• 19 اپریل, 2024

الفضل:خلافتِ احمدیہ کی خدمت کےسوسال

الفضل کا آغاز جون 1913ءمیں ہوا تھا۔یہ خلافتِ اولیٰ کا دور تھا بلکہ خلافت ِ اولیٰ کا آخری سال شروع ہو چکا تھا۔ہر تاریخی واقعہ کی اہمیت کا جائزہ اس کے پس منظر میں ہی لیا جا سکتا ہے۔ہم الفضل کے اجراء سے چند سال پہلے کے واقعات کا ایک انتہائی مختصر جائزہ پیش کریں گے۔
اُس دور میں بالخصوص دور افتادہ احباب ِ جماعت کیلئے اخبارات اور رسائل رابطہ کا واحد ذریعہ تھے۔خلافت ِ اولیٰ کے دوران ابھی جماعت کے تمام حصوں میں خلافت کے احترام کی اعلیٰ روایات مستحکم نہیں ہوئی تھیں۔ ایک حصہ پر نظامِ خلافت کی اہمیت واضح نہیں تھی۔اس وجہ سے جماعت کے جرائد پریہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ خلیفہ وقت اور جماعت کے درمیان رابطے کاذریعہ بنیں اوراس حوالے سے جماعت کی مسلسل تربیت میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس نازک موڑ پرذرا سی لغزش بھی خوفناک نتائج پیدا کر سکتی تھی۔ لیکن ایک طبقہ کی طرف سے جو رویہ ظاہر ہو رہا تھا وہ اپنے زیر ِ اثر احباب کو نظام خلافت سے دور لے جانے والا تھا۔ چونکہ یہ حقائق جماعت میں معروف ہیں۔ اس لئے زیادہ تفصیلات کی ضرورت نہیں۔جب حضرت مسیح موعودؑ کا وصال ہوا تو اس وقت ریویو آف ریلجنز میں جو مضمون شائع ہوا اس کے آخری حصہ کا اردو ترجمہ درج کیا جاتا ہے۔

ترجمہ : اسلام کی دنیاوی اور مذہبی تعلیم کا اور تبلیغ کا جوعظیم کام مسیح موعودؑ نے شروع فرمایا تھا ، وہ اب صدر انجمن احمدیہ جاری رکھے گی۔جیسا کہ وہ الوصیت کی اشاعت کے بعد آپؑ کی زندگی میں یہ کام سرانجام دے رہی تھی۔جبکہ جماعت کی قیادت کیلئے مولوی حکیم نورالدین ؓصاحب کو مسیح موعودؑ کا جانشین منتخب کیا گیا ہے۔

(ریویو آف ریلجنز انگریزی۔ جون 1908ءصفحہ 280)

اس تحریر سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ اصل میں تو سارے کام انجمن کرے گی البتہ حضرت مسیح موعودؑ کے جانشین حضرت مولوی حکیم نورالدین ؓ ہوں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کے آخری سالوں میں بھی سب کام صدر انجمن احمدیہ ہی کر رہی تھی۔ایک تو اس اعلان میں ہی خلافت کی اہمیت کو بہت کم کرکے دکھایا گیا لیکن اس کے بعد ریویو انگریزی کے اگلے کئی شماروں میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔اس طرز عمل سے اپنے اور غیروں پر ایک نہایت غلط تاثر پیدا کیا جا رہا تھا۔یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ ریویو آف ریلجنزاردوکی پالیسی مختلف تھی۔ اس میں حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا مضمون بھی شائع ہو اتھا۔

اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے اس وقت اخبار الحکم اور بدر نے جماعت ِ احمدیہ اور خلیفہ وقت میں رابطہ کا اہم کردار ادا کیا۔ اور ان دونوں اخبارات میں باقاعدگی سے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے خطبات، آپؓ کے ارشادات، آپؓ کے پیغامات شائع ہوتے تھے۔ اس وقت حضرت مفتی محمد صادق ؓ بدر کے اور حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ الحکم کے ایڈیٹر تھے۔اور اس طرح بڑی حد تک اس رویہ کا ازالہ کیا گیا، جس کی ایک مثال ریویو آف ریلجنز کے حوالے سے ہم درج کر چکے ہیں۔ بدر اور الحکم کے صفحات کے ذریعہ سے خلیفہ وقت کے خطبات، ہدایات اور ارشادات احباب ِ جماعت تک پہنچتے رہے۔

