حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ہم احمدی مسلمان دنیا کی خدمت کے لئے کوئی بھی دقیقہ نہیں چھوڑتے۔ امریکہ میں خون کی ضرورت پڑی۔ گزشتہ سال ہم احمدیوں نے بارہ ہزار بوتلیں جمع کر کے دیں۔ اس سال پھر وہ جمع کر رہے ہیں۔ آجکل یہ ڈرائیو (Drive) چل رہی تھی۔ اُن کو میں نے کہا کہ ہم احمدی مسلمان تو زندگی دینے کے لئے اپنا خون دے رہے ہیں اور تم لوگ اپنی ان حرکتوں سے اور اُن حرکت کرنے والوں کی ہاں میں ہاں ملا کر ہمارے دل خون کر رہے ہو۔ پس ایک احمدی مسلمان کا اور حقیقی مسلمان کایہ عمل ہے اور یہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہم انصاف قائم کرنے والے ہیں اُن کے ایک طبقہ کا یہ عمل ہے۔
مسلمانوں کو تو الزام دیا جاتا ہے کہ وہ غلط کررہے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ بعض ردّعمل غلط ہیں۔ توڑپھوڑ کرنا، جلاؤ گھیراؤ کرنا، معصوم لوگوں کو قتل کرنا، سفارتکاروں کی حفاظت نہ کرنا، اُن کو قتل کرنا یا مارنا یہ سب غلط ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے معصوم نبیوں کا استہزاء اور دریدہ دہنی میں جو بڑھنا ہے، یہ بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ اب دیکھا دیکھی گزشتہ دنوں فرانس کے رسالہ کو بھی دوبارہ اُبال آیا ہے۔ اُس نے بھی پھر بیہودہ کارٹون شائع کئے ہیں جو پہلے سے بھی بڑھ کر بیہودہ ہیں۔ یہ دنیا دار دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ یہ دنیا ہی اُن کی تباہی کا سامان ہے۔
یہاں مَیں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ دنیا کے ایک بہت بڑے خطّہ پر مسلمان حکومتیں قائم ہیں۔ دنیا کابہت سا علاقہ مسلمان کے زیرِ نگیں ہے۔ بہت سے مسلمان ممالک کو خدا تعالیٰ نے قدرتی وسائل بھی عطا فرمائے ہیں۔ مسلمان ممالک یو این او (UNO) کا حصہ بھی ہیں۔ قرآنِ کریم جو مکمل ضابطہ حیات ہے اس کے ماننے والے اور اس کو پڑھنے والے بھی ہیں تو پھر کیوں ہر سطح پر اس خوبصورت تعلیم کو دنیا پر ظاہر کرنے کی مسلمان حکومتوں نے کوشش نہیں کی۔ کیوں نہیں یہ کرتے؟ قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق کیوں دنیا کے سامنے یہ پیش نہیں کرتے کہ مذہبی جذبات سے کھیلنا اور انبیاء اللہ کی بے حرمتی کرنا یا اُس کی کوشش کرنا یہ بھی جرم ہے اور بہت بڑا جرم اور گناہ ہے۔ اور دنیا کے امن کے لئے ضروری ہے کہ اس کو بھی یو این او کے امن چارٹر کا حصہ بنایا جائے کہ کوئی ممبر ملک اپنے کسی شہری کو اجازت نہیں دے گا کہ دوسروں کے مذہبی جذبات سے کھیلا جائے۔ آزادیٔ خیال کے نام پر دنیا کا امن برباد کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن افسوس کہ اتنے عرصہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے، کبھی مسلمان ملکوں کی مشترکہ ٹھوس کوشش نہیں ہوئی کہ تمام انبیاء، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ہر نبی کی عزت و ناموس کے لئے دنیا کو آگاہ کریں اور بین الاقوامی سطح پر اس کو تسلیم کروائیں۔ گو یو این او (UNO) کے باقی فیصلوں کی طرح اس پر بھی عمل نہیں ہو گا، پہلے کونسا امن چارٹر پر عمل ہو رہا ہے لیکن کم از کم ایک چیز ریکارڈ میں تو آجائے گی۔ او آئی سی (OIC)، آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز جو ہے، یہ قائم تو ہے لیکن ان کے ذریعہ سے کبھی کوئی ٹھوس کوشش نہیں ہوئی جس سے دنیا میں مسلمانوں کا وقار قائم ہو۔ مسلمان ملکوں کے سیاستدان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ہر کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر نہیں خیال تو دین کی عظمت کا خیال نہیں۔ اگر ہمارے لیڈروں کی طرف سے ٹھوس کوششیں ہوتیں تو عوام الناس کا یہ غلط ردّ عمل بھی ظاہر نہ ہوتا جو آج مثلاً پاکستان میں ہو رہا ہے یا دوسرے ملکوں میں ہوا ہے۔ اُن کو پتہ ہوتا کہ ہمارے لیڈر اس کام کے لئے مقرر ہیں اور وہ اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس قائم کرنے کے لئے اور تمام انبیاء کی عزت و ناموس قائم کرنے کے لئے دنیا کے فورم پر اس طرح اُٹھیں گے کہ اس دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ جو کہہ رہے ہیں سچ اور حق ہے۔
پھر مغربی ممالک میں اور دنیا کے ہر خطّے میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو رہ رہی ہے۔ مذہب کے لحاظ سے اور تعداد کے لحاظ سے دنیا میں مسلمان دوسری بڑی طاقت ہیں۔ اگریہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والے ہوں تو ہر لحاظ سے سب سے بڑی طاقت بن سکتے ہیں اور اس صورت میں کبھی اسلام دشمن طاقتوں کو جرأت ہی نہیں ہوگی کہ ایسی دل آزار حرکتیں کر سکیں یا اس کا خیال بھی لائیں۔ بہرحال علاوہ مسلمان ممالک کے دنیا کے ہر ملک میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ یورپ میں ملینز (Millions) کی تعداد میں تو صرف ترک ہی آباد ہیں۔ صرف یورپ میں نہیں بلکہ یورپ کے اکثر ممالک میں ملینز کی تعداد میں مسلمان آباد ہیں۔ اسی طرح دوسری مسلمان قومیں یہاں آباد ہیں۔ ایشیا سے مسلمان یہاں آئے ہوئے ہیں۔ یوکے میں بھی آباد ہیں۔ امریکہ میں بھی آباد ہیں۔ کینیڈا میں آباد ہیں۔ یورپ کے ہر خطے میں آباد ہیں۔ اگر یہ سب فیصلہ کر لیں کہ اپنے ووٹ اُن سیاستدانوں کو دینے ہیں جو مذہبی رواداری کا اظہار کریں۔ اور ان کا اظہا رنہ صرف زبانی ہوبلکہ اُس کا عملی اظہار بھی ہورہا ہو اور وہ ایسے بیہودہ گوؤں کی، یا بیہودہ لغویات بکنے والوں یا فلمیں بنانے والوں کی مذمت کریں گے تو ان دنیاوی حکومتوں میں ہی ایک طبقہ کھل کر اس بیہودگی کے خلاف اظہار خیال کرنے والا مل جائے گا۔
(خطبہ جمعہ 21؍ستمبر 2012ء بحوالہ الاسلام)