• 10 مئی, 2024

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 32)

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام
دعاؤں میں گداز اور گریہ و زاری
قسط 32

ہر کہ عارف تراست ترساں تر

حضرت محمد مصطفیﷺ کا دعاؤں میں گداز اور گریہ و زاری کا اپنا ہی رنگ تھا۔ آپؐ اپنے رب کے سب سے زیادہ عاشق تھے۔ ذکر الٰہی آپؐ کی روحانی غذاتھی۔ لو لاک لما خلقت الافلاک کا تاج سر پر تھا مگر پیشانی شکر گزاری میں خاک پر تھی رب کے محبوب تھے مگر ناز نہیں تھا عجز و نیاز تھا۔ آپؐ کی رفیق زندگی حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کَانَ یَذْکُرُ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ حَالٍ کہ حضورؐ ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے تھے ہر لمحہ ہر ساعت آپؐ یادِ خدا میں ڈوبے رہتے تھے۔

عبد اور معبود کے درمیان دعا خاموشی اور رازداری سے کی جاتی ہے۔ لیکن جب دل گداز ہو، درد حد سے بڑھ جائے تو آنکھ سے آنسو گرتے ہیں جو دوسروں کو نظر آجاتے ہیں۔ سسکیاں بھی بے اختیار ہوجاتی ہیں۔ جس سے داعی کی کیفیت کھل جاتی ہے۔ ایسی ہی کچھ کیفیات درد و گداز اور انداز طلب چاہنے والوں کی نظر اور سماعت میں آیا اور انہوں نے روایت کرکے ہمارے لئے محفوظ کر لیا۔

جنگِ بدر معرکہ ٔ اسلام و کفر تھا ظاہری طاقت کا کوئی موازنہ نہ تھا۔ مگر خدائے عظیم وبرتر نے فتح کی بشارتیں دی تھیں صادق الوعد خدا پر حق الیقین ہونے کے باوجود ایک دل انتہائی عاجزی سے اپنے مالک کے در پر جھکا ہؤا تھا۔ جب قریش مکہ نے عام حملہ کردیا۔

‘‘اس وقت آنحضرت ﷺ نہایت رقّت کی حالت میں خدا کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوئے دعائیں کر رہے تھے اور نہایت اضطراب کی حالت میں فرماتے تھے کہ: اَللّٰھُمَّ اِنْ اَھْلَکْتَ ھٰذِہٖ الْعِصَابَۃَ فَلَنْ تُعْبَدْ فِی الْاَرْض اَبَدًا اے میرے مالک ! اگر مسلمانوں کی یہ جماعت آج اس میدان میں ہلاک ہوگئی تو دنیا میں تجھے پوجنے والا کوئی نہیں رہے گا۔ (بخاری و مسلم) اس وقت آپؐ اتنے کرب کی حالت میں تھے کہ کبھی آپؐ سجدہ میں گر جاتے تھے اور کبھی کھڑے ہوکر خدا کو پکارتے تھے اور آپؐ کی چادر آپؐ کے کندھوں سے گر گر پڑتی تھی اور حضرت ابو بکرؓ اسے اٹھا اٹھا کر آپؐ پر ڈال دیتے تھے۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ مجھے لڑتے ہوئے آنحضرتﷺ کا خیال آتا تھا تو میں آپ کے سائبان کی طرف بھاگا جاتا تھا لیکن جب بھی میں گیا میں نے آپؐ کو سجدہ میں گڑگڑاتے ہوئے پایا اور میں نے سنا کہ آپؐ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے یا حی یا قیوم یا حی ویا قیوم یعنی اے میرے زندہ خدا! اے میرے زندگی بخش آقا! حضرت ابو بکر آپؐ کی اس حالت کو دیکھ کر بے چین ہوئے جاتے تھے۔ اور کبھی کبھی بے ساختہ عرض کرتے تھے

یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں۔ آپؐ گھبرائیں نہیں۔ اللہ اپنے وعدے ضرور پورے کرے گا۔

مگر اس سچے مقولہ کے مطابق کہ ہر کہ عارف تر است ترساں تر آپؐ برابر دعا اور گریہ و زاری میں مصروف رہے۔

