اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے حیاتِ جاودانی کے مورد ٹھہرتے ہیں۔جیسا کہ سورۃ البقرۃ آیت 155 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’تم ان لوگوں کو جو اللہ کے راستہ میں مارے جائیں مردہ نہ کہو۔بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم کوئی شعور نہیں رکھتے۔‘‘
حضرت محمدمصطفیٰﷺ نے شہید کے بارہ میں ارشاد فرمایاکہ ’’مولا کے حضور خیر پانے کے بعد سوائے شہید کے اور کوئی دنیا میں واپس آنے کی خواہش نہیں کرتا۔ شہادت کی فضیلت کی وجہ سے وہ ایسا چاہتا ہے کہ دوبارہ دنیا میں شہادت کا رتبہ حاصل کرے اور اپنے مولا کے حضور بلند مقام پائے۔‘‘
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قوتِ ایمانی اور قوتِ اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطورِ نشان ہو جاوے۔‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 516)
انبیاء کی روحانی تربیت اور تعلیم کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی خاطر مصیبتوں، دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت اپنی قوتِ ایمانی کے سبب ثابت قدمی دکھاتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ عشق و وفا کی داستانیں ضلع چکوال کے جاں نثاروں نے بھی اپنے خون سے رقم کیں۔انہیں وفاشعاروں میں سے ایک کا آج تذکرہ کرنا مقصود ہے۔
حضرت حافظ جمال احمد ؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ نہ صرف جماعتِ احمدیہ چکوال بلکہ جماعت ہائے احمدیہ ضلع چکوال کے پہلے مربی سلسلہ اور شہیدِ احمدیت ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 28مئی1999ء میں بمقام بیت الفضل لندن میں شہید مربیان کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے حضرت حافظ جمال احمدؓ کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا۔
’’حضرت حافظ جمال احمد صاحب حضرت مسیح موعودؑ کے ان ممتاز صحابہ میں سے تھے جو عنفوانِ شباب سے حضرت مسیح موعودؑ کے دامن سے وابستہ رہے اور مئی 1908ء میں حضرت اقدسؑ کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔آپؓ کے والد حضرت حکیم غلام محیی الدین صاحبؓ 1901ء سے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت سے مشرف ہو چکے تھے۔ آپؓ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے زیرِ سایہ بھی تربیت حاصل کی۔ آپؓ موضع چکوال کے رہنے والے تھے۔ حضرت حافظ صاحبؓ کو صحابہ حضرت مسیح موعودؑ میں یہ منفرد خصوصیت حاصل ہے کہ آپ 21 برس تک ماریشس میں جہادِ تبلیغ میں سرگرم رہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے رفقاء میں کسی کو اتنا لمبا عرصہ میدانِ عمل میں مسلسل دعوتِ الیٰ اللہ کا موقع نہیں ملاجیسے آپؓ کو ملا۔آپؓ 27جولائی 1928ء کو قادیان سے ماریشس پہنچے اور 27دسمبر 1949ء کو ماریشس میں انتقال فرما گئےاور سینٹ پیری میں سپردِ خاک کئے گئے۔ آپؓ کی وفات کی اطلاع پر حضرت مصلح موعودؓ نے 30دسمبر 1949ء کو خطبہ دیا۔اس میں آپؓ کی خدمات کونشان قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ
’’حافظ جمال احمد صاحب کی وفات اپنے اندر ایک نشان رکھتی ہے اور وہ اس طرح کہ جب وہ ماریشس بھیجے گئے تو جماعت کی مالی حالت بہت کمزور تھی اتنی کمزور کہ ہم کسی مبلغ کی آمد و رفت کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔میں نے تحریک کی کہ کوئی دوست اس ملک میں جائیں۔ اس پر حافظ صاحب مرحوم نے خود اپنے آپ کو پیش کیا۔‘‘
(تاریخِ احمدیت جلد 14 صفحہ91-90)
پھرفرمایا ‘‘جو اس سے بھی بڑا نشان ہے وہ وہی ہے جو میں عرض کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے رفقاء میں سے کسی رفیق کو اتنا لمبا عرصہ میدانِ جہاد میں دعوت اِلی اللہ کرنے کی توفیق نہیں ملی۔‘‘
(شہدائے احمدیت صفحہ90،91۔الفضل 24/اگست1999ء)
حضرت صوفی خدا بخش زیروی اپنی خود نوشت حالات میں حضرت حافظ جمال احمدؓ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ ’’1927ء کے جلسہ سالانہ قادیان پر میں نے سید دلاور شاہ صاحب بخاری احمدی ایڈیٹر مسلم آؤٹ لُک (Muslim Out Look) انگریزی اخبار کے استقبال کا نظارہ دیکھا جو کہ غازی علم الدین صاحب کے مقدمات کے سلسلہ میں قید سے رہا ہو کر آئے تھے اور اس طرح حضرت حافظ جمال احمد صاحب آف چکوال کو بطورِ احمدی مبلغ ماریشس کو روانگی کا روح پرور نظارہ دیکھا۔‘‘
(تاریخِ احمدیت سڑوعہ ضلع ہوشیار پور صفحہ 180)
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت حافظ جمال احمد ؓکے درجات بلند فرمائے۔ اور انہیں جنت الفردوس کا مکیں بنائے۔ اور ہم سب کو ان کے نقشِ قدم پر چل کر صحیح رنگ میں احمدیت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
(ریاض احمد ملک)