• 16 مئی, 2024

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک و شہر (قسط 16)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
بابت مختلف ممالک و شہر
قسط16

ارشادات برائے پنجاب

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
دَآبَّةُ الْاَرْضِ کے دو معنے ہیں۔ ایک تو وہ علماء جن کو آسمان سے حصہ نہیں ملا۔ وہ زمین کے کیڑے ہیں۔ دوسرے دَآبَّةُ الْاَرْضِ سے مراد طاعون ہے۔ دَآبَّةُ الْاَرْضِ تَاْ کُلُ مِنْسَاَ تَہٗ (سبا: 15) قرآن شریف سے یہ بھی ثابت ہے کہ جب تک انسان میں روحانیت پیدا نہ ہو یہ زمین کا کیڑا ہے اور طاعون کی نسبت بھی سب نبیوں نے پیشگوئی کی تھی مسیح کے وقت پھیلے گی۔ تُکَلِّمُھُمْ، تکلیم کا ٹنے کو بھی کہتے ہیں۔ اور خود قرآن شریف نے ہی فیصلہ کر دیا ہے۔ اس سے آگے لکھ دیا ہے کہ وہ اس لیے لوگوں کو کھائے گی کہ ہمارے مامور پر ایمان نہیں لائے۔

یہ غور کر نے کے مقام ہیں۔ اب زمانہ قریب آ گیا ہے اور لوگ سمجھ لیں گے۔ طاعون بڑا بھاری کتب مقدسہ اور احادیث میں مسیح موعود کا نشان ہے۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بھی ہوئی تھی۔ خدا تعالیٰ نے مجھے جو کچھ طاعون کی نسبت فرمایا ہے۔ اسے میں نے مفصل لکھ دیا ہے۔ یہ میرانشان ہے۔ جس قدر اس کا تعلق پنجاب سے ہے دوسرے حصہ ملک سے نہیں ہے۔ یہ اس لیے کہ اصل جڑ اس کی پنجاب میں مخفی ہے۔ سہارنپور وغیرہ میں جو لوگ اس سلسلہ کو بری نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ پنجاب کی طرف سے تکفیر کافتویٰ تیار ہوا ہے اور پنجاب والوں نے پیش دستی کی ہے اور تہمتیں لگا کر بدنام کیا ہے۔ مگر اب جو یہ بلا آئی ہے۔ سوچ کر دیکھو تو دشمن اسی طریق سے مانے گا۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تو یہ خیال کرتے ہو کہ وہ زمین میں دفن ہوئے اور حضرت عیسیٰ کی نسبت یہ عقیدہ کہ وہ زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں اور پھر یہ کہ مسیح مردے زندہ کرتے تھے اور وہ خالق تھے انہوں نے پرندے بنائے یہاں تک کہ لاکھوں کروڑوں پرندے اب بھی موجود ہیں۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ248 ایڈیشن 2016ء)

ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب ٹیکہ بھی علاج نہیں اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ حفاظت ہے تو پھر مرہم عیسیٰ اور جدوار کا استعمال کیوں بتلایا ہے۔

حضرت صاحب نے فرمایا کہ:۔
جو علاج اللہ تعالیٰ بتلاوے وہ تو اسی حفاظت میں داخل ہے کہ اس نے خود ایک طریق حفاظت بھی ساتھ بتلا دیا اور انشراح صدر سے ہم اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ٹیکہ میں خیر ہوتی تو ہم کو اس کا حکم کیا جاتا اور پھر دیکھتے کہ سب سے اول ہم ہی کرواتے اگر خدا تعالیٰ آج ہی بتلا دیوے کہ فلاں علاج ہے یا فلاں دوا مفید ہے تو کیا ہم اسے استعمال نہ کریں گے؟ وہ تو نشان ہو گا۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم خود کس قدر متوکل تھے مگر ہمیشہ لوگوں کو دوائیں بتلاتے تھے اگر ہم عوام الناس کی طرح ٹیکہ کراویں تو خدا پر ایمان نہ ہوا۔ پہلے یہ تو فیصلہ کیا جاوے کہ آیا ہم نے 22 برس پہلے طاعون کی اطلاع دی کہ جس وقت طاعون کا نام و نشان نہ تھا اور پھر ہر 5 برس کے بعد اس کے متعلق ضرور کوئی نہ کوئی خبر دی جاتی رہی ہے پھر پنجاب کے متعلق خبر دی حالانکہ اس وقت کوئی مقام اس میں مبتلا نہ تھا۔ پھر ایک دم پنجاب کے 23 ضلعوں میں پھیل گئی۔ وہ تمام کتابیں جن میں یہ بیان ہیں خود گورنمنٹ کے پاس موجود ہیں۔ اگر ٹیکہ میں کوئی خیر ہوتی تو خدا خود ہمیں بتلاتا اور ہم اس وقت سب سے پہلے ٹیکہ لگوانے میں اول ہوتے مگر جب کہ گورنمنٹ نے اختیار دیا ہے تو یہ اختیار گو یا خدا ہی نے ہمیں دیا ہے کہ جبراٹھوادیا۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ262 ایڈیشن 2016ء)

