• 5 مئی, 2024

موبائل فون ایک سہولت یا وبال جان (قسط اول)

موبائل فون ایک سہولت یا وبال جان
قسط اول

آج کے سائنس، انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے دور میں انسان نے دماغ کو استعمال میں لاکر اپنی سہولت اور آسائش کی خاطر ایسی ایجادات کرلی ہیں کہ ایک بٹن دبانے سے یہ تمام سہولتیں ایک باندی کی طرح ہاتھ باندھ کر انسان کے سامنے آکھڑی ہوتی ہیں۔ جہاں ان سہولتوں نے انسان کے لئے زندگی کا سفر آسان کردیا ہے وہاں ان کے غلط، بے جا اور ضرورت سے زیادہ استعمال نے انسان کی جسمانی اور روحانی صحت جیسے اخلاقیات پر تبر کا کام کیا ہے۔

ہم مثال کے طور پر الیکٹرانک مصنوعات کو پیش کرسکتے ہیں۔جن کی ایجاد سے انسان کو بے پناہ سہولتیں ملی ہیں مگر وہ انسان کی مادی صحت کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور روحانیت کو تباہ کررہی ہیں۔ان میں سے ایک موبائل فون ہے۔ جس کی ایجاد نے پوری دنیا کو ‘‘گلوبل ولیج’’ بنا دیا ہے۔آپ اپنے کمرے میں بیٹھے پوری دنیا میں جہاں چاہیں جب چاہیں جس سے چاہیں فوراً اپنے عزیزو اقارب سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ دوسروں کی خیریت اور حال احوال دریافت کرسکتے ہیں اور اپنی خیریت سے مطلع بھی کرسکتے ہیں۔

اس مادی آرام اور سہولت کے ساتھ ساتھ اس ایجاد نے انسان کی ذہنی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے اور بسا اوقات انسان اپنے موبائل سیٹ میں یااُ س کے فنکشنز میں اس قدر گم ہوتا ہے کہ ساتھ بیٹھے آدمی کو وقت بھی نہیں دے پارہا ہوتا۔

ایک وقت تھا کہ گھروں اور دفاتر میں لینڈ لائن فون بھی خال خال تھا۔ لینڈ لائن نمبر کا کنکشن لینے کے لئے بڑی تگ و دو کرنا پڑتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کی ضرورت بڑھنے لگی تو دکانوں اور کاروباری سنٹرز پر بھی فون لگنے شروع ہوئے۔ پھر کارڈ لیس فون آیا اور اب یہ ضرورت گھروں اور دفاتر سے نکل کر لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے اور گھر کے ہر فرد کے پاس ایک موبائل فون سیٹ ہے اور کہا یہ جانے لگاہے کہ آج کل کے بے سکون حالات میں جب ہر وقت، ہر جگہ دہشت گردی،لوٹ کھسوٹ،قتل و غارت اور اغوا برائے تاوان کا بازار گرم ہے۔ ہمارا اپنے بچوں سے اس کے ذریعہ رابطہ رہتا ہےاور یہ ایک جائز وجہ بھی ہے۔

میں نے اسلام آباد پاکستان میں قیام کے دوران یہ جائزہ لیا تھاکہ اس کا استعمال اس کثرت سے بڑھ گیا ہے کہ اب تو خاکروب، چھابڑی لگانے والے، گوشت بیچنے والے اور موچی کے ہاتھوں میں بھی موبائل نظر آتے ہیں جسے وہ اپنے کاروبار کے لئے استعمال کرتے ہیں۔اسلام آباد قیام کے دوران ایک دفعہ خاکسار نے ایسے ہی چند کاروباری حضرات سے موبائل فون اپنے پاس رکھنے کی وجہ پوچھتے ہوئے سوال کیا کہ اس قدر کم آمدنی میں اورمہنگائی کے دور میں آپ کو کیا موبائل فون کے اخراجات وارے میں آجاتے ہیں؟ تو قصائی نے جواباً کہا کہ یہاں دکان پر سارا دن بیٹھ کر ایک پاؤ،آدھ کلو گوشت فروخت کرتے ہوئے رات 9 بج جاتے تھے اور اب موبائل فون پر گھروں سے آرڈر آتے ہیں اور ہم دوپہر12 بجے کے لگ بھگ گوشت فروخت کرکے فارغ ہو چکے ہوتے ہیں اور شام کا کاروبار الگ ہے۔