اعلیٰ روایات ایک دن میں اپنے کمال کو نہیں پہنچتیں۔اس عمل کیلئے مسلسل جد و جہد درکار ہوتی ہے۔خاص طور پر یہ پسمنظر ذہن میں حاضر رہنا چاہئے کہ ایک گروہ اس راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہا تھا اور ہر مشکل وقت میں معاند یہ راگ الاپنا شروع کر دیتے تھے کہ اب یہ سلسلہ ختم ہونے کو ہے۔خلافتِ اولیٰ میں قادیان سے شائع ہونے والے اخبارات میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی صحت کے بارے میں خبر شائع ہوتی یا دوسرے فرمودات شائع ہوتے۔تو بسااوقات انہیں درمیان کے صفحات میں مثلاًصفحہ 2 یا صفحہ 3 یا صفحہ 7 میں شائع کیا جاتا۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے فرمودات اکثر درمیان کے صفحات میں شائع کئے جاتے۔ پہلے صفحہ پر بسا اوقات اشتہارات یا دوسرے اعلانات شائع ہوتے تھے۔ بہت مرتبہ ایسا بھی ہوتا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کے ارشادات پر ارشادات ِ امیر یا فرمودات امیر کا عنوان تحریر کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت ِ حال میں بہتری کی ضرورت تھی۔

الفضل نے اپنے آغاز ہی سے ایک ایسا انداز اختیار کیا جو ایک اعلیٰ روایت کے طور پر جماعت میں مستحکم ہو گیا اوراب دنیا بھر میں جماعتی اخبارات اور رسائل اسی طرزکو اپنائے ہوئے ہیں۔ الفضل کا شائع ہونے والا پہلا شمارہ ہی دیکھ لیں۔پہلے صفحہ کے پہلے کالم کا آغاز خطبہ جمعہ سے ہوتا ہے جو کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے 13 جون 1913ء کو ارشاد فرمایا تھا۔ اور اس کے بعد پہلے صفحہ پر مدینۃ المسیح کے عنوان سے جو خبریں ہیں اس میں پہلی خبر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی مصروفیات کے بارے میں ہے۔ اور بعد کے شماروں میں بھی الفضل کی یہ روایت رہی کہ پہلے صفحہ پر پہلے کالم کا آغاز مدینۃ المسیح اور ایوان ِ خلافت کے عنوان کے تحت حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی صحت کی خبر، آپ کی مصروفیات اور آپ کے ارشادات سے ہوتا تھا۔

الفضل کے ساتھ ہی 10 جولائی 1913ء کو لاہور سے اخبارپیغامِ صلح جاری ہوا۔ اس کے آنریری ایڈیٹر محترم خواجہ کمال الدین تھے اگرچہ وہ اس وقت انگلستان جا چکے تھے۔ دوسرے ایڈیٹرمکرم احمد حسین فرید آبادی تھے۔ اور لاہور کے کچھ احمدی احباب اسے چلارہے تھے۔ ان میں سرِ فہرست مکرم ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ تھے۔ اس کے پہلے شمارے میں حضرت مسیح موعودؑ کی تصنیف پیغامِ صلح کا حوالہ درج تھا۔ اور پہلے صفحہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا ارشاد درج تھا۔ جس کا عنوان تھا مسلمانوں میں باہمی صلح کیسے ممکن ہے اس ارشاد کے آخری الفاظ تھے۔
…سب لوگ کفر بازی میں نرمی اختیار کریں۔ صریح قرآن اور صریح حدیث کو سب مانیں اس کو فہم میں اختلاف ہو تو اس پر جھگڑ ا نہ کریں۔یا خفیف جھگڑا رکھیں۔ ہر ایک کو اس کے فہم پر چلنے دیں۔

اس کے بعد پیغامِ صلح کے اگلے دو ماہ کے شماروں کا جائزہ لینے پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ کسی ایک شمارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا کوئی خطبہ یا آپ کی تحریر یا آپ کے فرمودات شائع نہیں ہوئے ۔ حالانکہ ایک ہفتہ میں تین مرتبہ یہ اخبار شائع ہوتا ۔صرف آپ کا ایک خط شائع ہوا تھا جو کانپور کے مشہور واقعہ کے متعلق تھا۔ اور اس میں بھی اس پالیسی کے خلاف اظہار تھا جس کے حق میں پیغامِ صلح میں مضامین شائع ہو رہے تھے۔ 15 جولائی 1913ء کے پیغام صلح میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کا ایک مختصر مضمون اکسیر کے نام سے شائع ہوا تھا ۔جس کے اوپر یہ معذرت درج تھی کہ آپ نے یہ مضمون تحریر فرمایا تھا مگر مضامین میں گڑ بڑ کی وجہ سے یہ پہلے شائع نہیں ہو سکا۔

