• 18 جون, 2025

’’بعض قرض کبھی نہیں اتارے جا سکتے‘‘

’’بعض قرض کبھی نہیں اتارے جا سکتے‘‘
تجھے اے ماں! بلاؤں کہاں سے

کچھ روز قبل خاکسار الفضل سے محبت اور عقیدت رکھنے والے خیر خواہوں کے اسٹیٹس دیکھ رہا تھا۔ یونان کے ایک احمدی دوست مکرم ارشد محمود نے اپنے اسٹیٹس پر ایک بڑی عمر کی خاتون کی فوٹو لگا رکھی تھی جو اپنے بچے کے لئے نئی سائیکل کاندھوں پر رکھے گھر کو جا رہی تھا۔ اس فوٹو کے نیچے کیپشن اس طرح لکھا ہوا تھا۔

بعض تصاویر جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ اس خاتون کو پتہ ہے کہ یہ سائیکل چل سکتی ہے لیکن اس نے اسے اپنے کاندھوں پر اس لئے اٹھایا ہوا ہے کہ کہیں اس کے نئے پن میں کوئی کمی نہ آ جائےاور بچے کو تحفہ بالکل نیا نکور ملے۔

اس تصویر پر ایک عرب اخبار نے یہ عنوان جمایا ہے

’’بعض قرض کبھی نہیں اتارے جا سکتے‘‘

میں مندرجہ بالا عنوان کو سادہ فہم قارئین کے لئے اپنی نوکِ قلم سے آسان و سلیس کر کے بیان کر دیتا ہوں کہ ہر والد، والدہ، بڑے بہن بھائی یا سرپرست اگر چھوٹے بچوں یا عزیزوں کو تحفہ دینا چاہتے ہیں تو وہ تحفہ ’’پنی پیک‘‘ یا سیِل بند (seal packed) ہوتا ہے۔ بچے ہی اسے کھولتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ اور اگر تحفہ کھول کر پیش کریں تو بچے ناراض ہوتے ہیں اور بسااوقات کھلا ہوا تحفہ وصول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ زیر بحث تصویر میں وہ ماں سائیکل کے سہارے گھر پہنچ سکتی تھی۔ مگر اس ماں کی دلی خواہش یہ تھی کہ میرے بچے کی سائیکل کے ٹائروں کو مٹی نہ لگے اوراس وجہ سے استعمال شدہ لگنے کی بجائے نئی نکور سائیکل ہی گھر پہنچے اور میں اپنے بچے کو پیش کروں۔ جس کے لئے اس ماں نے اپنے بچے کی دلی خواہش کی لاج رکھ کراسے پورا کرنے کے لئے پیسے اکٹھے کرکے اپنے آپ کو مشکل میں ڈالا۔ اس طرح کے لاکھوں کروڑوں والدین ہوں گے جو اپنے بچوں کی خوشیاں پوری کرنے کی خاطر نہ جانے کتنی مشکلات میں سے گزرتے ہوں گے۔

مجھے اس تصویر کو دیکھ کر آج سے کچھ سال قبل پاکستان کے سائیکلوں کے شہر ربوہ میں گزراہوا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے کہ مجھے ایک بزرگ کو سائیکل کو داہنے ہاتھ سے چلاتے ہوئے پیدل جاتے دیکھا تو میں نے پوچھ لیا۔ بزرگو! سائیکل پر چڑھ کیوں نہیں جاتے؟ تو جواب ملا کہ سائیکل کو میں سہارے کے طور پر اپنے ساتھ رکھتا ہوں کہ کہیں گر نہ جاؤں مگر اس بوڑھی ماں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میں گروں یا مجھ پر تھکاوٹ طاری ہو، لیکن بچے کی نئی سائیکل چلانے کی وجہ سے گرد آلود نہ ہوکر داغدار نہ ہو۔ اسی لئے تو عرب اخبار نے کیا ہی عمدہ اور سچ پر مبنی اس نایاب فوٹو پریہ Caption لگایا ہے۔ بعض قرض کبھی نہیں اتارے جا سکتے۔

