• 9 مئی, 2025

اپنے آپ کو عاجز سمجھو

اپنے آپ کو عاجز سمجھو
جرمنی لجنہ کی ایک ممبر نے سوال کیا کہ کیا اسلام پہ اعتراض کیا جا سکتا ہے؟

پیارے حضور نے جواباً فرمایا کہ ’’کیا اتنے غیر مسلم اسلام پہ اعتراض نہیں کرتے؟‘‘ لجنہ ممبر نے دوبارہ سوال دوہرایا تو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’سوال یہ ہے کہ سوائے مسلمانوں کے بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اسلام کو کریٹیسائز کرتے ہیں ناں؟ ہاں اگر تم کہو کہ ایک مسلمان اسلام پر اعتراض کر سکتا ہے کہ نہیں تو تمہارے اندر جوسوال پیدا ہوتے ہیں ان کو تمہیں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت نمازیں رکھی ہیں۔ تمہارے دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ پانچ نمازیں کیوں ہیں؟ اسکا حل تلاش کرو۔ روزے کیوں ہیں؟ اس کا حل تلاش کرو۔ اب تو سائنسدان بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ روزے جو ہیں یہ بڑے فائدہ مند چیز ہیں۔ نمازیں جو ہیں یہ ریگیولیٹ کرتیں ہیں، ڈسپلن کرتی ہیں انسان کو اور خدا تعالیٰ کی ذات پر سوال ہے یا اور بہت سارے احکامات پر سوال ہیں یا پردے پر سوال ہے، ہر ایک کا جواب تلاش کرنا چاہئے۔ ابھی میں نے جمعہ کے خطبے میں ہی حضرت مصلح موعودؓ کا حوالہ پڑھا تھا۔ تم نے سنا تھا خطبہ؟‘‘ ممبر لجنہ کے جی کہنے پر حضور انور نے اپنا جواب جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا ’’کہ حضرت مصلح موعودؓ نے یہی کہا تھا کہ جب میں گیارہ سال کا تھا تو مجھے اعتراض پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ہونے کا کیا ثبوت ہے پھر آنحضرت ﷺ کے سچا ہونے کا کیا ثبوت ہے؟حضرت مسیح موعود ؑ کے سچا ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ اسلام کی سچائی کا کیا ثبوت ہے؟ پھر اس پر میں نے جب سوچنا شروع کیا اور پھر مجھے جب اللہ تعالیٰ کی ذات کا پتہ لگ گیا کہ وہ ہے اور ثابت ہو گیا، پھر مجھے سمجھ آ گئی کہ آنحضورﷺ بھی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور حضرت مسیح موعود ؑ بھی آپ کی اتباع میں آئے ہیں اس زمانے کی اصلاح کے لئے۔ تو سوال پیدا ہوتے ہیں انسان کے دل میں، پڑھے لکھے دل میں۔ لیکن اس اعتراض کو اعتراض برائے اعتراض کر کےپھر صرف اس پر خاموش نہیں ہو جانا چاہئے۔ بلکہ جس طرح حضرت مصلح موعودؓ نے کہا کہ میں نے تحقیق کی، میں نے جستجو کی اور میں نے کہا کہ میں یہاں سے نہیں اٹھوں گاجب تک مجھے جواب نہیں مل جاتے۔ تو وہ جستجو بھی ہونی چاہئے۔ اگر تمہیں اسی دن جواب نہیں ملتے، اگلے دن پھر سوچو، پھر لوگوں سے پوچھو، پھر لٹریچر پڑھو۔ اب تو لٹریچر بھی اتنا موجود ہے جماعت احمدیہ میں اللہ کے فضل سے۔ اُس زمانے میں تو نہیں تھاکہ اسکے سوالوں کے جواب تمہیں آسانی سے مل سکتے ہیں۔ اگرتمہارے ذہن میں سوال اٹھتا ہے اسلام کے بارے میں یا اسلام کے کسی حکم کے بارے میں تو معین کرو کہ کیا پوچھنا چاہتی تھی؟ کہ کیا کسی مسلمان کے دل میں اسلام کے متعلق کوئی سوال اٹھ سکتاہے کہ نہیں۔ یہ کہنا چاہتی تھی ؟‘‘ لجنہ ممبر نے جواباً کہا کہ جی حضور! تو حضور پرنور نے فرمایا کہ ’’تو یہ کہو ناں پھر۔ ڈر ڈر کر کیوں سوال کرتی ہو؟ کھل کر سوال کرو۔ کیا ہم اسلام کی تعلیم پر کوئی اعتراض کر سکتے ہیں؟ سوال یہ بناؤ کہ ہم اسلام کی تعلیم کو جس کی سمجھ نہ آئے اسکے متعلق سوال کر سکتے ہیں کہ یہ کیوں ہے؟ یا یہ میرے نزدیک غلط ہے۔ تمہارے نزدیک غلط ہے تو اسکا حل تلاش کرو۔ اس کے لئے جس کو علم ہے اس سے پوچھو۔ تمہارے مربی ہیں، تمہاری پڑھی لکھی عورتیں ہیں یا تمہیں سمجھ نہیں آتی تو پھر مجھے سوال لکھ کر بھیج سکتی ہو کہ یہ سوال ہے۔ اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ دین تو و ہی ہوتا ہے ناں جس کی سمجھ بھی آئے۔ تبھی انسان صحیح طرح دین پہ عمل بھی کر سکتا ہے۔اگر صرف اس لئے دین کو مان لیاکہ میرے اماں ابا احمدی مسلمان تھے تو میں بھی احمدی مسلمان ہوں، تو اس کا تو کوئی فائدہ نہیں۔ جب تک تمہیں خود پتہ نہ لگے کہ احمدیت کیاچیز ہے؟ حضرت مسیح موعود ؑ کا کیا دعویٰ ہے؟ آنحضرت محمد ﷺ کیا شریعت لے کر آئے تھے؟قرآنِ کریم کے کیا حکم ہیں؟ اللہ تعالیٰ کیاچاہتا ہے اپنے بارے میں؟ یہ ساری چیزیں جب تک تمہیں پتہ نہ لگیں تم پکی احمدی مسلمان بن ہی نہیں سکتی۔یہ سوال پڑھے لکھے کے ذہن میں اٹھتے ہیں۔ ضروراٹھنے چاہئیں۔ لیکن اس پہ ضدی ہو کے اس کو چھوڑنا نہیں چاہئے۔ بلکہ اس کا حل تلاش کرنا چاہئےاور اس وقت تک نہ چھوڑو جب تک اس کا حل نہ مل جائے۔‘‘

سوال۔ ایک اور لجنہ کی ممبر نے سوال کیا کہ حضور! میرا سوال ہے کہ ہم کیا ایسا عمل کریں کہ ہم میں عاجزی اور انکساری پیدا ہو؟

جواب۔ حضور نے جواب میں فرمایا کہ ’’اپنے آپ کو عاجز سمجھو۔ ایک تو اللہ تعالیٰ سے پانچ وقت کی نمازوں میں دعا کیا کروکہ اللہ تعالیٰ میرے اندر تکبر نہ پیدا کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں تکبر کو نہیں پسند کرتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تکبر سے بچا کر رکھے۔ اور پھر جب لوگوں سے ملو اچھے اخلاق دکھا کر ملو۔ سلام کرو ہر ایک کو اور ہر ایک سے ہنس کے، مسکرا کے بات کرو اَور بحر حال یہ دیکھو کہ میں احمدی ہوں، احمدی مسلمان ہوں۔ میں نے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنا ہےاور اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا ہے۔‘‘

(This Week with Huzoor مؤرخہ 25فروری 2022ء مطبوعہ الفضل آن لائن 19؍مارچ 2022)

پچھلا پڑھیں

مالی کے تیرھویں جلسہ سالانہ کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مئی 2022