ایک موچی یوں گویا ہوا کہ بھئی! امیر گھروں کی بیبیاں فون کرکے گھروں میں بلوا لیتی ہیں اور جبکہ یہاں اپنے ٹھیلہ پر بیٹھ کر دو دو چار چار روپے کماتے ہیں اوروہاں سے سو ڈیڑھ سو روپے مل جاتے ہیں۔چھابڑی لگانے والے نے بھی کچھ ایسا ہی جواب دیا کہ گھروں سے بیبیاں فون کرکے بلوا لیتی ہیں اور اپنی مرضی کی سبزیاں خرید لیتی ہیں اور خاکروب نے کہا کہ موبائل فون آنے پر ہم امیر گھرانوں میں جاکر جھاڑو لگاآتے ہیں اور یوں ہماری آمدنی میں اضافہ ہوا ہے اس لئے موبائل فونز کے اخراجات برداشت کرلیتے ہیں۔

الغرض یہ جہاں ضرورت بجا ہے وہاں ہم لوگوں نے اس کو عادت بھی بنا لیا ہےاور یہ ہمارے لوگوں میں اتنا رچ بس گیا ہے کہ جب بھی ہم گھر سے باہر جانے لگتے ہیں تو جس طرح مرد حضرات اپنے Wallets کو ساتھ رکھنا ضروری سمجھتے ہیں وہاں موبائل فون پر فوراً ہاتھ پڑتا ہے۔خواتین باہر جانے کے لئے اپنے پرس کو جب پکڑتی ہیں تو فوراً موبائل کی طرف بھی دھیان جاتا ہے۔اسی طرح طالب علم جب اسکول یا کالج جانے کے لئے کتب و کاپیاں اکٹھی کررہا ہوتا ہے تو اپنے موبائل فون سیٹ کو بھی اپنی کتب کا حصہ سمجھتے ہوئے پہلے ان کو ساتھ رکھتا ہے۔ حتی ٰکہ انسان اور موبائل کا ایک ایسا رشتہ قائم ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے جب وضو کرکے ٹوپی کو پکڑتا ہے تو ساتھ ہی موبائل کو جیب میں ڈالتا ہے اور بسا اوقات اُسے Silent کرنا بھی بھول جاتا ہےاور نماز کے دوران ہی جب وہ اس دنیا سے منقطع ہو کر اپنے خالق حقیقی کے دربار میں پہنچا ہوتا ہے موبائل بول اٹھتا ہے اور اگر نماز باجماعت ادا ہورہی ہو تو اپنی نماز کے علاوہ دیگر نمازیوں کی نماز میں بھی خلل واقع ہوتا ہے۔ جبکہ ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقعہ پر نوجوانوں کو توجہ دلائی تھی کہ بیوت الذکر میں آتے وقت اپنے موبائل فون گھر چھوڑ کر آیا کریں۔

ایک اور موقعہ پر فرمایا کہ:
’’نمازوں کے دوران اپنے موبائل فون بند رکھیں۔ بعضوں کو عادت ہوتی ہے کہ فون لے کر نمازوں پر آجاتے ہیں اور پھر جب گھنٹیاں بجنا شروع ہوتی ہیں تو بالکل توجہ بٹ جاتی ہے نماز سے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد1 صفحہ195)