(سیرت خاتم النبیین صفحہ361)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس شدید گریہ وزاری کی وجہ جانتے تھے فرمایا کہ:
’’بدر کی فتح کی پیش گوئی ہو چکی تھی، ہر طرح فتح کی امید تھی لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رورو کر دعا مانگتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا کہ جب ہر طرح فتح کا وعدہ ہے تو پھر ضرورت الحاح کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ذات غنی ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ وعدۂ الٰہی میں کوئی مخفی شرائط ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ8 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہےکہ مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔ خاص طور پر مضطر اور مظلوم کی دعا عرش کے پائے ہلا دیتی ہے۔ دعا میں دل کا دردبے ساختہ الفاظ میں ڈھلتا ہے تکلف اور لفاظی نہیں ہوتی۔ مانگنے کا بھی ایک سلیقہ ہوتا ہے۔ دعا کی اصل روح، اپنے خالق حقیقی کو قادر مطلق یقین کرتے ہوئے، اس پر کامل توکل کرتے ہوئے،اسی کی طرف جھکنا اورفریاد کرنا ہے۔ عاجزانہ اعترافِ کم مائیگی کس طرح دل گداز الفاظ میں ڈھلتا ہے۔ بارگاہ ایزدی میں رسول اللہؐ عرض کرتے ہیں:
اے خدا! تُو ہی میرا رب ہے۔ تیرے سوا کوئی قابل عبادت نہیں۔ تُو نے مجھے پیدا کیا اور مَیں تیرا بندہ ہوں۔ اور اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد اور وعدہ پر قائم ہوں۔ اپنے کاموں کے خراب پہلو سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ تیرے احسانوں کا معترف اور اپنی کوتاہیوں کا اقراری ہوں۔ تیرے سوا کوئی پَردہ پوش نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو یہ بھی خوشخبری دی تھی کہ آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف ہیں۔ لیکن کیا اس کے بعد آپ ﷺ نے نمازیں پڑھنی یا استغفار کرنا یا دعائیں مانگنا بند کر دیا؟ ہر گز نہیں۔ تاریخ گوا ہ ہے کہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک آپ ﷺ نے دعاؤں کے دامن کو تھامے رکھا۔

حضرت عائشہؓ یہ روایت کرتی ہیں کہ:
آپﷺ رات کو اس قدر لمبا قیام فرماتے تھے کہ اس کی و جہ سے آپ کے پاؤں سوج جایا کرتے تھے۔ یہ کھڑے ہو کر جو نماز پڑھا کرتے تھے۔ اس پر مَیں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ کے سارے گناہ بخشے گئے ہیں۔ پہلے بھی اور بعد کے بھی تو اب بھی اتنا لمبا قیام فرماتے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کیا مَیں خدا کا عبد شکور نہ بنوں جس نے مجھ پر اتنا احسان کیا ہے۔ کیا مَیں اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے نہ کھڑا ہوا کروں۔

(بخاری کتاب التفسیر۔ سورۃ الفتح باب قولہ لیغفرلک اللّٰہ ما تـقدم من ذنبک وما تأخر)

