اردوشاعری کا بنظرغائر مطالعہ کیا جائے توعاشق و معشوق کے علاوہ ایک تیسرا کردار رقیب کا بھی ملتا ہے جو عاشق صادق کے لئے بظاہرچاہت لیکن درپردہ ہوسناکی کا جذ بہ رکھتا ہے اورمعشوق بھی کبھی جان بوجھ کر،کبھی عاشق کے حوصلے کے آزما نے کو اس کی طرف جھکتا اور ملتفت ہوتا رہتا ہے اور یوں اردو شاعری کے ابتداء سے اب تک یہ کردار موردِالزام بھی ہے اورمعتوب وملعون بھی۔کبھی ہرزمانے کے نمائندہ شاعرغالب رقیب کے بارہ میں اپنی جولانی طبع یوں دکھاتا۔
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گِلہ نہ ہوا
کبھی مومن اپنے شکوہ میں حق بجانب نظر آتے ہیں۔
گو آپ نے جواب بُرا ہی دیا ولے
مجھ سے بیان نہ کیجئے عدُو کے پیام کو
اور قارئین اتنی دور کیونکر جائیں اپنے فیض صاحب بھی نپے تُلے مخصوص انداز میں، دھیمی سی مُسکان اورشُستہ سی زبان میں رقیب کی ذات پر نگاه ِدوربین سے مجبور ہو کرکوئی نا کوئی اچھائی ڈھوندنے کی سعی نا تمام کرتے ہیں۔
آکے وابستہ ہیں حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
تو آئیے رقیب کی خبر لیتے ہوئے اس کو اپنے آس پاس ہی کیوں نہ تلاش کریں، اس کو ڈھونڈنا مشکل ضرور ہے پر نا ممکن نا ہے کسی بھی نگاه نکتہ رس کے لئے۔ اس رقیب کو تلاش کرنے کی جستجوکی بنیاد صرف دنیاوی محبت نہیں، ہوسناکی نہیں بلکہ ہروہ چیز ہے جو عبدو معبود کے درمیان حائل ہو،وہ رقیب ہے بلکہ رقیبِ سیاہ ہے۔ اور یہ ملے گا کانوں میں لمحہ بہ لمحہ انڈیلتے ہوئے غیبت کے زہر کی صورت میں، تُندوتیز لفظوں کے زہر میں بجھے لفظوں، نشتروں اور بھالوں کی صورت میں، دل میں ہر لحظہ پلتی ہوئی کدورت، لا لچ کی سیا ہی، اور کینے کی صورت میں۔ رقیب ہراس عنصر کا نام ہے جو ہمارے عبد ِحقیقی بننے کی راہ میں رکاوٹ ہو۔ وہ طمع ہو، مادیت پرستی ہو،جھوٹے معبود اور پتھر کے صنم کی صورت میں،جو ہماری جو ہماری توجہ کو بھٹکا دیتا ہے ،جو ہمیں جھوٹے نگوں کی مرصّع کاری ایک سراب کی صورت دکھاتا ہے۔جسے قرآن عظیم زُیِّنَ لِلنَّاسِ کی لطیف اور پُرمغز اصطلاح میں بیان کرتا ہے۔ اس سے لڑنے اور ہر وقت برسرِپیکار رہنے کا حکم دیتا ہے کہ نماز میں تعوّذ پڑھنے میں بھی یہی حکمت ہے اورہدایت کے باوجودہرلحظہ ہدایت پر قائم رہنے کی دعا مانگنے میں بھی یہی حکمت پنہاں ہے کہ اس کی عُرفیت رقیب ہویا ہوس ،جس کا اصل نام شیطان ہے اور ہر آدمی کا شیطان بھی اسی کے اندر ہی ہے۔ مبارک ہے وہ جو اس کی لگائی ہوئی ٹھوکر سے سنبھل کر آستانہ الوہیت پر سرنگوں ہو جاتے ہیں۔
خدا یاد آگیا بتوں کی بے نیازی سے
ملا بام حقیقی زینہ عشق مجازی میں
(زاہدہ یاسمین)