ان الفاظ میں لفظ ’’بعض‘‘ غور طلب ہے۔ اس میں سے کون کون آتے ہیں۔ میرے نزدیک بعض میں سب سے اول پیارے اللہ میاں کا نام آتا ہے۔ جن کے احسانات کا قرضہ نہیں چکایا جا سکتا۔ جو انسان کی پیدائش سے قبل ہی صفت الرحمن کے تحت ایسی نعمتیں عطا فرماتا ہے جن کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ جیسے بہت سی دوسری نعمتوں کے ساتھ ہوا، پانی وغیرہ وغیرہ۔ تازہ ہوا کی نعمت کا اندازہ تو مری پاکستان میں برفباری کے طوفان کے دوران وہ لوگ تو آسانی سے لگا سکتے ہیں جو اپنی گاڑیوں میں موت و زندگی کے کھیل میں بچ نکلے اور اپنی گاڑیوں میں مقید 22 کے قریب افراد تازہ ہوا نہ ملنے کے باعث اللہ کو پیارے ہو گئے۔

اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی اور بہت سی نعمتیں ہیں جن کی شکرگزاری ضروری ہے اور انسان چاہے رات دن اس کی عبادت کرتا رہے اور شکر ادا کرتا رہے، اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔

’’بعض‘‘ کے لفظ میں دوسرے نمبر پر ماں کا ذکر آتا ہے۔ ماں کو بھی مجازی طور پر خدا کا ہی درجہ دیا جاتا ہے کیونکہ اس وجود میں اللہ تعالیٰ کی اہم صفات رحمان و رحیم کے زیادہ معانی و مطالب جلوہ گر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس لئے کہا جاتا ہے ماں رحیم ہوتی ہے اور ماں کا رحم بھی رحیم سے نکلا ہے اور جو تعلقات ماں کی طرف منسوب ہوتے ہیں انہیں رحمی رشتے کہا جاتا ہے۔ جنگ بدر میں جب ایک خاتون کو جو اپنے بچے کی تلاش میں پاگلوں کی طرح سرگرداں پھر رہی تھی۔ بچہ ملنے پر اتنا خوش تھی کہ اس کو چوم چاٹ رہی تھی۔ پیار کر رہی تھی۔ جسے دیکھ کر آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ خدا اس ماں سے زیادہ اپنی مخلوق کے لئے رحیم ہے۔ اس کا بھولا بھٹکا بندہ جب اس کے دربار میں حاضر ہوتا ہے تو اس کو اس ماں سے بھی کہیں بڑھ کر پیار آتا ہےاور وہ اس کی تمام تر آرزوئیں، خواہشیں اور دعائیں پوری کرتا ہے۔

بعض قرض جو معاف نہیں ہو سکتے ان میں ایک ماں کا قرض ہے جو وہ اپنی اولاد کو پالنے پوسنے سے کرتی ہے۔ یہ سلسلہ تو ساری زندگی جب تک ماں زندہ ہے بلکہ اس کی وفات کے بعد دعاؤں اور اس کی بہنوں وعزیز و اقارب سے حسن سلوک کرنے سے جاری رہتا ہے۔ لیکن اب بات کرتے ہیں ابتدائی دور کی جب نو ماہ تک وہ اسے اپنے ساتھ اٹھائے رکھتی ہے۔ اس ماں پر نو ماہ میں جو کیفیات آتی ہیں اور ماں کن حالتوں سے گزرتی ہے۔ اس کااندازہ تو وہ ہی لگا سکتی ہے۔ اس دوران وہ کسی سے شکوہ شکایت نہیں کرتی۔ اس بوجھ کے ساتھ وہ گھر کے تمام کام کاج کر رہی ہوتی ہے۔ چلنا پھرنا اس کے لئے دوبھر ہو رہا ہوتا ہے۔ مگر اس خوشی میں کہ چند مہینوں میں میری گود بھرنے والی ہے وہ خاموشی کے ساتھ یہ تمام مراحل پر تکالیف برداشت کرتی ہے۔

ایک خاتون ڈاکٹر کے پاس آئی۔ ڈاکٹر نے پوچھا جی بی بی ! کیا مسئلہ ہے؟ عورت بولی بیٹا بھوکا رہ جاتا ہے، دودھ نہیں اترتا! ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ لو پرچی انجکشن لکھ کے دیا ہے لگواتی رہنا۔ کچھ دن بعد وہ عورت دوبارہ آئی اور بولی ڈاکٹر صاحب! بچہ فیڈ تو لے رہا ہے لیکن ہڈیاں درد کرتی ہیں بدن ٹوٹتا ہے۔ ڈاکٹر بولا، تو انجکشن لگوانا بند کر دو۔ عورت بولی نہیں۔ بچہ بھوکا رہ جائے گا۔ یہ کہہ کر واپس چل دیتی ہے۔

