• 29 اپریل, 2024

سیرت حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادقؓ  (قسط دوم و آخر)

سیرت حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادقؓ 
قسط دوم و آخر

تسلسل کے لیے الفضل 31؍دسمبر 2022ء، ملاحظہ کریں

تبلیغ کا بے پناہ جذبہ

حضرت مفتی صاحبؓ کی زندگی میں ایک بہت نمایاں بات یہ تھی کہ آپؓ میں بے پناہ جذبہٴ تبلیغ تھا۔ تبلیغ کرنا اور ہر شخص کو، ہر جگہ اور ہر موقع پر اسلام و احمدیت سے آگاہ کرنا آپ کا دن رات کا مشغلہ تھا یہ جذبہ ایک جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ آپ کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے لیکن آپ کا کمال اور نمایاں وصف یہ تھا کہ موقعہ کی مناسبت سے بہت پر حکمت انداز میں تبلیغ کرتے۔

ایک موقعہ پر آپ ایک گاڑی میں سوار ہوئے جو مسافروں سے بھری ہوئی تھی۔ بیٹھنے کو کوئی جگہ نہ ملی۔ آپ ایک طرف ہو کر ایک ایسی جگہ پر کھڑے ہوگئے جہاں سے سب مسافر آپ کو دیکھ سکیں۔ جو نہی گاڑی روانہ ہوئی حضرت مفتی صاحبؓ نے سب مسافروں کو مخاطب کر کے اپنی تقریر کا آغاز کچھ اس طرح کیا کہ: صاحبان! میرے واسطے بیٹھنے کی جگہ نہیں۔ آپ صاحبان کے سامنے کھڑا ہوں اس سے فائدہ اٹھا کر میں آپ کو کچھ سنانا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد آپ نے ان لوگوں کو احمدیت سے متعارف کروایا۔

ایک دفعہ بمبئی کے ایک بازار میں کسی دوست کے ساتھ گزر رہے تھے کہ کسی ساتھی نے کہاکہ یہ جو عرضی نویس اپنے کام میں مصروف ہے اس کو تبلیغ کر کے دکھائیں۔ آپ نے فرمایا ابھی کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ اس کے سامنے جا بیٹھے اور کہا کہ مجھے ایک اچھا سا خط لکھوانا ہے۔ عرضی نویس نے کاغذ اور قلم لیا اور کہا لکھوائیے۔ آپ نے لکھوانا شروع کیا۔ فرمایا کہ جناب نظام صاحب والی حیدر آباد کے نام یہ پیغام لکھ کہ ’’حضرت رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق جس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمام دنیا کو محمدی جھنڈے تلے جمع کرنے کے لئے آنا تھا، قادیان میں اس کا ظہور ہو چکا ہے اور میں آپ کو اس کے ماننے کی دعوت دیتا ہوں‘‘۔ اس پر حکمت انداز سے آپ نے اس عرضی نویس کو بھی تبلیغ کی اور خط لکھوا کر وا لی حیدرآباد کو پوسٹ کردیا۔

مفتی صاحب کی بابرکت عادات

کسی انسان کی بلند سیرت اور کردار کا اندازہ اس کے ان جذبات اور خیالات سے بھی ہوتا ہے جو وہ بے تکلفی کے ماحول میں بیان کرتا ہے۔ اس لحاظ سے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی زندگی میں لاتعد اد روشن مثالیں نظر آتی ہیں۔ آپ کی ایک بہت ہی بابرکت اور مفید عادت یہ تھی کہ آپ اپنے خیالات اور جذبات کو ضبطِ تحریر میں لے آتے تھے۔ خطوط اور مضامین بڑی کثرت سے لکھتے۔ ڈائری لکھنا بھی آپ کا معمول تھا۔ زندگی کے مختلف مراحل میں، مختلف مقامات اورمختلف کیفیات سے گزرتے ہوئے آپ نے اپنے تاثرات کو خوب بیان کیا ہے۔ مفتی صاحبؓ کا قلم اسپِ تازی کی طرح دوڑتا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تحریر اور بیان کا ایک خاص ملکہ اور دل ربا انداز بھی عطا فرمایا تھا۔ جب ایسے دلکش انداز بیاں کے ساتھ پاکیزہ اور مطہرجذبات بھی شامل ہو جائیں تو پھر تو تحریر کی دلکشی اور رعنائی میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ پاکیزہ جذبات اور حسن ِبیان کو ظاہر کرنے کے لئے دو مثالیں عرض کرتا ہوں۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب نظام وصیت کی بنیاد ڈالی تو حضرت مفتی صاحبؓ نے بھی فوراً لبیک کہنے کی سعادت پائی۔آپ نے جن مخلصانہ جذبات کا اظہار اپنی وصیت میں کیا وہ سننے سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ نے وصیت کی کہ وفات کے بعد ان کی جائیداد، ساری کی ساری، اشاعت اسلام کے لئے سلسلہ کے سپرد ہو گی۔ اس کے بعد لکھا:
’’یاد رہے کہ مذکورہ با لا وصیت سارے ترکہ کے دینے کی اس کی شرط کے ساتھ مشروط نہیں کہ میں اس مقبرہ بہشتی میں دفن کیا جاؤں بلکہ میرا ترکہ ہر حال میں اس راہ میں دے دیا جاوے خواہ میں کسی جگہ دفن کیا جاؤں۔ میں اپنے آپ کو ایک ناکارہ اور نابکار اور بے عمل اوربہت عاجز انسان پاتا ہوں۔ پس میں اس مقبرہ میں جگہ پانے کی بات کو اپنے رب کی غفاری اور ستاری اور اس کے فضل و احسان پر چھوڑتا ہوں۔‘‘