لندن میں مکرم خواجہ کمال الدین کی مساعی کے بارے میں تفصیلی رپورٹیں شائع ہوتی رہی تھیں۔ اس طرح یہ بات واضح ہے کہ یہ اخبار خلیفہ وقت اور جماعت میں رابطہ کا کام نہیں دے رہا تھا۔ اس کے کئی شمارے گزر جاتے لیکن اس میں خلیفہ وقت کا کوئی ذکر نہ ہوتا۔ دنیا بھر کی خبریں اس میں شائع ہوتیں۔ ترکی میں کیا ہو رہا ہے، بلقان میں کیا ہوا۔ لندن میں کیا ہوا ۔ یورپ میں کیا ہوا۔ حتیٰ کہ ظفر علی خان لاہور پہنچے تو اس کی خبر بھی شائع کی جاتی۔سر آغا خان نے لندن میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کی خبر شائع ہوتی۔ لیکن اگر کچھ شائع نہ ہوتا تو یہ نہ شائع ہوتا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے کیا فرمایا، آپ نے کیا خطبہ ارشاد فرمایا؟ آپ کی ہدایات کیا ہیں؟ آپ کی مصروفیات کیا ہیں؟ اس سے جماعت کی تربیت میں کیا نقص پیدا ہو سکتے تھے اس پر کسی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ اس کے پہلے دو ماہ کے شماروں میں بلقان کے سیاسی حالات کا خلیفہ وقت اور قادیان کے حالات سے زیادہ ذکر تھا۔ بلکہ قادیان کا نام بھی اس اخبار میں کبھی کبھی ہی شائع ہوتا تھا۔ البتہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وفات سے کچھ روز قبل اس اخبار میں حضورؓ کی وصیت کی خبر اور آپ کے کچھ فرمودات شائع ہوئے تھے۔
الفضل کے آغاز کے کچھ دیر ہی بعد جماعت ِ احمدیہ کی تاریخ کا ایک نہایت نازک دور شروع ہو گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی آخری بیماری کا آغاز ہوگیا۔اور آخر میں آپؓ کے لئے یہ بھی ممکن نہیں رہا کہ آپؓ خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے یا درس دیتے۔اس نازک دور میں الفضل خلیفہ وقت اور جماعت میں رابطہ کا ذریعہ بنا ہوا تھا۔ آپ کے جو مختصر ارشادات جوکہ الفضل کے صفحہ اوّل پر شائع ہوئے ، وہ دل پر ایسا اثر پیدا کرتے ہیں جو کہ لمبی لمبی تقریروں یا طویل تحریروں سے ہر گز پیدا نہیں ہو سکتا۔ہم چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔

18 فروری 1914ء کے الفضل میں یہ خبر شائع ہوئی۔

حضرت خلیفۃ المسیح کی طبیعت اس ہفتہ بدستور علیل رہی۔ 9 فروری کو دو تین دست آنے سے طبیعت بہت نڈھال ہو گئی۔ مگردوسرے دن افاقہ ہو گیا۔پہلے پہر آرام ہوتا ہے پچھلے پہر خفیف سی حرارت۔ضعف کا یہ حال ہے کہ بغیر سہارے سے بیٹھنا تو درکنار با وجود سہارے کے سر کو خود نہیں تھام سکتے۔ اس حالت میں ایک دن (ہفتہ )فرمایا کہ بول تو میں سکتا ہوں۔ خدا کے سامنے کیا جواب دوں گا۔ درس کا انتظام کرو تا کہ میں قرآن ِ مجید سنا دوں۔ یہ آپؓ کے پاک جذبے کا اظہار تھا۔ورنہ درس نہیں کراسکتے۔

25 فروری 1914ء کے الفضل میں یہ خبر شائع ہوئی کہ حضور کی کمزوری بہت بڑھ گئی ہے۔اور اس کے آخر میں یہ لکھا تھا

…حضور اس حالت میں انگریزی ترجمہ قرآن کے متعلق ہدایات دیتے رہے۔جس کا یہ طریق ہے کہ قرآنِ کریم کی آیات سن کر آپ ضروری اشارات فرما دیتے ہیں۔

4 مارچ 1914ء کو الفضل میں یہ خبر شائع ہوئی۔

اس ہفتہ میں حضرت خلیفۃ المسیح کی طبیعت بدستور علیل رہی۔ ضعف بھی بہت ہے۔حرارت بھی ہو جاتی ہے۔ کھانسی رات کے وقت زیادہ ہوتی ہے۔ حضور کو تین القاء ہوئے…بتایا گیا کہ اکثر بیماریوں کا علاج ہوا۔ پانی اور آگ سے اور دردوں کا آگ اور پانی سے۔ پھرفرمایا بہت حکمتیں کھلی ہیں۔ ان شاء اللہ طبیعت اچھی ہو جانے پر بتاؤں گا۔ پس ہوا اور پانی سے علاج کرنے کے واسطے تبدیلی آب و ہوا کی تجویز ہوئی۔ اور بعض دوستوں کی رائے کے مطابق دارالعلوم کے بورڈنگ ہاؤس کی بالائی منزل خالی کرائی گئی … لیکن بعد از نماز ِ جمعہ نواب محمد علی صاحب کی مکرر درخواست کی بناء پر حضور کو نواب صاحب کی کوٹھی (دارالسلام ) پہنچایا گیا۔ راہ میں بورڈرز صف بستہ عرض کر رہے تھے السلام علیک یا امیرالمومنین حضور نے ڈولی ٹھہرانے کا حکم دیا۔ ان کیلئے با چشم ِ پر آب دعا کی۔ اور مولوی محمد علی صاحب کو فرمایا۔ ان کو نصیحت کر دینا۔
اس طرح اس نازک دور میں، جب احبابِ جماعت خلیفہ وقت کے خطبات، درس اور ارشادات سننے سے محروم تھے، الفضل جماعت اور خلیفہ وقت میں رابطہ بنا ہوا تھا اور خلیفہ وقت کی دعائیں اور فرمودات اُن تک پہنچا رہا تھا۔