حضرت عائشہؓ ہی سے روایت ہے کہ:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میرے پاس تشریف لائے اور بستر پر لیٹ گئے۔ پھر آپؐ نے فرمایا اے عائشہ! کیا آج کی رات تو مجھے اجازت دیتی ہے کہ اپنے ربّ کی عبادت کر لوں۔ میں نے کہا خدا کی قسم! مجھے تو آپ کی خواہش کا احترام ہے اور آپ کا قرب پسند ہے۔ میری طرف سے آپ کو اجازت ہے۔ تب آپ اٹھے۔ مشکیزہ سے وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور نماز پڑھنی شروع کی اور اس قدر روئے کہ آنسو آپ کے سینے پر گرنے لگے اور نماز کے بعد دائیں طرف ٹیک لگا کر اس طرح بیٹھ گئے کہ آپ کا دایاں ہاتھ آپ کی دائیں رخسار کے نیچے تھا۔ پھر رونا شروع کر دیا یہاں تک کہ آپ کے آنسو زمین پر ٹپکنے لگے۔ فجر کی نماز کے وقت حضرت بلالؓ بلانے کےلئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ کو اس طرح گریہ وزاری کرتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! آپ اتنا کیوں روتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ آپ کے گزشتہ اور آئندہ ہونے والے سارے گناہ بخش چکا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کیا مَیں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں اور میں کیوں نہ روؤں کہ آج رات میرے رب نے یہ آیات نازل کی ہیں۔ وہ آیات ہیں آل عمران کی اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَاخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۱۹۱﴾ۚۙ الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوۡدًا وَّعَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَیَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿۱۹۲﴾ (آل عمران: 191-192) یعنی یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں صاحب عقل لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے بل بھی اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غوروفکر کرتے رہتے ہیں۔ (اور بے ساختہ کہتے ہیں) اے ہمارے ربّ! تُو نے ہرگز یہ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ پاک ہے تُو۔ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

حضرت سعدؓ بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ:
ہم آنحضرتﷺ کے ساتھ مکّہ سے مدینہ واپس لوٹ رہے تھے جب ہم عَزْوَرَاء مقام پر پہنچے تو آنحضورؐ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کچھ دیر دعا کی۔ پھر حضور سجدہ میں گر گئے۔ اور بڑی دیر تک سجدہ میں رہے پھر کھڑے ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ پھر سجدہ میں گر گئے۔ آپ نے تین دفعہ ایسا کیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ مَیں نے اپنے رب سے دعامانگی تھی اور اپنی امت کیلئے شفاعت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے میری امت کی ایک تہائی کی شفاعت کی اجازت دے دی۔ میں اپنے رب کا شکرانہ بجالانے کیلئے سجدہ میں گر گیا اور سر اٹھا کر پھر اپنے رب سے امت کیلئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے مزید ایک تہائی امت کی شفاعت کی اجازت فرمائی۔ پھر میں شکرانہ کا سجدہ بجا لایا۔ پھر سر اٹھایا اور امت کیلئے اپنے رب سے دعا کی۔ تب اللہ تعالیٰ نے میری امت کی تیسری تہائی کی بھی شفاعت کیلئے مجھے اجازت عطا فرما دی۔ اور میں اپنے رب کے حضور سجدہ شکر بجا لانے کےلئے گر گیا۔

(ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی سجود الشکر)

حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف روایت کرتے ہیں کہ:
آنحضرتﷺ ایک دن مسجد میں تشریف لائے اور قبلہ رُو ہو کر سجدے میں چلے گئے۔ بہت لمبا سجدہ کیا۔ اتنا لمبا کہ مَیں آپ کو دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ بلکہ یہاں تک میری پریشانی بڑھی کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض کر لی ہے۔ اس پریشانی کی حالت میں مَیں آپ کے قریب پہنچا تو آپ سجدہ سے اٹھ بیٹھے۔ آپ نے فرمایا کہ کون ہے؟ مَیں نے عرض کی یا رسول اللہ! مَیں عبدالرحمٰن ہوں۔ پھرمَیں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول!آپ کا یہ سجدہ اتنا زیادہ لمبا ہو گیا تھا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ کی روح تو قبض نہیں ہو گئی۔ آپ نے فرمایا کہ میرے پاس جبریل آئے تھے اور یہ خوشخبری دی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کے حق میں فرماتا ہے کہ جو آپ پر درُود بھیجے گا اس پر میں رحمتیں نازل کروں گا۔ اور جو سلامتی بھیجے گا اس پر مَیں سلامتی نازل کروں گا۔ اس بات پر مَیں سجدہ شکر بجا لا رہا تھا اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کر رہا تھا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد1 صفحہ512-513 حدیث نمبر:1664مسند عبدالرحمن بن عوف مطبوعہ بیروت ایڈیشن 1998ء)

آپؐ کی اندھیری راتوں کی دعاؤں کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچادیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اُمّی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔ اللّٰھم صل وسلم و بارک علیہ و اٰلہٖ بعد دھمّہ و غمّہ و حزنہٖ لٰھذہ الامّة و انزل علیہ انوار رحمتک الی الابد۔

