• 23 اپریل, 2024

’’ہر نیا دن موت کے قریب کرتا ہے‘‘

’’ہر نیا دن موت کے قریب کرتا ہے‘‘
’’ہر کتبہ جماعت کی تاریخ ہوتی ہے‘‘
(حضرت مسیح موعودؑ)

گزشتہ دنوں الفضل کی ایک مستقل قاری مکرمہ ڈاکٹر نجم السحر صدیقی نے جرمنی سے نئے سال کے حوالے سے ایک دلچسپ مضمون لکھ کر بھجوایا ہے۔ جسے خاکسار نے نئے اسلامی سال کے آغاز پر الفضل کا حصّہ بنانے کی انتظامیہ کو ہدایت دی ہے۔ اس مضمون میں موصوفہ نے لکھا ہے کہ ہم ہر نئے سال پر خوشی مناتے ہیں اور سالگرہ مناتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس نئے سال کی آمد سے ہماری عمر میں ایک سال کی کمی ہوئی ہے اور ہم موت کے قریب ہوئے ہیں۔

اِدھر ڈاکٹر موصوفہ کا یہ مضمون نظروں سے گزرا اور اُدھر نئے آرٹیکل کے لئے کسی عنوان کی تلاش میں جب میں اپنے نوٹس کی چھان پھٹک کر رہا تھا تو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ارشاد بعنوان ’’ہر نیا دن موت کے قریب کرتا ہے‘‘ ملا۔ جس کو آج اس اداریہ کا مضمون بنایا جا رہا ہے۔

*حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
جوں جوں انسان بڈھا ہوتا جاتا ہے دین کی طرف بے پروائی کرتا جاتا ہے۔ یہ نفس کا دھوکا اور سخت غلطی ہے جو موت کو دور سمجھتا ہے۔ موت ایک ایسا ضروری امر ہے کہ اس سے کسی صورت میں بچ نہیں سکتے اور وہ قریب ہی قریب ہے۔ ہر ایک نیا دن موت کے زیادہ قریب کرتا جاتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض آدمی اوائل عمر میں بڑے نرم دل تھے۔ لیکن آخر عمر میں آ کر سخت ہو گئے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ نفس دھوکا دیتا ہے کہ موت ابھی دور ہے۔ حالانکہ بہت قریب ہے۔ موت کو قریب سمجھو تا کہ گناہوں سے بچو۔

خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا۔ انسان اگر سچے دل سے اخلاص لے کر رجوع کرے تو وہ غفور رحیم ہے اور توبہ کو قبول کرنے والا ہے۔ یہ سمجھنا کہ کس کس گنہگار کو بخشے گا۔ خدا تعالیٰ کے حضور سخت گستاخی اور بے ادبی ہے۔ اس کی رحمت کے خزانے وسیع اور لاانتہا ہیں۔ اس کے حضور کوئی کمی نہیں۔ اس کے دروازے کسی پر بند نہیں ہوتے۔ انگریزوں کی نوکریوں کی طرح نہیں کہ اتنے تعلیم یافتہ کو کہاں سے نوکریاں ملیں۔ خدا کے حضور جس قدر پہنچیں گے سب اعلیٰ مدارج پائیں گے۔ یہ یقینی وعدہ ہے۔ وہ انسان بڑا ہی بدقسمت اور بدبخت ہے جو خدا تعالیٰ سے مایوس ہو اور اس کی نزع کی حالت کا وقت غفلت کی حالت میں اس پر آ جاوے۔ بے شک اس وقت دروازہ بند ہو جاتا ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ94۔95 ایڈیشن 2016ء)

اس مضمون کو آپؑ نے کئی مقامات پر بیان کرتے ہوئے دوستوں کو اپنے اعمال درست کرنے کی نصیحت فرمائی۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی احسن رنگ میں ادائیگی کی تلقین فرمائی۔ نمازیں ادا کرنے، روزے رکھنے، زکوٰۃ دینے کی طرف توجہ دلائی۔

*آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں۔
موت کو یاد رکھو کہ یہ دن (طاعون کے۔ ناقل) خدا کے غضب کے ہیں۔ نمازوں پر پکے ہو جاؤ۔ تہجد پڑھو اور عورتوں کو بھی نماز کی تاکید کرو۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ60 ایڈیشن 2016ء)

*حضرت مسیح موعودؑ جماعت کو بارہا موت کو یاد رکھنے کی طرف توجہ دلاتے رہے۔ آپؑ نے 15 اپریل 1902ء کو چند بیعت کرنے والے دوستوں کو مخاطب ہو کر یوں ہدایت فرمائی۔

استغفار کرتے رہو اور موت کو یاد رکھو موت سے بڑھ کر اور کوئی بیدار کرنے والی چیز نہیں ہے۔ جب انسان سچے دل سے خدا کی طرف رجوع کرتا ہے تو ﷲ تعالیٰ اپنا فضل کرتا ہے۔

جس وقت انسان اﷲ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ پہلے گناہ بخش دیتا ہے پھر بندے کا نیا حساب چلتا ہے۔ اگر انسان کا کوئی ذرا سا بھی گناہ کرے تو وہ ساری عمر اس کا کینہ اور دشمنی رکھتا ہے اور گو زبانی معاف کر دینے کا اقرار بھی کرے لیکن پھر بھی جب اسے موقع ملتا ہے تو اپنے اس کینہ اور عداوت کا اس سے اظہار کرتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ ہی ہے کہ جب بندہ سچے دل سے اس کی طرف آتا ہے تو وہ اس کے گناہوں کو معاف کر دیتا اور رجوع بہ رحمت فرماتا ہے۔ اپنا فضل اس پر نازل کرتا ہے اور اس گناہ کی سزا کو معاف کر دیتا ہے، اس لیے تم بھی اب ایسے ہو کر جاؤ کہ تم وہ ہو جاؤ جو پہلے نہ تھے۔ نماز سنوار کر پڑھو۔ خدا جو یہاں ہے وہاں بھی ہے۔ پس ایسا نہ ہو کہ جب تک تم یہاں ہو تمہارے دلوں میں رقّت اور خدا کا خوف ہو اور جب پھر اپنے گھروں میں جاؤ تو بےخوف اور نڈر ہو جاؤ۔ نہیں بلکہ خدا کا خوف ہر وقت تمہیں رہنا چاہئے۔ ہر ایک کام کرنے سے پہلے سوچ لو اور دیکھ لو کہ اس سے خدا تعالیٰ راضی ہوگا یا ناراض۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ47۔48 ایڈیشن 2016ء)

