاحب اس بات سے بھی فکر مندتھے کہ یہ ہماری آمد ورفت پر نظر رکھیں گے۔ ان کا یہاں ہونا اچھا نہیں ہے لیکن ایس ایچ اوصاحب بضد تھے اور وہ ان دو سپاہیوں کو چھوڑ گے۔ خیر وہ رات کو سو گئے اور صبح فجر کے وقت والدصاحب نے اپنے دو بیٹوں کو ساتھ لیا اور ان سپاہیوں کو اٹھایا کہ فجر کا وقت ہوگیا ہے۔ یہ جائےنماز اور لوٹا لو اور اپنی نماز پڑھ لو۔ سپاہیوں کے لیے یہ حیران کن تھا۔ انہوں نے کچھ لیت و لعل کی تو آپ نے کہا کہ اگر یہاں رہنا ہے تو آپ کو نماز پڑھنی پڑے گی۔ وہ دونوں کچھ دیر بعد وہاں سے چلے گئے۔

میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ مجھے میرے سکول ٹیچر نے کہا کہ آپ کے لیے وظیفہ آیا ہے۔ یہ مینارٹیز کے لیے سکالر شپ تھی۔ میں بچہ تھا ،میں نے آ کر والد صاحب کو بتایا کہ وظیفہ ملنا ہے اوروہ پوچھ رہے ہیں کہ آپ نے لینا ہے؟ والد صاحب نے کہا کہ میں آپ کے سکول جاؤں گا ۔ والد صاحب بہت خوش لباس تھے۔ آپ ہمیشہ سر پر پگڑی، شیروانی اور کھسہ پہنا کرتے تھےجو کہ آپ کی ایک پہچان تھا۔ آپ نے اپنا لباس زیب تن کیا اور میرےسکول چلے گئے۔ جا کر ہیڈ ماسٹر صاحب کو ملے اور باقی سکول ٹیچر بھی وہاں موجود تھے۔ آپ نے ان کو نہایت اچھے طریق سے احمدیت کا پیغام پہنچایا اور ان کو بتایا کہ میں یہاں لمبے عرصہ سےرہ رہا ہوں۔ آپ نئے ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نادار لوگوں کی مدد کرتا ہوں۔ اگر کسی غریب بچے کی فیس وغیرہ کا مسئلہ ہوتو مجھے بتائیں ۔ جماعت احمدیہ کے عقائد انہیں بتائے اور کہا کہ ہم نبی کریم ﷺکی پیروی کرتے ہیں اور اسطرح یہ موقع بھی پیغام حق پہنچانے کا ضائع نہ کیا۔

ایک دفعہ والد صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی۔ آپ ایک نئے ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے۔ میں والد صاحب کے ساتھ تھا۔ ڈاکٹر صاحب کچھ متعصب تھے۔ آپ نے جا کر حسب معمول السلام علیکم کہا تو ڈاکٹر صاحب نے آگے سے کہا کہ آپ آئین پاکستان کے تحت اَلسلام علیکم نہیں کہہ سکتے ہیں۔ اس پر آپ نے فوراً کہا کہ ڈاکٹر صاحب! میں نے تو آئین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت آپ کو السلام علیکم کہا ہے۔ آپ آئین پاکستان کو مانتے ہیں جبکہ میں آئین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہوں۔ اس پر ڈاکٹر صاحب خاموش ہوگئے۔

آپ باعمل اورصاف گو انسان تھے۔ ۔۔۔۔۔۔کاغیر ازجماعت بھی اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ ایک دفعہ ایک بہت بڑے جوکہ زمیندار قریشی فیملی کاتھا، جائیداد کا تنازعہ پیدا ہوگیا۔یہ اہل تشیع تھے ۔ ایک فریق نے والد صاحب کو اپنا ثالث بنانے کا عندیہ دیا اور دوسرے فریق نے سید مہدی حسین شاہ صاحب کو ثالث بنانا چاہا۔ سید مہدی حسین شاہ صاحب اہل تشیع میں ایک بلند مقام رکھتے تھےاورمسجد کے امام اور پیر تھے۔ سید مہدی حسین شاہ صاحب ہمارے گھر والد صاحب کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ یہ معاملہ اس طرح ہے ۔ میں اپنی طرف سے بھی آپ کو ثالث کرتا ہوں کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ آپ صرف انصاف پر مبنی ہی فیصلہ کریں گے۔ چنانچہ والد صاحب کو واحد ثالث مقرر کیا گیا ۔ والد صاحب نے 6 ماہ کیس کی سماعت کی۔ ہر پیشی پر تقریباً پچاس سے ساٹھ مہمانان ہوتےجن کی مہمان نوازی بھی کی جاتی اور انکو پیغام حق بھی پہنچایا جاتا۔ عدالت نے بھی اس فیصلہ کو برقرار رکھا۔