قادیان سے عشق و محبت

وطن سے محبت کسے نہیں ہوتی ! بھیرہ آپ کا وطن تھا لیکن صرف ان معنوں میں کہ آپ وہاں پیدا ہوئے تھے وگر نہ قلبی جذبات اور لگاؤ کے لحاظ سے آپ قادیان کے ہو چکے تھےاور تخت گاہ رسول قادیان کی محبت آپ کے رگ و ریشہ میں کچھ اس طرح سرایت کر چکی تھی کہ ہر خاص موقع پر دارلامان کی یاد آپ کو آبدیدہ کر دیتی اور آپ پر فر قت کا ایک ایک لمحہ کوہِ گراں بن جاتا۔ مارچ 1908ء میں حضرت مفتی صاحبؓ کو کسی ضروری کام سے بھیرہ جانا پڑا جو آپ کا مولد و مسکن تھا۔ وہاں جا کر آپ کے جذبات کا کیا عالم تھا ان الفاظ سے اندازہ لگا ئیے۔ آپ نے لکھا:
’’لوگ کہتے ہیں کہ یہ تیرا وطن ہے تیرا گھر ہے تیرے باپ دادا کی جگہ ہے۔ یہاں رہنا چاہیئے اور کچھ عرصہ رہنا چاہیئے۔ وہ تو یہ کہتے ہیں اور محبت بھرے دل سے کہتے ہیں پر میں حیران و سرگرداں ہوں کہ یا الٰہی میں کہاں آگیا۔ یہ کس گناہ کی شامت ہے جو میں چند روز کے واسطے مسیح کے قدموں سے دور پھینکا گیا۔

اپنی قلبی کیفیت کو ایک خط میں یوں بیان کیا کہ:
’’اپنے وطن میں ہوں اور پھر بھی وطن سے بہت دور ہوں۔ اہل وطن کے لئے میرا آنا ایک عید بن گیا ہے پر میرا چاند میری آنکھوں سے اوجھل ہے۔‘‘

حضرت مفتی صاحبؓ کے یہ مخلصانہ جذبات آپ کی اس دلی محبت اور عشق کے غماز ہیں جو آپ کو قادیان اور شاہِ قادیان سے تھی۔ کتنی سچی اور بے تکلفانہ محبت درِ محبوب سے ہے کہ اس کے مقابلہ پر اپنے اصلی مولدمیں ایک پل بھی چین نصیب نہیں ہوتا۔

حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے سارے صحابہ ہی آپ سے والہانہ عقیدت اور فدائیت میں ایک خاص شان رکھتے تھے۔ ایک سے ایک بڑھ کر تھا۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کو بھی اس نعمت سے وافر حصہ عطا ہوا تھا۔ آپ مسیح ِمحمدی کے عاشق صادق تھے اور اس شمع نور کا پروانہ صفت طواف کرتے اور خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔

خدمت کے دلکش انداز

ایک ہندو مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمہ کی کاروائی جاری تھی۔ حضرت اقدس علیہ السلام کو عدالت میں کرسی دی جاتی تھی حضرت مفتی صاحبؓ کرسی کے ساتھ اپنے آقا کے قدموں میں بیٹھے تھے کچھ عرصہ کے بعد آپ نے محسوس کیا کہ حضور کے پاؤں نیچے زمین پر پڑے رہنے سے تھک گئے ہیں۔ آپ نے جلدی سے اپنا کوٹ اتارا اور اپنی پگڑی کو اس میں لپیٹ کر ایک چوکی سی بنا کر حضرت اقدس علیہ السلام کے پاؤں کے نیچے رکھ دی۔

حضرت اقدس علیہ السلام کے ارشاد ات کی تعمیل تو آپ کی روح کی غذا تھی۔ اشارہ پاتے ہی فوری تعمیل فرماتے۔ 1908ء کی بات ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام ا ن دنوں زلزلہ کی وجہ سے بہشتی مقبرہ والے باغ میں مقیم تھے۔ ایک روز حضور اقدس علیہ السلام نے حضرت مفتی صاحبؓ کو آواز دی اور ایک کاغذ دیتے ہوئے فرمایا: ’’مفتی صاحب یہ کاغذ لے لیں اور لاہور چلے جائیں۔‘‘ قریب ہی ایک صحابی کھڑے تھے۔ وہ روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت مفتی صاحبؓ نے آقا کے دست مبارک سے وہ کاغذ لیا اور اسی وقت سیدھے اڈے کی طرف چل دئیے اور فوراً لاہور کے لئے روانہ ہو گئے۔