(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد6 صفحہ10-11)

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جس کے لئے باب الدعا کھولا گیا تو گویا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ سے جو چیزیں مانگی جاتی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ اس سے عافیت مطلوب کرنا محبوب ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دعا اس ابتلا کے مقابلے پر جو آچکا ہے اور اس کے مقابلہ پر بھی جو ابھی نہ آیا ہو، نفع دیتی ہے۔ اے اللہ کے بندو! تم پر لازم ہے کہ تم دعا کرنے کو اختیار کرو۔

(ترمذی کتاب الدعوات۔ باب ما جاء فی عقد التسبیح باللہ)

اس رحمت عالمؐ کا انسانیت پر بڑا احسان ہے کہ بندے کو رب سے براہ راست دعا مانگنے کے آداب و الفاظ سکھا دئے۔

دعا کا طریق سکھایا کہ دعا حمد و ثنا اور درود شریف سے شروع کی جائے۔ اس بات کا یقین ہو کہ اللہ قادر مطلق ہے حضور قلب سے کی جائے دعا کے ساتھ صدقہ بھی دیں رزق حلال کھائیں۔ یقین کامل ہو کہ دعا سنی جائے گی اور۔ صبر سے دعا جاری رکھیں۔ اپنی ساری دعاؤں سے رہتی دنیا تک استفادہ کے لئے ایک جامع دعا سکھائی:

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْاَ لُکَ مِنْ خَیْرِ مَا سَئَلَکَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّد، وَنعُوْذبِکَ مِنْ شَرِّمَا اسْتَعَاذَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّد وَأنْتَ الْمُسْتَعَانُ وَ عَلَیْکَ الْبَلَاغُ

(ترمذی کتاب الدعوات)

ا ے اللہ! ہم تجھ سے وہ تمام خیر و بھلائی مانگتے ہیں جو تیرے نبی ﷺ نے تجھ سے مانگی اور ہم تجھ سے ان باتوں سے پناہ چاہتے ہیں جن سے تیرے نبی محمد ﷺ نے پناہ چاہی۔ تو ہی ہے جس سے مدد چاہی جاتی ہے۔ پس تیرے تک دعا کا پہنچانا لازم ہے۔

اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَ سَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ

حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام بھی اپنے آقا و مطاع کی اتبا ع میں انتہائی عاجزی سے دعائیں کرتے۔ آپؑ کو بھی ماموریت کے ساتھ خدا تعالیٰ نے کامیابی کے وعدے دئے تھے مگر ان وعدوں نے آپ کو مانگنے سے بے نیاز نہیں کیا۔ وہی سوزوگداز وہی اضطرار وہی پروردگار کے مجیب ہونے پر حق الیقین وہی عاجزی اور انکساری وہی خود کو آستانۂ الوہیت پر گرا دینا۔ آپؑ کااوڑھنا بچھونا تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجھے باربار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ سے ہوگا‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ36 ایڈیشن 1988ء)

’’میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہاہوں کہ دعاؤں کی تاثیرآب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبعیہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دعا ہے۔‘‘

(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد6 صفحہ11)

آپؑ کو یہ یقین کامل تھا کہ:
دعا ایسی چیز ہے کہ خشک لکڑی کو بھی سرسبز کرسکتی ہے اور مردہ کو زندہ کر سکتی ہے اس میں بڑی تاثیریں ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ100)

’’خدا نے مجھے دعاؤں میں وہ جوش دیاہے جیسے سمندرمیں ایک جوش ہوتا ہے‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ127)

الفاظ کا چناؤ پگھلے ہوئے دل کا غماز ہے۔ اور رحمت کو جوش میں لاتا ہے آپؑ اس کی اہمیت سے خوب واقف تھے فرماتے ہیں:
’’دعا کے لئے رقّت والے الفاظ تلاش کرنے چاہئیں۔ یہ مناسب نہیں کہ انسان مسنون دعاؤں کے ایسا پیچھے پڑے کہ ان کوجنتر منتر کی طرح پڑھتا رہے اور حقیقت کو نہ پہچانے… اپنی زبان میں جس کو تم خوب سمجھتے ہو، دعاکرو تاکہ دعا میں جوش پیدا ہو‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ538)

