• 3 مئی, 2024

جاپان، گیانا، بیلجیئم کے مہمانوں کی آمد اور ان کے تاثرات

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
جاپان سے ایک خاتون، مینے ساکی ہیرو کو (Minesaki Hiroko) صاحبہ تشریف لائی تھیں۔ موصوفہ پی ایچ ڈی ہیں۔ جاپان میں ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور جاپانی کے علاوہ انگریزی اور عربی زبان بھی جانتی ہیں۔ مسلمان نہیں ہیں۔ موصوفہ نے بتایا کہ جلسہ سالانہ میں شامل ہو کر بیحد خوش ہیں اور عرب احمدیوں سے مل کر اور جلسہ کے ماحول سے بیحد متاثر ہوئی ہیں۔ کہتی ہیں سونامی طوفان کے نتیجہ میں جاپان میں آنے والی تباہی کے موقع پر جماعت احمدیہ نے مذہب و نسل سے بالا ہو کر انسانیت کی بے انتہا خدمت کی ہے۔ جماعت کے عقیدے اور عمل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جو کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں۔ گیانا سے ممبر آف پارلیمنٹ جو مسلمان ہیں، منظور نادر صاحب، یہ بھی شامل ہوئے تھے اور کافی پرانے پارلیمنٹیرئین ہیں۔ لیبر کے منسٹر بھی رہ چکے ہیں۔ انڈسٹری اکاؤنٹس کے منسٹر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت صدر گیانا کے پولیٹیکل افیئرز کے ایڈوائزر ہیں۔ کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے انتظامات سے بہت متأثر ہوا ہوں۔ یہ تینوں دن یہاں شامل ہوتے رہے۔ اور دوسرے دن جماعت کی ترقیات کی جو رپورٹ پڑھی جاتی ہے، اسے سن کر کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی دورانِ سال ترقی اور خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے واقعات سے بھی بہت متأثر ہوا ہوں۔ بیلجیم سے ایک غیر احمدی مہمان خاتون Miss Sels Annie Maria جلسے میں آئی تھیں۔ آئی ٹی کنسلٹنٹ ہیں اور کہتی ہیں کہ لوکل جماعت کے ایک ممبر کے ذریعہ سے ان کو جماعت کا تعارف حاصل ہوا۔ بقیہ معلومات جماعت کی ویب سائٹ سے حاصل کیں۔ ان کی دلچسپی کے مدّنظر بیلجیم جماعت نے اُن کو جلسہ سالانہ یوکے (UK) میں شمولیت کی دعوت دی۔ وہ یہاں آئیں۔ کہتی ہیں جلسہ کے دوران سارے پروگرام میں نے دیکھے، بھر پور شرکت کی اور اسی طرح یورپین احمدی خواتین کے ساتھ گھل مل گئیں۔ جامعہ احمدیہ میں ان کی رہائش تھی۔ ایک دن وہاں نماز تہجد ہو رہی تھی۔ وہ اکیلی اور پریشان حال بیٹھی تھیں۔ اُن کو نماز پڑھنی نہیں آتی تھی۔ اُن سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نماز پڑھنا چاہتی ہیں؟ کہنے لگیں کہ ہاں مَیں نماز پڑھنا چاہتی ہوں۔ پھر ایک نو مبایعہ نے اُن کو وضو کرنا سکھایا اور نماز کا طریق بتایا جس پر وہ نماز میں شامل ہو گئیں۔ پہلے دن انہوں نے جِین اور شرٹ پہنی ہوئی تھی، جب جلسہ گاہ میں عورتوں کا لباس دیکھا تو اُن پر بڑا اثر ہوا اور انہوں نے مبلغ بیلجیم کی اہلیہ سے کہا کہ میں تو ایسا ہی لباس پہننا چاہتی ہوں۔ چنانچہ اُس خاتون نے جلسہ گاہ کے بازار سے زنانہ لباس خریدا اور وہ پہنا۔ میرے خطابات سننے کے بعد کہنے لگیں کہ حقیقی اسلام اور متقی کی صفات کے بارے میں جو خطبات دئیے ہیں یا خطابات کئے ہیں اُن کا مجھ پر گہرا اثر ہوا ہے۔ یہ خطابات سننے کے بعد مَیں نے فیصلہ کیا کہ میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں۔ چنانچہ یہ عالمی بیعت میں شامل ہوئیں اور بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئیں اور مجھے ملی بھی تھیں۔ اللہ کے فضل سے بڑے ڈھکے ہوئے لباس میں تھیں۔ پس یہ جلسہ اپنوں اور غیروں سب پر روحانی ماحول کا اثر ڈالتا ہے۔ ایک سعید فطرت کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اسلام کی خوبیوں کا معترف ہو کر اُسے قبول کر لے۔ لیکن ہمارے مخالفین کو، اُن لوگوں کو جن کو دوسروں سے پہلے یہ حکم تھا، غیروں سے پہلے یہ حکم تھا کہ امام مہدی کو جا کر میرا سلام کہنا، برف کے پہاڑوں پر سے گزرنا پڑے تو گزر کر جانا اور سلام کہنا، اُن لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں بھی عقل دے۔