پھر جماعت کی تاریخ کا وہ نازک مرحلہ آیا جب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وفات ہوئی، جماعت ِ احمدیہ مبائعین نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دست ِ مبارک پر بیعت کی اور جیسا کہ متوقع تھا، ایک گروہ کی طرف سے متوقع پروپیگنڈا سامنے آگیا۔ اس کی نوعیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وفات 13 مارچ 1914ء کو ہوئی اور 15مارچ کے پیغام ِصلح کے پہلے صفحہ پر ’’بلاد ِ غربیہ میں تبلیغ اسلام ۔ جناب خواجہ کمال الدین کا ایک ضروری خط‘‘ کے عنوان سے مکرم خواجہ کمال الدین کا ایک خط شائع ہوا تھا اور اندر کے صفحہ پر ’’ہائے نورالدین چل بسا‘‘ کے عنوان سے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وفات کی خبر شائع ہوئی۔ اس خبر کے آخر میں لکھا تھا۔

’’…اب یہ جاننے کے لئے کہ آپ کے بعد کون آپ کا جانشین ہوگا۔ احباب کو جناب مولانا محمد علی کے ذیل کے ضروری اعلان کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔‘‘

پھر اس کے نیچے مکرم مولوی محمد علی کا ایک اعلان شائع ہوا تھا۔ اس کے شروع میں لکھا تھا کہ اس وقت مجھے یہ قطعاً علم نہیں کہ کون شخص حضرت خلیفۃ المسیح کا جانشین منتخب ہو گا۔ پھر اس کے نیچے اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا گیا تھا کہ الوصیت میں حضرت مسیح موعودؑ نے جہاں یہ ذکر فرمایا ہے کہ جس کے متعلق چالیس مومن اتفاق کریں وہ میرے نام پر بیعت لے سکتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے خلفاء ایک وقت میں گاؤں گاؤں میں ہو سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں۔ ان کا کام صرف یہ ہو گا کہ وہ سلسلہ میں داخل کرنے کیلئے لوگوں سے بیعت لیں۔ مگر ان کو سلسلہ میں کوئی امتیاز حاصل نہیں ہو سکتا۔ اور جو لوگ سلسلہ احمدیہ میں شامل ہیں ان کو کسی نئی بیعت کی ضرورت نہیں۔ انجمن کو حضرت مسیح موعودؑ نے خود قائم فرمایا تھا اور اسے اپنا جانشین قرار دیا تھا۔

اس طرز کے خیالات پھیلانے سے کیا کیا نتائج نکل سکتے تھے وہ کسی وضاحت کے محتاج نہیں۔اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ احمدیوں کو نظام خلافت سے دور لے جایا جائے۔ اور ان کے دل میں خلافت کی عظمت کو ختم کیا جائے۔ اگر گاؤں گاؤں میں علیحدہ خلیفہ ہو سکتا تھا تو پھر اس کا مقصد ہی کیا تھا۔ اور اس کے بعد اتحاد کا کیا حشر ہونا تھا اس کا اندازہ ایک بچہ بھی لگا سکتا ہے۔

اس نازک مرحلہ پر الفضل تھا جو کہ لوگوں کو نظام خلافت کی طرف بلا رہا تھا۔ اس وقت الفضل روزنامہ نہیں تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وفات کے بعد الفضل کا پہلا شمارہ 18 مارچ کو شائع ہوا۔ اس کے پہلے صفحہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وفات کے ساتھ آپؓ کی آخری نصائح بھی درج تھیں جو آپؓ نے صاحبزادہ عبد الحی صاحب کو بلا کر فرمائی تھیں۔ ان میں آپ کے اس خداداد یقین کا اظہار بھی تھا کہ قوم کو خدا کے سپرد کرتا ہوں اور مجھے پورا اطمینان ہے کہ وہ ضائع نہیں کرے گا۔ تم کویہ نصیحت کرتا ہوں خدا تعالیٰ کی کتاب پڑھنا اور عمل کرنا۔ میں نے بہت کچھ دیکھا مگر قرآن جیسی چیز نہیں دیکھی۔ بیشک یہ خدا تعالیٰ کی اپنی کتاب ہے۔ باقی خدا کے سپرد۔

اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے جنازہ کی تفصیلات درج تھیں اور یہ خبر تھی۔

’’ہفتہ کے روز …سو کے قریب احباب کے دستخط اس بات پر لوگوں نے پیش کئے کہ ضرور جماعت میں ایک خلیفہ ہونا چاہئے جو ہمارا ایسا ہی مطاع ہو جیسے مسیح موعودؑ و خلیفۃ المسیح تھے… مسجدنور میں اجتماع ہوا۔ تو صاحبزادہ صاحب نے ایک تقریر دعاؤں کی طرف متوجہ ہونے کیلئے فرمائی مولوی محمد علی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار تفصیل سے فرمایا۔