کچھ سال بعد زمانہ بدلتا ہے، والدہ ادھیڑ عمر میں اور بچہ جوان ہوجاتا ہے۔ ایک دن کراہنے کی آواز سن کر بیٹا ساتھ والے کمرے سے اٹھ کر آتا ہے: کیا ہے اماں! ماں جواب دیتی ہے کہ بیٹا !معدہ میں درد ہےاور بدن ٹوٹ رہا ہے۔ بیٹا لاپرواہی سے بولتاہے۔ اماں! پھر کچھ الٹا پلٹا کھا پی لیا ہو گا۔ نہ خود سوتی ہو نہ ہمیں سونے دیتی ہو!۔یہ انجان اور بے پرواہ بیٹا کیا جانے اس کی اس بوڑھی ماں نے کتنی تکلیفوں کے بعد اس کو جنا تھا۔ جب یہ چل پھر اور کھا پی بھی نہیں سکتا تھا، حتی ٰ کہ اپنی حفاظت بھی خود نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی ماں نے راتوں کو جاگ جاگ کر خدمتیں کیں۔ اس کے پیشاب سے گیلے ہونے والے بستر پر خود لیٹ کر اس کو اپنی خشک جگہ پرسلایا، پھر بھی کوئی شکایت کا کلمہ منہ پر نہیں آیا۔ماں نے خود روکھی سوکھی روٹی کھاکے گزارہ کیا لیکن بیٹے کو سالن یا ترکاری کے ساتھ دیسی گھی میں چوپڑ کر روٹی کھلائی۔ پیار سے، لاڈ سے باتوں میں لگا کر اس کا پیٹ بھرا۔ بچے کی بیماری میں اتنی ہلکان ہوجاتی کہ گویا اسی کو بیماری لگ گئی ہو۔ جب وہ روتا تو پریشان ہوتی اور جب ہنستا تو مسکرادیتی۔ کیا ہے یہ ماں۔ یہ میرے اللہ نے بنائی ہے۔ یہ حسین تخلیق اللہ ہی کی جلوہ گری ہے۔ مجھے لگتا ہے ماں کی محبت ہمالیہ پہاڑ جیسی ہے، جس کی بلندیوں کو کوئی ناپ نہیں سکتا۔ یہ وہ اوقیانوس کا گہرا سمندر ہے، جس کی گہرائیوں کا اندازہ کوئی لگا نہیں سکتا۔ ہمیں اپنا بچپن بہت یاد ہے جب ماں ہمارا سب احوال ایک منٹ میں جان لیتی تھی۔ ماں تو ماں ہوتی ہے،پہچان لیتی ہے کہ آنکھیں سونے سے لال ہوئی ہیں یا رونے سے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

؎داستان میرے لاڈ پیارکی
اک ہستی کے گرد گھومتی ہے
پیار جنت سے اس لئے ہے مجھے
کہ یہ میری ماں کے قدم چومتی ہے

ایک ماں نے بتایا اپنے بیٹے کو، جب تو پہلی بار بولا تھا۔ میں جھوم اٹھی تھی اور تجھے چوم لیا تھا۔ پر اب تو جو بولتا ہے تو میں، سہم جاتی ہوں اور ڈر جاتی ہوں۔ تو ایسے نا ہنجار بچے بھی ہوتے ہیں جو ماں کی ممتا اور اس کے احسانات کو یکسر بھول جاتے ہیں اور پس پشت ڈال دیتے ہیں، ماں کے بل بوتے پر پلنے والے یہ بڑے ہوکر اپنے آ پ کو کیا سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اور جب ان کے ہاتھوں سے سب کچھ نکل جاتا ہے اور ماں کا ٹھنڈا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے۔ اور وہ تپتے صحرا کی چلچلاتی دھوپ میں ننگے پیر بے یار و مددگار کھڑے ہوجاتے ہیں تو ان کے منہ سے افسوسناک اور دکھ بھری آہوں کے ساتھ نکلتاہے کہ

ہائے ماں ! تیرا حق ہم سے ادا نہ ہوسکا!!!!

