• 19 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ عید الاضحٰی مؤرخہ 10؍جولائی 2022ء

خلاصہ خطبہ عید الاضحٰی امیر المؤمنین سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ الله فرمودہ مؤرخہ 10؍جولائی 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے

اگر ہم دعا، صدق و وفا اور صبر کے ساتھ اُس کے دَر پر جھکے رہیں گے تو یقینًا وہ دوڑتا ہؤا ہماری طرف آئے گا اور دشمن جو اپنی طاقت کے زُعم میں ہم پر ظلم رَوا رکھے ہوئے ہے اُسے ملیامیٹ کر دے گا، پس اِس عید پر ہمیں بھی اپنی قربانیوں، وفاؤں، صدق اور تقویٰ کے معیاروں کے جائزے لینے چاہئیں، من حیث الجماعت جتنا زیادہ اپنے جائزے لینے اور اپنی حالتوں کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اُتنی جلد الله تعالیٰ کی مدد و نصرت اور تائید کے نظارے بھی ہم دیکھیں گے

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا! آج ہم الله تعالیٰ کے فضل سے عید الاضحٰی منا رہے ہیں یعنی قربانی کی عید، اُس قربانی کی یاد میں جو ہزاروں سال پہلے باپ، بیٹے اور ماں نے دی تھی۔

یہ کوئی وقتی قربانی نہیں تھی

بلکہ مسلسل کئی سالوں پر پھیلی ہوئی قربانی تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیوی اور لاڈلے بیٹے کو ایک بے آب و گیاہ جگہ میں چھوڑ دیا، صرف اِس لئے کہ الله تعالیٰ کا حکم تھا اور بیوی کو جب پتا چلا کہ ہم اِس جگہ الله تعالیٰ کی خاطر چھوڑے جا رہے ہیں تو اُس کے ایمان کا بھی کیا اعلیٰ معیار تھا۔ بڑے یقین اور عزم سے کہا! پھر جاؤ، اگر الله تعالیٰ کے حکم سے سب کچھ ہے تو پھر وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ الله تعالیٰ نے اُنہیں ضائع نہیں کیا، بایں ہمہ ہر قسم کےپھل اور نعمتیں اُس ریگستان میں جمع کر دی گئیں۔

پس یہ ہے الله تعالیٰ کے وعدے پورا کرنے کا اظہار

ایک وعدہ کیا اور  نشان کے طور پر اُس کی چمک دکھلا دی، اُس میں وہ نبی پیدا کیا اپنے وعدہ کے مطابق جس پر کروڑوں لوگ روزانہ درود و سلام بھیجتے ہیں آج تک اور تاقیامت بھیجتے چلے جائیں گے۔ چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے جو وعدہ فرمایا تھا اُس کو عظیم الشان طریقے پر پورا کیا۔ آنحضرتؐ سے بھی الله تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ وہ آخری زمانہ میں بھی ایک ایسا انسان پیدا کرے گا جو دین کو ثریا سے زمین پر واپس لائے گا اور قرآن کریم ، محمد رسول اللهؐ اور خدا تعالیٰ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرے گا۔ الله تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق تکمیل اشاعت دین اور اسلام کی برتری تمام ادیان پر ثابت کرنے کے لئے آنحضرتؐ کے غلام صادق اور عاشق صادق کو مبعوث فرمایا۔

لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت

 بجائے اِس کے کہ الله تعالیٰ کا شکر کرتے ہوئے اُس فرستادہ کے ساتھ جُڑ کر تعلیم اسلام دنیا کے طول و عرض میں پھیلانے کے لئے آگے بڑھتے، اِس بھیجے ہوئے اور فرستادہ کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ مسلمان نہ صرف آپس میں ایک دوسرے کے خون پر تُلے ہوئے ہیں بلکہ جو شخص نمائندگی حضرت محمد رسول اللهؐ میں دنیا میں امن وسلامتی کو قائم کرنے آیا ہے اُس کی اِس حد تک مخالفت میں بڑھے ہوئے ہیں کہ گزشتہ 125 سال کے زیادہ عرصہ سے اِس کے ماننے والوں کے قتل کے فتوے دے رہے ہیں، اُس پر کفر کے فتوے لگا رہے ہیں، ماننے والوں کو قتل کر رہے ہیں، جائیدادیں لُوٹ رہے ہیں، معاشی تنگیاں وارد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بچوں کو اسکولوں اور گلیوں میں تنگ نیزاُن میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے حتی کہ مُردوں کی قبریں اُکھیڑ کر اُن کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔یہ کون سا اسلام ہے؟ جو یہ لوگ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں، اسلام تو امن و سلامتی اور محبت و پیار کا مذہب ہے۔