کیا لازوال حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پیرائے میں بیان فرمائی ہے۔ ہم اس ورلی دنیا میں بارہا دیکھتے ہیں کہ کسی کو انتباہ کرنا ہو تو کسی چیز سے ڈرایا جاتا ہے۔ ہم روزانہ بچوں کو کسی چیز سے ڈراتے ہیں۔ مقصد اس کا، بچے کو کسی اچھے کام کی طرف مائل کرنا ہوتا ہے۔ ہم احمدی بالعموم بچوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور ڈر پیدا کرنے کے لیے اس واحد یگانہ خدا سے ڈراتے ہیں۔ یہاں بھی درحقیقت موت کو با بار یاد رکھنے کے لیےنیکی کے کاموں میں تیزی لانے کی طرف اشارہ ہے۔ ایک بندہ کواپنے نیک اعمال کو دوام دینا چاہئے۔ اخروی زندگی میں یہی اعمال صالحہ کام آئیں گے۔ اگر اچھے اعمال کا پلڑا بھاری ہوا تو جنت ورنہ دوزخ کی راہ دیکھنی ہوگی ہاں غفور الرحیم خدا مغفرت کا سلوک کر دے تو الگ بات ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بہت ہی پیاری تمثیل بیان فرمائی ہے جو اس مضمون سے مکمل مطابقت رکھتی ہے۔ کہ ایک قاتل شخص نے جب 99 اشخاص کو قتل کر لیا تو اسے خوف خدا پیدا ہوا اور وہ کسی ولی کے پاس گیا کہ میں 99 بندوں کا قاتل ہوں کیا میری بخشش ہو سکے گی۔ اس نیک بندے نے جواباً کہا کہ نہیں نہیں ہرگز نہیں۔ 99 ذی روح کے قاتل کی کیسے مغفرت ہو سکتی ہے۔ اس نے دَب سے چھرا نکالا تو اسے بھی قتل کر کے اپنی سنچری مکمل کر کے پھر کسی نیک بندے کی تلاش میں سرگرداں پھرنے لگا۔ کسی کی نشان دہی پر اس کی طرف چل دیا اور اپنا مدعا بیان کیا۔ اس ولی نے کہا کہ کیوں نہیں اگر تم سچی توبہ کر چکے ہو تو خدا تو بخشنہار ہے وہ بخش سکتا ہے۔ تم فلاں جگہ جاؤ وہاں ایک خدا کا بندہ مقیم ہے۔ اسے ملو اور اپنا مدعا بھی بیان کرو۔

مغفرت کا طالب قاتل اس بندے کی طرف چل دیا۔ راستے میں اُسے موت نے آ لیا۔ جنت اور جہنم کے فرشتے اس جگہ آن پہنچے۔جنت والے فرشتوں نے اسے اپنی طرف یہ کہتے ہوئے کھینچنا چاہا کہ اس نے توبہ کر لی تھی۔ اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ اور جہنم کے فرشتے اس کوشش میں تھے کہ وہ اِسے جہنم لے جائیں تا اسے 100 قتل کی سزا مل سکے۔ جب دونوں اطراف کے فرشتوں میں جھگڑا طول پکڑ گیا تو ان میں تصفیہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک اور فرشتہ بھیجا۔ جس نے سارا معاملہ سُن کر فیصلہ سُنایا کہ دونوں اطراف کے فاصلے ماپ لیتے ہیں۔ اگر اس وفات یافتہ شخص نے زیادہ فاصلہ طے کر لیا ہے تو جنت والے فرشتے لے جائیں اور اگر طے ہونے والا فاصلہ طے شدہ فاصلے سے زیادہ ہے تو جہنم والے فرشتے اس کواپنے ساتھ لے جائیں۔ چنانچہ طے شدہ فاصلہ اور طے ہونے والا فاصلہ مانپا گیا۔ تو طے شدہ فاصلہ زیادہ نکلنے کی بناء پر جنت والے فرشتے اس کو جنت کی طرف لے گئے۔

بلکہ بعض روایات میں آتا ہے کہ طے ہونے والا فاصلہ، طے شدہ فاصلے سے زیادہ تھا مگر چونکہ یہ مرحوم توبہ کر چکا تھا۔ جو خدا کو بہت پسند ہے تو اس لئے اللہ نے حکم دیا کہ طے شدہ زمین کھینچ کر لمبی کر دی جائے تا جنت کے فرشتے اسے لے جا سکیں۔

یہ تو تمثیل ہے جو بیان ہوئی۔ انسان زندگی کا سفر بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ نجانے کب اُسے موت آ لے۔ اس لئے انسان کو ہر دم اور ہر وقت اپنی نیکیوں کا پلڑا بھاری رکھنا چاہئے۔ زندگی کا طے شدہ فاصلہ توبہ اور مغفرت مانگتے ہوئے نیکیوں کے ساتھ لمبا رہنا چاہئے تا جنت کے فرشتے وفات کے بعد اس کو اپنی تحویل میں لے لیں اور اس کو جنت کی راہ دکھلائیں۔

