• 16 جولائی, 2025

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 8)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
(قسط 8)

منعم علیہ گروہ

اب میں سورۂ فاتحہ کی طرف رجوع کرکے کہتا ہوں کہ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ (الفاتحہ: 6) میں اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡھِمۡ (الفاتحہ: 7) کی راہ طلب کی گئی ہے۔ اور میں نے کئی مرتبہ یہ بات بیان کی ہے کہ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡھِمۡ میں چار گروہوں کا ذکر ہے۔ نبی۔ صدیق۔ شہید۔ صالح۔ پس جبکہ ایک مومن یہ دعا مانگتا ہے۔ تو ان کے اخلاق اور عادات اور علوم کی درخواست کرتا ہے۔اس پر اگر ان چار گروہوں کے اخلاق حاصل نہیں کرتا تو یہ دعا اس کے حق میں بے ثمر ہوگی۔ اور وہ بیجان لفظ بولنے والا حیوان ہے۔ یہ چار طبقے ان لوگوں کے ہیں جنہوں نے خداتعالیٰ سے علومِ عالیہ اور مراتبِ عظیمہ حاصل کئے ہیں۔ نبی وہ ہوتے ہیں جن کا تبتل الی اللہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ خدا سے کلام کرتے اور وحی پاتے ہیں۔ اور صدیق وہ ہوتے ہیں جو صدق سے پیار کرتے ہیں۔ سب سے بڑا صدق لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے۔ اور پھر دوسرا صدق مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے۔ وہ صدق کی تمام راہوں سے پیار کرتے ہیں۔ اور صدق ہی چاہتے ہیں۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو شہید کہلاتے ہیں۔ وہ گویا خدا تعالیٰ کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ شہید وہی نہیں ہوتا جو قتل ہوجائے۔ کسی لڑائی یا وبائی امراض میں مارا جائے۔ بلکہ شہید ایسا قوی الایمان انسان ہوتا ہے۔جس کو خداتعالیٰ کی راہ میں جان دینے سے بھی دریغ نہ ہو۔ صالحین وہ ہوتے ہیں جن کے اندر سے ہر قسم کا فساد جاتا رہتا ہے۔ جیسے تندرست آدمی جب ہوتا ہے تو اس کی زبان کا مزہ بھی درست ہوتا ہے پورے اعتدال کی حالت میں تندرست کہلاتا ہے۔ کسی قسم کا فساد اندر نہیں رہتا۔

اسی طرح پر صالحین کے اندر کسی قسم کی روحانی مرض نہیں ہوتی اور کوئی مادہ فساد کا نہیں ہوتا۔ اس کا کمال اپنے نفس میں نفی کے وقت ہے۔ اور شہید۔ صدیق۔ نبی کا کمال ثبوتی ہے۔ شہید ایمان کو ایسا قوی کرتا ہے۔ گویا خدا کو دیکھتا ہے۔ صدیق عملی طورپر صدق سے پیار کرتا اور کذب سے پرہیز کرتا ہے۔ اور نبی کا کمال یہ ہے کہ وہ ردائے الٰہی کے نیچے آجاتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کمال کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہوسکتے۔ اور مولوی یا علماء کہتے ہیں۔ کہ بس ظاہری طورپر کلمہ پڑھ لے اور نماز روزہ کے احکام کا پابند ہوجاوے۔ اس سے زیادہ ان احکام کے ثمرات اور نتائج کچھ نہیں اور نہ ان میں کچھ حقیقت ہے۔ یہ بڑی بھاری غلطی ہے۔ اور ایمانی کمزوری ہے۔ انہوں نے رسالت کے مدعا کو نہیں سمجھا۔ اللہ تعالیٰ جو ماموروں اور مرسلوں کو خلق اللہ کی ہدایت کے واسطے بھیجتا ہے۔کیا اس لئے بھیجتا ہے کہ لوگ ان کی پرستش کریں۔ نہیں۔ بلکہ ان کو نمونہ بنا کر بھیجا جاتا ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے۔ جیسے بادشاہ اپنے ملک کے کاریگروں کو کوئی تلوار دے تو اس کی مراد یہی ہے کہ وہ بھی ویسی تلوار بنانے کی کوشش کریں۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ56-58 ایڈیشن 1984)