تین مقدس زبانوں کا منادی

یہ بات کسی کے اختیار میں نہیں کہ وہ کس دور میں پیدا ہو۔ لیکن یہ بات و ثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اچھے دور میں پیدا ہونا یقیناً اس شخص کی خوش قسمتی اور سعادت ہے۔ رسول پاکؐ کے صحابہ اس لحاظ سے دنیا میں افضل ترین وجود تھے اور پھر وہ جنہیں نبی کریمؐ کے روحانی فرزند جلیل سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں پیدا ہونے کی سعادت ملی۔ حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحبؓ بھی ان خوش قسمت وجودوں میں سے تھے جنہوں نے مسیح پاک علیہ السلام کا دورِ سعید پایا اور اس کی برکتوں سے حد استعدادتک اپنی جھولیاں بھریں اور پھر اس کے بعد قدرت ِثانیہ کی دو بہاریں بھی دیکھیں اور ان ادوار میں بھی جماعت کی قابل رشک خدمات کی سعادت پائی۔ جس خلوص اور وفا سے آپ نے مسیح علیہ السلام کی خدمت کا حق ادا کیا اسی جذبہء اطاعت اور والہانہ وابستگی سے آپ مسیح پاک علیہ السلام کے مقدس جانشینوں کی خاکِ پابنے رہے۔ خلافت اولیٰ کے دور میں اور خلافت ثانیہ کے ابتدائی چند سالوں میں آپ کو جس خدمت کی بہت ہی امتیازی رنگ میں توفیق ملی وہ آپ کے تبلیغی اور تربیتی دورے تھے۔ آپ نے متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں قریہ قریہ اور بستی بستی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور امام مہدی علیہ السلام کی آمد کی نوید سنائی۔ ملک کا شاید ہی کوئی ایسا کونہ یا کوئی معروف شہر ہو جہاں آپ نہ پہنچے ہوں۔ حضرت مفتی صاحبؓ ہر جگہ پہنچے اور اس کثرت سے جگہ جگہ اسلام و احمدیت کی منادی کی کہ ہر طرف سے اس کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ یہ کوئی رسمی دورہ اور رسمی تقاریرکا سلسلہ نہیں تھا بلکہ تبلیغ کی ایسی موٴثر مہم تھی جو ساتھ کے ساتھ تازہ پھل عطا کر تی تھی۔ آپ کا انداز ِبیان ایسا بر محل، بر جستہ اور پر حکمت ہوتا کہ سننے والون کے دلوں کو مسخر کر لیتا۔ بات آپ کے دل کی گہرائیوں سے نکلتی اور لوگوں کے دلوں میں اتر جاتی۔ حقیقی تبلیغ اسی کا نام ہے خدائےمنان نے یہ وصف حضرت مفتی صاحبؓ کو بدرجہء اتم عطا فرمایا تھا۔اس کیفیت کاپورا نقشہ کھینچنا تو میرے بس کی بات نہیں صرف ایک مثال پر اکتفا کرتا ہوں۔

ایک پُر اثر تبلیغی خطاب

1913ء میں آپ ہوشیارپور تشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے اہل ہوشیارپور کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے خطاب کا آغاز اس انداز میں کیا۔ فرمایا:
’’اے ہوشیارپور ! سن اور غور کر۔ ایک مسافر کی آواز پرکان رکھ تاکہ تیرا بھلا ہو۔ میں تجھ میں سے نہیں۔ تیرے اندر رہنے والوں سے نہیں۔ باہر سے آیا ہوں۔ پر تجھ سے کچھ مانگنے نہیں آیا۔ اپنے اس سفر میں تجھ سے کوئی نفسانی غرض نہیں رکھتا۔ اگر تو دولت مند شہر ہے تو مجھے تیری دولت سے کچھ مطلب نہیں۔ اگر تو امیر ہے تو مجھے تیری امارت سے کوئی غرض نہیں۔ ہاں میں نے سنا ہے کہ تو ہوشیارپور ہے۔ اس واسطے میں نے چاہا کہ تجھے خیر خوا ہی کی ایک بات سناؤ ںجس سے تجھے فائدہ ہو سوتو اس فقیر کی آواز سن جو اپنے لئے نہیں بلکہ تیرے لئے، تیرے شہر میں آکر صدا لگا تا ہے! تو سن اے ہوشیارپور! اور غفلت کی نیند سے جاگ! پر اگر تو نہیں سنتا تو میں تیرے درودیوار کو اور تیری زمین کو اور تیرے آسمان کو سناتا ہوں تاکہ وہ اس بات کے گواہ ہوں کہ میں نے اپنی بات تجھ تک پہنچائی پر تو نے تو جہ نہ دی۔ میں نے اذان دی پر تو نہ جاگا!‘‘

یہ تھا واعظانہ انداز حضرت مفتی صاحبؓ کا جس سے آپ نے ہندوستان کے کونے کونے میں پیغام حق کی منادی کی۔ خواب غفلت میں پڑے ہوؤں کو جگایا اور محروموں کو آبِ حیات کے جام عطا فرمائے!