پھر حضرت اقدسؑ نے نواب محمد علی خان صاحب سے طاعون کا حال مالیر کوٹلہ کی طرف دریافت فرمایا۔ نواب صاحب نے جواب دیا کہ کچھ شروع ہے مگرکم۔ اب کے دفعہ رپورٹ سے معلوم ہو ا ہے کہ گذشتہ ہفتہ کی نسبت سے اس ہفتہ کل ہندوستان میں تو کم ہے مگر خاص پنجاب میں بہت ترقی پر ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ
’’پنجاب ہی بگڑا ہوا ہے کوئی اس کا سر تو دریافت کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ258 ایڈیشن 2016ء)

ظہر سے پہلے لو دھیانہ سے آئے ہوئے احباب نے شرف نیاز حاصل کیا۔ قاضی خواجہ علی صاحب نے مولوی محمد حسین صاحب کی ملا قات کا ذکر کیا کہ میں نے ان کو کہا تھا کہ قادیان چلو۔

فرمایا:۔ اگر وہ یہاں آ جاوے تو اس کو اصل حالات معلوم ہوں اور ہماری جماعت کی ترقی کا پتہ لگے وہ ابھی تک تین سو تک ہی کہتا ہے اور یہاں اب ڈیڑھ لاکھ سے بھی تعداد زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اگر شبہ ہو تو گورنمنٹ کے حضور درخواست کرکے ہماری جماعت کی الگ مردم شماری کرالیں۔ براہین احمدیہ میں جو لکھا تھا کہ اِذَا جَآءَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ۔ وَانْتَهٰى اَمْرُ الزَّمَانِ اِلَیْنَا۔ اَلَيْسَ هٰذَا بِالْحِقِّ۔ اب دیکھیں کہ وہ وقت آیا ہے یا نہیں۔ گورنمنٹ پنجاب کی خدمت میں جومیموریل ستمبر1899ء میں بھیجا گیا تھا۔ اس میں صاف اس امر کی پیشگوئی ہے کہ یہ جماعت تین سال میں ایک لاکھ ہو جائے گی اور وہ پوری ہوگئی۔ بہت سے لوگ ایسے ضعفاء وغرباء میں سے ہیں جو اس سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں مگرآ نہیں سکتے۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ22 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
مت خیال کرو کہ ہمارا ملک یا شہر یا گاؤں ابھی تک محفوظ ہے۔ یہ کل دنیا کے لئے مامور ہوکر آئی ہے اور اپنے اپنے وقت پر ہر جگہ پھرے گی۔ اس کے دور ے بڑے لمبے ہوتے ہیں۔ بعض وقت لوگ ان وجوہات کو نہیں سمجھ سکتے۔ لیکن یاد رکھو کہ جو کچھ ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ کے علم اور ایماء سے ہورہا ہے۔ اب اس کے وجوہ موٹے ہیں۔ بائیس برس پہلے خدانے براہین میں مجھے اس کی خبر دی اور پھر متواتر وقتاً فوقتاً و ہ اطلاع دیتا رہا۔ یہاں تک کہ جب ابھی پنجاب کے دوضلعوں میں تھی تو اس نے مجھے بتایا کہ کل پنجاب اس کے اثر سے متاثر ہو جائے گا۔ اس وقت لوگوں نے اس پر ہنسی کی۔ مگر اب بتائیں کہ ان کی ہنسی کا کیا جواب ہوا؟ اجنبی لوگ اگر نہ مانیں تو نہ سہی مگر ہماری جماعت جو دن رات نشانات کو دیکھتی ہے اسے چاہیے کہ اپنی تبد یلی کرے۔ جو شخص امن کے زمانہ میں خدا سے ڈرتا ہے وہ بچا یا جا تا ہے۔ ڈرنے والے زمانہ میں تو ہر ایک ڈرتا ہے جب سونٹا اٹھایا جاوے تو اس سے بھیڑ، بکری، کتا، بلی سب ڈرتے ہیں۔ انسان کی اس میں کونسی خوبی ہے۔ یہ تو اس حالت میں ان سے جا ملا۔ ورنہ اس کی دانشمندی اور دور بینی کا یہ تقاضا ہونا چاہیے تھا کہ پہلے ہی سے ڈرتا۔ بعض گاؤں میں سخت تباہی ہو چکی ہے یہاں تک کہ گھروں کے گھر مقفل ہو گئے۔ جب زور سے پڑتی ہے تو پھر کھا جانے والی آگ کی طرح ہوتی ہے۔ ایک بار بلا دشام میں پڑی تھی تو جانوروں تک کی صفائی اس نے کر دی تھی۔ یہ بڑی خطر ناک بلا ہے۔ اس سے بے خوف ہونا نادانی ہے۔ حقیقی ایمان ایک موت ہے۔ جب تک انسان اس موت کو اختیار نہ کرے۔ دوسری زندگی مل نہیں سکتی۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ24-25 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
پھر آریوں کے مقابل میں ایک نشان مجھے دیا گیا جولیکھرام کے متعلق تھا وہ اسلام کا دشمن تھا اور گندی گالیاں دیا کرتا اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتا تھا۔ یہاں قادیان آیا اور اس نے مجھ سے نشان مانگا میں نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی۔ چنانچہ میں نے اس کو شائع کر دیا اور یہ کوئی مخفی بات نہیں کل ہندوستان اس کو جانتا ہے کہ جس طرح قبل از وقت اس کی موت کا نقشہ کھینچ کر دکھایا گیا تھا اسی طرح وہ پورا ہو گیا۔ اس کے علاوہ اور بہت سے نشانات ہیں جو ہم نے اپنی کتابوں میں درج کیے ہیں اور اس پر بھی ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا خدا تھکنے والا خدا نہیں وہ تکذیب کرنے والوں کے لیے ہر وقت طیارہے میں نے پنجاب کے مولویوں اور پادریوں کو ایسی دعوت کی ہے کہ وہ میرے مقابل میں آ کر ان نشانات کو جو ہم پیش کرتے ہیں فیصلہ کر لیں۔ اگر ان کو نہ مانیں تو دعا کر سکتا ہوں اور اپنے خدا پر یقین رکھتا ہوں کہ اور نشان ظاہر کر دے گا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ وہ صدق نیت سے اس طرف نہیں آتے بلکہ لیکھر امی حملے کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کسی کی حکومت کے نیچے نہیں ہے۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ208 ایڈیشن 2016ء)

