• 29 اپریل, 2024

حضرت مولانا حافظ جمال احمدؓ

حضرت مولانا حافظ جمال احمدؓ مبلغ ماریشس

حضرت حافظ جمال احمد صاحبؓ جماعتی تاریخ میں مبلغ سلسلہ ماریشس کے حوالے سے معروف ہیں۔ آپ کا اصل وطن چکوال تھا۔ آپ کے والد حضرت حکیم غلام محی الدین صاحبؓ بھی پرانے صحابی تھے، ان کے بارے میں حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ اپنی کتاب ’’تاریخ احمدیت سرحد‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’حضرت حکیم غلام محی الدین صاحبؓ موضع چکوال کے باشندے تھے۔ حکمت ان کا پیشہ تھا۔ نوشہرہ میں اکثر متعین ہوتے اور سرکاری ملازم تھے۔ حضرت نور الدین رضی اللہ عنہ خلیفۃ المسیح الاول سے قدیمی تعلق تھا۔ اہل حدیث پشاور سے بھی میل جول تھا۔آپ حضرت احمد کے زمانہ میں 1901ء میں احمدی تھے۔ حضرت مولانا غلام حسن اور حضرت منشی خادم حسین صاحب کی صحبت میں حاضر ہوا کرتے۔ آپ صوفی منش انسان تھے، آپ کو بلھے شاہ کی کافیاں اور دِتے شاہیوں کے قصے اور حضرت سلطان باہو کی رباعیات یاد تھیں ….. حضرت حکیم غلام محی الدین صاحب میونسپل کمیٹی پشاور کی ملازمت سے سبکدوش ہوکر قادیان چلے گئے اور قادیان میں فوت ہوکر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے۔ آپ عندالوفات نوے برس کے ہوں گے۔‘‘

(تاریخ احمدیت سرحد مؤلفہ حضرت قاضی محمد یوسف فاروقی صفحہ169،170 مطبوعہ منظور عام پریس پشاور)

حضرت حکیم غلام محی الدین صاحبؓ بفضلہ تعالیٰ 3/1 حصہ کے موصی تھے، وصیت نمبر 576 تھا۔ یکم ستمبر 1912ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ رجسٹر بیعت اولیٰ میں ’’6؍اپریل 1890ء مولوی محی الدین ولد حافظ بہاء الدین ساکن موضع پھویر تحصیل چکوال تھانہ ڈومن ضلع جہلم حال بخدمت مولوی حکیم نور دین صاحب بارادہ استفادہ مطب‘‘ ایک بیعت درج ہے

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ352)

اغلباً یہ آپ ہی ہیں۔ حضرت حافظ صاحب کی والدہ کا نام محترمہ اللہ جوائی تھا۔

حضرت حافظ جمال احمد صاحبؓ اندازاً 1892ء میں پنڈ دادن خان ضلع جہلم میں پیدا ہوئے۔چھوٹی عمر میں ہی والدہ صاحبہ کی وفات ہوگئی اور رشتہ کی ایک بہن نے آپ کی پرورش کی۔ جب چھ سات برس کے ہوئے تو آپ کے والد صاحب نے اس چھوٹی سی عمر میں ہی ایک بزرگ کے پاس قرآن پڑھنے کو چھوڑ دیا، اس بزرگ کے بھی کوئی اولاد نہیں تھی چنانچہ انہوں نے بڑی محنت سے آپ کو قرآن پڑھایا اور آپ 13 برس کی عمر میں حافظ قرآن ہوگئے۔ اس کے بعد آپ کے والد صاحب نے آپ کو قادیان بھیج دیا۔

(الفضل 24؍فروری 1950ء صفحہ4)

1908ء میں حضرت اقدس علیہ السلام کے آخری سفر لاہور کے دوران حضرت اقدسؑ کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپ خود بیان کرتے ہیں:
’’میں اُس وقت قریباً 15برس کا تھا، جب حضور آخری ایام میں لاہور میں قیام فرما تھے۔ میں بھی اس موقعہ پر لاہور آیا اور مجھے حضور علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی اور میری آمد سے 15، 16 دن کے بعد حضور علیہ السلام کا وصال ہوگیا۔‘‘

