• 11 جولائی, 2025

مکہ اور مدینہ میں دس دن شعائر اللہ

مکہ اور مدینہ میں دس دن شعائر اللہ
اور اہم مقامات کا تعارف مشاہدات کی روشنی میں

حدودِ حرم میں اونٹنی کی مہارتھام کر داخل ہونا یہ بھی سنتِ نبویؐ ہے۔ لیکن اب یہ ممکن نہیں۔پیدل چلتے ہوئے حرم میں داخل ہوا۔ لیکن اپنی بےبسی پر غور کیا تو ضمیر خود سے مخاطب ہوا تم اس قابل تھے کہ یہاں آئے ہو؟ یہ ہمت، یہ حوصلہ اور یہ جسارت تم میں کہاں سے آئی۔ خود چلے آئے ہو یا بلائے گئے ہو۔ یہ وہ بابرکت جگہ ہے جسے دنیا میں سب سے زیادہ تقدس حاصل ہے۔ جہاں دن رات خُدا کا نور برستا ہے، ہاں یہ وہی مقدس بستی ہے جہاں ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تھے، حضرت اسماعیل علیہ السلام آئے تھے، حضرت ہاجرہ علیہا السلام آئی تھیں۔ جو حضرت محمد عربیؐ کی جنم بھومی ہے۔ جہاں آپ کی پیدائش ہوئی تھی۔ جہاں پر آپ نے آنکھیں کھولی تھیں۔ یہ خبر آپ کے گھرانے کی ایک لونڈی نے آپ کے دادا حضرت عبد المطلب کو سنائی تو آپ نے انگلی کے اشارہ سے اسے آزاد کردیا تھا۔ حدیث قدسی ہے: لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاک (آپ کی پیدائش ہی تخلیق کائنات کا مقصود ہے۔)

جہاں پروقت کے بہترین انسانوں نے آپ کو دیکھا اور سُنا اور آپ کی آوازپر لبیک کہا اور آپ پر ایمان لائے۔ وہیں پر دُنیا کے بد ترین انسانوں نے آپ کی مخالفت کی تھی۔ آپ کا مزاق اُڑایا تھا۔ زمین تنگ کردی تھی۔ جینا حرام ہوگیا تھا۔ وطن سے بے وطن ہونا پڑا تھا۔ یہ اللہ کا گھر ہے کعبة اللہ ہے دنیا کی بہترین انمول شاہ کار ہے۔ جس پر ایک بار نظر پڑے تو نظر ہٹتی نہیں مقنا طیسی کشش ہے جس سے چھٹکارا ممکن نہیں۔

قرآن کریم نے شہادت دی ہے اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَ (اٰل عمران: 97) دنیا کا سب سے پہلا عبادت خانہ جو اللہ نے لوگوں کی ہدایت کے لئے مقرر فرمایا وہ کعبہ ہے۔ جسے بحکم الہٰی حضرت آدم علیہ السلام نے بنایا تھا۔ پھر اسی کی بنیادوں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تعمیر کرنے کا اذن ہوا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’میں نے جب حج کیا تو حج کے موقعہ پر بعض احادیث اور بزرگوں کے اقوال سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب پہلی دفعہ خانہ کعبہ نظر آئے تو اس وقت انسان جو دُعا کرے وہ قبول ہوجاتی ہے۔ میں جب حج کے لئے روانہ ہو ا تو حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ نے مجھے یہ بات بتائی اور فرمایا اس کا خیال رکھنا جب میں وہاں پہنچا اور میں نے خانہ کعبہ کو دیکھا تو میں نے یہی دُعا کی۔ الہٰی! میری دُعا تو یہ ہے کہ مجھے تُومل جائے اور میں جب بھی تجھ سے دُعا کروں تو تُو اسے قبول فرمالیا کر۔‘‘

(خطبات محمود جلد15 صفحہ533)

میرے لئے بھی اس سے بہتر ہدایت کیا ہوسکتی تھی۔ بیت اللہ کی محبت مجھ پر چھائی رہی۔ ایک لہر تھی جو صدیوں کی سرگزشت سمیٹ رہی تھی۔ دل نے کہا تیری رات اندھیری ہے تو اس سورج سے شعائیں حاصل کرجو آمنہ کی گود میں طلوع ہوا تھا۔ جو زائداز چودہ سو برس سے چمک رہا ہے جس کے لئے غروب ہی نہیں۔ یہ نبی کی جنم بھومی ہے۔ یہ تخت گاہ رسول ہے۔ قبولیت دُعا کا شہر ہے۔ یہاں کالے اور گورے، چھوٹے اور بڑے میں کوئی فرق نہیں ہے سب برابر ہیں۔ طواف کرنے والے ہجوم میں مَیں بھی داخل ہوا۔ جو ایک بھنور کی طرح دائرے میں گردش میں تھا،آنحضرتؐ کی سنت کے مطابق پہلے تین چکر ذرا تیز قدموں سے چلنے ہوتے ہیں۔ میں نے بھی ساتھ ساتھ دُعا شروع کی اے اللہ! یہ تیرا گھر ہے یہ تیرا حرم ہے امن وہی ہے جو تیری طرف سے ہو۔ہونٹوں پر دُعائیں تھیں اور قدم حرکت میں۔