ہم مرد حضرات ماں کے پراسس سے گزرنے والی خواتین کا خیال دل میں لائیں، ذرا سا تخیل ذہن میں لائیں تو ان کی اذیت اور تکلیف کی وجہ سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہمیں تو بازار یا مارکیٹ سے خریدوفروخت کے بعد ایک شاپر گھر لانا ہو تو ہم بوجھ محسوس کرتے ہیں حالانکہ وہ کتنے لمحات کا سفر ہوتا ہے۔ ہم بچپن میں آٹا پسوانے کے لئے سر پر یا کاندھوں پر بوری رکھ کر چکی تک لے جاتے تھے تو وہاں پہنچ کر زور سے نیچے بوری کو پھینک دیتے تھے کہ بوجھ محسوس ہو رہی ہے۔ بوری کا بوجھ اتار کر اپنے آپ کو ہلکا محسوس کرتے تھے۔ یہی کیفیت ربوہ میں نلکوں سے میٹھا پانی بھرنے میں ہوتی تھی۔ اتنی معمولی تھکاوٹ میں بعض اوقات ہم اپنے بچوں یا چھوٹے بھائیوں کو کہہ کر جسم کو دبواتے بھی تھے۔ اور تھکاوٹ تھکاوٹ کا واویلا بھی کر رہے ہوتے تھے۔ مگر یہ ماں ایک طرف نو ماہ تک بچے کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہےاور جب پیدائش کا وقت قریب آتا ہے تو ایک ایسی تکلیف سے گزرتی ہے کہ اگر کہا جائے کہ ایک دنیا چھوڑ کر نئی دنیا میں آئی ہے یا یوں کہہ لیں کہ بچے کی پیدائش کے ساتھ اس کا بھی نیا جنم ہو رہا ہوتا ہے۔ اور بعض حالات میں گود کے بچہ کو بھی ساتھ اٹھا رہی ہوتی ہے۔ اس دوران اس کے رہن سہن میں تبدیلی آ رہی ہوتی ہے۔ اس کی غذا کم ہوتی نظر آ تی ہے۔ گرمی کی حدت اور سردی کی شدت کو بھی برداشت کر رہی ہوتی ہے۔

پھر پیدائش کے بعد ماں کی قدر بڑھانے کے لئے صرف یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ وہ بچہ کے لئے بہت سی تکلیفیں سہتی ہے، گیلی جگہ خود سو جاتی ہے، اپنے منہ کا نوالہ پہلے اس کو دیتی ہے۔ حالانکہ ماں کی قربانی اس سے کہیں زیادہ ہے۔ بچے کو پالنا اور اس کا خیال رکھنا آسان کام نہیں۔ اگر اس کیفیت سے گزرنے پر لکھی جانے والی ڈھیروں کتب اورلاتعداد مضامین کا مطالعہ کیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ پیدائش کے عمل سے لے کر بچے کے بڑے ہونے تک جو کیفیت ماں پر گزر رہی ہوتی ہے۔ ایک مرد اس کا پاسکو بھی نہیں اور لاکھ چاہنے کے باوجود ایک ماں کے حالات کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ صرف بچے کو اپنا دودھ پلانا یہی ایک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ خصوصاً اس وقت جب بچہ دودھ نہ پی رہا ہو اور دودھ مسلسل اتر رہا ہو اور اس کی زیادتی کی وجہ سے جس تکلیف اور اذیت سے ماں گزر رہی ہوتی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ بچے کی دیکھ بھال، اس کی رضاعت ماں کو اپنا کھانا پینا اور آرام سب کچھ بھلا دیتی ہے۔ اس کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔ اگر گھر میں دو تین بچے پل رہے ہوں تو ماں پر چوبیس گھنٹے ایک قیامت برپا رہتی ہے۔ مگر کوئی شکوہ نہیں، کوئی شکایت نہیں۔ وہ کھانا بھی پکا رہی ہے، وہ کھانا پکا کرتقسیم بھی کر رہی ہے۔ اپنے خاوند کا بھی خیال رکھ رہی ہوتی ہے اسی طرح اگر کوئی مہمان آ جائے تو اس کی تواضع بھی ہو رہی ہوتی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام (Joint family system) میں وہ اپنے بڑوں کا بھی خیال رکھتی ہے۔ مگر اف نہیں کرتی جبکہ خاوند کی زندگی کم و بیش سابقہ روٹین میں ہی رواں دواں ہوتی ہے۔ اگر نیند میں ذرا سا بھی خلل آ جائے تو وہ اپنا غصہ نکال لیتا ہے۔ اور بیوی یعنی بچوں کی ماں گھر کے ماحول کو جنت نظیر بنائے رکھنے کے لئے اسے بھی ہنسی خوشی برداشت کر لیتی ہے۔ بچہ جب بڑا ہوتا جاتا ہے اس کی حرکتیں، اس کی ادائیں، اس کی تکالیف سب ماں برداشت کرتی ہے۔ صبح اٹھ کر اسکول کے لئے بچوں کو تیار کرنا، انہیں ناشتہ دینا، اسکول چھوڑ کر آنا، اس کے کپڑے استری کرنا، پارکوں میں سیر کے لئے لے کر جانا، اپنے آرام کو بے آرامی میں بدلنا یہ سب ایسے قرض ہیں جو کبھی نہیں اتارے جا سکتے۔