(الفضل 19؍جون 1943ء صفحہ3)

حضرت اقدسؑ کی پاکیزہ صحبت میں رہنے کا موقع نہ پاسکے لہذا آپؑ کے متعلق آپ کی روایات نہیں ہیں البتہ بعض دوسرے صحابہ اور اپنی بیوی کی روایت کردہ بعض روایات آپ نے بیان کی ہوئی ہیں۔ 1912ء کے آغاز میں آپ کا نکاح حضرت حافظ سید تصور حسین صاحبؓ آف بریلی (وفات: 12؍اپریل 1927ء مدفون بہشتی مقبرہ قادیان) کی بیٹی حضرت عائشہ بانو صاحبہؓ کے ساتھ ہوا۔

(بدر 25؍جنوری 1912ء صفحہ2)

ان دنوں آپ دکان کرتے تھے۔ خلافت ثانیہ کے آغاز میں ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ کو تحریک فرمائی کہ آپ حافظ قرآن ہیں، اپنی زندگی دین کے لیے وقف کر دیں چنانچہ آپ نے فوراً تعمیل کرتے ہوئے اپنی زندگی وقف کر دی اور مدرسۃ المبلغین میں داخلہ لے لیا۔ آپ ماشاء اللہ نہایت لائق اور قابل ذہنیت کے مالک تھے، ابھی مبلغین کلاس میں ہی تھے کہ تقریر و تحریر میں پختگی پیدا کر لی تھی۔ زمانہ طالب علمی میں لکھے گئے آپ کے بعض مضامین جماعتی لٹریچر میں محفوظ ہیں، مثلًا: متعصب عیسائی اور اسلام

(ریویو آف ریلیجنز جون 1915ء حافظ جمال احمد متعلم مدرسۃ المبلغین قادیان)

اور حدیث و یفیض المال حتی لا یقبلہٗ أحد کی تشریح

(تشحیذ الاذہان اکتوبر نومبر 1915ء صفحہ33-35 حافظ جمال احمد مبلغین کلاس)

اسی دور میں ہی آپ نے اخبار الفضل میں ایک دوست کے سوالات کے جوابات میں ’’تصدیق المسیح‘‘ عنوان سے قسط وار مضامین لکھے جس میں وفات مسیح، رفع، نزول، ولٰکن شبہ لھم، قبل موتہٖ، انّہ لعلم للساعۃ وغیرہ عناوین پر اور پھر صداقت حضرت مسیح موعودؑ میں کسر صلیب، قتل خنزیر، یفیض المال، حکم و عدل، یضع الجزیہ، لا مھدی الّا عیسیٰ، حدیث کسوف و خسوف، یدفن معی فی قبری، ہر صدی میں مجدد، عند المنارۃ البیضاء، رجل من ابناء الفارس وغیرہ پر روشنی ڈالی ہے۔

(الفضل 8؍فروری 1916ء۔ الفضل 12؍فروری 1916ء۔ الفضل 15؍فروری 1916ء۔ الفضل 22؍فروری 1916ء۔ الفضل 29؍فروری 1916ء۔ الفضل 7؍مارچ 1916ء)

آخری قسط میں ایڈیٹر صاحب نے آخر پر یہ نوٹ بھی دیا ہے کہ ’’حافظ جمال احمد صاحب کا یہ جامع و مدلّل مضمون اس نمبر پر ختم ہوتا ہے۔ بعض احباب نے مجھے لکھا تھا کہ اسے الگ ٹریکٹ کی صورت میں شائع کیا جائے ….‘‘

(الفضل 7؍مارچ 1916ء صفحہ8)

الفضل 7؍مارچ 1916ء صفحہ1 پر ہی آپ کے مبلغین کلاس سے سند لینے کا ذکر موجود ہے۔مبلغین کلاس سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جلد ہی بطور مبلغ سلسلہ راولپنڈی بھجوائے گئے، اخبار الفضل ایک جگہ لکھتا ہے: ’’حافظ جمال احمد صاحب نہایت فہیم و ذہین اور علم دوست، سنجیدہ مزاج، مخلص محبّ ہیں۔ جب الفضل کے اسسٹنٹ کا سوال در پیش تھا تو میں نے ان کا نام پیش کیا تھا …. مگر خدا نے راولپنڈی کی سر زمین کو ان کے علمی مضامین سے متمتع کرنا تھا اس لیے وہ مبلغ کے طور پر وہاں بھجوائے گئے۔‘‘

