• 14 جولائی, 2025

لاک ڈاؤن میں میری عید اور عیدی

قریباً 19 سال پہلے کی بات ہے میری عدتّ کے دن ختم ہوئے ہی تھے کہ ماہ رمضان شروع ہو گیا ۔ عید سے غالباً دو تین دن پہلے ہمارے حلقہ کے صدر صاحب تشریف لائے اور مجھے ایک لفافہ دے کر چلے گئے جس پر عید مبارک لکھا ہوا تھا ۔ خوش ہوئی کہ مجھے عید مبارک کا کارڈ ملا ہے تھوڑی دیر کے بعد کھولا تو اُس میں اُس وقت کے لحاظ سے اور میری اپنی مالی لحاظ سے کافی معقول رقم تھی ۔ میں یہ رقم دیکھ کرحیران رہ گئی اُس وقت میں گھر میں اکیلی تھی خوب روئی اور صدر صاحب پر بہت غصہ بھی آیا کہ ٹھیک ہے میرا شوہر نہیں رہا ۔میں بیوہ ہو گئی ہوں اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہےکہ آپ اب مجھے صدقہ یا خیرات دیں اور بیوہ ہونے کا إحساس دلائیں۔ بہت روئی، آنسو بہتے رہے اور میں سوچتی رہی کہ کیا اب مجھے بیوہ دیکھ کر یوں امداد ملا کرے گی ۔سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں ۔ بیوہ ہونے کا إحساس میری جان لے رہا تھا۔ آ خر اپنے آنسوؤں اور غصہ پرتھوڑا قابو پاکر سسکتے ہوئے صدر صاحب کو فون کیا اور ہلکے لفظوں میں شکوہ کیا کہ بیوہ ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ مجھ پر رحم کھا کر صدقہ خیرات دے کر جائیں ۔ صدر صاحب بچارے گھبرا گئے اور حیران ہو کر پوچھا ۔کون سا صدقہ یا خیرات ؟میں نے کہا یہ جو کل آپ مجھے دے کر گئے ہیں ۔ انہوں نے ہلکا سا قہقہ لگایا اور کہا میری خوش نصیب بہن یہ صدقہ ہے نہ خیرات ۔۔۔ یہ تو ہماری پیاری جماعت کی طرف سے آپ کے لئے عیدی آئی ہے یہ سُن کر خوش ہوئی آنسو خشک ہوئے مگر دل کی کسک باقی تھی شوہر نہ ہونے کا غمگین احساس گہرا ہو گیا۔

پھر ہر سال مجھے عیدالفطر پر اسی طرح عیدی ملتی رہی عیدی لینے کی عادت سی ہوگئی تنہائی کا إحساس بھی کم ہو گیا ۔ پھرہوا یوں کہ دوسال پہلے ہم نے اپنا مکان بدل لیا اور نئے حلقہ میں آ گئے۔عید الفطر آئی مگر عیدی نہیں آئی ۔ یہ ایک لحاظ سے اچھا ہی تھا اب شائد میں اس عیدی کی مستحق بھی نہیں رہی تھی ۔

اب اس سال کی عید کا سنئے وبا ، خوف اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اداس سی عید تھی معمول کی عید نہیں تھی نہ کوئی آنا نہ جانا سب نے اپنے اپنے گھروں میں ہی عید کرنی تھی ۔ اس وجہ سے خاص اہتمام نہیں ہو رہا تھا ، شاپنگ بھی بچے آن لائن ہی کر رہے تھے۔