انگلستان میں دعوت الی اللہ

1907ء کی بات ہے سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے فرمایا کہ اب سلسلہ کا کام بڑھ رہا ہےاور اس بات کی ضرورت ہے کہ بعض نوجوان دور و نزدیک تبلیغ کے کام کے واسطے اپنی زندگیاں وقف کریں۔ حضرت مفتی صاحبؓ جو ہمیشہ اس انتظار میں ہوتے تھے کہ خدمت کا کوئی موقع ہو اور وہ اس کو حاصل کر یں۔ انہوں نے فوراً حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ: ’’اگر اس لائق سمجھا جاؤں تو دنیا کے کسی حصہ میں بھیجا جاؤں۔‘‘ حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا ’’منظور‘‘۔ خدا کے برگزیدہ مسیح کی عطا کردہ اس منظوری کے مطابق حضرت مفتی صاحبؓ کو پہلے برطانیہ میں اور پھر امریکہ میں قریباً سات سال تک تبلیغ اسلام کی عظیم سعادت عطا ہوئی۔ ان دونوں عظیم ممالک میں آپ کو جس شان اور کامیابی سے دعوت الیٰ اللہ کی توفیق ملی ان کی تفاصیل جماعتی اخبارات میں شائع شدہ ہے۔ ان کی تفاصیل میں جانا تو ممکن نہیں لیکن یہ بات پورے، دثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ سات سال کا یہ عرصہ حضرت مفتی صاحبؓ کی زندگی کا ایک سنہری زمانہ تھا جس میں آپ نے تبلیغی میدان میں خوب جولانیاں دکھائیں اور حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے اس شعر کی زندہ تفسیر بن گئے کہ

ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج
جس کی فطرت نیک ہے آئے گا وہ انجام کار

1917ء میں اس سنہری دور کا آغاز ہوا جب آپ انگلستان کے لئے روانہ ہوئے۔ نہایت مخلصانہ اور فدایانہ جذبہ سے آپ اس سفر پر روانہ ہوئے۔ ایک خط میں آپ نے لکھا کہ ’’میں نے اپنی طرف سے موت کی تیاری کرلی ہے اگر میں الٰہی رضا کے لئے قربان ہو جاؤں تو سمجھو کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔‘‘ واقعات گواہ ہیں کہ مسیح پاک علیہ السلام کے عاشق صادق اور اسلام کے اس شیدائی نے اپنے قول کو سچ کر ساور اپنی ساری خداداد پاک قوتیں اس راہ میں قربان کر دیں۔ حضرت مفتی صاحبؓ کو تبلیغ کا ایک جنون تھا۔ یہ آپ کی روح کی غذا اور زندگی کا مقصد تھا۔ آپ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ ہر جگہ اور ہر موقع پر تبلیغ کرتے لیکن اسلامی تعلیم کے عین مطابق بہت پر حکمت آداز میں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے وجاہت اور رعب عطا کیا تھا علم سے نوازا تھا اور ہر ایک پرتاثیر انداز بیاں عطا فرمایا تھا۔

سفر میں خدائی مدد اور حفاظت

صاحب کشف و الہام بزرگ تھے ہمیشہ روبخدا رہتے۔ ہر کام کا اور بالخصوص تبلیغ کا آغاز دعا سے کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تبلیغ دلوں پر نمایاں اثر کرتی۔ ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دعوت الی اللہ کے شیریں اثمار عطا فرمائے۔ بمبئی سے جہاز روانہ ہوتے ہی حضرت مفتی صاحبؓ کی تبلیغ کا آغاز ہو گیا اور تین دن کے اندر اندر ایک انگریز نے اسلام قبول کر لیا اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا۔ سفر کے دوران ہی متعدد افراد نے جماعت میں شمولیت اختیار کی۔

ہر مخلص داعی الی اللہ کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی تا ئید و نصرت کے نشانات سے نوازتا ہے۔حضرت مفتی صاحبؓ نے بھی ساری زندگی اس کے ایمان افروز نظارے دیکھے۔ اس سفر پر آپ کو ایک جگہ کچھ رقم کی ضرورت پیش آئی۔ کوئی دوست اور کوئی واقف نہ تھا جس سے رقم ملنے کی توقع ہوتی۔ ہاں ایک ہی تھا جو ہر داعی الی اللہ کا معین و مدد گار ہوتا ہے۔ اس خدائے قدیر نے ایسا انتظام کیا کہ جہاز ایک بندرگاہ پر رکا تو اچانک ایک احمدی دوست آپ سے ملنے آگئے اور واپس جاتے ہوئے کچھ رقم آپ کی جیب میں ڈال گئے۔ دیکھا تو بالکل اتنی رقم تھی جتنی آپ کو ضرورت تھی۔