جیسا کہ الفضل صفحہ 3 پر مفصل لکھا ہے حضرت صاحبزادہ صاحب کی بیعت ہوئی۔ اور 4:43 بجے حضرت مولانا نورالدین خلیفۃ المسیحؓ کا جنازہ کھلے میدان میں پڑھا گیا۔ 11 صفیں تھیں۔ ہر صف میں قریباً 160 آدمی۔ پیچھے عورتوں کی بھی تین صفیں تھیں۔ دو سو کے قریب ہوں گی۔پھر جنازہ اُٹھایا گیا۔ اور مقبرہ بہشتی میں حضرت مسیح موعود ؑکے دائیں طرف (بجانب مغرب) آپؓ کو سوا چھ بجے دفن کیا گیا۔ اگرچہ 14سو کے قریب آدمیوں کے تو اسی وقت بیعت ہو چکے تھے۔ مگر اس کے بعد بھی ہر نماز کے بعد اور دوسرے وقتوں میں بیعت کا سلسلہ جاری ہے اور باہر سے خطوط و تار آ رہے ہیں…‘‘

پھر اسی الفضل میں بہت سے نمایاں بزرگان کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بیعت کا اعلان شائع کیا گیا تھا۔ صفحہ 3 پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بیعت کی تفصیلات درج تھیں اور آپ کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات درج تھے۔

اس طرح اس وقت جب ایک طرف یہ کوششیں کی جا رہی تھیں کہ احباب کو نظام خلافت سے دور لے جایا جائے اور اس بارے میں غلط فہمیاں پیدا کی جائیں، الفضل لوگوں کو خلافت سے وابستہ رہنے کی طرف بلا رہا تھا۔ اور اس بارے میں حقائق شائع کر رہا تھا۔ اس وقت غلط فہمیاں پھیلانے کا سلسلہ جاری تھا۔ چنانچہ الفضل کے ا گلے شمارے میں، جو کہ 21 مارچ 1914ء کو شائع ہوا تھا، حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وہ تقریر جو کہ آپؓ نے منصبِ خلافت پر فائز ہونے کے معاً بعد فرمائی تھی شائع کی۔جو غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی تھیں کہ نہ خلافت کی ضرورت ہے اور نہ کسی بیعت کرنے کی ضرورت ہے، اس کا جواب ان غلط فہمیاں پھیلانے والوں کی اپنی سابقہ تحریروں سے دیا گیا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بیعت کی تفاصیل درج کی گئی تھیں۔ اور پھر ایک عرصہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی قیادت میں ہونے والی کاوشوں کے نتیجے میں جماعت احمدیہ کی بھاری اکثریت خلافت سے وابستہ ہو گئی۔ اس دور میں الفضل سب سے اہم ذریعہ تھا جو کہ خلیفہ وقت کی آواز کو، آپ کی راہنمائی کو احبابِ جماعت تک پہنچا رہا تھا۔ یہ جد و جہد ایک دو ماہ تک محدود نہیں تھی۔ بلکہ کئی سال کی جد و جہد تھی جس نے تمام ذہنوں پر خلافت کی اہمیت کو بالکل واضح کر دیا۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت سرخرو ہو کر اس آزمائش سے نکلی تو بہت سی مستحکم روایات احمدیوں کے ذہنوں میں اچھی طرح رچ بس چکی تھیں۔

اب ہم ایک اور نازک دور کی طرف آتے ہیں۔ یہ دور 1947ء کا دور تھا۔ اس وقت دنیا کی جماعتوں کی اکثریت برصغیر میں موجود تھی۔ اور برصغیر کی جماعتوں کی اکثریت پنجاب میں موجود تھی۔ اور تقسیم ہند کے پُر آشوب دور میں یہی صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا اور قادیان سے مرکزکی منتقلی کی وجہ سے جماعت کو جن مہیب مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا وہ سب پر عیاں ہے۔ قادیان کی حفاظت کا مسئلہ جان، مال اور وقت کی قربانی کا تقاضا کر رہا تھا۔ احمدیوں کی بڑی تعداد خود بے سر و سامانی کے عالم میں مغربی پنجاب میں منتقل ہو رہی تھی یا مشرقی پنجاب میں محصور حالت میں مدد کے منتظر تھے۔ بہت سے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے تھے اور ان کے لواحقین کی مدد اب جماعت کا فرض تھی۔ یہ پیش ِ نظر رہنا چاہئے کہ1947ء کا یہ دور وہ دور تھا جب حکومتوں کی مشینری بھی بے بس نظر آ رہی تھی۔