دعا بہترین ہمدردی ہے

یاد رکھو۔ ہمدردی تین قسم کی ہوتی ہے۔ اول جسمانی، دوم مالی۔ تیسری قسم ہمدردی کی دعا ہے۔ جس میں نہ صرف زر ہوتا ہے اور نہ زورلگانا پڑتا ہے۔ اور اس کا فیض بہت ہی وسیع ہے کیونکہ جسمانی ہمدردی تو اس صورت میں ہی انسان کرسکتا ہے جبکہ اس میں طاقت بھی ہو۔ مثلاً ایک ناتواں مجروح مسکین اگر کہیں پڑا تڑپتا ہو۔ تو کوئی شخص جس میں خود طاقت اور توانائی نہیں ہے کب اس کو اٹھا کر مدد دے سکتا ہے اسی طرح پر اگر کوئی بیکس و بے بس بے سروسامان انسان بھوک سے پریشان ہوتو جبتک مال نہ ہو اس کی ہمدردی کیونکرہوگی۔ مگر دعا کے ساتھ ہمدردی ایک ایسی ہمدردی ہے کہ نہ اس کیواسطے کسی مال کی ضرورت ہے اور نہ کسی طاقت کی حاجت بلکہ جبتک انسان انسان ہے۔ وہ دوسرے کیلئے دعا کرسکتا ہے اور اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ اس ہمدردی کا فیض بہت وسیع ہے۔ اور اگر اس ہمدردی سے کام نہ لے تو سمجھو۔ بہت ہی بڑا بدنصیب ہے۔

میں نے کہا ہے کہ مالی اور جسمانی ہمدردی میں انسان مجبور ہوتا ہے۔ مگر دعا کے ساتھ ہمدردی میں مجبور نہیں ہوتا۔ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دعا میں دشمنوں کو بھی باہر نہ رکھے۔ جس قدر دعا وسیع ہوگی اسی قدر فائدہ دعا کرنے والے کو ہوگا۔ اور دعا میں جس قدر بخل کریگا۔ اسی قدر اللہ تعالیٰ کے قرب سے دور ہوتا جاوے گا۔ اور اصل تو یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے عطیہ کو جو بہت ہی وسیع ہے جو شخص محدود کرتا ہے اس کا ایمان بھی کمزور ہے۔

دوسروں کے لئے دعا کرنے کا فائدہ

دوسروں کے لئے دعا کرنے میں ایک عظیم الشان فائدہ یہ بھی ہے کہ عمر دراز ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ وعدہ کیا ہے۔ کہ جو لوگ دوسروں کو نفع پہنچاتے ہیں اور مفید وجود ہوتے ہیں۔ ان کی عمر دراز ہوتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ اَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ (الرعد: 18) اور دوسری قسم کی ہمدردیاں چونکہ محدود ہیں۔ اس لئے خصوصیت کے ساتھ جو خیر جاری قرار دی جاسکتی ہے۔ وہ یہی دعا کی خیر جاری ہے۔ جبکہ خیر کا نفع کثرت سے ہے۔ تو ہر آیت کا فائدہ ہم سب سے زیادہ دعا کے ساتھ اٹھاسکتے ہیں۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ73-74 ایڈیشن 1984)

اپنی زبان میں دعائیں کریں

یہ ضروری بات نہیں ہے کہ دعائیں عربی زبان میں کی جاویں۔ چونکہ اصل غرض نماز کی تضرع اور ابتہال ہے۔ اس لئے چاہئے کہ اپنی مادری زبان میں ہی کرے۔ انسان کو اپنی مادری زبان سے ایک خاص انس ہوتا ہے اور وہ پھر اس پر قادر ہوتا ہے۔ دوسری زبان سے خواہ اس میں کس قدر بھی دخل ہو اور مہارت کامل ہو۔ ایک قسم کی اجنبیت باقی رہتی ہے۔ اس لئے چاہئے کہ اپنی مادری زبان ہی میں دعا مانگے۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ145-146 ایڈیشن 1984)

متبعین کے لئے دعا

اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعودؑ کے ساتھ ہے یہ درجہ عطا فرمایا ہے کہ وہ صحابہؓ کی جماعت سے ملنے والی ہے۔ وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ (الجمعہ: 4) مفسروں نے مان لیا ہے کہ یہ مسیح موعودؑ والی جماعت ہے۔ اور یہ گویا صحابہؓ کی ہی جماعت ہوگی۔ اور وہ مسیح موعودؑ کے ساتھ نہیں۔ درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی ساتھ ہیں۔ کیونکہ مسیح موعودؑ آپؐ ہی کے ایک جمال میں آئے گا۔ اور تکمیل تبلیغ اشاعت کے کام کے لئے وہ مامور ہوگا۔

اس لئے ہمیشہ دل غم میں ڈوبتا رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو بھی صحابہؓ کے انعامات سے بہرہ ور کرے ان میں وہ صدق و وفا، وہ اخلاص اور اطاعت پیدا ہو۔ جوصحابہؓ میں تھی۔ یہ خدا کے سوا کسی سے ڈرنیوالے نہ ہوں۔ متقی ہوں۔ کیونکہ خدا کی محبت متقی کیساتھ ہوتی ہے۔ اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ (البقرہ: 195)

(الحکم جلد4 نمبر46 صفحہ301 مؤرخہ 24دسمبر 1900ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

قرآن سیمینار کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اپریل 2022