آپ چندہ کی ادائیگی میں نہایت باقاعدہ تھے۔ بڑی فکر کے ساتھ چندہ وصیت کی ادائیگی کرتے۔ اپنی زندگی میں ہی آپ نے اپنی جائیداد کی تشخیص کرواکر حصہ جائیداد اداکردیا تھا ۔ اپنی اولاد کو بھی اس کی تلقین کرتے اور کوشش کرتے تھےکہ جب بھی کوئی آمد آتی توسب سےپہلے اس میں سے چندہ کی رقم الگ کرتے۔ پنشن کی رقم لے کرآتے تو سب سے پہلے چندہ وصیت کی ادائیگی کرتے۔ بیماری کے ایام میں جب مسجد نہ جاسکتے تو پنشن آنے پر رقم بھجوا کر رسید کٹواتے ۔ اس کی تلقین لوگوں کوبھی کرتے ۔ جب کاشتکاری کرواتے تو بعض دفعہ لوگ کہتے کہ رانا صاحب آپ کی فصل کی پیداوار زیادہ کیوںہوتی ہے تو آپ کہتے کہ میں اس میں سے سولہواں حصہ خدا کی راہ میں دیتا ہوں اس لیے اس کی پیداوار بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ہمیں بھی بتاتے کہ رزق میں برکت کا یہی ذریعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرو۔

حقوق العباد کا بہت زیادہ خیال رکھاکرتے۔ بلکہ یہ کہتے تھے کہ بندوں کے حقوق زیادہ توجہ سے ادا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ تو معاف کردیتا ہے لیکن بندوں کے حقوق کی حفاظت ضروری ہے۔ ذاتی طور پر اور اپنے اثرورسوخ کو استعمال کر کے بھی آپ نے ہمیشہ ضرورت مندوں اور کمزورں کی مدد کی۔ کسی نے بھی مدد چاہی تو اس کو اس کی توقع سے بڑھ کر دیا۔ پھر اس سے مسلسل رابطہ رکھ کر اس کی مشکل کے بارے میں بھی دریافت کرتے۔ ہر ہمسائےکی خوشی اور غمی میں سب سے پہلے پہنچے اور مدد کرتے۔ اگر کسی کی وفات ہوجاتی تو سب سے پہلے کھانا ان کے گھر والد صاحب نے پہنچایا۔ اسی طرح غریب بچیوں کی شادی میں بہت مدد بھی کی۔ اگر کسی نے زمین وغیرہ کے معاملات میں مشورہ چاہا تو اس کی ساری بات سن کر اس کو مشورہ دیا۔ اگر کسی کے پاس بھجوانا مقصود ہوتا تو اس کو چھٹی لکھ کردیتے کہ یہ غریب آدمی ہے، اس کی مدد کردیں۔

ایک دفعہ ایک غریب شخص جو مٹی کے برتن بنانے کا کام کرتا تھا، اس نے کچھ رقم جمع کرکے ایک دکان خرید نا چاہی۔ جس شخص سے سودا ہواوہ شخص کافی اثرو رسوخ والا تھا اور والد صاحب کا دوست بھی تھا۔ وہ لالچ کی وجہ سے اس غریب آدمی سے بھی رقم لے چکا تھااور دکان کسی اور کو فروخت کرنا چاہتا تھا۔ وہ والد صاحب کے پاس آیا کہ میری مدد کریں۔ آپ نے فوری طور پر اس کو خط لکھ کردیا کہ میرے جاننے والے وکیل صاحب کے پاس جاؤاور فوری سٹے آرڈر لے آؤ۔ میں کچھ کرتا ہوں۔ جب وہ سٹے آرڈر لے آیا تو والد صاحب نے دکان مالک کو بھی سمجھایا کہ وہ غریب اور کمزور شخص ہے اور اصل حقیقت کا تمہیں بھی علم ہے۔ اس لیے کسی کا حق نہ مارو۔آپ نے غریب آدمی کو پہلے قانونی طورپر محفوظ کیا اور پھر حکمت کے ساتھ مالک کو سمجھایا۔ اس طرح معاملہ سلجھ گیا اور دُکان اس کو مل گئی۔ وہ بہت دعائیں دیتا رہا۔ جب والد صاحب بیمار ہوئے اور اس کو علم ہوا تو حال دریافت کرنےآیاکرتاتھا۔اسی طرح بہت سے غیر از جماعت دوستوں کے خیریت دریافت کرنے کے لیے فون آنے لگے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو کیسے علم ہوا تو اس پر انہوں نے بتایا کہ آپ کی طبیعت کے بارے میں ہم نےاس سےسنا تھا کہ آپ علیل ہیں۔

جب والد صاحب نے 2006ء میں اپنی بیماری کی وجہ سے ربوہ ہجرت کی تو ہم نے لوگوں کو زارو قطار روتے دیکھا۔ بہت ساری عورتوں نے کہا کہ ہمارا باپ جا رہا ہے۔ کسی نے کہا کہ آپ کو یہاں کو ئی تکلیف ہے تو ہم دور کردیتے ہیں۔ آپ نہ جائیں۔