(الفضل 6؍مئی 1916ء صفحہ7)

آپ مبلغ ڈویژن ملتان بھی رہے، اخبار فاروق 7؍مارچ 1918ء صفحہ2 پر پاکپتن میں آپ کی بلند آواز اور دلکش تقریر کا احوال مذکور ہے۔ اخبار الفضل 30؍اپریل 1918ء صفحہ8 پر دورہ کرتے ہوئے ملتان پہنچنے اور وفات مسیح پر گفتگو کرنے کا ذکر موجود ہے۔ ایک مرتبہ آپ نے موضع جودھالہ ضلع سیالکوٹ میں غیر احمدی علماء سے مباحثہ کیا۔

(الفضل 16؍ستمبر 1920ء)

میدان عمل میں تقریری خدمات سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ تحریری خدمات میں بھی حصہ لیتے رہے، مسئلہ وفات مسیح اور اخبار مشرق پر آپ کا مضمون تین قسطوں میں الفضل 6؍مارچ 1917ء صفحہ11، الفضل 17؍مارچ 1917ء، اور الفضل 24؍مارچ 1917ء میں شائع شدہ ہے۔ ایک مضمون کیا نبی کے لیے کتاب لانا ضروری ہے اخبار الفضل 6؍مئی 1916ء صفحہ7 پر درج ہے۔ اسی طرح ایک مضمون ماریشس سے ’’کامل نبی اور دنیا کا محسن‘‘ الفضل میں شائع کرایا۔

(الفضل 23؍ستمبر 1930ء صفحہ 5،6)

ایک دفعہ پردے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس ماریشس سے بھجوایا۔

(الفضل 4؍فروری 1950ء صفحہ 2)

قادیان میں بھی مختلف حوالوں سے خدمت کا موقع ملتا رہا، 1928ء میں آنے والے رمضان المبارک کے حوالے سے اخبار الفضل میں لکھا ہے: ’’مسجد اقصیٰ میں روزانہ ایک پارہ کا درس قرآن کریم ہوتا ہے، تلاوت اور لفظی معنے حافظ جمال احمد صاحب سناتے ہیں اور تفسیری نکات جناب حافظ روشن علی صاحب بیان فرماتے ہیں۔‘‘

(الفضل 2؍مارچ 1928ء صفحہ1)

خلافت ثانیہ کے آغاز میں جاری ہونے والے چند بیرونی مشنز میں سے دوسراجزیرہ ماریشس کا مشن تھا جہاں حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی اے (وفات: اکتوبر 1947ء) بھجوائے گئے، حضرت صوفی صاحب ماریشس میں 13 سال گزارنے کے بعد 1927ء میں واپس قادیان تشریف لائے۔ ان کی واپسی پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے حضرت حافظ جمال احمد صاحب کو بطور مبلغ سلسلہ ماریشس روانہ فرمایا چنانچہ آپ جون 1928ء میں عازم ماریشس ہوئے،آپ کی روانگی کی خبر دیتے ہوئے الفضل لکھتا ہے: ’’آج 13؍جون حافظ جمال احمد صاحب معہ اہل و عیال ماریشس روانہ ہوئے۔‘‘

(الفضل 15؍جون 1928ء صفحہ1)

