• 19 اپریل, 2024

کشمیر کہانی

5 فروری کا دن ہر سال ’’یوم یکجہتئ کشمیر‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن پاکستان اور بیرونِ ملک مسئلہ کشمیر کے موضوع پر جلسے کئے جاتے ہیں اور ہند و پاکستان کے مابین اس تنازعہ کی صحیح کو واضح کیا جاتا ہے۔

کشمیر کا علاقہ برصغیر ہند و پاک کے انتہائی شمال میں سلسلہ ہائے کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع ہے۔ یہ دو حصّوں میں منقسم ہے۔ ایک حصّہ پر ہندوستان کا قبضہ ہے جسے مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں۔ اس کا دارالحکومت ’’سرینگر‘‘ ہے۔ دوسرا حصّہ پاکستان کی زیرِنگرانی ہے جو ’’آزاد کشمیر‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کا دارالحکومت ’’مظفر آباد‘‘ ہے۔ ہندوستان کے مقبوضہ کشمیر میں وادئ کشمیر کے علاوہ جمّوں، لدّاخ اور سیا چن کا علاقہ شامل ہے جبکہ آزاد کشمیر میں وادی کے علاوہ گلگت، بلتستان اور کوہستان کے علاقے شامل ہیں۔ کشمیر میں بہتے ہوئے دریائےنیلم پہاڑوں اور دلفریب وادیوں کا خوبصورت اور سحر انگیز نظاروں کا منظر پیش کرتا ہے۔ اب اس دریا پر ہندوستان بند باندھ کر اس کا رخ موڑ رہا ہے جس کے نتیجہ میں آزاد کشمیر کے خوبصورت علاقہ کے بنجر ہونے کا خدشہ ہے۔

کشمیر کے حکمران

بہت ابتداء میں یہاں ہندو قوم کی حکومت تھی۔ ایک ہندو راجہ اشوک نے بدھ مت قبول کر لیا اور اس کی تبلیغ سے قوم بدھ مت کے حلقہ میں آگئی۔

پانچویں صدی میں اسرائیلی قبائل ہجرت کرکے یہاں آئے۔ افغانستان اور کشمیر کے علاقوں میں آباد ہو گئے بعض روایات کے مطابق کشمیریوں کا سلسلہ نسب حضرت ابراہیمؑ سے جا ملتا ہے۔ لفظ ’’کشمیر‘‘ عبرانی زبان سے نکلا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ملک شام کی طرح (خوبصورت)

کشمیر میں اسلام اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں آیا جب ایک راجہ نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ 1339 میں پہلا مسلمان حکمران ’’شاہ میر‘‘ مسند شاہی پر متمکن ہوا اسکے بعد یہ سلسلہ 1561 تک چلا۔ 1585 میں کشمیر مغلیہ سلطنت کا حصّہ بن گیا۔ 1751 میں یہ علاقہ افغان حکمرانوں کے زیر تسلط آ گیا

1819 میں پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ سکھوں کی حکومت نے مسلمانوں پر بہت مظالم ڈھائے۔ گائے کے ذبیحہ پر سزائے موت دی جاتی۔ اذان دینے پر پابندی لگا دی گئی۔ سرینگر کی جامع مسجد کو بند کر دیا گیا۔ مسلمانوں پر بے جا بھاری ٹیکس عائد کر دیئے گئے۔

مسلمانوں کو زبردستی شدھی کے ذریعہ مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ جس کی وجہ سے کثرت سے مسلمان زمیندار پنجاب کی طرف ہجرت کر گئے۔ 1882ء میں گلاب سنگھ کو کشمیر کا راجہ نامزد کیا گیا۔ سکھوں اور انگریزوں کی لڑائی میں سکھوں کو شکست ہو گئی۔ ایک معاہدے کے تحت لاہور پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا جبکہ صرف 75کروڑ روپے کے عوض وادئ کشمیر راجہ گلاب سنگھ کے حوالے کر دی گئی۔ 1947 میں تقسیم ہند و پاک کے وقت مہاراجہ ہری سنگھ کشمیر کا حکمران تھا۔

حضرت عیسیٰؑ کی کشمیر میں آمد

حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو جب صلیب پر لٹکایا گیا تو صرف 6 گھنٹے کے بعد انہیں اتار لیا گیا۔ ان کے زخموں پر مرہم لگائی گئی اور انہیں رومن طرز کی غار نما ایک قبر میں رکھا گیا۔ جہاں آرام کرنے اور قدرے صحتیاب ہونے کے بعد انہوں نے ہجرت کی۔ راستے میں حواریوں کو بھی ملے۔ ان کے ساتھ آپ نے کھجوریں، روٹی اور شہد تناول فرمایا۔ چنانچہ آپ عراق، ایران، افغانستان، پاکستان، شمالی ہندوستان، نیپال بنارس وغیرہ سے ہوتے ہوئے کشمیر پہنچے۔ سرینگر میں قیام کیا اور وہاں ایک سو بیس سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔ حضرت عیسیٰ گوتم بدھ سے پانچ سو سال بعد یہاں تشریف لائے۔ یہاں کا راجہ آپ سے بہت متاثر تھا اور آپ پر ایمان لے آیا۔ کشمیر کے لوگ بنی اسرائیل سے ہی تھے لہٰذا ساری آبادی آپ پر ایمان لے آئی۔