پھر ایک دفعہ فرمایا:
’’بعض لوگوں کو موبائل فون بڑے اہم ہوتے ہیں۔ (اس وقت بھی شاید کسی کا فون بج رہا ہے) اگر اتنے اہم فون آنے کا خیال ہو تو پھر وہ فون رکھیں جو اچھی قسم کے ہیں جن کی آواز کم کی جاسکتی ہے۔جیب میں رکھیں اس کی وائبریشن (Vibration) سے آپ کو احساس ہو جائے کہ فون آیا ہے اور باہر جاکر سن لیں۔ کم از کم لوگوں کو نمازوں کے دوران، جلسوں کے دوران اور تقریروں کے دوران ڈسڑب نہ کیا کریں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد2 صفحہ541)

مادی و جسمانی نقصانات

اب میں اس کے نقصانات کی طرف آتا ہوں اور پہلے جسمانی صحت کے حوالہ سے جو نقصان ہیں ان کا ذکر کروں گا۔ اخبارات، رسائل اور جرائد کا اگر مطالعہ کریں تو دو قسم کے متضاد مضامین آپ کو ملیں گے۔ ایک میں یہ درج ہوگا کہ نئی تحقیق کے مطابق اس کے زیادہ استعمال سے اس کی ریڈیائی شعاعیں کانوں پر بداثرات ڈالتی ہیں۔ دل کے مریضوں کے لئے اس کا زیادہ استعمال مناسب نہیں وغیرہ وغیرہ۔

ان کے مقابل پر آپ کو ایسی خبریں اور مضامین اور آرٹیکلز بھی نظروں سے گزریں گے جن میں یہ لکھا ہوگا کہ نئی تحقیق کے مطابق موبائل فون کا زیادہ استعمال دماغی کینسر کی وجہ نہیں بنتا، کانوں کی سماعت متاثر نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ۔

آج کل چونکہ میڈیا کا دور ہے۔ہر فرد کا تازہ سے تازہ خبروں سے لنک رہتا ہے اس لئے وہ بالخصوص نوجوان طبقہ Confuse ہوجاتا ہے اور گھر کے بڑے جب نوجوانوں سے موبائل فون کے نقصانات کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو وہ فوراً ایسی خبریں اپنے بڑوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں جو نقصان نہ پہنچانے کے متعلق ہوتی ہیں۔ حالانکہ یہ بالعموم دیکھا گیا ہے کہ تھرڈ ورلڈ کے ممالک میں نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے اور اپنی Sale بڑھانے کے لئے ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسے اشتہارات یا خبریں اخبارات میں لگواتی رہتی ہیں۔اگر حقائق کو سامنے رکھ کر نقصانات اور فوائد کا جائز ہ لیا جائے تو موبائل فون کے نقصانات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ان نقصانات کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ موبائل فون سے جو شعاعیں (Rays) اور لہریں (Waves) نکلتی ہیں وہ وہی شعاعیں ہیں جو مائیکرو ویو میں کھانا گرم کرتے وقت نکلتی ہیں اور یہ بات ثابت شدہ امر ہے کہ مائیکروویو کی شعاعوں کی وجہ سے اس برتن کو اس کی گرمائی کی وجہ سے ہاتھ نہیں لگتا جس میں کھانا گرم کیا جاتا ہے۔ بعینہٖ موبائل فون سے نکلنے والی شعاعیں جسم کی حسیات کے درجہ حرارت کو بڑھا دیتی ہیں۔انسان کے سر میں گرمی کے اثرات بڑھ جاتے ہیں اور اس کے ساتھ خون کا دباؤ بھی بڑھنے لگتاہے۔ چونکہ انسان کے سر کے بعض حصے باقی حصوں سے زیادہ حساس ہوتے ہیں اس لئے درجہ حرارت کے بڑھنے سے وہ زیادہ متاثر ہوتے ہیں جیسے Nerve Fiber وغیرہ۔ ایک تحقیق کے مطابق پانچ منٹ سے زائد لگاتار فون استعمال کرنے سے انسانی خلیوں میں درجہ حرارت اتنا بڑھ جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے سر درد،متلی،بے قاعدگی،ذہنی تناؤ،دل کا دھڑکنا، نظام انہضام کی خرابی کے ساتھ ساتھ یادداشت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔نیزسر کی جلد پر جلن یا خارش بھی محسوس ہوتی ہے الغرض ذہنی دباؤ بڑھ جاتا ہے اور مختلف عوارض جنم لیتے ہیں۔