یہ آپ کا اخلاق تھا اور احمدیت کی تعلیم تھی کہ اُس نے لوگوں کو اپنا گرویدہ کرلیا تھا۔ ایک دفعہ ایک مولوی صاحب جھنگ سے آکرعلاقہ کی مسجد میں احمدیت کے خلاف بولنے لگے ۔ جب والد صاحب کا نام لیکر اس نےکہا کہ ان سے کوئی نہ ملے اور مقاطع کریں تو وہاں پر موجود ایک شریف النفس سکول ٹیچر نے ہمت کی اور کہا مولوی صاحب! ہم یہاں بڑے امن کے ساتھ رہ رہے ہیں اور میں اس چیز کا گواہ ہوں کہ ہمیں جس چیز کی بھی ضرورت پڑی ان کے گھر سے ہی ملی۔ آپ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ان کامقاطع کریں پھر آپ کوئی ذریعہ بھی بتا دیں کہ ہم کہاں جائیں؟ اس لیے آپ مہربانی کریں اور نفرت نہ پھیلائیں۔

آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر بلند حوصلہ دیا تھا کہ اس پر رشک آتا ہے۔ ایک دفعہ کسی مولوی نے سپیکر پر نام لیکر نفرت انگزیز تقریر کی۔ ہم کچھ خوف زدہ تھے کہ لوگوں کا اس پر کیا رد عمل ہوگا۔ آپ بغیر کسی خوف کے حسب معمول اپنا باوقار لباس، پگڑی ، کھسہ اور شیروانی زیب تن کرکے بازار کے لیے تیار ہوگئے ۔ میری والدہ صاحبہ نے کہا کہ آپ آج نہ جائیں تو کہنے لگے کہ اگر ہم ان سے ڈر گئے تو پھریہ ہمیں گھر میں بھی نہیں رہنے دیں گے۔ ہم آپ کے پیچھے اور آپ آگے آگے سب کو سلام کرتے بازار گئے۔ اپنے دوستوں کو ملے بلکہ انہوں نے اظہار کیا کہ رانا صاحب!یہ مولوی بس اپنے رزق کے لیے ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ ہمیں تو سارا علم ہے کہ حقیقت کیا ہے۔

محترم والد صاحب الفضل کا روزانہ مطالعہ کرتے۔ ہمیشہ الفضل اپنی واسکٹ کی جیب میں رکھتے اور دوستوں کو پڑھ کرسناتے ۔ مجھےیاد ہے کہ محرم الحرم کے ماہ کے آغاز میں والد صاحب اپنے جاننے والے ایک مشہور شیعہ تاجر کے پاس گئے تو والد صاحب نے اپنی جیب سے الفضل نکال کر اسے دیا جس کے صفحہ اول پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں تحریرات درج تھیں۔ تحریرات کو پڑھنے کے بعد اس تاجر نے کہا کہ جو مرزا صاحب نے لکھا ہے ہمارا بھی بالکل یہی عقیدہ ہےاور اس نے بڑی خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا۔

جب ڈش انٹینا کے ذریعہ ایم ٹی اے کی نشریات شروع ہوئیں تو اس وقت بڑی کوشش کرکے 12 فٹ کی ڈش لگوائی اور جس دن خطبہ سنا اس قدر خوش تھے کہ اب احمدیت کا پیغام گھر گھر پہنچے گا۔ خطبہ کے وقت اہتمام کرکے غیر ازجماعت دوستوں کو بلوا کر خطبہ سناتے اور کہتے خود سن لیں کہ ہمارے امام ہمیں کیا تعلیم دیتےہیں ۔

جلسہ سالا نہ کے پروگرام کے حوالے سے دوستوں کو پہلے سے شیڈول دے آتے اور آنے کی دعوت دیتے کہ آپ آکر ہمارے جلسہ میں شامل ہوں اور تقاریر سُنیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک کثیر تعداد جلسہ پر ہمارے گھر جمع ہوجاتی تھی۔ پردہ میں غیر از جماعت عورتوں کو بھی جلسہ سنایا جاتا تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی تصاویر غیر از جماعت دوستوں کو دیکھاتے اور کہتے کہ غور سے دیکھ لیں۔ یہ وقت کے امام کی تصویر ہے۔ اگر صاحب بصیرت ہو تو بتاؤکہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ ہوسکتا ہے؟۔ڈیرہ پر ہی نماز سنٹر تھا جو ہر آنے والے کو نظر آتا تھا۔ نماز سنٹر میں کلمہ طیبہ تحریر کروایا۔ ایک دیوارپر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ اشعار لکھوائے۔

؎وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اُس کا ہے محمدﷺ دلبر مرا یہی ہے
اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے۔

ہر آنے والا یہ اشعار پڑھتا تو اس طرح اُسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشق رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچ جاتا۔ والد صاحب فرماتے کہ یہ حضورعلیہ السلام کا اپنا کلام ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ ’’وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے‘‘۔ آپ لوگ ہم پر جو الزام لگاتے ہیں وہ تو سراسر جھوٹ پرمبنی ہیں۔