تقسیم برصغیر کے وقت حضرت مصلح موعودؓ 31۔اگست 1947ء کو قادیان سے لاہور تشریف لائے۔ حضورفرماتے ہیں کہ یہاں آ کر میں نے محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا نہیں بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے۔ اس وقت حالات کتنے سنگین تھے اس کا اندازہ تو سب کو ہے۔ اس وقت ابھی ایک بڑی تعداد میں احمدی قادیان میں اورمشرقی پنجاب میں محصور حالت میں تھے۔ قادیان کی جدائی سب کو مغموم کر رہی تھی۔ مہیب مالی مسائل ان کے علاوہ تھے۔ لیکن لاہور میں اپنے قیام کے اگلے ہی روز حضور نے پاکستان میں نظام جماعت کو قائم کرنے کے کام کا آغاز فرما دیا۔ یکم ستمبر کو ہی جودھا مل بلڈنگ میں حضور کی صدارت میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ اور اسی روز پاکستان میں مقیم تحریکِ جدید انجمن احمدیہ کے ممبران کا تقرر بھی کر دیا گیا۔ ان نازک حالات میں اس بات کی ضرورت تھی کہ خلیفہ وقت کی ہدایات، راہنمائی اور آپؓ کی آواز کو احباب ِ جماعت تک پہنچانے کا انتظام کیا جائے۔ ان ہنگامی حالات میں اور مالی وسائل کی اس شدیدکمی کے با وجود فوری طور الفضل کو پاکستان سے جاری کرنا ایک نہایت مشکل کام نظرآ رہا تھا۔

اخبار جاری کرنے کے لئے قانونی اجازت لینے کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن ان سب مشکلات کے با وجود حضور کی آمد کے صرف پندرہ روز کے بعد، یعنی 15 ستمبر 1947ء کو لاہور سے مکرم روشن دین تنویر کی ادارت میں الفضل کو جاری کر دیا گیا۔ اب تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی تھی۔ جس طرح 1913ء میں نہایت نازک حالات میں مالی وسائل کی شدید کمی کے باوجود قادیان سے حضرت مصلح موعودؓنے الفضل جاری فرمایاتھا۔ اب 1947ء میں نہایت خطرناک حالات میں مالی وسائل کی شدید کمی کے با وجود لاہور سے الفضل جاری کیا جا رہا تھا۔ لاہور سے شائع ہونے والے پہلے شمارے کے صفحہ اوّل پر حضرت مصلح موعودؓ کا تحریر فرمودہ جو پیغام شائع ہوا، اس کا عنوان تھا۔

’’کیا آپ سچے احمدی ہیں؟‘‘

اس پیغام کا ابتدائی حصہ درج کیا جاتا ہے، جس سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے، کہ اس وقت حالات کتنے سنگین تھے۔ حضورؓ تحریر فرماتے ہیں۔

(1) اگر آپ سچے احمدی ہیں توآج ہی سے اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں۔دعاؤں پر زور دیں۔ نمازوں پر زور دیں۔ اگر آپ کی بیوی نماز میں کمزور ہے اسے سمجھائیں۔باز نہ آئے طلاق دے دیں۔اگر آپ کا خاوند نماز میں کمزور ہے اسے سمجھائیں۔ اگر اصلاح نہ کرے اس سے خلع کرالیں۔اگر آپ کے بچے نماز میں کمزور ہیں تو ان کا اس وقت تک کے لئے مقاطعہ کردیں کہ وہ اپنی اصلاح کریں۔

(2) جب موقع ملے نفلی روزہ رکھیں۔ اور گزشتہ رمضانوں کے روزوں میں سے کوئی کمی رہ گئی ہو تو جلد سے جلد وہ قرض اتاریں۔

(3) ان دنوں میں مسلمانوں پر بڑی مصیبت آئی ہوئی ہے۔ آپ اس مصیبت میں حکومت اور افراد کی پوری مدد کریں۔

(4) آج ہی اپنے دل میں عہد کرلیں کہ قادیان کی حفاظت کرتے چلے جانا ہے۔اور اس بارے میں جو سکیم بنی ہے اس پر فوری عمل شروع کر دیں۔ وہ سکیم دوسری جگہ پر درج ہے۔ اور اگر ہندوستانی حکومت کے دباؤ سے ہمیں قادیان خدانخواستہ خالی کرنا پڑے۔ تو ہر ایک احمدی قسم کھائے کہ وہ اسے واپس لے کر چھوڑے گا۔ اور اگر اس میں دیر ہو تو ہر بچہ جوان ہو اس سے قسم لی جایا کرے۔یاد رکھو قادیان خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ مرکز ہے۔ اور ضرور تمہارے پاس رہنا چاہیے۔ اور رہے گا ان شاء اللہ……‘‘

