• 4 مئی, 2025

قرآنی انبیاء ہواؤں کے پیغام (قسط 10)

قرآنی انبیاء
ہواؤں کے پیغام
قسط 10

سب کارخانے، سب فیکٹریاں اور بلند و بالا عمارتیں چند لمحوں میں خاک کاڈھیر بن گئیں۔ ایک قیامت تھی جو ’’قوم عاد‘‘ پر ٹوٹ پڑی اور اسے صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ یہ وہی قوم تھی جس نے وقت کے نبی کی بات نہیں مانی تھی۔ اپنے مشرکانہ عقائد کو نہ چھوڑا تھا اور اپنی ترقیات پر فخر کرتے ہوئے خداتعالیٰ سے غافل ہو گئی تھی۔ ایک ایسی قوم کی داستان جس کانام و نشان تک مٹادیا گیا۔ ملک عرب کے شمال اور جنوب کے وسیع علاقے پر پھیلی ہوئی یہ قوم جس کانام عاد تھااپنے وقت کی ایک بہت بڑی طاقت تھی۔ انتہائی ترقی یافتہ اور دولت مند قوم عاد کئی ایک قبائل پر مشتمل تھی۔ اور یہ تمام قبیلے مل کر ’’قوم عاد‘‘ کہلاتے تھے۔ یہ آج سے قریباً 5 ہزار سال پہلے کا واقعہ ہے جب اس طاقتور قوم کی ترقی اپنے عروج پر تھی۔ کیمسٹری، علم حساب اور فزکس وغیرہ کے علوم میں اس قوم نے بہت محنت کی تھی اور علمی اور عملی لحاظ سے ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اس قوم کو فن تعمیر میں بھی کمال حاصل تھا۔ بلند و بالا عمارتیں عظیم الشان محلات اور مضبوط یاد گاریں ان کی حکومت میں ہر طرف پھیلی دکھائی دیتی تھیں۔ بڑی بڑی فیکٹریاں اور کارخانے لگائے گئے تھے تاکہ ترقی کی رفتار تیز سے تیز تر ہو جائے۔ غرضیکہ ہر لحاظ سے یہ قوم اس وقت کی دیگر اقوام کے مقابلے میں انتہائی ترقی یافتہ اور طاقتور تھی۔ بالکل ایسے ہی جیسے آج کی دنیا میں امریکہ ایک سپر پاور کے طور پر موجود ہے اس زمانے میں یہ قوم ایک سپر پاور تھی ایک عظیم طاقت جسے اپنی طاقت پر ناز تھا۔ جسے اپنی ترقی کا گھمنڈ تھا۔ جو خود کو عظیم کہنے کی عادی ہو گئی تھی اور تمام عظمتوں کے مالک حقیقی عظیم خدا کو بھول چکی تھی۔ دیگر قوموں کے ساتھ بھی ان کا رویہ کچھ اچھا نہ تھا۔ اپنے مخالف قبائل اور حکومتوں کے ساتھ یہ لوگ بہت سختی سے پیش آتے تھے۔ اور اگر کوئی قوم ان کے خلاف سراٹھاتی تھی تو بری طرح کچل دی جاتی تھی۔ وقت گزر تا گیا اور قوم عاد کا مزاج بگڑتا چلا گیا۔ اور ظاہری ترقیات نے انہیں خدا تعالیٰ کے وجود سے غافل کر دیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے انہیں سیدھے راستے کی طرف بلانے کے لئے اپنے ایک بندے کو مامور کیا اس نیک اور بزرگ نبی کانام حضرت هود علیہ السلام تھا۔ ایک ایسی قوم کو جو متکبر ہو اور سرکشی کرنے والی ہو خداتعالیٰ کی طرف بلانا کچھ آسان کام نہ تھالیکن آپ کو معلوم تھا کہ حقیقی عظمتوں والا خدا آپ کے ساتھ ہے اس لئے آپ نے اپنے کام کا آغاز کر دیا۔ کیا کہا تم نے اے ہود؟۔ ہم اللہ سے ڈریں اور تمہاری بات مان لیں تمہاری اطاعت کریں اور تمہارے پیچھے چلیں۔ قوم نے حیرت سے پو چھاتم جو ہماری اس قوم کے ایک عام سے فرد ہو۔ ہم اپنی ساری ترقیات کو بھلا کر اب تمہیں اپنالیڈر بنالیں۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے تمہاری ان باتوں کی۔ بہتر یہ ہے کہ تم اپنے کام سے کام رکھو اور ہمیں تنگ نہ کرو۔ قوم کے لوگوں نے گویا فیصلہ سنا دیا کہ ہم تمہاری بات نہیں مانیں گے۔ لیکن حضرت هود علیہ السلام نے تو مایوس ہونا سیکھاہی نہ تھا۔ آپ نے اپنا کام جاری رکھا۔ اور برابر قوم کو نصیحت کرتے رہے۔ اے لوگو! میری بات سنو!! میں اللہ کا رسول ہوں۔ میں دیانتداری کے ساتھ تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا رہا ہوں اس رب کا جو تمہارا بھی رب ہے۔ اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اس لئے اس سے ڈرو اور میری بات مان لو۔ کیوں تمہاری بات مان لیں؟ قوم کے لوگ جواباً کہتے۔ آخر تم ہو کیا چیز کہ ہم تمهاری اطاعت شروع کر دیں اور یہ جو بات تم کرتے ہو ناں کہ ایک خدا ہے اور اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور ترقیات دی ہیں یہ سب باتیں غلط ہیں۔ ہم ایک محنتی قوم ہیں۔ ہم نے دن رات کی محنت سے اور مسلسل تحقیقات کے ذریعے سے مختلف علوم میں کمال حاصل کیا ہے یہ جو عظیم کارخانے تم دیکھ رہے ہو۔ یہ جو زراعت میں حیرت انگیز ترقی ہے۔ یہ جو فزکس اور کیمسٹری جیسے جدید علوم میں ہماری ترقی ہے کیا یہ سب خدانے ہمیں دیا ہے؟ عجیب بات کرتے ہو تم بھی۔ یہ سب تو ایسے ہی چلا آ رہا ہے اور ہم شب و روز کی محنت سے اسے ترقی دے رہے ہیں۔ حضرت هود علیہ السلام انہیں سمجھاتے کہ دیکھو ! تمہاری کچھ بھی حیثیت نہیں ہے۔ مانا کہ تم نے بھی محنت کی ہے لیکن اصل چیز خدا تعالیٰ کا فضل ہے اس نے تمہیں یہ تمام ترقیات دی ہیں اس لئے اس کو اپنا مالک مانتے ہوئے اس کی اطاعت کرو۔ ورنہ جیسے تکبر کے ساتھ تم لوگ بات کر رہے ہو مجھے ڈر ہے کہ تم پر خداتعالیٰ کا غضب نہ بھڑک اٹھے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر تمہیں کوئی بھی خداتعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکے گا۔ یاد رکھو کہ اگر خداتعالیٰ ناراض ہو گیا تو یہ سب ترقیات دھری کی دھری رہ جائیں گی اور تم خاک میں ملادئیے جاؤ گے۔ حضرت هود علیہ السلام نے بہت کوشش کی۔ بہت سی نصائح کیں لیکن اس مغرور قوم نے آپ کی ایک نہ سنی اور صاف کہہ دیا کہ ہم تمہاری بات نہیں مانیں گے چاہے تبلیغ کرو یا نہ کرو۔ یہ صور تحال بہت تکلیف دہ تھی۔ حضرت ہود علیہ السلام اور قوم کے چند لوگ جو آپ کی باتوں پر ایمان لائےتھے قوم کے رویے سے بہت دکھی تھے۔ لیکن قوم کے دلوں کو بدلنا ان کے اختیار میں نہ تھا۔ وہ خدائے واحد پر ایمان لانے کے لئے تیار نہ تھے۔ ان کے خیال میں دنیا کے کئی خدا تھے۔ جن کی مناسبت سے انہوں نے بت بنا رکھے تھے اور وہ ان بتوں کی پرستش کیا کرتے تھے۔ حضرت هود علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں کی باتوں کو جھوٹ سمجھ کر اپنے بتوں کی عبادت میں مصروف تھے۔ یہ سلسلہ کچھ عرصہ تک چلتا رہا۔ پھر بالآ خر خدا تعالیٰ نے اس مغرور اور مشرک قوم کو سزا دینے کا فیصلہ کر لیا۔ عذاب کاوقت نزدیک آگیا اور اس کی اطلاع حضرت ہود علیہ السلام کو دے دی گئی کہ آپ اپنے ساتھیوں سمیت اس عذاب سے بچ کر نکل جائیں۔ اب خدا تعالیٰ کا عذاب ’’قوم عاد‘‘ کو پکڑنے والا تھا۔ اس قوم عاد کو جو خود کو بہت طاقتور خیال کرتی بلند و بالا عمارتیں بہت مضبوطی کے ساتھ کھڑی تھیں۔ کارخانے اور فیکٹریاں تیزی کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ جدید تحقیقات میں مصروف قوم عاد کے افراد بڑی محنت کے ساتھ نت نئے اصول دریافت کر رہے تھے۔ نئی نئی چیزیں بن رہی تھیں اور بے انتہا خوشحالی کا دور دورہ تھا۔ ایسے میں حضرت هود علیہ السلام اپنے ساتھیوں سمیت اس علاقے سے ہجرت کر رہے تھے جو کچھ ہی عرصے میں خدا تعالیٰ کے عذاب کانشانہ بننے والا تھا۔ لیکن حیرت کی بات تھی کہ شمالی عرب سے جنوبی عرب تک پھیلی ہوئی عظیم مملکت ’’عاد‘‘ اس بات سے غافل تھی۔ باوجود اس کے کہ ان کے خیال میں وہ بہت ترقی یافتہ تھے۔ کاروبار زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھا۔ فرق صرف اتنا پڑا تھا کہ حضرت هود علیہ السلام اس قوم کو چھوڑ کر جا چکے تھے۔ لیکن قوم کو اس سے کیا فرق پڑ تاتھا۔ وہ تو مگن تھے اپنے کاموں میں کہ اچانک، اچانک زلزلے کے جھٹکے محسوس ہونے لگے۔ ابتدائی جھٹکے تو شاید کچھ ہلکے تھے لیکن پھر تو گویا قیامت آئی۔ زلزلے نے زمین ادھیڑکر رکھ دی۔ بلند و بالا عمارتیں زمین بوس ہو گئیں کارخانے اور فیکٹریاں ٹوٹ پھوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گئیں۔ شدید زلزلہ اور طوفان کی وجہ سے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہوا میں بڑے بڑے پتھراڑ رہے ہیں اور پتھروں کی بارش ہو رہی ہے۔ ایک کہرام مچ گیا۔ مرنے والے لوگوں کی چیخ و پکار نے قیامت کا ساسماں پیدا کر دیا تھا۔ خود کو عظیم کہنے والی ’’قوم عاد‘‘ مٹی میں مل رہی تھی لیکن اس وقت کوئی نہیں تھا جو اس کی مدد کو آتا اور اسے عذاب سے بچاتا۔ اور پھر جب زلزلے ختم ہوئےتباہی رکی تو عجیب نظارہ تھا۔ سب کچھ مٹ چکا تھا۔ سب فنا ہو چکا تھا۔ ’’قوم عاد‘‘ کانام و نشان تک باقی نہ رہا تھا۔ صحرا کی تیز ہواؤں نے آہستہ آہستہ ان کے اجڑے ہوئے شہروں پر ریت پھینک پھینک کر انہیں زمین میں دبادیا تھا۔ کل جہاں ’’قوم عاد‘‘ آباد تھی۔ آج وہاں صرف چند ٹیلے تھے۔ چند کھنڈر تھے یا صحرا کی طرف سے ریت لانے والی ہوائیں۔ جو روزانہ قوم عام کے لئے یہ پیغام لیکر آتی تھیں کہ اے تکبر کرنے والی قوم ! تم نے خدا کے ایک نبی کو جھٹلا دیا۔ تم نے اس کی بات نہیں مانی۔ اب دیکھ لو اپنا انجام ! یہ پیغام ’’قوم عاد‘‘ کے لئے بھی تھا اور ان کے بعد آنے والی ہر قوم کے لئے بھی، کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کا احترام لازم ہے۔ اس کی بات ماننا ضروری ہوتا ہے ورنہ خداتعالیٰ کیلئے کسی بھی قوم کو تباہ کرنا مشکل نہیں۔ چاہے وہ ’’قوم عاد‘‘ ہو یا کوئی اور قوم!!

(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

قرآن سیمینار کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اپریل 2022