میرے محترم والد صاحب کاخلافت سے پختہ تعلق تھا اور آپ نے اپنی اولاد کو سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا کی تعلیم دی کہ جو لفظ خلافت کی منہ سے نکلے فی الفور اس کی تعمیل میں لگ جاؤ۔ خلافت ثالثہ میں ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ شکار کے لیے عنایت بنگلہ لیہ تشریف لے گئے۔ گڑھ موڑجہاں والد صاحب مقیم تھے، عنایت بنگلہ لیہ کے راستہ میں آتا تھا ۔ تایا جان مکرم ناصر احمد بہادر شیر افسر حفاظت تھے۔ ان کے ذریعہ معلوم ہوگیا تو والد صاحب دو احمدی دوستوں کے ہمراہ وہاں پہنچ گئے۔

چونکہ یہ نجی دورہ تھا تو جماعتوں کو اس کی اطلاع نہ تھی۔ انتظامیہ نے ان کو دیکھ کر کہا کہ آپ کیوں آئے ہیں تو والد صاحب نے فرمایا کہ پروانوں کو دعوت نہیں دی جاتی۔ شمع کے گرد وہ خود ہی چلے آتے ہیں۔

حضور رحمہ اللہ نے جب والد صاحب کو دیکھا تو از راہ شفقت فرمایا کہ کاٹھگڑھی صاحب آپ کدھر تو عرض کی حضور جہاں سے آپ کی گاڑی لیہ کے لیے مڑی میں وہاں رہتا ہوں یہ جگہ دربار حضرت سلطان باہورحمۃ اللہ کے پاس ہے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ اُن کی کوئی بات سناؤ۔ والد صاحب نے عرض کیاکہ حضور! وہ تو ایک بزرگ تھے تو حضورؒ نے فرمایا ان کو میں جانتا ہوں۔ ان کے گدی نشینوں کی بات سناؤ۔ والد صاحب کہتے کہ میں نے پنجابی میں کہا کہ حضور! وہ بہت جھوٹ بولتے ہیں ۔ تو حضورؒ نے فرمایا کہ اس بزرگ کی ان کو کیا قدر ہے۔

اس دوران ایک رات بارش ہوگئی اور صفیں بھی باہر بارش میں گیلی ہوگئیں۔ فجر کے وقت حضورؒ باہر تشریف لائے تو والد صاحب نے اپنے ساتھ والے احمدی دوست مکرم چوہدری منوراحمد وڑائچ صاحب سے چادر لیکر جائے نماز پر بچھادی۔ حضورؒ نے اس پر نماز پڑھائی اور پیچھے تین چار لوگوں نے نماز ادا کی جن میں سے ایک والدصاحب بھی تھے۔

خلافت رابعہ میں جب مباہلہ کا پمفلٹ تقسیم کیا ۔ تو ایک اہل تشیع دوست سردار باقر علی خان صاحب جو بہت بڑے زمیندار تھے کسی کام سے والد صاحب کے پاس مورخہ 14۔ اگست 1988ء کو آئے۔ حسب معمول باتوں میں مباہلہ کا بھی بتایا۔ اہل تشیع بھی اس دور میں کافی تنگ تھے تو انہوں نے کہا کہ اب اس کا کیا بنے گا۔ والد صاحب نے کہا خان صاحب فرشتوں نے مسل تیار کرکے اللہ تعالی کے روبرو پیش کردی ہے۔ اب اللہ تعالی نے فیصلہ لکھنا ہے دیکھیں وہ کب لکھتا ہے۔ 4 روز بعد خدا کی تقدیر نے فیصلہ کردیا۔ اگلے دن خان باقر علی خان صاحب میرے والد صاحب کو ملے اور مذاقاً کہنے لگے میں پولیس اسٹیشن جارہا ہوں والد صاحب نے کہا کیوں؟تو انہوں نے کہا کہ آپ نے کہا تھا کہ فیصلہ ہونے والا ہے وہ ہوگیا ہے یہ آپ نے کروایا ہے۔ والد صاحب نے بتایا کہ یہ خدائی تقدیر تھی۔

ہمیں ہمیشہ کہا کہ جب بھی کوئی کام شروع کرو تو پہلے حضرت صاحب کو خط لکھو۔ اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالتا ہے نیز فرماتے تھے خط لکھتے ہی دعا شروع ہوجاتی ہے۔ خود بھی ہمیشہ یہی عمل رہا۔

مجھے 2005ء میں قادیان جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کی سعادت ملی۔مجھے نصیحت کی کہ سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر حاضر ہو کر میرا سلام پہنچانا۔ واپسی پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی تفصیل پوچھی اور کہا تم سعادت مند ہو جو تمہیں یہ موقع میسر آیا ہے۔

پھر خود کوشش کی 2008ء میں ویزا لگ گیا لیکن ملکی حالات کی خرابی کی وجہ سے کوئی بھی پاکستانی شامل نہ ہوسکا تو والد صاحب بھی اس سال نہ جاسکے۔ پھر2011ء میں قادیان تشریف لے گئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر حاضری دی خاکسار ساتھ تھا مجھے کہا یہ سعادت ہے کہ ہم مسیح آخر الزماں کے مزار پر حاضر ہیں جن کو سلام پہنچانے کی تاکید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔ مجھے بتایا کہ میں جوبلی کے جلسہ پر پارٹیشن سے پہلے حضرت المصلح الموعود کے دُور میں قادیان آیا تھا۔ کوشش کرکے تمام مقامات مقدسہ میں حاضری دی اور شکر کیا کہ اللہ تعالی نے یہ سعادت دوبارہ دی ہے۔