حفاظت کی خوشخبری

سفر کی ابتداء میں ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوشخبری کے طور پر یہ نظارہ دکھایا تھا کہ آپ خیریت سے منزل پر پہنچ گئے ہیں۔ راستہ میں ایک موقع ایسا آیا کہ یہ خدشہ ظاہر کیا جانے لگا کہ یہ جہاز کچھ دیر میں ڈوبنے والا ہے۔ جہاز میں کہرام پڑ گیا اور ہرطرف نفسا نفسی کا عالم دکھائی دینے لگا۔ چھوٹی کشتیوں کے بارہ میں جھگڑے ہونے لگے کہ جہاز کی غرقابی کی صورت میں کس کو جگہ مل سکتی ہے اور کس کو نہیں۔ ہر مسافر جان بچانے کی فکر میں تھا۔ ہاں ایک بندہ خدا کا منادی، مفتی محمد صادقؓ ایسا تھا جس کو کوئی غم نہ تھا۔ وہ لوگوں کو تسلیاں دیتا اور یقین دلاتا پھر رہاتھا کہ گھبراؤ نہیں میرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ جہاز جس میں مسیح زماں کا ایک غلام سوار ہے، ہر گز تباہ نہیں ہوگا۔ اس نے پورے اعتماد سے کشتی پر اپنی سیٹ بھی دوسروں کو پیش کر دی اور بالآخر وہی ہوا جس کی خوشخبری آپ کو دی گئی تھی۔ جہاز خیریت سے منزل پر پہنچا اور اسلام کی صداقت کا زندہ نشان ظاہر ہوا۔ حضرت مفتی صاحبؓ کو تبلیغ کاایک عمدہ موقع مل گیا جس سے آپ نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

تبلیغ کا نئے سے نیا انداز

ایک کامیاب داعی الی اللہ کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہرجگہ حکمت سے تبلیغ کی راہ نکالے اور تبلیغ کے ہر موقع سے بھرپور استفادہ کرے۔ یہ صفت حضرت مفتی صاحبؓ میں بدرجہء کمال پائی جاتی تھی۔ انگلستان میں قیام کے دوران آپ نے ہر موقع پر تبلیغ کی راہ نکالی۔ بادشاہ معظم نے کسی جلوس کے موقع پر آپ کو توجہ سے دیکھاتو آپ نے اسے شکریہ کا خط لکھا اور تبلیغ کی راہ نکال لی۔ پارک میں تبلیغ کرتے ہوئے کسی واعظ نے سوالات کی دعوت دی تو مفتی صاحب نے بھی سوال کر دیا اور اس طرح تبلیغ اسلام کا موقع پیدا کر لیا۔ چرچ میں اجلاس کا سنا تو وہاں جا پہنچے اور لوگوں کو اسلام سے متعارف کروایا۔ الغرض آپ نے دعوت اسلام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ آپ نے مناظرے بھی کئے اور تقاریربھی۔ عوام کو بھی تبلیغ کی اور خواص کو بھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے سینکڑوں سعید فطرت لوگوں نے اسلام قبول کرنے کی سعادت پائی۔

اگلا میدان تبلیغ

حضرت مفتی صاحبؓ کا اگلا میدان جہاد امریکہ تھا۔ آپ 1920ء میں ایک بحری جہاز پر سوار ہو کر امریکہ کے لئے روانہ ہوئے قبولیت دعا اور تائید الٰہی کا ایک عجیب واقعہ اس سفر میں رونما ہوا۔ ایک سخت سمندری طوفان نے جہاز کو آ گھیرا۔ طوفان اتنا شدید تھا کہ جہاز کی غرکابی کا خوف محسوس ہونے لگا۔ مسافروں کی چیخ و پکار سے ہر طرف شور قیامت برپا تھا۔ جہاز اور اس کے مسافر سمندر کی بپھری ہوئی موجوں کے رحم و کرم پر تھے۔ اس موقع پر مسیح محمدی کے پہلوان حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے جو تبلیغ جہاد کے لئے پابرکاب تھے، ایک عجیب جلالی انداز میں سمندر کو یوں مخاطب کیا:
’’اے سمندر! کیا تجھے معلوم نہیں کہ تجھ پر کون جارہا ہے۔ یہ حضرت مسیح علیہ السلام کا ایک خادم ہے جو اپنے نفس کے لئے نہیں بلکہ خدا کے دین کی خدمت کے لئے جارہا ہے۔ کیا تو مجھے دکھ دے گا؟‘‘

