• 30 اپریل, 2024

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر 71)

آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر 71

اسما کی تصغیر
Diminutive form of nouns

آج ہم اس موضوع پر ایک مرتبہ پھر بات کریں گے۔ اس سے قبل ہم اس موضوع پر بات کرچکے ہیں آج ہم کچھ نئے طریقوں اور الفاظ پر بات کریں گے۔ اس موضوع پر بات کرنا اس لئے اہم ہے کیونکہ اس طرح زبان کا علم وسیع ہوتا ہے نیز انسان کو بہت سے نئے الفاظ کے معنی معلوم ہوجاتے ہیں۔

1۔ کسی لفظ کے آخر پر ڑی یا ڑا لگانے سے بعض اوقات ہم کسی اسم کی چھوٹی شکل کا اظہار کرتے ہیں اور بعض اوقات ہم ایک اسم سے کئی اسم صفت بناتے ہیں یعنی adjectives جیسے دام جس کے معنی ہیں قیمت، مول، بھاؤ وغیرہ اس کی تصغیر ہے دمڑی جیسے کہتے ہیں کہ ایک ایک دمڑی کا حساب لوں گا۔ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے یعنی نقصان ہوجائے بے عزتی ہوجائے مگر کنجوس انسان یہی چاہتا ہے کہ پیسہ نہ لگے۔ چمڑا اور چمڑی۔ لنگڑا یہ اسم صفت بھی ہے اور اسم بھی لنگڑا ایک آم کا اسم معرفہ بھی ہے اور لنگڑی۔ مکھڑا اور مکھڑی۔

2۔ ہندی اور فارسی دونوں الفاظ کو ک لگا کر بھی اسم کی تصغیر بنائی جاتی ہے جیسے ڈھول سے ڈھولک، اسی اصول پر شاید پل سے پلک بنا ہو کیونکہ پلک کو پل پل جھپکتے ہیں لیکن اس کی کوئی سند نہیں ملی، عین سے عینک۔

عین کے کئی معنی ہیں: آنکھ جیسے عین الیقین یعنی ایسا یقین جیسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو، بالکل، خاص طور پر، ٹھیک جیسے وہ عین (بالکل) اپنے باپ جیسا ہے۔ ہمارے گھر کے عین (ٹھیک) سامنے وغیرہ۔ علم فلسفہ میں عین وہ شۓ ہوتی ہے جو اپنی ذات سے قائم ہو خواہ وہ مفرد ہو یعنی جوہر یا مرکب ہو یعنی جسم۔ پھر بیٹھ سے بیٹھک۔ پھر ڈھل سے ڈھلک اور اس کا استعمال میر تقی میر نے اس شعر میں کیا ہے۔

؎لاتے نہیں نظر میں غلطانی گہر کو
ہم معتقد ہیں اپنے آنسو ہی کی ڈھلک کے

غلطانی کے معنی ہیں لڑھکنا، لوٹنا جیسے بستر پر لوٹنا یا کسی جانور کا ریت یا کیچڑ میں لوٹنا۔ گہر یعنی موتی یا اولاد۔ ڈھلک یعنی بناوٹ، طرز، ڈھب، ادا، چمک وغیرہ۔ پس میر کہتے ہیں کہ کسی موتی کی طرز یا ڈھب کی بجائے میں اپنے آنسو کی بناوٹ، طرز اور ڈھب کو پسند کرتا ہوں یعنی بجائے نام و نسب اور مال و دولت کے ہم گریا و زاری کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔

ک کے علاوہ چی اور چہ کا اضافہ کرنے سے بھی نہ صرف نئے اسما بنتے ہیں بلکہ وہ اسم کی تصغیر یعنی اس کے چھوٹے حجم، وزن، قیمت یا عزت کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے صندوق سے صندوقچی یا صندوقچہ، باغ سے باغیچہ، دیگ سے دیگچی یا دیگچہ، چمچ سے چمچہ یا چمچی۔

3۔ بعض اسم صفات دوسرے الفاظ سے اخذ کئے جاتے ہیں اس عمل کو مشتق ہونا کہتے ہیں۔

ا۔ ی کے اضافے سے: یعنی وہ لفظ جس سے نئے الفاظ اخذ کرنے ہوں اس کے آخر پری کا اضافہ کردیں گے۔ جیسے شہر سے شہری، پہاڑ سے پہاڑی، دیس (Native) سے دیسی (local, regional, indigenous)۔ پنجاب سے پنجابی، اون سے اونی۔

ب۔ الف کے بڑھانے سے: جیسے دودھ سے دودھیا، جھوٹ سے جھوٹا، میل سے میلا، بھوک سے بھوکا، نیل سے نیلا۔