ایک سوال پر فرمایا کہ:۔
خداکے پاک کلام قرآن کو ناپاک باتوں سے ملا کر پڑھنا بے ادبی ہے وہ تو صرف روٹیوں کی غرض سے ملاں لوگ پڑھتے ہیں اس ملک کے لوگ ختم وغیرہ دیتے ہیں تو ملاں لوگ لمبی لمبی سورتیں پڑھتے ہیں کہ شور با اور روٹی زیادہ ملے۔ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً (البقرة: 42) یہ کفر ہے۔ جوطریق آج کل پنجاب میں نماز کا ہے میرے نزدیک ہمیشہ سے اس پربھی اعتراض ہے۔ ملاں لوگ صرف مقررہ آدمیوں پر نظر کر کے جماعت کراتے ہیں ایسا امام شرعا ًناجائز ہے۔ صحابہؓ میں کہیں نظیر نہیں ہے کہ اس طرح اجرت پر امامت کرائی ہو۔ پھر اگر کسی کو مسجد سے نکالا جاوے تو چیف کورٹ تک مقدمہ چلتا ہے۔ یہانتک کہ ایک دفعہ ایک ملاں نے نماز جنازہ کی 6 یا 7 تکبیریں کہیں۔ لوگوں نے پوچھا تو جواب دیا کہ یہ کام روز مرہ کے محاورہ سے یاد رہتا ہے کبھی سال میں ایک آدمی مرتا ہے تو کیسے یادر ہے جب مجھے یہ بات بھول جاتی ہے کہ کوئی مرا بھی کرتا ہے تو اس وقت کوئی میت ہوتی ہے۔