میرے چھوٹے بھائی عزیزم رانا منیب احمد خاں کی شادی یوکے میں ہوئی۔ اس میں ہماری فیملی سے کوئی شامل نہ ہوسکتا تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت نکاح پڑھایا اور شادی کے دن ازراہ شفقت اپنے دفتر سے دعا اور تحائف کے ساتھ رخصتی فرمائی۔ اس پر اس قدرخوش تھے کہ ان کی خوشی کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ آپ نے عزیزم کوبھی تسلی دی کہ تمہیں اب کسی کی بھی کمی کی ضرورت محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ ماں باپ سے بڑی اور بابرکت ہستی شامل ہوگئی ہے۔

آپ اللہ تعالی کے فضل سے ایک باثمر داعی الی اللہ تھے ۔ آپ کو 40 سال تک صدر جماعت کی خدمت کی توفیق ملی ۔ آپ تحصیل احمد پور سیال کی 4 جماعتوں کے امیر حلقہ تھے۔ آپ باقی جماعتوں کے لیے ڈھال کا کام کرتے رہے۔ ایک دفعہ کوٹ بہادر میں ہمارے مربی صاحب مکرم شکیل خان صاحب اور دو احمدی دوستوں پر ایف آئی آر ہوگئی ۔ آپ پولیس اسٹیشن گڑھ مہاراجہ میں گئے تو وہاں بہت سارے مولوی حضرات بھی تھے۔ آپ نے السّلام علیکم کہا تو مولویوں نے شور کیا کہ ان پر بھی پرچہ کریں انہوں نے السّلام علیکم کہا ہے آپ نے کہا کہ میں نے تھانے دار کو کہا ہے تھانے دار صاحب نے کہا میں نے نہیں سنا۔ مولویوں نے کسی بات پر کہا آپ واجب القتل ہیں تو آپ نے کہا پھر دیکھ کیا رہے ہیں میں سامنے بیٹھا ہوں اگر ہمت ہے تو مجھے ہاتھ لگاؤ۔ آپ علاقہ میں صاحب اثر تھے آپ کے ساتھ غیر از جماعت دوست بھی تھے انہو ں نے مولویوں کو چپ کروا یا۔

علاقہ میں اچھے اثر و رسوخ کا یہ عالم تھا کہ الیکشن کے دنوں میں امیدوار یا اس کے نمائندے والد صاحب کے پاس آتے کہ ہمیں ووٹ چاہیے آپ بتاتے کہ ہم ووٹ کاسٹ نہیں کرتے تو وہ کہتے ہمیں علم ہے تاہم آپ کے زیر اثر افراد ہیں آپ ان کو کہیں گے تو وہ ہمیں ووٹ دے دیں گے۔

ہمارے ہاں ایک سرکار ی ہسپتال کے ڈاکٹر صاحب جو ہارٹ کے حوالے سے اچھا تجربہ رکھتے تھے اور دربار حضرت سلطان باہور حمۃ اللہ کے گدی نشین صاحبزادہ مجید سلطان صاحب کے پرسنل ڈاکٹر بھی تھے۔ والد صاحب نے وہاں ان سے علاج شروع کروایا تو لوگوں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ یہ احمدی ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کسی وقت ملتان میںایک احمدی ڈاکٹر صاحب کے زیر اثر رہے تھے اُن کو لوگوں کے بتانے پر والد صاحب سے اور بھی ہمدردی پیدا ہوگئی اور ان سے دوستی ہوگئی وہ گھر آکر والد صاحب کو چیک کرجاتے تھے ۔ ایک دفعہ میرے دو چھوٹے بھائی عزیزم نوید احمد اور منیب احمد ان کے پاس ملنے گئے عین اس وقت ڈاکٹر صاحب کو دربار حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ کے گدی نشین صاحبزادہ حاجی مجید سلطان صاحب کا فون آیا کہ ان کی طبیعت اچھی نہیں جلدی آئیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فوری ای سی جی مشین وغیرہ گاڑی میں رکھی اور ان دونوں کو بھی ساتھ بٹھا لیا اور کہا چلیں اسی بہانے آپ کو ملاقات بھی کروادوں گا۔(یہ ذہن میں رہے کہ کسی دربار کے گدی نشین سے ملنا ہر شخص کے لیے ممکن نہ ہے) اور ڈاکٹر صاحب نے ملاقات کے کچھ پروٹوکول بھی سمجھانے شروع کیے۔ جو ان کی طبیعت پر ناگوار گزرے تاہم برداشت کیا۔ سیکورٹی چیکنگ کےبعد اندر بتایا گیا کہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ دو لڑکے بھی ہیں انہوں نے کہا اگر ڈاکٹر صاحب تسلی دیتے ہیں تو آنے دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جھک کر سلام کیا اور ساتھ انہوں نے بھی سلام کیا اور ڈاکٹر صاحب نے چیک اپ شروع کردیا۔ یہ بیٹھ گئے دوران چیک اپ حاجی مجید سلطان صاحب نے پوچھا کہ یہ لڑکے کون ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا یہ مجھے ملنے آئے تھے یہ اسٹوڈنٹ ہیں۔ میں نے کہا چلیں آپ کی ملاقات بھی کروادوں اور ساتھ والد صاحب کا نام لیا کہ یہ گڑھ موڑ سے رانا عبدالحکیم خاں پٹواری صاحب کےبیٹے ہیں۔ اس پر حاجی صاحب نے ان دونوںسےکہا آپ راناپٹواری صاحب کے بیٹے ہیں؟ میر ا اپنے ابو کو سلام کہنا ۔ میں نے ان کا ایک کام کیا تھا ۔ یعنی حاجی صاحب ڈاکٹر صاحب کو چھوڑ کر ان سے براہ راست مخاطب ہوگئے۔ بعد میں ڈاکٹر صاحب نے بھائیوں سے کہا کہ حاجی صاحب تو آپ کے والد صاحب کو بڑی اچھی طرح جانتے تھے۔ آپ نے بتایا نہیں۔ گھر آ کر والد صاحب سے ذکر کیا تو والد صاحب نے بتایا کہ میرا ذاتی تعلق رہا ہے میں نے ان کے کئی کام کیے ہیں اور انہوں نے بھی میرا ایک کام کیا تھا جو کافی مشکل تھا۔