پھر یہ دیکھیں کہ اکثریت نے، خاص طور پر جو غیرمہمان تھے، انہوں نے بچوں اور نوجوانوں اور بوڑھوں اور عورتوں کو جو مہمان نوازی کرتے ہوئے دیکھا ہے تو اُس کا اُن پر بڑا گہرا اثر ہوا ہے اور ان سب نے تقریباً اس کا ذکر کیا ہے۔ پس یہ خدمت کا جذبہ جو جماعت احمدیہ کے افراد میں ہے یہ بھی ایک خاموش تبلیغ ہے۔ ایک بچہ ہے اُس نے پانی پلایا اور آگے گزر گیا لیکن وہ ایک دل میں جو اثر قائم کر گیا اُس نے اُس دل کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا ڈالا۔ اسی طرح کوئی نوجوان ہے، کسی کو کھانا کھلا رہا ہے، کوئی کار پارکنگ میں ہے تو خوش خلقی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور ایسے مظاہرے کرتے ہوئے پارکنگ کروا رہا ہے۔ لڑکے، لڑکیاں سکیننگ اور چیکنگ کر رہی ہیں تو بڑی خوش اخلاقی سے کر رہی ہیں۔ لجنہ نے ہر شعبہ میں اپنے انتظامات کئے جیسا کہ واقعات میں ذکر بھی ہوا ہے اور بڑے اچھے کئے۔ سہولت پہنچانے میں مصروف رہیں۔ تو یہ باتیں جہاں سب کارکنان کے لئے اپنوں کی دعاؤں کو حاصل کرنے والا بناتی ہیں، غیروں کو اسلام اور احمدیت کی حقیقت سے آگاہ کر رہی ہوتی ہیں اور اس خوبصورت تعلیم کا گرویدہ کر رہی ہوتی ہیں۔ پس ان تمام کارکنات اور کارکنان کا میں بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے گزشتہ سالوں کی نسبت اِس سال خاص طور پر نسبتاً زیادہ بہتر رنگ میں اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ڈیوٹیاں اور فرائض سرانجام دئیے۔ مجھے لوگوں کے جو تأثرات مل رہے ہیں اس میں اس سال پارکنگ کے شعبہ کے بڑے اچھے تاثرات ہیں۔ خدام پارکنگ کرواتے تھے، خوش اخلاقی سے حال پوچھتے تھے، تکلیف پر معذرت کرتے تھے۔ گرمی کی وجہ سے پانی وغیرہ کا پوچھتے تھے۔ ایک لکھنے والا یہ لکھتا ہے کہ کسی کو مَیں جانتا نہیں تھا لیکن یہ اخلاق دیکھ کر سفر کی آدھی تھکان اور کوفت جو تھی وہ دور ہو جاتی تھی۔ تو بس یہی ایک احمدی کا طرّہ امتیاز ہے اور ان اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہم میں سے ہر ایک کو کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ان اعلیٰ اخلاق کو ہمیشہ قائم رکھنے کی توفیق بھی عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 6؍ستمبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ایک تصحیح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اگست 2022