؂ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

ایک مومن کو اپنی وفات کے بعد نعماء اور جنت کے میووں کا انتظار رہتا ہے۔ اس لئے موت کے لئے وہ ہر دم تیار رہتا ہے۔اور موت کو خوشی سے اپنے سینے سے لگاتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔

موت سے نہیں ڈرنا چاہئے، مگر خدا کے غضب سے بچنا چاہئے، کیونکہ موت تو بہرحال آنے والی ہے۔

موت نہیں ٹلتی مگر جو خدا کے دین کے خادم ہوں۔ اعلائے کلمۃ اللہ چاہتے ہوں ان کی عمر دراز کی جاتی ہے۔ جو اپنی زندگی کھانے پینے تک محدود رکھتے ہیں، ان کا خدا ذمہ دار نہیں۔

موت مومن کے لیے خوشی کی باعث ہے، کیونکہ وہ ایک مَرْکَبْ ہے جو دوست کو دوست کے پاس پہنچاتی ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ95۔96 ایڈیشن 2016ء)

ہر کتبہ جماعت کی تاریخ ہوتی ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو ایک اور حسین پیرایہ میں یوں بیان فرمایا ہے کہ انسان کے نیک اعمال کا اور اس کی سیرت طیبہ کا تذکرہ مرنے کے بعد اس کے کتبے پر لکھا جاتا ہے۔ جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح جب کسی مرحوم کی خوبیوں کا تذکرہ اپنے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں تو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ اس تذکرہ کو یا اس کا کچھ حصہ ہم اپنے عزیز مرحوم کے قبر پر کتبہ پر لکھوائیں تا پسماندگان یا دوستوں میں سے جو بھی اس قبر پر حاضر ہو وہ اسے پڑھ کر دُعا دے۔ اسی وجہ سے ہم میں سے ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ جمعہ پر ہمارے پیارے مرحوم کا تذکرہ ہو۔ حالانکہ ایسے مرحومین کی جن کی نماز جنازہ حضور عام دنوں میں پڑھاتے ہیں۔ ان کی سیرت کا تذکرہ بھی نماز جنازہ غائب پڑھانے سے قبل ہوتا ہے۔ جو پیارے حضور کی مبارک نظروں سے گزر کر دُعائے مغفرت کا سرٹیفیکیٹ حاصل کر چکا ہوتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ’’ہر کتبہ جماعت کی تاریخ ہوتی ہے‘‘ کے ضمن میں فرماتے ہیں:
قبروں پر جانے کی ابتداءً آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم نے مخالفت کی تھی۔ جب بُت پرستی کا زور تھا۔ آخر میں اجازت دے دی۔ مگر عام قبروں پر جا کر کیا اثر ہوگا جن کو جانتے ہی نہیں۔ لیکن جو دوست ہیں اور پارسا طبع ہیں ان کی قبریں دیکھ کر دل نرم ہوتا ہے۔ اس لئے اس قبرستان میں ہمارا ہر دوست جو فوت ہو اس کی قبر ہو۔ میرے دل میں خدا تعالیٰ نے پختہ طور پر ڈال دیا ہے کہ ایسا ہی ہو۔ جو خارجاً مخلص ہو اور وہ فوت ہو جاوے اور اس کا ارادہ ہو کہ اس قبرستان میں دفن ہو وہ صندوق میں دفن کر کے یہاں لایا جاوے۔ اس جماعت کو بہ ہیئت مجموعی دیکھنا مفید ہوگا۔ اس کے لئے اوّل کوئی زمین لینی چاہئے اور میں چاہتا ہوں کہ باغ کے قریب ہو۔