ج۔ اک بڑھانے سے: جیسے تیراک وغیرہ۔

د۔ ایلا بڑھانے سے جبکہ یائے معروف ہو یعنی وہ وہ ’ی‘ جس سے پہلے کے حرف پر زیر ہو اور جو واضح طور سے اور اعلان کے ساتھ پڑھی جائے۔

جیسے پتھر سے پتھریلا rocky/gritty، شرم سے شرمیلا shy/ nervous، رس سے رسیلاjuicy/ sweet/ polite، سِجل سے سجیلا decorated/handsome اور رنگ سے رنگیلا colorful/ fun loving۔

ہ۔ ایلا بڑھانے سے جبکہ یائے مجہول ہو یعنی وہ ’’ے‘‘ جو کھینچ کر اور اعلان کے ساتھ نہ پڑھی جائے، ’’ڑی ے‘‘۔ جیسے اکیلا، سوتیلا۔

4۔ آنہ، ایں یا این، اور ناک کا اضافہ کرنے سے اسم بنائے جاتے ہیں۔ جیسے مردانہ، سالانہ، ماہانہ بچگانہ، زنانہ وغیرہ۔ ایں سے زریں یعنی قیمتی، آتشیں یعنی آگ جیسا سرخ اور گرم۔ این سے رنگین، نمکین، شوقین، کمین۔ ناک سے جیسے غضبناک، ہولناک، خطرناک۔

5۔اسم یعنی noun اور امر یعنی حکم Command کے ساتھ مل کر سینکڑوں فارسی صفات Adjectives بنتے ہیں۔ فارسی حروف بے، بر، با، بہ کے ساتھ جیسے بر محل، بر وقت timely، برقرار، بجا true، بیجا unnecessary/improper، بے عقل unwise وغیرہ۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
یہ خداوند حکیم مطلق کا فعل ہے کہ بعضوں کی استعدادیں اور ہمتیں پست رکھیں اور وہ زخارف دنیا میں پھنسے رہے اور رئیس اور امیر اور دولتمند کہلانے پر پھولتے رہے اور اصل مقصود کو بھول گئے اور بعض کو فضائل روحانیت اور کمالات قدسیہ عنایت فرمائے اور وہ اس محبوب حقیقی کی محبت میں محو ہوکر مقرب بن گئے اور مقبولانِ حضرت احدیت ہوگئے۔ پھر بعد اس کے اس حکمت کی طرف اشارہ فرمایا کہ جو اس اختلاف استعدادات اور تباین خیالات میں مخفی ہیں۔ نَحنُ قَسَمنَا بَینَہُم مَّعِیشَتَہُم (الزخرف 33-43)۔ یعنی ہم نے اس لئے بعض کو دولت مند اور بعض کو درویش اور بعض کو لطیف طبع اور بعض کو کثیف طبع اور بعض طبیعتوں کو کسی پیشہ کی طرف مائل اور بعض کو کسی پیشہ کی طرف مائل رکھا ہے تا ان کو یہ آسانی پیدا ہوجائے کہ بعض کے لئے بعض کار برار اور خادم ہوں اور صرف ایک پر بھار نہ پڑے اور اس طور پر مہمات بنی آدم بآسانی تمام چلتے رہیں۔

(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد1 صفحہ204۔205)

اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی

خداوند حکیم مطلق کا فعل: اس خدا کا کام ہے جو ایسی حکمت اوردانائی رکھتا ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ یعنی جو کامل ہے۔

استعدادیں، ہمتیں پست: استعداد کی جمع ہے یعنی طاقت اور صلاحیت۔ ہمت کی جمع۔ پست ہوجانا کم ہوجانا، کمزور ہوجانا۔

زخارف دنیا: دنیا کی رنگینیاں، چمک دمک۔ Worldly adornments

رئیس، امیر اور دولتمند: ان سب الفاظ کا ایک مشترک معنی ہے یعنی وہ شخص جس کے پاس دولت، جائیداد اور پیسہ ہو البتہ رئیس کا تعلق ریاست اور حکومت سے ہے یعنی ایسا شخص جس کے پاس حکومت اور طاقت بھی ہو۔

پھولتے رہے: دھوکا کھا کر خوش ہونا، خود فریبی۔

فضائل روحانیت اور کمالات قدسیہ: روحانی طاقتیں اور پاکیزہ ہنر، جوہر، لیاقت، خوبیاں Spiritual excellence

محو ہونا: مصروف ہونا، کسی کام میں پورے اخلاص اور توجہ سے لگ جانا۔

تباین خیالات: خیالات کا فرق

کار برار: ضرورت پوری کرنا، حاجت روائی۔ Getting one’s desire fulfilled

مہمات بنی آدم: human expeditions and needs

(عاطف وقاص ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی