• 20 اپریل, 2024

متقی وہ ہے جو دوسروں پر نیکی اور تقویٰ کا اثر قائم کرے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنْفُسِكُمْ اور جو بھی اچھا مال تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اس کا فائدہ تمہیں ہی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ادھار نہیں رکھتا بلکہ بڑھا کر لوٹاتا ہے اس طرح جس طرح ایک کسان کھیت میں بیج ڈالتا ہے تو کوئی جاہل، کم عقل کہہ سکتا ہے کہ یہ اس نے کیا کیا کہ سارا بیج زمین میں پھینک کے ضائع کر دیا لیکن عقل مند جانتا ہے کہ یہ دانے جو زمین میں پھینکے گئے ہیں ہزاروں بلکہ لاکھوں کروڑوں دانے بھی بن کر نکل سکتے ہیں سوائے اس کے کہ وہ فصل آفت کا شکار ہو جائے اور اسے کچھ نہ ملے۔ پس اللہ تعالیٰ کی راہ میں نیک نیتی سے خرچ کیا ہوا اور پاک مال میں سے جو خرچ کیا جاتا ہے وہ ہزاروں گنا بڑھ کر بھی مل سکتا ہے اور ملتا ہے۔ احمدی اپنے تجربات لکھتے رہتے ہیں، اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ کس طرح ہم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کی اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑھا کر عطا کیا۔ کچھ کمزور ایمان والے بھی ہوتے ہیں، نئے آنے والے بھی ہوتے ہیں وہ بھی کہتے ہیں اور تجربہ کرتے ہیں کہ دیکھیں کہاں تک یہ بات درست ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑھا کر دیتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے ان کو نوازتا بھی ہے لیکن اکثریت ایسی ہے جو اللہ تعالیٰ کی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللّٰهِ اور جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ کی توجہ چاہنے کے لیے خرچ کرتے ہو۔ وہ دین کی ضروریات کے لیے خرچ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی توجہ چاہنے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حقیقی مومن کی تعریف ہی یہ کی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توجہ چاہنے کے لیے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور یقیناً اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی حالتوں کو جانتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے خرچ کرتے ہیں اور پھر ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بھی دیکھ لیتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان کی قربانی کو قبول کرتے ہوئے انہیں واپس لوٹاتا ہے اور پھر یہ بات انہیں مزید ایمان میں بڑھاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ادھار نہیں رکھتا۔ تم میری توجہ چاہنے کے لیے اپنے پاک مال میں سے میرے دین کے لئے اور میرے کہنے پر خرچ کرتے ہو تو میں بھی تمہیں لوٹاؤں گا۔ شرط یہ ہے کہ مال پاک ہو۔ پس ان ممالک میں، ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے بعض خاص طور پر اس بات کا خیال رکھیں کہ پاک مال کمائیں۔ زیادہ کمانے کے لیے حکومت کے اداروں کو دھوکا نہ دیں کہ اپنی کمائی بھی کر رہے ہوں اور حکومت سے غلط بیانی کر کے وظیفہ بھی لے رہے ہوں۔ ایسے لوگ حکومت سے ناجائز رقم بھی لیتے ہیں۔ اپنے ٹیکس جو حکومت کا حق اور شہری کا فرض ہے وہ بھی ادا نہیں کرتے۔ دوسرے لوگوں کا حق بھی مارتے ہیں اور وہی رقم جو دوسرے ذریعہ سے ملک کی ترقی میں خرچ ہو سکتی ہے اس میں بھی روک بنتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غلط بیانی کر کے جھوٹ کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں اور یہ تمام چیزیں غلط ہیں، گناہ ہیں اور پاک مال سے دُور لے جانے والی ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ مورخہ 8 نومبر 2019ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