فرمایا:۔
عجیب مؤثر نظارہ ہوگا جو زندگی میں ایک جماعت تھے۔ مرنے کے بعد بھی ایک جماعت ہی نظر آئے گی۔ یہ بہت ہی خوب ہے۔ جو پسند کریں وہ پہلے سے بندوبست کر سکتے ہیں کہ یہاں دفن ہوں۔ جو لوگ صالح معلوم ہوں ان کی قبریں دُور نہ ہوں۔ ریل نے آسانی کا سامان کر دیا ہے اور اصل تو یہ ہے مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌۢ بِاَیِّ اَرۡضٍ تَمُوۡتُ (لُقْمٰن: 35) مگر اس میں یہ کیا لطیف نکتہ ہے کہ بِاَیِّ اَرۡضٍ تدفن نہیں لکھا۔ صلحاء کے پہلو میں دفن بھی ایک نعمت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا ہے کہ مرض الموت میں انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہلا بھیجا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم کے پہلو میں جو جگہ ہے انہیں دی جاوے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایثار سے کام لے کر وہ جگہ ان کو دے دی تو فرمایا

ما بقی لی ھَمٌّ بعد ذالک

یعنی اس کے بعد اب مجھے کوئی غم نہیں۔ جبکہ میں آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم کے روضہ میں مدفون ہوں۔ مجاورت بھی خوشحالی کا موجب ہوتی ہے۔ میں اسی کو پسند کرتا ہوں۔ اور یہ بدعت نہیں کہ قبروں پر کتبے لگائے جاویں۔ اس سے عبرت ہوتی ہے اور ہر کتبہ جماعت کی تاریخ ہوتی ہے۔ ہماری نصیحت یہ ہے کہ ایک طرح سے ہر شخص گور کے کنارے ہے۔ کسی کو موت کی اطلاع مِل گئی اور کسی کو اچانک آ جاتی ہے۔ یہ گھر ہے بےبنیاد۔ بہت سے لوگ ہوتے ہیں کہ ان کے گھر بالکل ویران ہو جاتے ہیں۔ ایسے واقعات کو انسان دیکھتا ہے۔ جب تک مٹی ڈالتا ہے دل نرم ہوتا ہے۔ پھر دل سخت ہو جاتا ہے۔ یہ بدقسمتی ہے۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ286۔287 ایڈیشن 1984ء)

محولہ بالا ارشاد میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمودہ یہ الفاظ ’’زندگی میں ایک جماعت تھے۔ مرنے کے بعد بھی ایک جماعت ہی نظر آئے گی‘‘ حقیقت بن کر ہمارے سامنے موجود ہیں۔ کہ جب ہم بہشتی مقبرہ قادیان و ربوہ اور دنیا بھر میں قائم قبرستان خاص کو دیکھتے ہیں تو ترتیب کے ساتھ قبروں کو پا کر دل عش عش کر اٹھتا ہے کہ ہمارے زندہ لوگوں میں تو ترتیب ہے ہی ہمارے مردے بھی ترتیب سے لیٹے ہوئے ہیں۔ میں جب لاہور میں مربی ضلع کے فرائض ادا کر رہا تھا تو میں مختلف اخبارات و رسائل کے تین صحافیوں کو اپنے ساتھ ربوہ کی زیارت کے لئے لے گیا۔ بہشتی مقبرہ کی زیارت کے لئے پہنچے تو اندر داخل ہوتے ہی ایک دوست کے لبوں پر یہ الفاظ تھے کہ ’’جس جماعت کے مردوں میں اتنی ترتیب ہو ان کے زندوں میں ترتیب و نظم کا کیا حال ہو گا‘‘

آج لندن قیام کے دوران، میں جب Godalming کے قبرستان میں جہاں احمدیہ قبرستان خاص و عام موجود ہیں، دعا کی غرض سے جاتا ہوں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ ایک حقیقت بن کر آسامنے کھڑے ہوتے ہیں جب میں اپنے احمدی بھائی اور بہنوں کی قبور کو ایک لائن میں ترتیب سے دیکھتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو ہمیشہ خلافت کے مبارک سایہ تلے منظم رکھے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

مالی کے تیرھویں جلسہ سالانہ کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مئی 2022