مقامِ ابراہیم

آج بھی یہاں پروہ پتھرہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبہ کی دیوار یں چنتے تھے۔ اسی پتھر پر کھڑے ہوکر بیت اللہ کاتعمیری کام مکمل کیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام آپ کی مدد کرتے تھے اور بعد میں اسی پتھر پر کھڑے ہوکر لوگوں کو ترغیب حج کا وعظ فرمایا کرتے تھے۔ یہ پتھر مدتوں سے کعبہ کے صحن پر پڑا رہا یہاں تک کہ آنحضرتؐ نے اس پتھر کو رکھنے کے لئے موجودہ جگہ تجویز فرمائی۔ طواف کے بعد لوگ اسی جگہ پر آکر دو گانہ نفل ادا کرکے شکرانہ کی نماز ادا کرتے ہیں اور دل میں یہ احساس ہوتا ہے کہ ایسی نماز، ایسی دُعا اور ایسی کیفیت زندگی میں میسر نہیں آتی جس میں مقبولیتِ دُعا کی سندلیکر سلام پھیرنا ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ اس کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى (البقرہ: 126) کہ بنالو ابراہیم علیہ السلام کے کھڑے ہونے کی جگہ کو جائے نماز۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام تعمیر کعبہ سے فارغ ہوئے تو یہ دُعا کی، اے ہمارے پروردگار! تو ہماری طرف سے اس خدمت کو قبول کر، تو سننے والا،جاننے والا ہے اور اے ہمارے رب! تو ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک کو فرمانبردار بنا۔ تو رحم کرنے والا ہے۔ اے ہمارے رب! تو اپنا رسول انہیں میں سے مبعوث کر جو تیری آیات کو سنائے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھائے اور ان کو پاک و صاف کرے تو غالب اور حکمت والا ہے۔

حجر اسود

سلام ہو اس عظیم بستی پر سب سے بڑی سجدہ گاہ جہاں پر ایک پتھر کو یہ شرف اور مرتبہ حاصل ہے کہ کروڑوں انسان رات دن، صبح شام ایک عظیم انسانؐ کی محض اتباع میں اس پتھر کو بوسہ دیتے آرہے ہیں جسے حجر اسود کہا جاتا ہے اور یہ اعزاز صبح محشر تک کے لئے اسے خاص کردیا گیا ہے۔حضرت عمرؓ نے اس حجراسود کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’تو ایک پتھر ہے میں جانتا ہوں تو نہ کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، میں نے آنحضرتؐ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے اس لئے میں بھی تجھے بوسہ دے رہا ہوں۔‘‘

پھرحجر اسودکو بوسہ دے کر،یا چھو کر، یا اشارہ کرکے طواف کا آغاز کریں۔ جب آپ کے سات چکر ہو جائیں گے تو ایک طواف مکمل ہوجائیگا۔ حجر اسود بیت اللہ کی انگوٹھی میں جڑا ہوا ایک نگینہ معلوم ہوتا ہے۔ میں نےاسے پیار بھری نظروں سے دیکھا، مجھے محسوس ہوا ہم دور کھڑے بھی آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کر رہے ہیں جیسے اس نے مجھ سے پوچھا کہاں سے آئے ہو،مجھ سے اور حجر اسود بات کرے، کیونکر ممکن ہے جواب میں میرے ہونٹ نہیں ہلتے لیکن میرا سامع میری آواز کے بغیر میرا مدعا سمجھ رہا ہے۔ اے خاتم دہر کے نگین! میں ہندوستان سے آیا ہوں۔ پھولوں اور درباوٴں کی وادی سے۔جہاں گنگا،جمنی تہذیب ہے۔ہاں اس سرزمین سے میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے۔

دارِ ارقم

شروع شروع میں یہ جگہ دارِ ارقم مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کی اجتماع گاہ ہوا کرتی تھی۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو اس اجتماع گاہ میں اسلام قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اسی دارِ ارقم میں حضرت عمر بن خطابؓ ہاتھ میں ننگی تلوا ر لئے پہنچے۔ تلوار کمر میں لٹک رہی تھی۔ دروازے پر دستک دی ایک صحابی نے عمر کو اس حال میں دیکھ کر خوف زدہ ہوکر پلٹے۔ حضرت حمزہؓ نے کہا اسے آنے دو اگر نیک ارادہ سے آیا ہے تو ہم بھی نیک معاملہ کریں گے ورنہ اسی تلوار سے اسے ختم کر دینگے۔ عمر آئے تو حضورؐ آگے بڑھ کر ان کی چادر کو پکڑ کر کھینچا اور فرمایا ابن خطاب! تم یہاں کسی ارادہ سے آئے ہو، عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ اس پر حضورؐ اور صحابہ کرامؓ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا مکہ کی پہاڑیاں گونج اُٹھیں یہ ہے وہ دارارقم جس میں تحریک اسلامی کی اولین مجالس منعقد ہوا کرتی تھیں۔ دعوت دین کے پروگرام بنتے تھے۔ تزکیہ نفس کی ترغیب ہوا کرتی تھی۔ اب یہ جگہ بیت اللہ شریف کی حدود میں داخل ہوگئی ہے۔

کوہِ صفا

حدودِ حرم میں ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جس کے ایک سرے سے ہم سعی کا آغاز کرتے ہیں اور مخالف سمت میں مروہ پہاڑی تک دوڑتے ہوئے چلے جاتے ہیں، تاکہ حضرت ہاجرہ ؑ کے اضطراب میں شریک ہوں۔ تکمیل حج و عمرہ کے لئےصفا اور مروہ کی سعی لازم ہے۔ اس رکن کی ادائیگی کے بغیر حج و عمر ہ کی تکمیل نہیں ہوتی۔ کوہِ صفا وہ ٹیلہ ہے جہاں حضور اکرمؐ قبیلہ قریش اور اہل مکہ کو دعوت الی اللہ کی اولین دعوت دی تھی۔ اس ٹیلہ کی اونچائی پر کھڑے ہوکر اہل مکہ کو بلند آواز سے پکارا تھا۔ اے اہل قریش! اے بنی عبد مناف!اے بنی ابد شمس! اے بنی ہاشم! مکہ کے ایک ایک قبیلہ کا نام لے کر آوازدی تھی۔ عرب کے رواج کے مطابق بستیوں پر حملے عام طور پر صبح کے وقت ہوا کرتے تھے۔جس کسی کو اچانک خطرہ کا پتہ چل جاتا وہ اسی طرح اونچی جگہ پر کھڑا ہوکر آواز لگاتا تھا لوگ بیدار ہوجائیں اور دوڑ کر چلے آئیں۔ چنانچہ آپؐ کے آواز دینے پر سارے لوگ دوڑ پڑے اور آپ کے ارد گرد جمع ہوئے تب آپ نے فرمایا لوگو! میں تمہیں بتاؤں کہ اس پہاڑ کی دوسری جانب ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہے تو کیا تم لوگ میری بات پر یقین کرلوگے۔ سچ مان لوگے تمام حاضر لوگوں نے یک زبان ہوکر کہا مان لیں گے اور یقین کریں گے اس لئے کہ ہمارے تجربہ میں ہے کہ آپ نے ابتک کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ ہم نے سچ کے سوا کچھ سُنا ہی نہیں۔ تب آپ نے فرمایا تو سن لو میں تم سب کو ایک خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ ایک خدا کو ماننے کی ترغیب دیتا ہوں تم جو یہ بُتوں کو پوجتے ہو ان کو چھوڑ دو۔ یہ کہنا ہی تھا کہ سب کے سب آپ کے مخالف ہوئے۔ لوگوں نے آپ کی دعوت کو قبول نہیں کیا۔ یوں داعی الی اللہ اور دعوت اسلامی کا سب سے پہلا خطاب کوہِ صفا پر ہوا یہ چٹان بھی حدودِ حرم میں میدانی شکل اختیار کرگئی ہے۔ صرف نشان باقی ہے۔

غارِ حرا

جومکہ سے پانچ مل دور واقع تھی اب تو سیع کی وجہ سے اور قریب ہوگئ ہے۔ یہی وہ جبلِ نور ہے جن میں غار حرا واقع ہے۔ یہ سیرت النبیؐ کا پہلا پڑائوہے۔ اب بھی یہاں حضورؐ کے قدموں کی چاپ سُنائی دیتی ہےاُن کےہونٹوں کا ارتعاش کھُلی فضاء میں محسوس ہوتا ہے۔دنیا بھر کے مسلمان حج و عمر ہ کے موقعہ پر اس دشوار گزار گھاٹی کا مشاہدہ کرنے اور دو رکعت نفل ادا کرنے کے لئے کھینچے چلے آتے ہیں۔ان میں بوڑھے، جوان، عورتیں، بچے سب ہی ہوتے ہیں۔ جب سے یہ پہاڑ کھڑا ہے اس میں غارِ حرا جوں توں موجود ہے۔ اللہ کے رسولؐ کئی کئی دنوں کی خوراک اور ضروری سامان لیکر اس غار میں تشریف لاتے تھے اور مسلسل اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے تھے اور یہ عبادت اپنے نقطئہ عروج کو پہنچ چکی تھی۔ سلام ہو، اے جبلِ نور! سلام ہو ااے غارِ حرا! سلام ہو اے گزار گاہ رسول! تونے چالیس برس کی عمر تک ازل سے ابدتک کہ سب سے اعلیٰ اور عظیم انسان کے پائوں چومے ہیں۔ سلام ہو اے تنہائیوں کے نشیمن ! تونے اس سے اس نےتجھ سے باتیں کیں ہیں۔ تونے اسے آتے جاتے دیکھا ہے سب سے پہلی وحی تیرے آغوش میں نازل ہوئی۔ تونے جبریل کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ کو سُنا۔ تمام کرہ ارض تیرا ممنون ہے۔ تونے رحمت للعلمین کو تخلیہ مہیا کیا۔تونے اُن کے آنسووٴں سے موتی چنے، ہم تیرے شکر گزار ہیں۔ لاکھوں سلام صبح و شام اے غار حرا! جب مومنین کی اوّل ماں نے سنا کہ حضور اکرام غار حرا سے اِقۡرَاۡ کا پیغام لے کر آئے ہیں اور کہہ رہے ہیں زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِیْ، مجھے چادر اڑھائو مجھے چادر اڑھائو تو حضرت خدیجۃ الکبریٰ اوّل اُم المومنینؓ نے کہا:
’’اے ابو قاسم ! خوش ہو جائو اور ثابت قدمی اختیا ر کرو قسم ہےاس ذات کی جس کے ہاتھ میں خدیجہ کی جان ہے—مجھے امید ہے آپ اس امت کے نبی ہوں گے (ابن ہشام)

اس غار سے ایک فوارہ نور نکلاجس نے سارے زمانہ کو روشن کردیا دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ جَآءَ الۡحَقُّ کی بنیاد پڑگئی اور زَہَقَ الۡبَاطِلُ کی شروعات ہوئی۔

آب زم زم

بچہ رورہا تھا، ایڑیاں رگڑ رہا تھا، پیاس کی شدت نے اسے نڈھال کردیا تھا، ماں حضرت ہاجرہ علیہا السلام پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ پہاڑیوں کے چکر لگارہی تھی۔ صحراء میں پانی کہاں؟ ریت کا خشک دامن بچے کے خشک ہونٹوں کو اور بھی زیادہ خشک کر رہا تھا۔ بچہ تڑپ رہا تھا۔ ایڑیاں رگڑ رہا تھا۔ پانی کی تلاش میں حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے صفاومردہ کے ساتھ چکر لگائے ماں بے حال تھی دل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔ اسے بچہ کی جان کاخوف لاحق تھا۔ ماں نے محسوس کیا بچے کی چیخیں اور رونے کی آواز رُک گئی ہے تشویش بھری دوڑ کے ساتھ بچہ کی طرف آئیں بچہ نڈھال تھا، ماں کی پُرنم آنکھیں بےبسی کا اظہار کر رہی تھیں۔ سانسیں رُک گئیں۔ ہوش و حواس گم ہوگئے، زبان گونگی لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران زدہ رہ گئی کہ جس جگہ بچہ نے ایڑیاں رگڑی تھیں اور جس جگہ اس کی نازک ننھی ایڑیوں نے ریت کا دامن چیردیا تھا وہاں ریت نم آلود تھی۔ اس نم آلود ریت میں دیکھتے ہی دیکھتے پانی رس رہا تھا۔پانی اُبل رہا تھا پھر پانی بہنے لگا۔ پانی بہہ کر کہیں ختم نہ ہو جائے اس ماں کی تشویش بھری سوچ تھی۔ جلد ی جلدی آگئے بڑھ کر چاروں طرف ریت کی دیواریں بنانی شروع کردیں۔ وہ ریت کی دیواریں بنائی جارہی تھیں لیکن پانی کہ ریت کی دیواروں کو بہائے لئے جارہا تھا۔ تب حضرت ہاجرہ ؑکی زبان نے جُنبش کی زم زم، رُک جا،رُک جا۔ یہ اس دن سے زم زم بنا ہوا ہے۔ رُک گیا ہے۔ کنویں کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ حضرت ہاجرہ علیہا السلام پر رحم فرمائے اگر وہ پانی کے اطراف ریت کی دیوار یں نہ بناتیں تو زم زم ایک بہنے والا چشمہ بن جاتا۔ آج اسی زم زم سے ساری دنیا برکت حاصل کر رہی ہے۔

وادئ محسر

یہاں پر یہ حکم ہے کہ تیزی کے ساتھ گزر جائو، وادی منی اور مزدلفہ کے درمیان یہ جگہ واقع ہے اور حجاج اس جگہ تیز رفتار سے گزر جاتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اصحاب فیل پر کنکریوں کی بارش ہوئی تھی۔بیت اللہ کو مسمار کرنے کے ارادہ سے آئے ہوئے اس ساٹھ ہزار کے لشکر پر جو ہر طرح کے جنگی ساز و سامان سے لیس تھا ان کو تباہ و بربار کرنے کے لئے ابابیل (پرندے) کنکریاں لیکر آئے تھے اور کنکریوں کی بارش کرکے اس ساٹھ ہزار کے لشکر اور ان کے ہاتھیوں کو تتر بتر کر دیا تھا۔ یہ بیت اللہ کے قریب ترین کا علاقہ ہے جہاں خدا کا غضب اس لشکر پر نازل ہوا تھا۔ آنحضرتؐ کی پیدائش سے صرف ڈیڑھ سال قبل کا یہ واقعہ ہے اس کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا۔ بلکہ ازدیا دایمان اور خدا کی ذات پر پختہ یقین کا موجب ہوگا۔ ابر ہہ جویمن کا بادشاہ تھا اپنے عظیم الشان گرجے کو مرجع خلائق بنانے اور بیت اللہ کی عظمت اور مرکزیت کو ختم کرنے کے لئے ساٹھ ہزار کے لشکر اور ہاتھیوں کے ساتھ بیت اللہ پر حملہ ور ہوا تھا۔ ابھی کعبة اللہ سے چار میل دورہی تھا وادی محسر میں تباہ و بربار ہوگیا۔حضورؐ کے دادا حضرت عبد المطلب جوکہ کعبہ کے متولی تھے اُن کے سوا مکہ کے سارے لوگ خوف زدہ ہوکر بھاگ گئے اور پہاڑیوں میں چھُپ گئے۔لیکن عبدالمطلب ابرہہ کے پاس گئے ابر ہہ نے ان کی تعظیم کی عزت سے انہیں بٹھایا اور دریافت کیا آپ کے آنے کا مقصد کیا ہے۔ میرے اونٹ جو آپ کے لشکر یوں نے پکڑلئے ہیں وہ مجھے واپس کردئے جائیں عبد المطلب نے کہا۔ ابر ہہ ان کے اس مطالبہ پر حیران رہ گیا اور کہنے لگا ’’میں تو آپ کو دیکھ کر آپ کی شخصیت سے بہت مرعوب اور متاثر ہوا ہوں لیکن آپ کا یہ مطالبہ سن کر میں حیران ہوں آپ کو ہوکیا گیا ہے۔ کیا آپ کوعلم نہیں میں تو اس بیت اللہ کو ڈھانے کے لئے یہاں آیا ہوا ہوں۔ جو آپ کے آبائی دین کا مرجع خاص ہے اور آپ نے اس بارے میں مجھ سے کوئی بات ہی نہیں کی۔عبدالمطلب نے جواب دیا انا رب الابل ورب البيت یمنعه جناب میں تو صرف اونٹوں کا مالک ہوں اور ان کی واپسی کا مطالبہ ہے۔ جہاں تک بیت اللہ کا تعلق ہے اس کا مالک تو خود خداتعالیٰ ہےوہ خود ہی اپنے گھر کی حفاظت کریگا۔

تو پھر وہ مجھ سے بچا نہیں سکے گا ابرہہ نے پورے غرور اور تکبر کے ساتھ جواب دیا۔ ٹھیک ہے اب آپ جانیں اور وہ جانیں عبد المطلب نے جواب دیاپھر اپنے اونٹ لیکرواپس چلے آئے۔ واپس آکر عبد المطلب نے ساری بستی میں منادی کرادی لوگ اپنی حفاظت کے لئے پہاڑیوں کی پناہ گاہوں میں چلے جائیں اور پھر خود بیت اللہ میں سرداران قریش کے ساتھ آئے اور کعبة اللہ کے دروازہ پرکنڈا پکٹر کر رو روکر اللہ کے حضور دُعائیں کیں۔ اگرچہ اُس وقت 360 بُت کعبہ میں موجود تھے۔ لیکن ان ہنگامی حالات میں وہاں سب ان نام نہاد بتوں کی شفاعتوں کو بھول کر صرف اللہ رب العلمین سے دُعائیں کرتے رہے۔ اے خدا! ہر شخص اپنے گھر کی حفاظت کر تا ہے تو بھی اپنے گھر کی حفاظت کر۔ مالک ان کی صلیب اور ان کی تدبیرتیری تدبیر کے مقابلہ میں غالب ہونے نہ پائے۔ میرے مالک میں تیرے سوا کسی سے اُمید نہیں رکھتا۔ اے میرے رب! میرے حرم کی حفاظت کر اس گھر کا دشمن تیرا دشمن ہے یہ دُعا کرکے عبد المطلب اور دیگر سرداران قریش بھی پہاڑیوں میں چلے گئے۔

دوسرے روز ابرہہ کی فوج نے مکہ کی طرف کوچ کیا جب وہ وادی محسر میں پہنچے تو ابرہہ کا خاص ہاتھی محمود آگے بڑھنے سے رُک گیا اور پھر بیٹھ گیا۔اس کواٹھانے کے لئے بہت پٹائی ہوئی۔ بہت انکس مارے گئے وہ زخمی ہوگیا لیکن اپنی جگہ سے نہیں ہلا اور وہ آگے بڑھنے کے لئے بالکل تیار نہیں ہوا۔سارا لشکر اس کے پیچھے رُکا ہوا تھا۔ پھر اسی کشمکش میں پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ فضائے آسمانی سے نمودار ہوئے ان کے چونچوں اور پنجوں میں چھوٹے چھوٹے سنگ ریزے تھے۔ انہوں نے ابر ہہ کے لشکر پر بارش شروع کردی۔ جس پر بھی وہ کنکر گرتا اس کا جسم گلنا شروع ہوجاتا۔ کھجاتے کھجاتے جلد پھٹ جاتی خون بہنے لگتاخون اور گوشت پانی کی طرح بہتے تھے۔لشکر پر خوف طاری ہوگیا۔لوگ واپس جانے لگے۔ لیکن ان کے لئے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں تھی جب کہ ان کاتعاقب خدا خودکر رہا تھا۔ اس طرح وہ لشکر افراتفری میں تباہ و برباد ہوگیا۔بس اصحاب فیل کا عبرت ناک قصہ تاریخ میں رقم ہوا۔ یہ وادئ محسر اسی عبرت ناک واقعہ کی یاد دلاتی ہے۔

غارِ ثور

جبلِ نور سے مغرب کی جانب ایک پہاڑ ہے جس میں یہ غار واقع ہے۔ یہ پہاڑ بھی بہت دشوار گزار گھاٹی ہے۔ غارِ ثور رسول کریمؐ کی سب سے پہلی پناہ گاہ ہے۔ مشرکین مکہ نے رسول کریمؐ کو مکہ چھوڑنے اور ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ وہ قتل کرنے پر آمادہ تھے۔ منصوبہ بندطریق پر آپؐ کو قتل کرنے کی سازش رچی تھی۔لیکن اللہ تعالیٰ کے اذن سے اللہ کے رسولؐ نے گھر بار، وطن اور سارے تعلقات محض خدا کی خاطر منقطع کرکے مکہ سےمدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا تھاجب آپ مکہ سے باہر آئے بڑے ہی درد اور کرب اور رقت بھرے الفاظ میں شہر مکہ کو مخاطب ہوکر فرمایا:
’’اے مکہ کی مقدس بستی! تو مجھے تمام بستیوں میں سب سے زیادہ عزیز اور پیاری ہے۔ عزیز اور پیاری ہی نہیں تو میری جنم بھومی ہے اور خدا کو بھی ساری زمین میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ مگر میں کیا کروں تیرے رہنے والے مجھے یہاں رہنے دیا ہوتا تو میں کبھی بھی تجھے چھوڑ کر نہیں جاتا۔‘‘

اس کے بعد آپ شہر مکہ چھوڑ کر حضرت ابو بکرؓ کے ہمراہ پہلے سےطے شدہ پلان کے مطابق سفر پر روانہ ہوئے اور دوران سفر اسی غار، غار ثور میں پناہ لی۔ یہ پہاڑ مکہ کے جنوب میں یمن کے راستہ میں ہے اور مکہ مکرمہ سے چار میل کی دوری پر واقع ہے۔ اس غار میں یارِ غار حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ساتھ دو دن تک رہے۔ اُدھر مکہ میں کہرام مچ گیا کہ حضورؐ ہجرت کرگئے ہیں۔ وطن چھوڑچکے ہیں۔ خانہ کعبہ کے صحن میں سرداران قریش اور روسائے مکہ کی پارلیمینٹ منعقد ہوئی جس میں اتفاق رائے سے یہ ریزولیشن پاس کیا:
’’محمدؐ کو جوشخص زندہ یا مردہ گرفتار کرکے لائے گا اس کو انعام کے طورپرایک سو اونٹ دیئے جائیں گے‘‘

عام اعلان کرایا گیا۔ انعام کے لالچ میں ہر کوئی میدان میں کود پڑا۔ ماہر ین کھوجی کی ایک ٹیم قدموں کے نشانات پر غار ثور کے منہ پر جارُکی جس میں آنحضرتؐ نے پناہ لے رکھی تھی۔ان میں سے ایک کھوجی نے کہا کہ یہاں سے آگے کوئی نشان نہیں ملتا یا تو محمدؐ اس غار میں ہیں یا آسمان پر چلے گئے ہیںروئے زمین پر تیسری کوئی جگہ ہی نہیں جہاں محمدؐ نے پناہ لی ہو۔ لیکن اُنہی میں سے ایک نے کہا یہاں کیا پائوگے؟ اس غار میں تو مکڑی کا جالا محمدؐ کی پیدائش سے بھی پہلے کا تنا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ سب کے سب ناکام و نامراد ہوکر واپس چلے گئے۔اُدھر حضرت ابو بکرؓ نے غار کے اندر سے ان کی باتیں سنی انکے پائوں دیکھے پریشانی اور گھبراہٹ کے عالم میں عرض کیاکہ یارسول اللہ دشمن غار کے منہ پر کھڑا ہے ان میں سے کوئی بھی اپنے پائوں کے نیچے دیکھے تو ہم نظر آئیں گے۔ آپؐ نے فرمایا ’’ابو بکرؓ گھبرائو نہیں اس غار میں ہم دونہیں، ہم تین ہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے لَاتَحْزَنْ إِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا (غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے)۔ سراقہ بن مالک ایک ماہر گھوڑ سوار تھے۔ یہ بھی انعام کی لالچ میں حضورؐ کی تلاش میں اپنے منہ زور گھوڑے کو ایڑلگائی۔ دور سے دیکھا حضورؐ اور حضرت ابو بکرؓ کی اونٹنی دھول اُڑاتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔ آپ نے گھوڑے کو ایڑ لگائی گھوڑا تیز دوڑنے لگا اور کچھ دور جاکر اوندے منہ گرپڑا۔ عرب کے رواج کے مطابق انہوں نے فال نکالی۔ فال مخالف سمت نکلی یعنی واپس مڑو۔ اہل عرب فال کے خلاف نہیں جاتے تھے۔ پھر بھی وہ آگے بڑھے دوسری دفعہ بھی گھوڑا گر پڑا آپ نے کوئی پرواہ نہیں کی تیسری دفعہ گھوڑا گرپڑا آگے بڑھنے سے صاف انکار میں سرہلایا تب آپ نے نیتی اور نیت بدل کر پیدل آگے بڑھے۔ سارا واقعہ بیان کیا۔مکہ کی طرف واپس ہونے لگے تو حضورؐ نے فرمایا ’’اے سراقہ !تیرا اس وقت کیا حال ہوگاجب قیصر و کسریٰ کے سونے کے کنگن تیرے ہاتھ میں پہنائے جائیںگے۔‘‘ جب دور فاروقی میں قیصر و کسریٰ فتح ہوئے تو مال غنیمت میں قیصر و کسریٰ کے سونے کے کنگن بھی ہاتھ لگے تب حضرت عمرؓ نے ظاہری طور پر بھی اس پیشگوئی کو عملی جامہ پہنایا۔ سراقہ بن مالک کے ہاتھوں میں وہ سونے کے کنگن پہنائے۔

مسجد عقبہ

یہ مسجد جو مکہ مکرمہ سے منی کی طرف جاتے ہوئے راستہ میں آتی ہے۔ یہ چھوٹی سی گھاٹی اور اس میں واقع یہ مسجد اس بیعت عقبہ کی یادگار ہے۔ بعثت نبویؐ کے گیارھویں سال قبائل عرب کو دعوت الی اللہ کا پیغام پہنچانے کے لئے روانہ ہوئے تھے اس وقت آپکی ملاقات قبیلہ خزرج کے چند افراد سے ہوئی تھی۔ حضورؐ نے ان لوگوں دعوت الی اللہ کا پیغام دیا تھا اور اسلام کی باتیں سنائیں اور قبول اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی آمد کی خبر ہمیں یہودی دیا کرتے تھے۔ ایسا نہ ہو کہ اس نبی پر ایمان لانے میں وہ لوگ ہم پر سبقت لے جائیں۔ یہ تھےمدینہ کے وہ جانثار لوگ جو اس مقام عقبہ پر جمع ہوکر اسلام کے لئے جذبہ فدائیت کا اظہار کر رہے تھے۔ تاریخ کا رُخ بدل جانے کی یادگار یہی مسجد عقبہ ہے۔ آج بھی عشاقِ اسلام کی زیارت گاہ اور ان انقلابی ایام جہاد و ایمان کی یاد تازہ کرتی ہے۔

مسجد قبلتین

یہی مسجد قبلہ اوّل بیت المقدّس سے کعبہ شریف کی طرف قبلہ تبدیل کرنے کی ایک یادگار مسجد ہے۔ مدینہ منورہ کے مغربی جانب واقع ہے۔ تحویل قبلہ کے حوالہ سے اپنا ایک منفرد تاریخی اہمیت کی حامل اور مقام رکھتی ہے۔اس مسجد کوقبلتین کا نام بھی ہجرت مدینہ کے دوسرے سال حضور اکرمؐ نے اس وقت دیا جب آپ کو دورانِ نماز اللہ تعالیٰ نے اپنا رخِ انور بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف موڑنے کا حکم دیا۔ آپ نے نمازیوں سمیت اپنا رُخ موڑ لیا۔ آج بھی اس مسجد میں دو قبلہ گاہ (محراب) ہیں۔ یہ صورت حال حضورؐ کی خواہش اور دلی منشاء کے مطابق ہوا۔ آپکی یہ تمنا تھی کہ مسلمانوں کاقبلہ خانہ کعبہ کی جانب ہو جس کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے۔

مسجد قباء

مدینہ منورہ کی مساجد میں مسجد نبوی کے علاوہ صرف مسجد قباء میں نماز پڑھنے کی فضیلت ہے۔ اس لئے کہ رسول کریمؐ خود بھی مسجد قباء میں جاکر نمازیں ادا کرتے تھے۔ وہاں دور کعت نفل نماز ادا کرتے تھے۔ آپؐ نے اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:-

من تطھرفی بیتہ ثم اتی مسجد قباء فصلّی فیہ صلاۃ کان لہ کاجر عمرۃ

(ترمذی، ابن ماجہ)

جس شخص نے اپنے گھر میں وضوع کیا۔ پھر مسجد قباء میں آیا اور اس میں نماز پڑھی تو اسے عمرہ کا ثواب ملے گا۔اس لئے اس مسجد کو بھی اہمیت حاصل ہے۔

مدینۃ النبی

جیسے جیسے مدینہ کے آثار قریب ہوتے گئے دھڑکنیں تیز ہوتی گئیں۔ عجیب کیفیت طاری ہوئی دل نے کہا جہاں سے آرہے ہو وہ بیت اللہ، اللہ کا گھر ہےوہاں بندہ کا ناز اپنے خالق سے ہے۔ یہاں یہ اللہ کے محبوب کا گھر ہے۔آہستہ چلنا یہ باادب لوگوں کی رہائش گاہ ہے۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ ’’میں اس شخص کو سوکوڑے لگائوں گا جس نے کبھی مدینہ کے موسم کی شکایت کی‘‘ جہاں وجہ نمود کائنات کی آرام گاہ ہو وہاں کے موسم میں خلل و خرابی کا امکان ہی نہیں۔ اپنی بے بسی،کم مائیگی اور بے سرورسامانی پرغور کرو۔ ختم المرسلین کے دربار میں حاضری دے رہے ہو دربار میں بے مایا ں لوگ حاضر نہیں ہوتے۔ تم نے بڑا حوصلہ کیا گنہگار وخطاکار ہوکر بھی چلے آئے ہو۔ شفیع المذنبین کی چوکھٹ پر جارہے ہو۔ یہ حصہ یہ جگہ جہاں حضورؐ آرام فرمارہے ہیں تمام کائنات سے افضل ترین اعلیٰ و برتر ہے۔ ساری کائنات مل کر بھی اس کا ہمسر نہیں ہوسکتی۔ کہاں اس گھر کی عالم پناہی اور کہاں اس زرّہ حقیر کی روسیاہی؟ حضور پاکؐ کے روبرو کھڑے ہونا آسان نہیں۔ وہ حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمر بن خطاب، حضرت عثمان بن غنیؓ و حضرت علی مرتضیٰؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی تھے۔ جو حضورؐ کے سامنے حاضر ہوئے اور گفتگار نبوت کے موتی چنتے تھے۔ تمہاری کیا بساط اور تمہاری حیثیت ہی کیا ہے۔ تم میں وہ دم خم ہے۔تم وہاں پر ہو جس کے قدم قدم پر محمدؐ کے حسنِ کرام کے پھول کھلتے ہیں۔ جہاں وقت کے بہترین انسان چلتے پھرتے تھے۔آج بھی حضرت بلالؓ کی اذانیں سنائی دیتی ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں مَیں وہاں تھا جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے عرش و فرش کی تمام فضیلتیں جمع کردی ہیں۔ جہاں پر ہر وقت فرشتے دنیا بھر سے درودوسلام کی جھولیاں بھر بھر کر لاکر نچھاور کر رہے ہیں۔

حجرہ حضرت عائشہؓ

یہ ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جس میں صرف تین قبروں کی گنجائش ہے۔ پہلی قبر حضرت رسول کریمؐ کی، دوسری قبر حضرت ابو بکر صدیقؓ کی اور تیسری حضرت عمر بن خطابؓ کی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے تیسری جگہ اپنے لئے مخصوص کر رکھی تھی۔ جب حضرت عمر بن خطابؓ پر قاتلانہ حملہ ہو اتو آپ نے اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو حضرت عائشہؓ کی خدمت میں بھیجاکہ اُم المومنین حضرت عائشہؓ سے درخواست کی جائے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بغل کے پاس والی خالی جگہ پر حضرت عمر بن خطابؓ کی تدفین کے لئے بخوشی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔ جس طرح میں زندگی میں ان کے ساتھ رہا مرنے کے بعد بھی مجھے ان کا ساتھ ملے۔ جس پرحضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ ’’یہ جگہ میں اپنے لئے مخصوص کر رکھی تھی۔ آج اپنے پر حضرت عمر بن خطابؓ کو ترجیح دیتی ہوں اور بخوشی اجازت دیتی ہوں۔‘‘ چنانچہ تینوں اصحاب اسی حجرہ میں مدفون ہیں۔ اس حجرہ کے سامنے پولیس کا کڑا پہرہ ہے۔ کسی کورکنے اور ہاتھ اُٹھاکر دُعا کرنے کی قطعی اجازت نہیں۔ اگر کوئی غلطی سے رُکے یا ہاتھ اُٹھائے دعا کے لئے تو سختی برتی جاتی ہے۔