آپ کا بحری سفر بمبئی سے شروع ہوا، جہاں سے جہاز کراچی پہنچا اور چار روز قیام کے بعد آگے روانہ ہوا۔ آپ کی بیٹی محترمہ جمیلہ بیگم صاحبہ بحری سفر کی روداد میں لکھتی ہیں:
’’ایک دن والد صاحب کے دل میں آیا کہ جہاز کے اگلے سرے پر کھڑے ہوکر پانی کی موجوں کا تماشہ دیکھنا چاہیے چنانچہ بڑی دیر تک خدا کی قدرت کا تماشا دیکھتے رہے، زبان سے پر درد لہجہ میں مندرجہ ذیل آیت نکلی اَمۡ لَہُمۡ اِلٰہٌ غَیۡرُ اللّٰہِ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿۴۴﴾ اور ساتھ ہی رقت پیدا ہوکر طبیعت دعا کی طرف متوجہ ہوگئی۔ علاوہ اور دعاؤں کے ماریشس کی جماعت کے لیے بہت دعائیں کیں کہ خدا تعالیٰ میرے وجود کو ان کے لیے با برکت بنائے اور ان کے وجود کو میرے لیے بابرکت بنائے اور خدا تعالیٰ ان کے دین میں برکت ڈالے اور ان کی دنیا میں برکت ڈالے …. اور اے خدا ایسا نہ ہو کہ میرا وجود ان کے لیے یا غیر اقوام کے لیے کسی ابتلا کا باعث بنے بلکہ اے قادرِ مطلق خدا! مجھے تمام جزیرہ میں پیغام حق پہنچانے کی توفیق عطا کر تا جس چشمہ سے تونے ہم کو پلایا ہے وہ بھی اس سے پی کر سیراب ہوں۔‘‘

(الفضل 24؍فروری 1950ء صفحہ4)

آپ موٴرخہ 27؍جولائی 1928ء کو سر زمین ماریشس پر وارد ہوئے اور نہایت اخلاص اور جانفشانی کے ساتھ 21 سال تک خدمات دینیہ بجا لاتے ہوئے وہیں موٴرخہ 27؍دسمبر 1949ء کو 52 سال کی عمر میں اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے اور ماریشس کے شہر St. Pierre میں دفن ہوئے۔ قبر آج تک محفوظ ہے۔ آپ کی آخری کارگزاری رپورٹ الفضل 11؍مارچ 1950ء میں شائع شدہ ہے۔ آپ کی وفات پر مولانا ابو العطاء جالندھری صاحب نے لکھا: ’’افظ جمال احمد صاحب مجاہدانہ زندگی رکھتے تھے اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں انہوں نے اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت شیریں لہجہ عطا فرمایا تھا۔ عالم اور حافظ قرآن تھے اور نہایت خوش الحانی سے تلاوت کیا کرتے تھے۔ مجھے حضرت حافظ صاحب کے ساتھ متعدد تبلیغی سفروں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے، وہ سفر و حضر میں بہترین رفیق اور وفا دار دوست تھے، طبیعت میں بڑی قناعت تھی اور تکلیف پر صبر کرنے کے عادی تھے۔ جب کبھی ذرا بھی فراغت ہوتی، قرآن کریم پڑھتے رہتے‘‘

(الفضل 11؍مارچ 1950ء صفحہ6)

حضرت حافظ جمال احمد صاحبؓ نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی حضرت عائشہؓ بانو صاحبہ صحابیہ تھیں، انہوں نے 28؍جون 1920ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔آپ کی دوسری شادی محترمہ مختار بیگم صاحبہ بنت حضرت مولوی فتح الدین صاحبؓ آف دھرم کوٹ بگہ ضلع گورداسپور کے ساتھ ہوئی، یہ نکاح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے پڑھایا تھا۔ (الفضل 7؍اکتوبر 1920ء صفحہ1) پہلی بیوی سے پانچ اور دوسری بیوی سے 9 بچے پیدا ہوئے۔