موبائل فون اتنا عام ہوگیا ہے کہ گاڑی ڈرائیو کرتے وقت بھی لوگ بے دریغ اس کا استعمال کرتے ہیں جبکہ ڈرائیونگ میں اس کا استعمال خطرے سے باہر نہیں۔ایک سروے کے مطابق شراب پی کر ڈرائیو کرنے والوں اور ویڈیو کی سیٹنگ اور کیسٹ چلانے کی نسبت موبائل فون کے ساتھ ڈرائیونگ کرنے میں حادثے کی شرح چار فیصد تک زیادہ ہے اور پھر موبائل فون کے استعمال کے ساتھ ساتھ راستہ کا بھول جانا اور Exit کا بھول جانا تو عام ہےکیونکہ اس سے ڈرائیونگ سے توجہ ہٹ جاتی ہےاور دوسرا یہ کہ گاڑی کے اندر مائیکرو ویو شعاعیں بھی اکٹھی ہوجاتی ہیں جو عام حالات میں صحت کو زیادہ متاثر کرتی ہیں۔اکثر ممالک میں موبائل کو ڈرائیونگ کے دوران غیرقانونی قرار دیا گیا ہے۔پھر بعض لوگ اپنے موبائل سیٹ کو سامنے والی جیب میں رکھتے ہیں جس کی وجہ سے یہ شعاعیں براہ راست دل پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ایسے لوگوں کی اموات کی شرح بھی زیادہ ہے۔

قوت سماعت کا متاثر ہونا

موبائل فون سے نکلنے والی تیز شعاعیں جہاں جسم کے دوسرے حصوں پر اثر انداز ہورہی ہوتی ہیں وہاں حس سماعت بھی متاثر ہوتی ہے۔جو لوگ موسیقی کو جنون کی حد تک پسند کرتے ہیں یا واک مین کے ذریعہ موسیقی کثرت سے سنتے ہیں ان کی حس سماعت متاثر ہونے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں ایسے افراد جن کا ٹاک ٹائم کم ہووہ ان بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ موبائل کی شعاعیں موبائل کی ساخت پر منحصر ہیں موبائل جتنے زیادہ فنکشنز والا یا پیچیدہ ساخت کا ہوگا اتنی ہی زیادہ شعاعیں اس میں سے خارج ہوں گی۔ کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں کا موبائل فون پر گفتگو کا دورانیہ دن بھر میں آٹھ گھنٹوں سے زائد ہو وہ جلد ہی اس کے مضر اثرات کا شکار ہونے لگتے ہیں اور موبائل فون کے سبب سے ہونے والے سرطان کی شرح پانچ فیصدسے زائد ہے۔ برطانوی ریسرچ کے مطابق 10 سال تک انسان کے قویٰ فون کا کثرت سے استعمال برداشت کرجاتے ہیں مگر اس کے بعد فون کا دیر تک استعمال بیماری کے خطرے کو بڑھا دیتا ہےاور بہرہ پن کے اثرات ظاہر ہونے شروع ہوجاتے ہیں یا ایک کان میں شور سنائی دینے لگتا ہے۔