آپ کا یہ تعلق الحمدللہ علاقہ میں احمدیت کے لیے کافی فائدہ مند رہا ہے۔ 2019ء میں چک نمبر5/3-L کی جماعت کے ایک احمدی پر کیس کردیا گیا۔ توآپ نے اپنے ایک عزیز سےایم پی اے کوفون کروایا کہ ایم پی اے کو میرا تعارف کروانا کہ اس کے والد صاحب مجھے اچھی طرح جانتے تھے یہ بھی مجھے شاید پہچانتا ہوگا ۔ اس کو کہو کہ اس مسئلہ کو عقلمندی سے حل کروادے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے پیغام دیا ہے ایم پی اے صاحب نے کہا کچھ وقت دے دیں میں حل کروادوں گا۔ چنانچہ کچھ دنوں بعد معاملہ ختم کروا دیا گیا۔

آپ غیر ازجماعت عزیزوں سے بہت تعلق رکھتے تھے اور ان کی بےلوث خدمت کرتے تھے۔ اس وجہ سے وہ بھی والد صاحب کی بہت عزت کرتے تھے۔ ہر خوشی میں دعوت دیتے اور غمی کی اطلاع دیتے تھے۔ جیسا کہ غیر احمدی ختم ، چالیسواں وغیرہ کرتے ہیں۔ ایک چالیسواں پر دو تین سو افراد اکٹھے تھے والد صاحب بھی گئے مولوی صاحب کو یہ اچھا نہیں لگا اور اس نے کہا کہ آپ نے جب کلام نہیں بخشنا تو آپ آئے کیوں ہیں آپ نے بلند آواز میں کہا مولوی صاحب یہ میرا عزیز فوت ہوا ہےآپ کا نہیں۔ اس لیے میں آیا ہوں جب آپ کا فوت ہوگا تو نہیں آؤں گا۔ لیکن آج تم مجھے یہ بتا ؤکہ ان سادہ لوح لوگوں کو کیوں بےوقوف بنایا ہوا ہے ۔ یہ بتاؤ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے فوت ہوئے اور صحابہ فوت ہوئے کیا کسی ایک کا چالیسواں ختم وغیرہ آپ نے کیا ہے۔ مولوی نے کہا نہیں لیکن یہ تو ثواب کا کام ہے۔ والد صاحب نے کہا یہ کیسا ثواب ہے جس کو آنحضرتؐ نے پسند نہ فرمایا؟ اس فیملی نے ادھار لیکر یہ سب اہتمام کیا ہے۔ میں نے ان کو چاول گھی وغیرہ ادھار لیکر دیئے ہیں۔ کچھ خدا کا خوف کرو دین میں یہ بگاڑ پیدا نہ کرو۔ چونکہ وہ مولوی جن لوگوں کے ختم پر آیا تھا وہ والد صاحب کی بے انتہا عزت کرتے تھے اس لیے مولوی کی وہاں کسی نے نہ سنی۔

اللہ تعالی نے آپ کو کمال کا حافظہ عطا کیا ہوا تھا۔ آپ کو قرآن کریم کی بہت ساری سورتیں زبانی یاد تھیں۔ درثمین ساری زبانی یاد تھی۔ کافی احادیث زبانی یاد تھیں۔ باجماعت نمازیں، جمعہ اور عیدین اور نماز تراویح پڑھاتے تھے۔