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ آپؑ کی دعا کا طریق بیان فرماتے ہیں کہ:
جب حضرت صاحب مجلس میں بیعت کے بعد یاکسی کی درخواست پر دعا فرمایا کرتے تھے تو آپ کے دونوں ہاتھ منہ کے نہایت قریب ہوتے تھے اور پیشانی اور چہرہ مبارک ہاتھوں سے ڈھک جاتاتھا اور آ پ آلتی پالتی مار کر دعا نہیں کیاکرتے تھے بلکہ دوزانو ہوکر دعا فرماتے تھے۔ اگر دوسری طرح بھی بیٹھے ہوں تب بھی دعا کے وقت دوزانو ہو جایاکرتے تھے۔ یہ دعا کے وقت حضورکا ادبِ الٰہی تھا۔

(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ161۔ روایت نمبر 736)

’’حضرت مولانا مولوی عبدالکریم نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ بیت الدُّعا کے اُوپر میرا حجرہ تھا اور مَیں اُسے بطرزِ بیت الدُعا استعمال کیا کرتا تھا۔اِس میں سے حضرت مسیح موعود کی حالت دُعا میں گریہ و زاری کو سنتا تھا۔ آپ کی آواز میں اس قدر دَرد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پِتّہ پانی ہوتا تھااور آپ اس طرح پر آستانۂ الٰہی پر گریہ و زاری کرتے تھے جیسے کوئی عورت دردِزِہ سے بیقرار ہو۔ وہ فرماتے تھے کہ مَیں نے غور سے سنا تو آپ مخلوقِ الٰہی کے لئے طاعون کے عذاب سے نجات کے لئے دُعا کرتے تھے کہ الٰہی اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو جائیں گے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا۔ یہ خلاصہ اور مفہوم حضرت مولانا سیالکوٹی صاحبؓ کی روایت کا ہے۔اِس سے پایا جاتا ہے کہ باوجودیکہ طاعون کا عذاب حضرت مسیح موعود کی تکذیب اور انکار ہی کے باعث آیا مگر آپ مخلوق کی ہدایت اور ہمدردی کے لئے اِس قدر حریص تھے کہ اِس عذاب کے اُٹھائے جانے کے لئے باوجودیکہ دُشمنوں اور مخالفوں کی ایک جماعت موجود تھی۔ رات کی سُنسان اور تاریک گہرائیوں میں رو رو کر دُعائیں کرتے تھے۔ ایسے وقت میں جبکہ مخلوق اپنے آرام میں سوئی ہے یہ جاگتے تھے اور روتے تھے۔ القصہ آپ کی یہ ہمدردی اور شفقت علیٰ خلق اللہ اپنے رنگ میں بے نظیر تھی۔‘‘

(سیرۃ مسیحِ موعود صفحہ428)

’’حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرمایا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں میں ہمیشہ یہ کوشش کرتا تھا کہ ہر مجلس میں اور ہر موقع پر حضرت صاحب کے قریب ہو کر بیٹھوں۔ بعض دفعہ جب کوئی دوست حضرت مسیح موعود کی خدمت میں دعا کی تحریک کرتے اور حضور اس مجلس میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے تو میں بہت قریب ہو کر یہ سننے کی کوشش کرتا کہ حضور کیا الفاظ منہ سے نکال رہے ہیں۔ باربار کے تجربہ سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعودؑ ہر دعامیں سب سے پہلے سور ہ فاتحہ ضرور پڑھتے تھے اور بعد میں کوئی اور دعا کرتے تھے۔‘‘

(سیرۃ مسیح موعودؑ از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ521)