حضرت مفتی صاحبؓ خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے پیار اور شفقت اور مسیح و مہدی کے ایک ادنیٰ غلام کی دعا کی قبولیت کا نشان خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ جونہی میں نے اپنی بات ختم کی جو دراصل اللہ کے حضور ایک عاجزانہ التجاء تھی، میں نے دیکھا کہ گویا آسمان سے فرشتے اترے ہیں اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے سمندر کی متلاطم موجوں کو ساکن کردیا۔

امریکہ میں دعوت اسلام

امریکہ میں حضرت مفتی صاحبؓ کا قیام ہر لحاظ سے ایک بھرپور قیام تھا۔ مشکلات اور مخالفتوں کا بھی سامنا کرناپڑا اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور قبولیت کے جلووں کی ضیاء بھی آپ کو قدم قدم پر عطا ہوئی۔ جہاز فلاڈلفیا پہنچا تو امریکی حکومت نے آپ کو امریکہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ بالآخر دو ماہ کے بعد بمشکل اجازت ملی۔ لیکن اس پابندی کے عرصہ میں آپ کی آمد کی خوب تشہیر ہوئی اور آپ کی تبلیغی کوششوں کو فوراً پھل لگنے شروع ہو گئے۔ ابتداء میں آپ کو بے شمار مشکلات سے دو چار ہونا پڑا لیکن آپ نے ہر مشکل کو خوش دلی سے قبول کیا اور خدا تعالیٰ سے اس کی جزاء پائی۔ان ایام کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے لکھا:
’’قریباً ہر شب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام یا خلیفہ اولؓ یا حضرت فضل عمرؓ سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ دن بھر اجنبیوں میں ہوتا ہوں اور رات بھر اپنوں میں۔‘‘

حضرت مفتی صاحبؓ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مثالی داعی الی اللہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بارعب شخصیت اور مؤثر انداز تبلیغ عطا فرمایا تھا۔ آپ امریکہ کی سڑکوں اور گلیوں میں پھر تے تو راہ چلتے مرد اور عورتیں آپ کی پرکشش شخصیت اور لباس سے متاثر ہوکر رک جاتے اور ایک دوسرے کو مخاطب ہو کر کہتے کہ Look, Jesus Christ has come یہی بات حضرت مفتی صاحبؓ کی تبلیغ کا نقطہ آغاز بن جاتی۔ آپ انہیں بتاتے کہ میں مسیح پاک علیہ السلام کا ادنیٰ خادم ہوں آپ نے اخبارات میں مضامین، اشتہارات اور خطوط کے ذریعہ بھی تبلیغ کی اور انفرادی و اجتماعی رنگ میں بھی پیغام حق پہنچایا۔ بڑی کثرت سے، جگہ جگہ اسلام کے بارہ میں تقاریر کیں۔ فلاڈلفیا، نیو یارک اور شکاگو میں بطور خاص تبلیغی خدمات جاری کیں۔ مسلم سن رائز کے نام سے ایک انگریزی رسالہ جاری کیا اور شکاگو میں پہلی احمدیہ مسجد تعمیر کرنے کی سعادت پائی۔ آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دی گئیں اور ایک مسلمان لیڈر نے آپ کو ’’موجودہ زمانہ کا خالد‘‘ قرار دیا۔ آپ کی امریکہ سے واپسی سے قبل آپ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ چند سال قبل آپ کو ملک میں داخلہ کی اجازت سے انکار کیا گیا اور واپسی سے قبل اسی ملک کے اخبارات نے آپ کے بارہ میں تعریفی مضامین لکھے اور آپ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔

عاجزی اور انکساری

داعی الی اللہ کا یہ بھی ایک بنیادی وصف ہے کہ وہ ہمیشہ عاجزی اور انکساری کے بلند مقام پر قائم رہتا ہے، کسی کامیابی کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتا، نہ اپنے علم اور زور بازو کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ تحدیث نعمت کے طور پر اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کا تذکرہ ضرور فرماتے لیکن ہمیشہ ایک مومنانہ انکساری کے ساتھ۔امریکہ میں مذہبی لحاظ سے ایک تہلکہ بر پاکر نے اور سینکڑوں افراد کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کے بعد جب آپ کا جہاز واپسی کے لئے روانہ ہونے لگا تو آپ نے امریکہ کی طرف دیکھا۔ بے اختیار آنکھیں پُر آب ہو گئیں۔ اس لئے نہیں کہ آپ کو امریکہ رہنے کا شوق تھا یا اس کی جدائی شاق گزر رہی تھی۔ آخر ان آنسوؤں کی سبب کیا تھا۔ آپ فرماتے ہیں ’’اس لئے کہ جس خدمت پر معمور کیا گیا تھا اس کا حق مجھ سے پوری طرح ادا نہ ہو سکا۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں حق خدمت بجانہ لا سکا۔‘‘