سلسلہ کے بزرگان اور مربیان کرام کا بے انتہا احترام کیا کرتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہیں۔ واقفین زندگی کی مہمان نوازی میں آپ کا الگ ہی رنگ ہوتا تھا بعض مربیان پہلی دفعہ جامعہ سے پاس ہو کر فیلڈ میں تعینات ہوتے تھے ان کی عزت و احترام میں بھی کسی رنگ میں کمی نہیں آنے دیتے تھےیہ کہتے تھے دیکھو یہ بھی کسی کے بیٹے ہیں جو اپنا گھر چھوڑ کر دین کے لیے آپ کے پاس آئے ہیں ۔ ان کی عزت اور مہمان نوازی میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے۔ بس سٹاپ سے کچھ فاصلہ پر ہمارا گھر تھا مہمان کی واپسی پر ہماری ڈیوٹی ہوتی تھی کہ مہمان کے سامان کو بس سٹاپ پر پہنچا کر اس کو اس کی سواری پر سوار کروایا جائے تاکہ مہمان کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔

آپ کی ایک خوبی یہ تھی کہ آپ کو اپنے والدین سے بے انتہا محبت تھی۔ ہر موقع پر ان کو یاد کرتے اور انکی نیکی کو بیان کرتے تھے ان کے لیے دعا گو رہتے تھے کہ ان کی تربیت کی بدولت میں نے زندگی میں آسانی پائی ہے۔

ایک دفعہ میں نے پوچھا کہ آپ نے کوئی جائیداد کیوں نہ بنا ئی جب کہ آپ خود محکمہ مال میں تھے۔ تو مجھے جواب دیا بیٹا میں نے عزت کمائی ہے اور آپ کو حلال رزق کھلایا ہے آپ کو تعلیم دلوادی ہے آپ اب خود بنا لینا۔ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ پیسہ سے قطعاً محبت نہ کی۔ جب بھی آمد ہوتی چندہ وغیرہ دینے کے بعد ساری خرچ کردیتے۔ کسی سوالی کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرتے تھے۔ ا س کے نتیجہ میں اللہ تعالی کا یہ سلوک ان کے ساتھ نمایاں تھا کہ جب بھی کوئی ضرورت پیش آئی اللہ تعالیٰ نے خود اپنے فضل سے اس کا سامان پیدا کردیا۔ خداتعالیٰ کے ان فضلوں کے ہم سب شاہد ہیں۔

سال 2016ء میں آپ جمعۃ المبارک کی ادائیگی کے لیے مسجد گئےہوتےتھے بعد ادائیگی نمازوہیںپر برین ہیمرج کا اٹیک ہوا۔ خاکسارآپ کو فوری طور پرطاہر ہارٹ انسی ٹیوٹ لیکر گیا۔ ڈاکٹرصاحب نے چیک کرنے کے بعد کہا یہ اس وقت قومہ میں چلے گئے ہیں۔ ہم ان کو خوراک اور یورن کی نالی لگا دیتے ہیں آپ فور ی طور پر فیصل آباد لے جائیں۔ میرےایک عزیز محترم بشارت احمد صاحب کارکن جامعہ احمدیہ یوکے کا فون آیا۔ میں نے ان کو حضور انورکو دعا کے لیے لکھنے کا کہا ۔ میں ایمبولینس کا انتظام کرکے فوری طور پر فیصل آباد نکلنے لگا تھا کہ ان کا فون آیا کہ میں نے پرائیوٹ سیکرٹری صاحب کے دفتر میں دعا کے لیے لکھوا دیا ہے۔ اللہ فضل کرے گا۔ یہاں ربوہ میں مسجد کے سارے نمازی تقریبا ً 150 افراد کے قریب بھی دعائیں کررہے تھے۔

وہ مریض جس کے جسم کا کوئی حصہ حرکت نہیں کررہا تھا اور قومہ میں تھا۔ ابھی ایمبولینس چنیوٹ میں داخل ہوئی تو میرے ساتھ فیضان احمد صاحب زعیم خدام الاحمدیہ تھے انہوں نے کہا انکل ہاتھ ہلا رہے ہیں میں نے کہا نہیں غالباً گاڑی کے جھٹکے ہیں۔ تھوڑی دُور جانے کے بعد مجھے بھی لگا کہ ٹانگ نے حرکت کی ہے۔ابھی ہم فیصل آباد میں داخل ہوئے ہی تھے کہ مجھے والد صاحب کی ہلکی سی آواز آئی۔ میں نے غور سے سنا تو کہہ رہے تھے کہ مجھے جھٹکے لگ رہے ہیں۔ جب ہم ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ میں پہنچے ۔ ڈاکٹرصاحب کے پوچھنے پر آپ نے اپنا پورا نام رانا عبدالحکیم خاں بتایا۔ اور ڈاکٹر صاحب کے باقی سارے سوالات کے جواب بھی دیئے۔ جب نیورو فزیشن آئےتو انہوں نے تسلی دی کہ ایک کلاٹ آیا تھا جو اس وقت نہیں ہے۔ یہ بالکل تندرست ہیں آپ گھر جا سکتے ہیں ۔ گھر آنے پر مجھے بڑے اطمینان سے کہا کہ یہ سب خلیفۃ المسیح کی دعا کی بدولت ہوا ہے اور یہ پڑھا کہ بدل دیتے ہیں تقدیریں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اکثر ۔