حضرت اقدسؑ کی درد دل سے مانگی کچھ دعائیں پڑھئے۔
’’اے ہمارے رب! ہمیں ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری آزمائشیں اور تکالیف دور کر دے اور ہمارے دلوں کو ہر قسم کے غم سے نجات دے دے اور ہمارے کاموں کی کفالت فرما اور اے ہمارے محبوب! ہم جہاں بھی ہوں ہمارے ساتھ ہو اور ہمارے ننگوں کو ڈھانپے رکھ اور ہمارے خطرات کو امن میں تبدیل کر دے۔ ہم نے تجھی پر بھروسہ کیا ہے اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا ہے۔ دنیا و آخرت میں تو ہی ہمارا آقا ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘

(ترجمہ از عربی عبارت۔ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ182)

آپؑ اپنے دور کے علماء کے بارے میں دعا کر تے ہیں کہ
’’اے میرے رب! اے میرے رب! میری قوم کے بارہ میں میری دعا اور میرے بھائیوں کے بارہ میں میرے تضرعات کو سن۔ میں تیرے نبی خاتم النبییّن و شفیع المذنبینؐ کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں۔ اے میرے رب! انہیں ظلمات سے اپنے نور کی طرف نکال اور دوریوں کے صحراء سے اپنے حضور میں لے آ۔ اے میرے رب! ان لوگوں پر رحم کر جو مجھ پر لعنت ڈالتے ہیں اور اپنی ہلاکت سے اس قوم کو بچا جو میرے دونوں ہاتھ کاٹنا چاہتے ہیں۔ ان کے دلوں کی جڑوں میں ہدایت داخل فرما۔ ان کی خطاؤں اور گناہوں سے درگزر فرما۔ انہیں بخش دے اور انہیں معاف فرما۔ ان سے صلح فرما۔ انہیں پاک و صاف کر اور انہیں ایسی آنکھیں دے جن سے وہ دیکھ سکیں اور ایسے کان دے جن سے وہ سن سکیں اور ایسے دل دے جن سے وہ سمجھ سکیں اور ایسے انوار عطا فرما جن سے وہ پہچان سکیں۔ اور ان پر رحم فرما اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اس سے درگزر فرما کیونکہ یہ ایسی قوم ہیں جو جانتے نہیں۔ اے میرے رب مصطفیﷺکے منہ اور ان کے بلند درجات اور راتوں کے اوقات میں قیام کرنے والے مومنین اور دوپہر کی روشنی میں غزوات میں شریک ہونے والے نمازیوں اور جنگوں میں تیری خاطر سوار ہونے والے مجاہدین اور ام القریٰ مکہ مکرمہ کی طرف سفر کرنے والے قافلوں کا واسطہ! تو ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان صلح کروا۔ تو ان کی آنکھیں کھول دے اور ان کے دلوں کو منور فرما۔ انہیں وہ کچھ سمجھا جو تو نے مجھے سمجھایا ہے اور ان کو تقویٰ کی ر اہوں کا علم عطا کر۔ جو کچھ گزر چکا وہ معاف فرما۔ اور آخر میں ہماری دعا یہ ہے کہ تمام تعریفیں بلند آسمانوں کے پروردگار کے لئے ہی ہیں۔ اے رب العالمین میری دعا قبول فرما۔‘‘

(ترجمہ از عربی عبارت۔ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ23,22)

’’سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہو جاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتاہے۔ ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کر دیتے ہیں دورکردے اور اپنی رضا مندی کی راہ دکھلائے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ30)

’’اے رب العالمین! تیرے احسانوں کامیں شکر نہیں کر سکتا۔ تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پراحسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تامیں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خاص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جائے۔ میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتاہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وار د ہو۔ رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل وکرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین ثم آمین۔‘‘

(مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر4 صفحہ5)

’’اے میرے محسن! اے میرے خدا! میں ایک تیرا ناکارہ بندہ پرمعصیت اور پرغفلت ہوں۔ تونے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اورانعام پر انعام کیا اورگناہ پرگناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا۔ تو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا۔ سو اب بھی مجھ نالائق اور پرگناہ پر رحم کر اور میری بے باکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اورمجھ کو میرے اس گناہ سے نجات بخش کہ بغیر تیرے کوئی چارہ گر نہیں۔ آمین ثم آمین۔‘‘

(مکتوبات احمدیہ جلد5 نمبر2 صفحہ3)