اسی طرح ایک ملا یہاں آ کر رہا۔ ہمارے میرزاصاحب نے اسے محلے تقسیم کر دیئے ایک دن وہ روتا ہوا آیا کہ مجھے جومحلہ دیا ہے۔ اس کے آدمیوں کے قد چھوٹے ہیں اس لیے ان کے مرنے پر جو کپڑا ملے گا اس سے چادر بھی نہ بنے گی۔

اس وقت ان لوگوں کی حالت بہت ردی ہے صوفی لکھتے ہیں کہ مرد ہ کا مال کھانے سے دل سخت ہوجاتا ہے۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ304 ایڈیشن 2016ء)

اِنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اِلَّا نَحۡنُ مُہۡلِکُوۡہَا قَبۡلَ یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ اَوۡ مُعَذِّبُوۡہَا عَذَابًا شَدِیۡدًا (بنی اسرآء یل: 59) کوئی ایسا گاؤں نہیں مگر روز قیامت سے پہلے پہلے ہم اس کو ہلاک کر کے رہیں گے یا اس کوسخت عذاب دیویں گے قرآن میں یہ ایک پیشگوئی ہے۔

فرمایا کہ :۔ یہ اب پنجاب پر بالکل صادق آ رہی ہے بعض گاؤں تو اس سے بالکل تباہ ہو گئے ہیں اور بعض جگہ بطور عذاب کے طاعون جا کر پھر ان کو چھوڑ دیتی ہے۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ142 ایڈیشن 2016ء)

خوف الہٰی اور تقوی بڑی برکت والی شے ہے انسان میں اگرعقل نہ ہومگر یہ باتیں ہوں تو خدا اسے اپنے پاس سے برکت دیتا ہے اور عقل بھی دے دیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے يَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجاً (الطلاق: 3) اس کے یہی معنے ہیں کہ جس شے کی ضرورت اسے ہوگی اس کے لیے وہ خود راه پیدا کر دے گا بشرطیکہ انسان متقی ہو لیکن اگر تقوی ٰ نہ ہوگا تو خواه فلاسفر ہی ہو وہ آخر کار تباہ ہوگا۔ دیکھو کہ اسی ہندوستان پنجاب میں کس قدر عالم تھے مگر ان کے دلوں میں اور زبانوں میں تقویٰ نہ رہا۔ محمد حسین کی حالت دیکھو کہ کیسی گندی اور فحش باتیں اپنے رسالہ اشاعتہ السنہ میں لکھتا رہا۔ اگر تقویٰ ہوتی تو وہ کب ایسی باتیں لکھ سکتا تھا۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ306 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
پنجاب کی سر زمین نرم ہے۔ ان لوگوں میں وہ شو ر اور شرارت نہیں ہے۔ جو ہندوستانیوں میں ہے۔ ہندوستانیوں نے غدر کر دیا تھا مگر پنجابی گورنمنٹ کے سا تھ تھے۔ ہمارے مرزا صاحب نے بھی پچاس گھوڑے اس وقت مدد کے لئے گورنمنٹ کو دیئے تھے۔

پنجابیوں نے جس قدر مجھے قبول کیا ہے۔ ہندوستان کو ابھی اس سے کچھ نسبت ہی نہیں۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ154 ایڈیشن 1984ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اس کے با لمقابل پنجاب میں بڑی سعادت ہے۔ ہزارہا لوگ سلسلہ حقہ میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پنجاب کی زمین بہت نرم ہے اوراس میں خدا پرستی ہے۔ طعن و تشنیع کو برداشت کرتے ہیں مگر یہ لوگ بہت سخت ہیں جس سے اندیشہ ایسے عذاب الہٰی کا ہے جو پہلے ہوتا رہا ہے کیونکہ جب کوئی مامور من اللہ اور ولی اللہ آتا ہے اور لوگ اس کے درپئے ایذا اور توہین ہوتے ہیں تو عادت اللہ اسی طرح واقع ہے کہ بعد اس کے ایسے شہر اور ملک پر جو سرکش اور بے ادب ہوتا ہےضرور تباہی آتی ہے۔ پنجاب میں اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے۔ وہ لوگ خداتعالیٰ کا خوف رکھتے ہیں اور خداتعالےٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اس کثرت سے پنجابیوں کا ہماری طرف رجوع ہورہا ہے کہ بعض اوقات ان کو ہماری مجالس میں کھڑا ہونے کی جگہ نہیں ملتی۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ168-169 ایڈیشن 1984ء)

(جاری ہے)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

احکام خداوندی (قسط نمبر 25)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 جنوری 2022