دماغ کا سرطان

یہ اوپر لکھا جا چکا ہے کہ اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ موبائل فون کی شعاعیں انسانی خلیوں کو نقصان پہنچا تی ہیں اور چونکہ دماغ کا کچھ حصہ موبائل فون کی مائیکرو ویو شعاعوں کے براہ راست سامنے ہوتا ہے اس لئے اس حصہ کے متاثر ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔سویڈش ریسرچرز نے اس امر کا تجربہ چوہوں پر کیا ہے اور دو گھنٹے تک ان کو جب مائیکرو ویوشعاعوں میں رکھا گیاتوان کے دماغ کے ان خلیوں میں توڑ پھوڑ کا عمل دیکھا گیا جو یادداشت سیکھنے کے عمل اور نقل وحرکت سے تعلق رکھتے ہیں۔

ابھی اس پر تحقیق کا سلسلہ جاری ہے اور بہت سے خطرات جو ان شعاعوں کی وجہ سے دماغ کے اس حصہ کو ہو سکتے ہیں۔ جو کا ن کے قریب ترین ہیں سامنے آسکتے ہیں۔ یہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ بعض کمپنیاں اپنے صارفین کو آفر کرتی ہیں کہ اتنے کا کارڈ خریدو اور اتنے منٹ فری اور ان فری منٹوں کو بے دریغ خرچ کیا جاتا ہے۔ مبادا یہ ضائع چلے جائیں اوریہ زائدمنٹ جو صحت کی بربادی کے سامان پیدا کردیتے ہیں اس سے آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں۔

بلڈ پریشر کابڑھ جانا

ایک تحقیق کے مطابق موبائل فون کے استعمال سے بلڈپریشر کا بھی بڑھ جانے کا احتمال رہتا ہے اور اگر آدھ گھنٹہ سے زائد موبائل فون کا استعمال کیا جائے تو الیکٹرو میگنیٹنگ فیلڈ موبائل فون سے پیدا ہوتی ہیں جس کی وجہ سے بلڈپریشر میں اضافہ ہوجاتا ہےاور یہ اضافہ کسی شخص کو سڑوک یا دل کے حملے کے لئے بھی کافی ہوتا ہے۔

بلڈ پریشر کے بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ موبائل کی موجودگی میں انسان کو سکون میسر نہیں۔ باوجود اکیلا اور تنہا ہونے کے کسی وقت اس کے سیٹ سے آواز آنے لگے تو اسے اس کا جواب دینا پڑتا ہے چاہے رات ہی کا وقت کیوں نہ ہو اور یوں اس کی نیند پوری نہیں ہوپاتی اور یہ بے آرامی جسم میں تناؤ کا باعث بنتی ہے جو بلڈ پریشر کے بڑھنے پر منتج ہوتی ہے۔

انسانی صحت پر بُرے اثرات پیدا کرنے والا ایک بڑا عنصر ٹیلی کمیو نیکیشن کمپنیوں کی طرف سے لگائے جانے والے بیس سٹیشن ہیں جو شہری آبادی کے اندر لگائے جاتے ہیں اور اسکولز اور ہسپتالوں کی عمارتیں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ فرانس میں ایک سروے کے مطابق اس بیس اسٹیشن جس کو انٹینا یا ٹاورز کا نام دیا جاسکتا ہے سے 300 میٹر کے علاقے کے اندر اندرجو شہری آباد ہیں وہ ان ا نٹینا سے نکلنے والی شعاعوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور عموماً تھکاوٹ، سر درد، نیند کی بے قاعدگی اور یادداشت کی کمزوری اور بے چینی جیسے مسائل کی شکایت کرتے ہیں۔یہ تو اس ٹاورز کے اردگرد بسنے والوں کی کیفیت کا حال ہے اور جب تیز توانائی کی ریڈیو فریکونسی کی لہریں انسان موبائل فون کے ذریعہ اپنے جسم کے نازک حصوں کے پاس وصول کرتا ہے تو اُن پر بد اثرات کا اندازہ خود لگایا جاسکتا ہے۔

(باقی ہفتہ کو ان شاء اللّٰہ)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

جماعتی وفد تنزانیہ کی صدر مملکت تنزانیہ سے ملاقات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 جنوری 2023