قادیان واپس پہنچے تو جہاں کہیں آپ کی خدمات اور کامیابیوں کا تذکرہ ہوا آپ نے یہی فرمایا کہ ’’لاریب خدا تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں کامیابیاں عطا فرمائی ہیں۔ مگر یہ میرا معجزہ نہیں بلکہ سیدنا محمودؓ کا معجزہ ہے یہ اسی کا عزم تھا جس نے مجھ سے سب کچھ کروایا۔ اس کا عزم، اس کی توجہ اس کی دعائیں اور خدا تعالیٰ کا فضل جو اس پر نازل ہوا اور اس کے ذریعہ ہم پر بھی نازل ہوا۔ یہ سب کچھ اسی کا نتیجہ ہے۔‘‘

خوش نصیب انسان

مبارک زندگی وہی ہے جو خدمت اسلام سے معمور ہو۔انسان کی سب سے بڑی سعادت یہی ہے کہ اس کی حیاتِ مستعارکا ایک ایک لمحہ خدمت دین میں بسر ہو۔ حضرت مفتی صاحبؓ اس لحاظ سے بھی بہت ہی خوش نصیب انسان تھے کہ انہیں زندگی بھر مختلف حیثیتوں میں اور مختلف مقامات پر متنوع نوعیت کی خدمات بجالانے کی توفیق اور سعادت نصیب ہوئی۔ مسیح زماں علیہ السلام کی پاکیزہ صحبت سے فیضیاب ہوئے۔ پیارے آقا کی آنکھوں کے سامنے شاندار خدمات سرانجام دے کر دلی دعائیں اور ماں سے بڑھ کر پیار ھاصل کیا۔ ہندوستان کے کونے کونے میں حق کی منادی کرنے کے بعد برطانیہ اور امریکہ میں اسلام کی تبلیغ کی۔ واپس آکر تبلیغی اور تربیتی تقاریرکا ایک وسیع سلسلہ جاری کیا۔ مختلف جماعتی عہدوں پر کام کرنے کی توفیق پائی۔ حضرت مصلح موعودؓ کے پرائیوٹ سیکرٹری بھی رہے۔یہ غیر معمولی سعادت بھی آپ کے نصیب میں آئی کہ آپ نے خلیفہٴ وقت حضرت مصلح موعودؓ کے نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے وکالت کے فرائض سر انجام دئیے اور ایک دوسرے موقع پر نکاح کا اعلان کیا۔

خدمات پر ایک نظر

تحریر کے میدان میں بھی تاریخی اور پائیدار خدمات کی توفیق ملی۔ آپ کی کتب، بیان کردہ روایات اور سلسلہ کے اخبارات میں شائع شدہ مضامین اور رپورٹیں تاریخ احمدیت کا ایک عظیم ما خذہیں۔ لسانی خدمات کے میدان میں آپ نے ایک امتیازی مقام پایا۔ اکناف عالم میں آپ کی تبلیغی تقاریرکی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی جن کو سن کر سینکڑوں افراد نے اسلام کے نور سے اپنے نہاں خانوں کو منور کیا۔ میدان مناظرہ میں بھی آپ کو نمایاں فتوحات نصیب ہوئیں۔ علمی اور تربیتی تقاریرکے ذریعہ بھی آپ نے غیر معمولی خدمات کی توفیق پائی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دلوں کو موہ لینے والا اندازِ خطابت عطا فرمایا تھا۔ آپ تقریر شروع کرتے تو مجمع ہمہ تن گوش ہو جاتا۔خاص طور پر ذکرِ حبیب کے موضوع پر آپ کی تقاریر ایک نرالی شان کی حامل ہوتیں۔ مسیح پاک علیہ السلام کی سیرت کے واقعات کو اس محبت، سادگی اور خوبصورتی سے بیان کرتے کہ گویا تصویر کھینچ کر رکھ دیتے اور سننے والے یوں محسوس کرتےکہ واقعی اس حبیب کی مجلس میں جا پہنچے ہیں۔ الغرض میں کس کس خوبی کا ذکر کروں اور کس کس خدمت کا تذکرہ کروں۔وہ ایک مقدس، خدا رسیدہ، خدا نما وجود تھا۔ عاشق محمد ﷺ تھا مسیح موعود علیہ السلام کا پروانہ تھا۔ اسلام کا شیدائی اور ایک مثالی داعی الی اللہ تھا۔ نہایت جلیل القدر عالم باعمل تھا۔ آسمان احمدیت کا درخشندہ ستارہ تھا۔

حبیب خدا حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے کہ میرےصحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔تم جس کسی کی بھی پیروی کرو گےوہ تمہیں ہدایت سے ہمکنار کردے گا۔ یہ عظیم مرتبہ ہمارے اس دور ِآخرین میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کو بھی حاصل ہے جن کے بارہ میں ہمارے آقا نے یہ نوید سنائی ہے کہ:

صحابہ سے ملاجب مجھ کو پایا

حق یہ ہے کہ صحابہ مسیح موعود علیہ السلام بھی آسمانِ روحانیت کے ستارے ہیں جو زندگی کی تاریک راہوں میں بھٹکنے والوں کے لئے دلیلِ راہ کا حکم رکھتے ہیں۔ جسمانی طور پر اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے باوجود ان کایہ روحانی فیض آج بھی جاری ہے۔ کیونکہ ان روحانی ستاروں کا تعلق اس ماہتاب اور آفتاب سے ہے جن کی روشنی کبھی مانند نہیں پڑتی،جن کا فیض زمان و مکان کی حد بندیوں میں محدود نہیں۔

سب کے لئے درسِ نصیحت

اس مضمون میں آسمان احمدیت کے ایک روشن ستارے، مہدیٔ دوراں کے محبِّ صادق، حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے جو حالات بیان ہوئے ہیں یہ اپنے اندر ایک عظیم دعوتِ عمل رکھتے ہیں۔ حضرت مفتی صاحبؓ کی زندگی ایک تابندہ دعوتِ عمل ہے ہر احمدی نوجوان کے لئے کہ وہ بھی شمع ِخلافت کے گرد اسی طرح محبت، عقیدت اور فدائیت سے گھومتا پھرے جس کا شاندار نمونہ آپ کی زندگی میں نظر آتا ہے۔ آپ کی زندگی دنیا سے محبت کرنے والوں کے لئے درس ِنصیحت ہے کہ اس نوجوان سے سیکھو کہ کس طرح دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے اپنی جملہ صلاحیتیں راہ خدا میں وقف کی جاتی ہیں۔ کس طرح وطنوں کو خیر آباد کہا جاتا ہے، کس طرح پیاروں کو الوداع کہا جاتا ہے اور کس طرح دنیاوی تعلقات کو چھوڑ کر سلوک کی منزلیں طے کی جاتی ہیں!

خلاصہ کلام

حضرت مفتی صاحبؓ کی زندگی میں ایک پاکیزہ نمونہ ہے ہر اس غافل انسان کے لئے جو اس دنیا کے لئے تو دن رات سر گرداں نظر آتا ہے مگر اخروی زندگی کی بہتری سے غافل اور لا پروہ اسی دنیا کو مقصود بنائے بیٹھا ہے۔ اس نوجوان صالح سے سیکھو کہ کس طرح جوانی کے عالم میں عاقبت سنوارنے کے لئے جتن کیے جاتے ہیں۔ آج ہم جس تاریخی دور سے گزر رہے ہیں یہ دعوت الی اللہ کا دور ہے یہ وقت اس میدا ن میں سرگرمیاں دکھانے کا اور اپنی جھولیاں شیریں پھلوں سے بھرنے کا ہے۔ حضرت مفتی صاحبؓ کا مقدس نمونہ ایک داعی الی اللہ کے لئے مشعل تابندہ کی مانند ہے۔ تم اس داعی الی اللہ کو دیکھو اور اس کے شاندار نمونہ پر نگاہ ڈالو۔ جو جنون اس کو تھا وہ آج تم بھی پیدا کرو۔ جو سودا اس کے سر میں سمایا تھا وہی کیفیت آج تم بھی پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ دیکھو وہ کس سوز اور درد سے قریہ قریہ اور بستی بستی حق کی منادی کیا کر تا تھا اور کس محنت سے دن رات دعوت الی اللہ کے کام میں لگا رہتا تھا۔ وہ اکیلا نکل کھڑا ہوتا، نہ ڈرتا، نہ کسی سے خوف کھاتا، خدا پر کامل توکل کے ساتھ تبلیغ کی ہر راہ کو اختیار کرتا۔اس کی یہ ادائیں خدا کی رحمت کو کچھ اس طرح جذب کرتیں کہ جس ملک میں وہ اکیلا وارد ہو تا وہاں دیکھتے دیکھتے سینکڑوں ہزاروں عشاق اسلام کی جماعت قائم ہو جاتی۔

آج کے اس دورِ فتوحات میں جماعت کو ایک نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں مفتی محمد صادقؓ جیسے جان نثاروں کی ضرورت ہے جو دعوت الی اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیں اور دنیا میں روحانی انقلاب کے علمَ بردار اور نقیب بن جائیں۔ خدا کرے کہ ہمارے اسلاف کی نیک مثالیں ہمارے لئے مہمیز کا کام دیں اور ایسی سعی مشکور کی توفیق ہمیں نصیب ہو کہ ہر ملک اور ہر دیار میں اسلام کا بول بالا ہو اور آخرت میں رضوانِ یار کی لازوال جنت ہمیں عطا ہو۔ آمین

(مولانا عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

پچھلا پڑھیں

جماعتی وفد تنزانیہ کی صدر مملکت تنزانیہ سے ملاقات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 جنوری 2023