آپ نے اس کے بعد فعال زندگی پائی۔ مورخہ 8 مارچ 2019ء کو پاؤں سلپ ہوا جس سے ٹانگ میں کھچاؤکی تکلیف ہوئی۔ ڈاکٹرز نے بیڈریسٹ کاکہا۔ اس کے بعد بتدریج عوارض بڑھ گئے ۔ حرکت نہ کرسکنے کی وجہ سے یورن بیگ لگ گیا۔ لیکن یادداشت ٹھیک تھی اور خوراک بھی لیتے تھے۔ نمازیں وقت پر ادا کرتے رہے۔ کبھی لیٹ کر ادا کی اور کبھی کرسی پر بیٹھ کر ادا کی۔ مئی میں طبیعت زیادہ خراب ہونے پر طاہر ہارٹ انسی ٹیوٹ ربوہ میں داخل ہوئے۔ وہاں کمزوری بڑھتی گئی ۔ خوراک کی نالی لگا دی گئی۔ کچھ طبیعت سنبھلنے پر گھر آگئے اور عید الفطر کے روز خود کہہ کر اپنا نیا سوٹ پہنا۔ بچوں کو عیدی دی۔ خوراک نالی لگے ہونے کے باوجود چمچ کے ساتھ کھائی ۔ اور کہا کہ میرے بال بڑھ گئے ہیں یہ کٹوانے ہیں۔ خاکسار کو یہ سعادت ملتی رہی ہے کہ میں آپ کا خط خود بناتا تھا۔ میں نے بڑے بھائی جان کےساتھ مل کر آپ کے بال کاٹے اور نہلایا۔ آپ نے اپنے بالوں کو ہاتھ سے پکڑ کر دیکھا اور کہا ٹھیک ہے۔ ہم سب مطمٔن ہوگئے کہ اب الحمد اللہ طبیعت بہتر ہوگئی ہے۔ بظاہر ہمیں یہ محسوس ہو رہا تھا کہ ابوجان کی طبیعت اب بہتر ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے بھیدوں کو کوئی نہیں جانتا۔ وہ لمحہ جس سے کسی کو انکار نہیں آخر وہ لمحہ آن پہنچا۔ مؤرخہ 7 جون 2019ء بروز جمعۃ المبارک شام 7 بج کر 10منٹ پرہم سب موجود بہن بھائی آپ کے ارد گرد کھڑے تھے آپ نے اچانک ایک لمبا سانس لیا ہم نے آپ کو بلانا چاہا۔ لیکن وہ اس لمبے سانس کے ساتھ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ آپ نے تقریباً 90سال کی فعال عمر پائی اور اس نافع الناس وجود نے خدمت خلق اور حقوق العباد کی ادائیگی کو اپنی زندگی کا اولین مقصدسمجھا نیز حقوق اللہ کی ادائیگی کی بھرپور کوشش کی ۔ سینکڑوں دکھی دلوں کی ڈھارس بندھانے والا یہ نافع الناس وجود اب ہم میں موجود نہیں رہا۔ آپ کی وفات کی خبر نے غیر ازجماعت احباب، دوستوں اور عزیزو اقارب کی آنکھ کو آشکبار کردیا۔

بلانے والا ہے سب سے پیارا
اُسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

محترم والد صاحب کی خواہش تھی کہ انکی تدفین بہشتی مقبرہ دارالفضل ربوہ میں ہو۔ اس خواہش کے پیش نظر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں درخواست کی گئی جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت بہشتی مقبرہ دارالفضل ربوہ میں تدفین کی اجازت مرحمت فرمائی۔آپ کی نماز جنازہ مورخہ 9 جون 2019ء کو بیت المبارک ربوہ میں محترم سید خالد احمد شاہ صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی ربوہ نے پڑھائی۔ احباب جماعت اور غیر از جماعت دوستوں کی کثیر تعداد نے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی ۔ آپ کی تدفین ہونے پر محترم صاحبزادہ مرزا عدیل احمد صاحب اسسٹنٹ مشیر قانونی ربوہ نے دعا کروائی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت مورخہ 26 جون 2019ء کو بعد نماز عصر اسلام آباد یوکے میں آپ کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی۔

ایک شفیق باپ کے سایہ کی اہمیت کا احساس اور ان کے بچھڑنے کا دکھ ہر دن گزرنے کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ آپ نے اولاد کی ہر لحاظ سے ایسی تربیت کی کہ قدم قدم پر یہ دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالی ان کو کروٹ کروٹ جنت میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین ثم آمین

٭…٭…٭

(مرسلہ: رانا مبین کاشف خاں ایڈووکیٹ)

پچھلا پڑھیں

’’ہوں بندہ مگر میں خدا چاہتا ہوں‘‘

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 دسمبر 2020