آج کی عید جن کی وجہ سے منائی جا رہی ہے

وہ تو اپنی آزادی، اپنی عزت، اپنی جان، خدا تعالیٰ کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہوئے تھے، اُنہوں نے جس شہر کی خواہش یا یہ دعا کی تھی یہاں شہر بن جائے تو یہ دعا کی تھی رَبِّ اجۡعَلۡ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا (البقرۃ: 127) کہ اے میرے رب اِس جگہ کو ایک پُر امن شہر بنا دے تاکہ جو یہاں رہنے والےہوں، آنے والے ہوں امن و سلامتی سے رہنے والے اور اِس کے پھیلانےکا خیال رکھنے والے ہوں۔

پس کیا یہ دعا مسلمانوں سے تقاضا نہیں کرتی

اگر اِس شہر کی طرف منسوب ہوتے ہیں، اگر رب کعبہ کی عبادت کرتے ہیں، اگر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی قربانیوں اور خانہ کعبہ کے قیام کے مقصد کو پورا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو پھر اپنے دلوں میں بھی امن و سلامتی اور پیار و محبت کے شہر بسائیں، ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کی بجائے رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ کے نمونے پیش کریں، دنیا کو سلامتی اور امن کا پیغام دیں، امام زمانہ مسیح موعود و مہدیٔ معہودؑ جو آنحضرتؐ کی پیشگوئیوں کے مطابق آیا اُس پر کفر کے فتوے لگانے اور اُس کے ماننے والوں پر ظلم و تعدی کرنے کی بجائے آج کے دن کی عید کو امن و سلامتی کے پیغام سے اور مسیح موعودؑ کی بیعت میں آکر حقیقی عید بنائیں۔

اگر یہ سوچ پیدا نہیں کریں گے تو لاکھ عیدیں منائیں

وہ اسلام کی تعلیم کے مطابق منانے والی عیدیں نہیں، جتنے چاہے حج کر لیں وہ الله تعالیٰ کی تعلیم کے مخالف چلنے والوں کے حج ہیں۔ سوچیں اور غور کریں! جس طرح پرانے واقعات میں پہلوں کے حج اُن کے ظلم و زیادتی کی وجہ سے الله تعالیٰ کے حضور مقبول نہ ہونے کی روایات ملتی ہیں، کہیں ہماری عبادتیں اور مناسک حج باوجود سب کوششوں کے صرف اِس ظلم و زیادتی کی وجہ سے جو آج کل مسلمان کر رہے ہیں الله تعالیٰ کے حضور مقبول ہونے سے رہ تو نہیں جائیں گے۔ سوچیں، غور کریں کہ کہیں کلمہ پڑھنے والے، اپنے آپ کو خدائے واحد اور محمد رسول اللهؐ پر ایمان لانے والے کو حج اور دوسری عبادات سے روکنا اُنہیں خدا تعالیٰ کی پکڑ میں لانے والا نہ بنا دے۔

اب تو باقاعدہ پاکستانی انتظامیہ کی طرف سے بھی بعض جگہ اعلان کیا گیا

عید کے تین دن کوئی احمدی کسی جانور کو ذبح نہیں کر سکتا چاہے قربانی یا کسی بھی مقصد کے لئے ہو کیونکہ اِس طرح نعوذ بالله! اسلامی شعائر کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ یہ قربانی صرف اِن نام نہاد علماء نیز اُن لوگوں کا حق ہے جن پر یہ مسلمان ہونے کی مُہر ثبت کریں۔ اِن لوگوں کے لئے اُس مُہر کی کوئی حقیقت نہیں جو الله تعالیٰ اور اُس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ و سلم کی ایک شخص کو مسلمان بنانے اور کہنے کی مُہر ہے۔