الفضل کے اسی شمارے میں حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے یہ پیغام شائع ہوا کہ تمام جماعتیں 18 سال سے 55 سال کے افراد کی فہرست بنا کر قرعہ اندازی کر کے ان کا 1/8 حصہ قادیان کی حفاظت کے لئے بھجوائیں اور قادیان کی آبادی کا 1/5 حصہ قادیان میں قادیان کی حفاظت کے لئے رہے گا۔ اس سے اگلے شمارے میں جو کہ 17 ستمبر 1947ء کو شائع ہوا حضور کا وہ خطبہ جمعہ شائع ہوا جوکہ حضورؓ نے 5 ستمبر1947ء کو ارشاد فرمایا تھا۔ اس وقت الفضل میں جماعت کے انتظامی اعلانات ہو رہے تھے۔ پناہ گزینوں کی راہنمائی کی جا رہی تھی۔ جماعتی عہدیداروں کے نام پیغامات شائع کئے جا رہے تھے۔ احباب ِ جماعت کو مالی قربانیوں کی طرف توجہ دلائی جا رہی تھی۔ سب سے بڑھ کر خلیفہ وقت کے پیغام شائع کئے جا رہے تھے۔ الفضل حضرت مصلح موعودؓ کی راہنمائی پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ بنا ہوا تھا۔ اور اس ذریعہ سے جماعت اور خلیفہ وقت کے درمیان مسلسل رابطہ قائم تھا۔

اس دور میں جتنی جلدی احمدیوں کو منظم کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا کیا گیا تھا اس کا اعتراف اشد ترین دشمن بھی کرتے رہے۔ چنانچہ جماعت کے اشد مخالف جریدے میں جماعت کے خلاف مضمون شائع ہوا لیکن اس میں بھی یہ اعتراف کیا گیا۔

’’تقسیم ِ ملک کے وقت مشرقی پنجاب کی یہ واحد جماعت تھی۔جس کے سرکاری خزانہ میں اپنے معتقدین کے لاکھوں روپیہ جمع تھے اور جب یہاں مہاجرین کی اکثریت بے سہارا ہو کر آئی۔تو قادیانیوں کا یہ سرمایہ جوں کا توں محفوظ پہنچ چکا تھا۔اور اس سے ہزاروں قادیانی بغیر کسی کاوش کے از سرِ نو بحال ہو گئے تھے…‘‘

(ہفت روزہ المنیر 12مارچ 1956ء ص 10)

تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی مخالف بیرونی حملوں سے نقصان پہنچانے میں ناکام ہو جاتا ہے تو پھر اندرونی فتنہ پیدا کر کے یا اس کی مدد کر کے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور تاریخی طور پر ایسے منصوبوں میں سب سے زیادہ نظام ِ خلافت کو نشانہ بنا کر یہ کوشش کی جاتی رہی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں سے خلافت کا احترام ختم کیا جائے ان کے۔ دلوں میں بد ظنیاں پیدا کی جائیں، جھوٹی افواہیں پھیلا کر اپنا مطلب حاصل کیا جائے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کے فتنوں کی دردناک تاریخ ایسی نہیں جسے فراموش کیا جا سکے۔ اگر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کی مثال لی جائے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ چندبے حیثیث لوگ باتیں بنا رہے یا اعتراض کر رہے ہیں۔ یا بظاہر مجمع میں ایک غیر معروف آدمی خلیفہ وقت کے متعلق بے بنیاد اعتراض کر رہا ہے اور اسی مجمع میں اس کو اس کا مناسب جواب بھی دے دیا گیا ہے۔ اس وقت ایک بھاری اکثریت ان باتوں کو کسی قسم کی اہمیت دینے پر تیار نہیں تھی۔ لیکن بہت کم آنکھیں یہ دیکھ پا رہی تھیں کہ یہ سب کچھ ایک مکروہ منصوبے کے تحت کیا جا رہا تھا۔ اس کے پیچھے عبد اللہ بن سبا کا ہاتھ تھا جو کہ پہلے یہودی تھا اور پھر بعد میں اس نے اسلام قبول کر نے کا اعلان کیا تھا۔ ان فتنہ پروروں کے مراکز تھے۔ کوفہ، مصر، بصرہ اور دوسرے مقامات میں ان کے مراکز تھے اور اُس دور میں بھی یہ ایک دوسرے سے مسلسل خطوط کے ذریعہ رابطہ میں تھے۔ مختلف شہروں کے دورے کر کے لوگوں سے جھوٹ بول کر انہیں بھڑکاتے تھے۔ مختلف شہروں میں خط بھجوا کر انہیں بھڑکا رہے تھے۔ جب یہ فتنہ اپنی انتہا کو پہنچا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا گیا تو وہ لوگ جو کل تک انہیں کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے اب اس بات کی طاقت نہیں رکھتے تھے کہ ان کو روک سکیں۔ تاریخ میں بار بار اسی طرز پر فتنے برپا کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ 1956ء کے حالات میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا۔

’’اس فتنہ کے بانی اچھی طرح حضرت عثمان ؓ کے قاتلوں کی سکیم کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ اور ان کی سکیموں پر چلنا چاہتے ہیں۔‘‘

(الفضل 30 جولائی 1956ء ص 1)

لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی خداداد فراست سے پہچان لیا تھا کہ یہ وسوسہ اندازی اس وقت تک ہی اثر انداز ہو سکتی ہے جب تک اصل حقائق لوگوں کی نظر سے اوجھل رہیں۔ جب ان وساوس کو پیدا کرنے والوں کی اصلیت اور وساوس کے بارے میں اصل حقائق سامنے آ جائیں تو ان کا تدارک ویسے ہی ہو جاتا ہے۔ اس وقت بہت سے غیر از جماعت اخبارات نے حسب ِ سابق یہ راگ الاپنا شروع کیا اب جماعت احمدیہ کے اتحاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ حضرت مصلح موعود ؓ کی ہدایات کی روشنی اس وقت پھیلائی جانے والی افواہوں اور وسوسوں کے بارے میں حقائق الفضل میں شائع ہو نے لگے۔ جن لوگوں کے نام لے کر جھوٹی باتیں کی جا رہی تھیں ان کے اپنے بیانات الفضل میں شائع ہونے لگے۔ اس طرح الفضل کے ذریعہ ایک منظم انداز میں وسوسہ اندازی اور فتنہ پروری کا مقابلہ کیا گیا۔ یہ سب کچھ اتنا مؤثرثابت ہوا کہ جماعت مخالف اخبارات جو کہ کل تک بغلیں بجا رہے تھے کہ اب جماعت کا اتحاد پارہ پارہ ہو جائے گا، اب کئی اخبارات اس بات پرٹسوے بہا رہے تھے کہ جماعت کے اتحاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور لکھ رہے تھے کہ قادیانی اندھی عقیدت کا شکار ہیں۔

(نوائے وقت 9 ستمبر 1956ء ص 3)

اور جوگروہ افواہ سا زی میں مشغول تھا وہ اس بات پر ماتم کرتا نظر آیا کہ خواہ مخواہ غیر اہم چیزوں کو بڑھا چڑھا کر اہمیت دی جا رہی ہے۔الٰہی جماعتوں میں پیدا کئے جانے والے فتنوں کی تاریخ ایک وسیع مضمون ہے اور ان سے پہنچنے والے نقصانات سے سب واقف ہیں۔ 1956ء میں ان کا جس طرز پر کامیاب مقابلہ کیا گیا وہ ہمیشہ کیلئے تاریخ میں اپنا مقام حاصل کر چکا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے مبارک دور میں اس طرز پر جماعت کی جو مسلسل تربیت کی گئی اس کی نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پہلو سے جماعت ِ احمدیہ کو اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ گئی۔

جب خلافت ِ ثالثہ کا آغاز ہوا۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے بہت سی تحریکات کا آغاز فرمایا۔ جب بھی خلفاء کی طرف سے کوئی تحریک کی جائے تو سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس تحریک کو احمدیوں تک پہنچایا جائے۔ تاکہ لوگ اس تحریک میں حصہ لیں۔ خلیفہ وقت کی ہدایت پر عمل کریں۔ خواہ وقف ِ عارضی کی تحریک ہو یا نصرت جہاں آگے بڑھو کی تحریک ہو یا دوسری بابرکت تحاریک ہوں۔ اُس دور میں الفضل خلیفہ وقت کے ارشادات کو احباب ِ جماعت تک پہنچاتا رہا اور وہ ان تحاریک میں شمولیت کرکے ثواب حاصل کرتے رہے۔ مخالف طبقہ بھی الفضل کی اہمیت سے سے بخوبی واقف تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی طرف سے 1974ء کی کارروائی کے دوران جماعتی اخبارات اور جرائد میں سے سب سے زیادہ الفضل کے حوالے پیش کئے اور سب سے زیادہ غیظ کا اظہار بھی ان کے بارے میں کیا گیا۔

آخر میں 1984ء کے دور میں جاری ہونے والے بدنامِ زمانہ آرڈیننس کا ذکر ضروری ہے۔ اس آرڈیننس کا ایک بنیادی مقصد یہ تھا کہ کم از کم پاکستان میں احمدیوں میں اس بات سے محروم کردیا جائے کہ خلیفہ وقت کی آواز ان تک پہنچ سکے۔ قانون سازی اتنی ظالمانہ تھی کہ اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی۔ لیکن اس پُر آشوب دور میں بھی، تمام تر پابندیوں کے با وجود الفضل خلیفہ وقت کے فرمودات کو احباب جماعت تک پہنچانے کا فرض ادا کرتا رہا۔ پابندیاں اور قید و بند کی صعوبتیں بھی اس راہ میں حائل نہیں ہو سکیں۔ 1984ء کے بعدشروع کے سالوں میں تو ایم۔ٹی۔اے کی سہولت بھی میسر نہیں تھی اس لئے الفضل کا یہ کردار کلیدی اہمیت کا حامل تھا۔

اس طرح ان سو سال میں بہت سی مشکلات پیدا ہوئیں ، بہت سے کڑے وقت آئے اور چلے گئے لیکن الفضل خلیفہ وقت اور جماعت میں رابطہ کا کردار ادا کرنے کا فرض ادا کرتا چلا گیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک ادا کر رہا ہے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