میں نے تو ابھی بچپن کا ہی نقشہ کھینچا ہے اور نوجوانی اور شادی کے بعد اپنی بہو اور پوتے پوتیوں کے نخرے برداشت کرنا،ان کو سہنا یہ ایک الگ طویل باب ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آنحضور ﷺ سے کسی نے پوچھا کہ لوگوں میں سے حسن سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے تو آپؐ نے تین بار پوچھنے پر ماں، تیری ماں، تیری ماں کہہ کر اس قرض کی طرف توجہ دلائی۔

(صحیح بخاری کتاب الادب)

حضرت اویس قرنیؓ کو اپنی بوڑھی ماں کی خدمت کرنے کی وجہ سے دو انعامات سے نوازا گیا۔

  1. حضرت عمرؓ نے آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد آپؐ کا ’’السلام علیکم‘‘ حضرت اویس قرنیؓ تک پہنچایا۔
  2. آپ کو آنحضور ﷺ کی زیارت کے بغیر ہی صحابی کا درجہ ملا اور رضی اللہ عنہ و رضوا عنہ کا ٹائٹل ملا۔

الغرض ماں کے احسانات و اکرامات کا قرض اولاد پر ایسا قرض ہے جو ہر طرح کی خدمت اور عزت دے کر بھی نہیں اتر سکتا بلکہ ماں کی وفات کے بعد بھی یہ قرض قائم رہتا ہے جو اس کے لئے دعائیں کر کے اور اس کے عزیزواقارب کی خدمات کر کے بھی نہیں اترتا۔

ماں کی محبت اور شفقت کی کیفیت تو اس واقعہ میں پنہاں ہے جو آئے دن تقاریراور سوشل میڈیا کے ذریعہ سنتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے ایک نوجوان سے کہا کہ تمہاری درخواست اس وقت تک میرے دربار میں پذیرائی نہیں پا سکتی جب تک تم اپنی ماں کا سر قلم کر کےٹرے میں رکھ کر میرے سامنے پیش نہ کرو۔ اس بے رحم،خونخوار اور نالائق اولاد نے اپنی درخواست کی پذیرائی کی خاطر ایسا کر ڈالا اور جب وہ ماں کا سر ٹرے میں رکھ کر بادشاہ کے دربار کی طرف بڑھ رہا تھا تو پتھر کی ٹھوکر سے اس کا پاؤں اکھڑا اور ماں کا سر نیچے گرا۔ اور گرتے ہی آواز آئی۔ بیٹا! چوٹ تو نہیں لگی؟ پس یہ ایک تمثیلی حکایت ہی ہے لیکن اس میں ماں کے جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔ ماں کے انہی احسانات کو سامنے رکھ کر بالکل ٹھیک کہا گیا ہے۔

بعض قرض کبھی نہیں اتارے جا سکتے

اسی پر اکتفاء کرتا ہوں اور بے قابو قلم کو روکتا ہوں، کہیں ماں کی محبت اور شفقتوں کےبحر بے کراں کے موجزن جذبات میں بہہ کر پورے دن کے اخبارکے برابر ہی نہ لکھ ڈالوں، کہ یہ موضوع ہے ہی ایسا جس کے صفحہ قرطاس پر اتارنے کے لئے نہ تھکاوٹ ہے اور نہ وقت کی کمی ہے، بس لکھتے چلے جانے کو ہی دل کرتا ہے کہ شائد اسی طرح کچھ قرض ادا ہوسکےاور دل کا بوجھ ہلکا ہو۔میں قلم کو بریک لگا کر چشم تصور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ میرے تمام پیارے اور قابل صد احترا م قارئین کے بھی یہی جذبات ہوں گے۔ ان تمام کی طرف سے تمام کی شفیق ماؤں کو محبت بھرا سلام اور عقیدت بھرا سلوٹ۔

تُو جابسی ہے زمین کے اندر
تیری خوشبو آتی ہے آسماں سے
نہ تُو دُور ہے نہ تو پاس ہے
تجھے اے ماں! بلاؤں کہاں سے

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

شمال مغربی بلغاریہ میں ضرورت مندوں کی امداد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 فروری 2022