ہم احمدی تو قربانی کرنے والے ہیں

اِن عیدوں اور اپنی تاریخ سے ہم نے قربانیوں کے سبق سیکھے اور جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کر نے کے ہم نے عہد بھی کئے ہیں۔ لیکن بعض کمزور طبع بھی ہوتے ہیں، اُن احمدیوں سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ صبر اور دعاؤں سے کام لیں۔ یقینًا یہ دعائیں ایک دن پھل لائیں گی اِنْ شَآءَ اللهُ! حضرت ابراہیمؑ، حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی قربانیاں بھی پھل لائی تھیں لیکن اُنہوں نے صبر اور دعا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا، پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے آنے والے عظیم رسول اور اُن کے صحابہ کی قربانیاں بھی اپنے وقت پر رنگ لائیں اور الله تعالیٰ نے اپنے وعدے پورے فرمائے۔ پس کیا آج وہ سچے وعدوں والا خدا ہمیں چھوڑ دے گا؟یقینًا نہیں! آج بھی وہ اپنے پر ایمان و یقین رکھنے والوں اور مظلوموں کی مدد کے لئے آئے گا۔

حضرت مسیح موعودؑ کے اِس ارشاد کو بھی ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے

جس میں آپؑ فرماتے ہیں۔یہ عید الاضحیہ پہلی عید سے بڑھ کر ہے اورعام لوگ بھی اِس کو بڑی عید تو کہتے ہیں مگر سوچ کر بتلاؤ کہ عید کی وجہ سے کس قدر ہیں جو اپنے تزکیہ نفس اورتصفیہ قلب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور روحانیت سے حصہ لیتے ہیں اور اُس روشنی اور نور کو لینے کی کوشش کرتے ہیں جو اِس ضُحٰی میں رکھا گیا ہے۔۔۔ یہ عید جس کو بڑی عید کہتے ہیں، یہ ایک عظیم الشان حقیقت اپنے اندر رکھتی ہے اور جس پر افسوس کہ توجہ نہیں کی گئی۔

الله تعالیٰ ہمیں اِس کی توفیق دے

حضور انور ایدہ الله نے تلقین فرمائی! پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے، اِس زمانہ میں نشأۃ ثانیہ اسلام کے لئے جس روشنی کو الله تعالیٰ نے ہمارے لئے بھیجا ہے اُس سے فیض پانے کے لئے ہمیں اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے اور تزکیہ نفس و قلب کرتے ہوئے یہ دیکھنا چاہئے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے کے ساتھ دنیا میں پھیلانے کے لئے بھرپور کوشش ہم کس حد تک کر رہے ہیں؟ اگر ہم یہ کر رہے ہوں گے تو ہماری قربانیاں بھی قبول ہوں گی اور ہم ضُحٰی سے بھی فیض پا رہے ہوں گے۔

خطبۂ ثانیہ و اختتامی دعا سے قبل

 ورچوئل اور انفرادی ملاقاتوں میں لوگوں کے اکثر کئے جانے والے سوال ببابت واقفین نَو کی تربیت کیسے کی جائے، حضور انور ایدہ الله نے رہنمائی فرمائی۔ یہ الله تعالیٰ کا بڑا فضل اور احسان ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ الله کی اِس تحریک پر والدین نے لبیک کہا اور بڑی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں وقف کیں، اب بھی کر رہے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے۔۔۔یہ نمونہ اِنْ شَآءَ اللهُ اُس وقت تک قائم رہے گا جب تک جماعت میں اخلاص و وفا کے نمونے قائم رہیں گے، جب تک اِبۡرٰھِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی (النجم: 38) کےارشاد پر مخلصین جماعت کی نظر رہے گی، جب تک جماعت میں نظام خلافت قائم رہے گا اور الله تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق یہ تا قیامت قائم رہنا ہے تو اولاد کو وقف کرنے کا طریق بھی جاری رہے گا اِنْ شَآءَ اللهُ! لیکن والدین کو جو اپنے بچوں کو دین کی خاطر وقف کرنے کے لئے پیش کر رہے ہیں یا کر چکے ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ وقف ایک قربانی چاہتا ہے اور اِس قربانی کا معیار کیا ہے؟ یہ وہ معیار ہے جوحضرت ابراہیمؑ، حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے پیش کیا۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

اللہ تعالیٰ کے نور سے منور