ایک حدیث کے مطابق آپ کو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ایک مقام سے دوسرے کی طرف چلتے رہو۔ ایسا نہ ہو کہ تم پہچانے جاؤ اور تمہیں تکلیف دی جائے۔

جماعت احمدیہ کو کشمیر کے لوگوں سے بہت ہمدردی اور پیار ہے۔ جماعت کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کشمیری مظلوم عوام کی آزادی کے لئے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے تھے۔ آپ نے کشمیر کے علاقہ کے تین سفر کئے۔ ان سفروں کے دوران کشمیریوں کی بے بسی کی حالت نے آپ کی طبیعت پر بہت اثر کیا۔ چنانچہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر کی حیثیت میں آپ نے کشمیریوں کی تحریک آزادی میں مالی، اخلاقی اور قانونی، ہر لحاظ سے مدد مہیّا کی۔ جب کشمیر پر ہندوستان نے غاصبانہ قبضہ کر لیا تو حکومت پاکستان کی درخواست پر ایک پوری بٹالین ’’فرقان فورس‘‘ کے نام سے جہادِ کشمیر کے لئے فوج کی مدد کے لئے پیش کر دی۔ کشمیری مجاہد شیخ عبداللہ کی راہنمائی اور عملی مدد فرمائی۔

اقوام متحدہ میں تنازعۂ کشمیر

تقسیم ہند و پاک کے موقعہ پر یہ طے ہوا تھا کہ ہندوستان کی ریاستیں خود فیصلہ کریں گی کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا ہندوستان کے ساتھ۔ حیدرآباد دکن، بھوپال اور گوا کے حکمران مسلمان تھے۔ انہوں نے پاکستان سے الحاق کی خواہش کی جبکہ عوام کی اکثریت اس حق میں نہیں تھی۔ چنانچہ ہندوستان نے وہاں فوجیں داخل کرکےوہاں غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ توقع تھی کہ کشمیر کی آبادی اورسرحدی حدود کی حکمت کے پیش نظر مہاراجہ کشمیر پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کرے گا۔ لیکن مہاراجہ نے برضا ورغبت ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ اس پر سرحدی قبائل نے حملہ کردیا۔ ہندوستان اس معاملہ کو اقوام متحدہ میں لے گیا۔ یہ موقف اختیار کیا کہ قبائلیوں نے پاکستان کی انگیخت پر پاکستانی فوجیوں کے تعاون سے کشمیر پر حملہ کر دیا ہے اور اس طرح بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ لہذا جنگ بندی کروائی جائے۔ جب امن ہو جائے گا تو ہم رائے عامہ معلوم کرکے الحاق کا فیصلہ کر لیں گے۔ اگر عوام پاکستان کے ساتھ جانا چاہیں یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہیں تو فیصلہ عوام کی خواہشات کے مطابق ہو گا۔ اقوام متحدہ نے ایک لائن آف کنٹرول مقرر کرکے یکم جنوری 1949 کو جنگ بندی کروا دی۔ آج 71سال ہونے کو آئے ہیں ہندوستان اپنا وعدہ پورا نہیں کر رہا بلکہ وہاں کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کر رہا ہے۔ اس معاملہ پر ہندوستان اور پاکستان کے مابین تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ اس وقت بھی حالات کشیدہ ہیں۔ آئے دن کنٹرول لائن پر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ گذشتہ 6 ماہ سے ریاست ساری دنیا سے کٹی ہوئی ہے۔

آزادئ کشمیر کے لئے دعا کی تحریک

حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح موعود رضی اللہ عنہ نے احباب جماعت کو تحریک کی تھی کہ وہ کشمیری عوام کی آزادی کے لئے دعا کریں۔آپ نے فرمایا:۔

’’پس ہمیں دعائیں کرتے رہنا چا ہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے کشمیری بھائیوں کی مدد کرے۔ آخر کشمیر وہ ہے جس میں مسیح اوّل دفن ہیں اور مسیح ثانی کی بڑی بھاری جماعت اس میں موجود ہے۔…مسیح اوّل نہ ہندو تھے اور نہ عیسائی تھے اور مسیح ثانی بھی نہ ہندو تھے نہ عیسائی تھے۔بلکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے اور اسلام کی عزت ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں مبعوث کیا تھا۔ پس جس ملک میں دو مسیحوں کا دخل ہے وہ ملک بہر حال مسلمانوں کا ہے اور مسلمانوں کو ہی ملنا چاہئے۔ اس لئے…ہمیں ہر وقت خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے مستقبل کے متعلق خود فیصلہ کرنے کی توفیق بخشے‘‘۔

(خطاب 8 فروری 1957ء)

(زرتشت منیر۔ناروے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