• 4 مئی, 2024

خدا تعالیٰ نے تو کفار کے بتوں کو بھی گالی دینے سے منع کیا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر ایک روایت حضرت مولوی محمد عبدالعزیز صاحبؓ ولد مولوی محمد عبداللہ صاحب کی ہے۔ ان کا بیعت کا سن 1904ء ہے۔ کہتے ہیں قبل اس کے کہ میں اپنی بیعت اور چشم دین حالات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان کروں، ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے والد صاحب مرحوم جناب مولانا مولوی محمد عبداللہ صاحب مغفور صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حالات بیان کروں۔ (ان کے واقعات بھی بڑے دلچسپ ہیں کیونکہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بڑا امتحان لینے کی کوشش کی تھی اور پھر جب ہر طرح سے تسلی ہوگئی تو پھر انہوں نے بیعت کی تھی۔ بہرحال کہتے ہیں) کیونکہ آپ نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ مبارک پر بیعت کی تھی اور آپ کے بہت سے چشم دید واقعات تھے جو قلمبندنہیں ہو سکے اور آپ رخصت فرما گئے (یعنی وفات پاگئے) لہٰذا ضروری ہوا کہ حسب مقولہ اَلْوَلَدُ سِرٌّ لِاَبِیْہِ۔ (اور فارسی میں کہتے ہیں کہ) وَچِیزے کہ پدر تمام نہ کُنَد پسرش تمام کُنَد۔ (یعنی کہ جو کام باپ نہیں کر سکا وہ بیٹا مکمل کرے)۔ وہ حالات بیان کر دوں۔ تو کہتے ہیں بہرحال جناب والدم بزرگوار مولوی محمد عبداللہ صاحب ساکن موضع بھینی ڈاکخانہ شرقپور ضلع شیخوپورہ اہل حدیث خیال کے تھے اور قوم کے بہت بڑے لیڈر تھے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی نے اُن کو انجمن اہل حدیث کا ڈپٹی کمشنر تجویز کیا ہوا تھا۔ اُس علاقے میں یہ بہت بڑے لیڈر سمجھے جاتے تھے اور ان کی نمائندگی کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں آپ کی شہرت کی وجہ سے موضع تَھے غلام نبی ضلع گورداسپور والوں نے جو اہلحدیث تھے، آپ کو اپنے پاس بلایا اور انہوں نے ذکر کیا کہ ہمارے قریب ایک قصبہ قادیان ہے جہاں حضرت مرزا غلام احمد صاحب رہتے ہیں اور الہام کے مدعی ہیں اور انہوں نے ایک لڑکے کے متعلق پیشگوئی کی ہوئی ہے جو پوری نہیں ہوئی۔ پہلے لڑکی پیدا ہوئی اور ازاں بعد ایک لڑکا پیدا ہوا (یہ پیشگوئی مصلح موعودکا ذکر کر رہے ہیں۔ غیر احمدی مولویوں نے ان کو کہا کہ پہلے تو لڑکی پیدا ہوئی اور پھر لڑکا پیدا ہوا جو کچھ دنوں کے بعد فوت ہو گیا۔ چلو ایسے شخص سے چل کر مناظرہ کیا جائے۔ (ان کے نزدیک یہ الہام وغیرہ یا وحی وغیرہ نہیں ہو سکتی تھی جس کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی تھی۔ تو ان کو بلایا گیا کہ چلیں مناظرہ کریں۔) چنانچہ آپ ان دنوں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی دعویٰ نہ تھا صرف الہام کا سلسلہ جاری تھا اور حضور کتاب براہین احمدیہ لکھ رہے تھے قادیان میں تشریف لائے۔ (ان کے والد جن کا یہ ذکر کر رہے ہیں) اور حضور سے پیشگوئی مذکورہ بالا کے متعلق بھی گفتگو ہوئی (یعنی پیشگوئی مصلح موعود کے بارے میں گفتگو ہوئی۔) اور سوال کیا کہ اگر آپ کے الہامات صحیح ہوتے تو لڑکے والی پیشگوئی کیوں پوری نہ ہوتی۔ پہلے لڑکی پیدا ہوئی پھر لڑکا پیدا ہوا اور وہ بھی مر گیا۔ کیا یہ پیشگوئیاں اسی قسم کی ہوا کرتی ہیں۔ تو کہتے ہیں میرے والد بزرگوار فرمایا کرتے تھے کہ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ کیا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے متعلق کوئی پیشگوئی فرمائی تھی؟ تو مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حج کے بارے میں پیشگوئی ہے، تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس پر فرمایا کیا پھر وہ اسی سال ہی پوری ہو گئی تھی اور آپ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حج کر کے واپس تشریف لے آئے تھے؟ تو اس پر ان کے والد مولوی صاحب نے کہا کہ اگر اُس سال حج نہ ہوا تھا تو اُس سے اگلے سال تو ہو ہی گیا تھا۔ حضرت صاحب نے (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے) کہا کہ مَیں نے کب کہا تھا کہ اسی سال لڑکا پیدا ہو جائے گا۔ یہ خدا کی پیشگوئی ہے جو پوری ہو گی اور ضرور پوری ہو گی، خواہ کسی سال ہی پوری ہو کیونکہ اس کا ایک عرصہ ہے۔ (معین ایک سال تو نہیں تھا، اس کا عرصہ بتایا گیا تھا۔) اس پر سلسلہ کلام ختم ہوا اور مولوی صاحب نے کوئی نیا سوال نہ کیا۔ مگر اس اعتراض پر اُن کا اصرار رہاکہ آپ کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ (لیکن بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُس کے بعد اپنے اشتہار جو 22؍مارچ 1886ء میں دیا تھا اُس میں حد بندی بھی کر دی تھی کہ وہ موعودنو برس کے اندر اندر پیدا ہو جائے گا اور پھر یکے بعد دیگرے کئی ایک اشتہارات میں اُس کا ذکر بھی فرمایا تھا۔ بہرحال یہ خود ہی آگے کہتے ہیں کہ وہ پیشگوئی پوری ہوئی یا حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی پیدا ہوئے۔ پھر آگے ذکر کرتے ہیں کہ) چونکہ مولوی صاحب موصوف(یعنی ان کے والد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بحث کرنے آئے تھے) علوم عربی و فارسی میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے اور علوم صرف و نحو، منطق، بدیعی، بیان وغیرہ میں لاثانی انسان تھے، اپنے علم کے خیال میں اس نکتۂ معرفت اور جواب با صواب سے انہوں نے کوئی استفادہ نہ کیا، (یعنی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بحث ہوئی تھی، اُس سے وہ کوئی فائدہ نہ اُٹھا سکے) اور یہ سچ ہے کہ کُلُّ اَمْرٍ مَرْھُوْنٌ بِاَوْقَاتِھَا۔ کہ ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ اُس وقت آپ انکار پر مصر رہے۔ (وہیں انکار پر اصرار کرتے رہے۔) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بات نہیں مانی۔ حضور نے آپ کے علم کا موازنہ فرما کر اپنی کامل مہربانی سے آپ کو یہ بھی فرمایا (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی باتوں سے اندازہ لگا لیا کہ آپ صاحب علم آدمی ہیں تو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا) کہ مولوی صاحب! مَیں نے ایک کتاب بنام براہین احمدیہ مخالفین کے اعتراضات کے جواب میں لکھی ہے اور اس میں دس ہزار روپے کا چیلنج بھی دیا ہے جو آجکل طبع ہونے والا ہے۔ اگر آپ یہاں ٹھہر جائیں اور طباعت کے لئے اس کے پروف دیکھ لیا کریں تو بہت اچھا ہو، اس کا حق الخدمت بھی آپ کو دیا جائے گا۔ (جو بھی اجرت بنتی ہے) یہ مولوی عبدالعزیز صاحب اپنے والد صاحب کے متعلق لکھتے ہیں کہ افسوس کہ آپ نے اُسے تسلیم نہ کیا اور خالی واپس چلے گئے اور اسی انکار پر قریباً پندرہ سولہ برس گزر گئے۔ مگر (تسلیم نہ کیا۔ لیکن ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ) آپ کی فطرت میں بہرحال ایک نیکی تھی۔ کہتے ہیں کہ سعادت بھی تھی فطرت میں اور نیکی بھی تھی۔ جب کوئی شخص حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو گالی دیتا یا توہین سے یاد کرتا تھا تو آپ اُسے روکتے اور فرماتے کہ خدا تعالیٰ نے تو کفار کے بتوں کو بھی گالی دینے سے منع کیا ہے۔ پس یہی یا بعض اور خوبیاں تھیں جو آپ کے وجود میں تھیں اور آپ کی ہدایت کا موجب ہوئیں۔

(خطبہ جمعہ 19؍اکتوبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

احکام خداوندی (قسط نمبر 25)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 جنوری 2022