بچوں نے شام کو زُوم (Zoom) پرساری فیملی کا رابطہ کرکے ایک دوسرے کو عید مبارک کہنے کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔ بہت اچھا لگ رہا تھا ہم دور دور ہوکر بھی قریب تھے ۔ اسی طرح عید مبارک کہہ لیں گے میں اپنے کمرے میں بیٹھی سب سے مل لوں گی۔ میرا کمرہ باہر کے دروازہ کے ساتھ ہے کسی کا پارسل آئے تو میں ہی لیتی ہوں اور یہ دیکھے بغیر کہ کس کے نام ہے اٹھا کر اندر رکھ دیتی ہوں کبھی دیکھا نہیں کہ کس کے نام آیا ہے کیونکہ اب میرے لئے تو کوئی پارسل کم ہی آتا ہے عید سے ایک دن پہلے شام کو میں نے دیکھا کہ ایک کار دروازے کے سامنے رُکی ایک صاحب نے کار کا دروازہ کھولا اور ایک بہت خوبصورت سجی سجائی فروٹ باسکٹ لے کر ہمارے گھر کی طرف آ نے لگے۔ میں جلدی سے اپنی بہو کے پاس گئی کہ جائیں آپ کے لئے بہت خوبصورت گفٹ آیا ہے تمہارے بھائی نے بھیجا ہوگا ، اُس نے کہا آپ لے لیں۔ میں نے کہا نہیں آپ کو اچھا لگے گا آپ کے بھائی کی عیدی ہے وہ بچاری جب آگے گئی تو وہ صاحب کہنے لگے کیا صفیہ بشیر گھر پر ہیں؟ میری بہو نے جلدی سے مجھے آواز دی جب میں دروازہ پر گئی تو وہ صاحب بولے یہ صفیہ صاحبہ کے لئے عیدی ہے میں اس حلقہ کا صدر ہوں ۔ میں نے شرمندہ سی ہو کر ایک بہت ہی خوبصورت عیدی کا تحفہ وصول کیا ۔ اب میری بہو کہنے لگی تمام پارسل آپ خود لیتی رہی ہیں اور جب آپ کا پارسل یا گفٹ آیا تو مجھے آگے بھیج دیا ۔ میں نے اُسے بتایا کہ میرے ذہن کے کسی کونے میں بھی نہیں تھا کہ میرے لئے بھی کچھ باہر سے آئے گا۔ وہ بھی اتنا بڑا اور خوبصورت بھی ۔ اپنے لئے گفٹ ملنےپر خوشی تو بہت ہوئی لیکن میری آنکھوں میں آنسو بھی تھے ۔ اپنی پیاری جماعت پر فخر محسوس ہوا ۔پیارے آقا کے لئے دل سے دعائیں نکلیں جن کی زیر نگرانی ہر کام پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے ۔گو مجھے انتظار بھی نہیں تھا سوچا بھی نہیں تھا اچانک اپنے لئے جماعت کی طرف سے یہ گفٹ مجھے ملا ۔ یہ دنیا کی واحد جماعت ہے جو اپنے لوگوں کی خوشیوں کے سامان کرتی ہے فکروں سے نکالتی ہے ۔ الحمد للہ ہم سب اس پیاری جماعت کا حصہ ہیں۔ یہ سب سوچ کر میرا ہر سانس دعا بن جاتا ہے ْ اللہ ہماری جماعت کو دن دُگنی رات چگنی ترقیاں عطا فر مائے اور پیارے آ قا کو صحت والی فعال طویل زندگی عطا فرمائے ، آ مین ثم آ مین۔بہت اچھی طرح سمجھ آتی ہے “ خلافت باپ کی شفقت ، اور خلافت ماں کا سایہ بھی” اللہ کرے یہ شفقت بھرا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم ، دائم رہے۔ آمین۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے ہم اپنے امام کی ڈھال کے پیچھے رہ کر اطاعت کرنے والے ہوں ۔آمین

ہاں !

آنسو تب بھی تھے جب پہلی عیدی وصول کی اور آنسو اب بھی ہیں جب میں نے یہ عیدی وصول کی!

آنسوؤں کا ایک جیسا ہی رنگ تھا ، مگر جذبہ دونوں بار مختلف تھا!

یہ تھی لاک ڈاؤن میں میری عید اور عیدی

(صفیہ بشیر سامی۔لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 12 جون 2020ء