جب حضرت چوہدری سرمحمد ظفر اللہ خان صاحبؓ حج کے لئے تشریف لائے تو آپ شاہ فیصل کے خصوصی مہمان رہے۔ شاہ ِفیصل کو آپ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کے لئے حجرہ عائشہؓ کو باقاعدہ کھول دیا گیا تھا۔ چوہدری صاحب موصوف نے بیان کیا ’’حجرہ کے اندر صرف تین قبریں تھیں ہر قبر کے سرے پر چھوٹی سی تختی لگی ہوئی ہے۔ جس پر لکھا ہوا ہے ھذا قبر محمد بن عبدؐ ۔ ھذا قبر ابو بکر صدیقؓ، ھذا قبر عمر بن خطابؓ ، حضرت چوہدری صاحب موصوف کو ان قبروں کے سامنے روبرو کھڑے ہو کر دُعا کر نیکی سعادت نصیب ہوئی۔ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ۔ اب یہ حجرہ بھی مسجد نبوی کے اندر داخل ہو گیا ہے۔

ممبرِ رسول

آج بھی یہ مخصوص جگہ قائم ہے چاروں طرف سٹیل کی جالی لگائی گئی ہے۔یہاں پر کھڑے ہوکر حضور پاکؐ خطبہ جمعہ اور خطابات فرمایا کرتے تھے۔ آپ کے بعدبالترتیب حضرت ابو بکرصدیقؓ ، حضرت عمر بن خطابؓ، حضرت عثمان غنی بن طالبؓ، حضرت علی ابن طالب خطبہ جمعہ اور خطابات فرمایا کرتے تھے۔ ممبر رسول کے ساتھ ہی ایک بیری کا درخت تھا جس پر سہارا لیکر حضور پاکؐ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ اور خود حضرت عمرؓ بھی سہارا لیکر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے دور خلافت میں اس بابرکت درخت کو اس خدشہ کی بناء پر کہ بعد میں یہ شرک کی جگہ نہ لے،اُسے کٹوادیا۔بیان کیا جاتا ہے کہ جب درخت کو کاٹا جارہا تھا تو درخت زاروقطار رو رہا تھا اور حضرت عمر بن خطابؓ سے بزبان حال شکوہ کیا اے عمرؓ! تم اس درخت کو کاٹ رہے ہو جس کا سہارا لیکر حضور پاکؐ اور آپ کے ساتھی حضرت ابو بکر صدیقؓ زندگی بھر اور تم خود بھی کچھ عرصہ خطبہ جمعہ اور خطاب فرمایا کرتے تھے؟

روضۃ من ریاض الجنہ

یہ جگہ پہلے مسجد بنوی کے بہت باہر تھی۔ میں بھی اسی خیال میں مسجد نبوی کے باہر تلاش کرنے لگا۔ مجھے نظر نہیں آئی۔ ایک عرب دوست نے میری بے چینی کو محسوس کیا تو مجھ سے مخاطب ہوا کہ ھل ھذا اول زیارۃ لک (کیا آپ پہلی مرتبہ آئے ہیں) میں نے جواب دیا کہ نعم (ہاں) پھر اس نے پوچھا ھل تبحث عن احد (کیا آپ کسی کو تلاش کر رہے ہیں) میں نے جواب دیا نعم روضۃ من ریاض الجنۃھو فی المسجد النبوی وہ تو مسجد نبوی کے اندر ہی ہے۔ پھر میں مسجد نبوی کے اندر داخل ہوا۔ میں نے دیکھا اس حصہ کو چاروں طرف سے اسٹیل سے گھیرا گیا ہے۔ جنگلہ کی شکل دی گئی صرف اندر جانے کے لئے مختصر راستہ دیا گیا ہے۔ زائرین کی ہروقت بھیڑ لائین میں لگی رہتی ہے اندر جانے کے لئے۔ اندر داخل ہوکر ذکر الہٰی اور نوافل ادا کرتے ہیں۔ خاکسار کو بھی کئی بار اندر داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ الحمدللّٰہ

جنت البقیع

نماز فجر کی ادائیگی کے بعد روضہ رسول پر سلام عرض کرکے جنت البقیع کی طرف چل پڑا۔ جو حرم نبویؐ کے شرقی جانب تھوڑی ہی دور پر واقع ہے۔ داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ کے ایک کونے میں حضورؐ کی پھوپیاں عافکہؓ ، صفیہؓ اور فاطمہؓ کے مزار ہیں۔ تھوڑا سا آگے جائیں تو نواُمہات المومنین، حضرت عائشہؓ ، حضرت مسودؓ ، حضرت زینبؓ ، حضرت حفسہؓ، حضرت اُم سلمہ، حضرت جویریرؓ، حضرت ام جیبہؓ اور حضرت صفیہؓ محو خواب ہیں۔ دوسری جانب شہداء کے مزارات کا ٹکڑا ہے اور عین سامنے حضورؐ کے فرزند حضرت ابراہیم کی لحد ہے اور ادھر عبد الرحمن بن عوفؓ، حضرت رقیہ بنت عثمانؓ ممھد بن ابی وقاضؓ، عبد اللہ بن عمرؓ آسودہ خاک ہیں۔ آخری کونہ میں حضرت عثمان غنیؓ کا مزار ہے۔ اس مزار سے ذرا ہٹ کر دیوار کے ساتھ ہی حلیمہ سعدیدؓ کی قبر ہے اور کئی ایک قبروں کی نشاندہی نہیں۔قبروں کی شکل ہے۔سنگر یزوں کا حاشیہ ہے۔ سینوں پر کنکریاں پڑی ہوئی ہیں۔ جنت البقیع کو دیکھیں تو سوگوار معلوم ہوتا ہے۔ ویرانی ٹپک رہی ہے لیکن جنت کا سماں ہے۔ بہشتی مقبرہ قادیان میں نصب ایک کتبہ کی رو سے حضرت شیخ حسن احمدیؓ یادگیر کا مزار بھی اس جنت البقیع میں ہے۔

(محمد عمر تماپوری کوآرڈینیٹر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ انڈیا)

پچھلا پڑھیں

مالی کے تیرھویں جلسہ سالانہ کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مئی 2022