’’اے خدا تعالیٰ قادروذوالجلال ! میں گناہ گار ہوں اور اس قدر گناہ کے زہر نے میرے دل اور رگ وریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضور نماز حاصل نہیں توُ اپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش اور میری تقصیرات معاف کر اور میرے دل کو نرم کر دے اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی محبت بٹھا دے تاکہ اس کے ذریعہ سے میری سخت دلی دور ہو کرحضور نماز میں میسر آوے۔‘‘

(فتاویٰ مسیح موعود صفحہ7 مطبوعہ 1935ء)

خانہ کعبہ میں آپ کی طرف سے دعا کرنے کے لئے دل گداز الفاظ

’’اے ارحم الراحمین! ایک تیرا بندہ عاجزو ناکارہ پرُخطا اور نالا ئق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں ہے۔ اس کی یہ عرض ہے کہ اے ارحم الراحمین! تو مجھ سے راضی ہو اور میرے خطیئات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفور اور رحیم ہے اور مجھ سے وہ کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہو جائے۔ مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق ا ور مغرب کی دوری ڈال اور میری زندگی اور موت اور میری ہر ایک قوت جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار۔ اور اپنے ہی کامل محبّین میں اٹھا‘‘

(مکتوبات احمد یہ جلد5 صفحہ18-17)

خدا تعالیٰ نے خود آپؑ کو کچھ دعائیں سکھائیں:
رَبِّ کُلُّ شَئیٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِی وَارْحَمْنِی یعنی ’’اے میرے رب! پس مجھے محفوظ رکھ اور میری مدد فرما اور مجھ پررحم فرما۔‘‘ اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسم اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جواسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے نجات ہوگی۔‘‘

(تذکرہ صفحہ443-442)

سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ

(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15 صفحہ208)

’’یا حفیظُ یا عزیزُ یا رفیق‘‘۔ یعنی اے حفاظت کرنے والے، اے عزت والے اور غالب، اے دوست اور ساتھی! فرمایا ’’رفیق خدا تعالیٰ کا نیا نام ہے جو کہ اس سے پیشتر اسمائے باری تعالیٰ میں کبھی نہیں آیا۔‘‘

(البدر جلد2 نمبر53 صفحہ28 مورخہ 18؍ستمبر 1903ء)

آپؑ کی اولاد کے لئے الٰہی بشارتیں موجود تھیں لیکن اس نے آپؑ کو دعاؤں سے بےنیاز نہیں کیا تھا۔ آپؑ کی نظم نثر میں درد مندی سے اولاد کے لئے دعائیں موجود ہیں:

مرے مولیٰ مری یہ اک دعا ہے
تری درگاہ میں عجز و بکا ہے
وہ دے مجھ کو جو اس دل میں بھرا ہے
زباں چلتی نہیں شرم و حیاء ہے
مری اولاد جو تیری عطا ہے
ہر اک کو دیکھ لوں وہ پارسا ہے
تری قدرت کے آگے روک کیا ہے
وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے

(درثمین اردو)

گناہوں کی بخشش کی منظوم دعا
اے خداوند من گناہم بخش
سوئے درگاہ خویش راہم بخش
روشنی بخش در دل و جانم
پاک کن از گناہ پنہانم
دلستانی و دلربائی کن
بہ نگاہے گرہ کشائی کن
در دو عالم مرا عزیز توئی
وآنچہ میخواہم از تو نیز توئی

(درثمین فارسی)

ترجمہ: اے میرے اللہ! میرے گناہ بخش اور اپنی درگاہ کی طرف میری رہنمائی فرما۔ میرے دل و جان کو روشنی عطا کر اور مجھے اپنے مخفی گناہوں سے پاک کر دے۔ میر ے ساتھ محبت اور پیار کا سلوک فرما اور اپنی نگاہ کرم کے ساتھ سب عقدے کھول دے۔ دونوں جہاں میں تو ہی مجھے پیارا ہے اور میں تجھ سے صرف تجھے ہی مانگتاہوں۔

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

ایک تصحیح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اگست 2022