سب چھوڑ کے اک دن جانا ہے
پھر دنیا میں کب آنا ہے؟
یہ ریت سدا سے جاری ہے
ہر زندہ نے مر جانا ہے
ماں باپ، عزیز اور دوست سبھی
سب فانی ہی یہ خزانہ ہے
اعمال ترے سب گندے ہیں
کیا رب کو منہ دِکھانا ہے؟
جو مال کمایا ہے تو نے
سب دنیا میں رہ جانا ہے
اب چھوڑ غلامی دنیا کی
کر توبہ، رب کو منانا ہے
اک بار جو دنیا چھوڑ گیا
کب لوٹ کے اس نے آنا ہے؟
دو چار دنوں کا میلہ ہے
پھر قبروں میں ہی ٹھکانہ ہے
ہر چیز یہاں کی فانی ہے
نام اللہ کا رہ جانا ہے
وہ ہستی قائم دائم ہے
بس دل کو یہ سمجھانا ہے
جو رب سے کچھ بھی ربط نہیں
تو جیون یونہی گنوانا ہے
(چوہدری بشارت احمد۔ جرمنی)