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍دسمبر 1949ء میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا:
’’حافظ جمال احمد صاحب کی وفات اپنے اندر ایک نشان رکھتی ہے اور وہ اس طرح کہ جب وہ ماریشس بھیجے گئے تو اُس وقت جماعت کی مالی حالت بہت کمزور تھی، اتنی کمزور کہ ہم کسی مبلغ کی آمد و رفت کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ مَیں نے تحریک کی کہ کوئی دوست اس ملک میں جائیں۔ اِس پر حافظ صاحب مرحوم نے خود اپنے آپ کو پیش کیا یا کسی اور دوست نے تحریر کیا کہ حافظ جمال احمد صاحب کو وہاں بھیج دیا جائے ….. حافظ صاحب مرحوم کی شادی مولوی فتح الدین صاحب کی لڑکی کے ساتھ ہوئی تھی ….ان کے سسرال کے حالات کچھ ایسے تھے کہ ان کے بعد ان کے بیوی بچوں کا انتظام مشکل تھا اس لیے انہوں نے مجھے تحریک کی کہ انہیں بیوی بچے ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے۔ چونکہ اُس وقت سلسلہ کی مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ پیسے پیسے کا خرچ بوجھل معلوم ہوتا تھا اور اُدھر حافظ صاحب مرحوم کی حالت ایسی تھی کہ انہیں اپنے بیوی بچے اپنے پیچھے رکھنے مشکل تھے۔ مَیں نے کہا کہ میں آپ کو بیوی بچے ساتھ لے جانے کی اجازت دیتا ہوں مگر اِس شرط پر کہ آپ کو ساری عمر کے لیے وہاں رہنا ہوگا۔ اُس وقت کے حالات کے ماتحت انہوں نے یہ بات مان لی اور سلسلہ اور اُن کے درمیان یہ معاہدہ ہوا کہ وہ ہمیشہ وہیں رہیں گے۔ ایک لمبے عرصہ کے بعد جب ان کے لڑکے جوان ہوئے اور لڑکی بھی جوان ہوئی تو انہوں نے مجھے تحریک کی کہ میرے بچے جوان ہوگئے ہیں اس لیے ان کی شادی کا سوال در پیش ہے، آپ مجھے واپس آنے کی اجازت دیں تا بچوں کی شادی کا انتظام کر سکوں لیکن میری طبیعت پر چونکہ یہ اثر تھا کہ وہ یہ عہد کر کے وہاں گئے تھے کہ ہمیشہ وہیں رہیں گے اس لیے میں نے اُنہیں لکھا کہ آپ کو اپنے عہد کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اپنا عہد یاد ہے لیکن میری لڑکی جوان ہوگئی تھی جس کی وجہ سے مجھے واپس آنے کی ضرورت پیش آئی، اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں یہیں رہوں تو میں اپنی درخواست واپس لے لیتا ہوں۔ بعد میں محکمہ کی طرف سے بھی کئی دفعہ تحریک کی گئی کہ انہیں واپس بلا لیا جائے لیکن میں نے ہمیشہ یہی کہا کہ انہوں نے عہد کیا ہواہے اور اُس عہد کے مطابق انہیں وہیں کا ہو رہنا چاہیے۔ ابھی کوئی دو ماہ ہوئے میں نے سمجھا کہ چونکہ اب حالات بدل چکے ہیں اور اب نیا مرکز بنا ہے اس لیے ان کو بھی نئے مرکز سے فائدہ اُٹھانے کا موقع دینا چاہیے، میں نے انہیں یہاں آنے کی اجازت دے دی اور محکمہ نے انہیں واپس بُلوا بھیجا لیکن خدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں…. اور انہیں وہیں وفات دے دی ….. میں سمجھتا ہوں کہ حافظ جمال احمد صاحب بھی اُنہی میں سے تھے جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضیٰ نَحْبَهٗ۔ وہ یہاں سے عہد کر کے گئے تھے کہ وہ وہیں کے ہو رہیں گے۔ جب ہم نے چاہا کہ وہ آجائیں تو خدا تعالیٰ نے کہا نہیں میں اُن کا عہد پورا کروں گا۔ ماریشس ایک ایسا ملک ہے جہاں بہت ابتدا سے ہمارے مشنری جا رہے ہیں۔ میری خلافت کے دوسرے یا تیسرے سال سے وہاں مشنری جا رہے ہیں، ایسے پرانے ملک کا بھی یہ حق تھا کہ وہ کسی صحابی یا تابعی کی قبر اپنے اندر رکھتا ہو۔‘‘

(خطبات محمود جلد30 صفحہ430 تا 437۔ الفضل 12؍فروری 1950ء)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

جماعتی وفد تنزانیہ کی صدر مملکت تنزانیہ سے ملاقات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 جنوری 2023